1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

داستان مجاہد 9

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عرفان پتوکی, ‏1 ستمبر 2009۔

  1. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    داستان مجاہد
    نسیم حجازی کا اسلامی تاریخی ناول


    فاتح


    درختوں کا سلسلہ ختم ہوا اور ایک وسیع میدان نظر آنے لگا لیکن ابن صادق بہت آگے نکل چکا تھا اور نعیم پر کمزوری غالب آرہی تھی۔ آنکھوں میں اندھیرا چھا رہا تھا۔ اس کا سر چکرانے اور کان سائیں سائیں کرنے لگے۔ وہ بے بس ہو کر گھوڑے سے اترا اور بے ہوش ہو کر منہ کے بل زمین پر گرپڑا۔ اس بے ہوشی میں اسے کئی ساعتیں گزر گئیں۔ جب اسے ذرا ہوش آیا تو اس کے کانوں میں کسی کے گانے کی آواز سنائی دی۔ نعیم کے کان ایسی لطیف آواز سے مدت کے بعد آشنا ہوئے تھے ۔ وہ دیر تک نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑا یہ راگ سنتا رہا۔ بالآخر ہمت کر کے سر اوپر اٹھایا۔ اس کے قریب چند بھیڑیں چر رہی تھیں۔ نعیم نے گانے والے کودیکھنا چاہا لیکن ضعف کے باعث پھر آنکھو کے سامنے سیاہی طارق ہوگئی اور اس نے مجبوراًٰ سر زمین پر ٹیک دیا۔ایک بھیڑ نعیم کے قریب آئی اور اس نے اپنا منہ نعیم کے کانوں کے قریب لے جا کر اسے سونگھا اور اپنی زبان میں آواز دے کر اپنی ایک اور ہم جنس کو بلالیا۔ دوسری بھیڑبھی مے مے کرتی اور ی پیغام باقی بھیڑوں تک پہنچاتی آگے چل دی۔ ایک گھڑی کے اندر اندر بہت سی بھیڑیں نعیم کے ارد گرد جمع ہو کر شور مچانے لگیں ۔ ایک کوہستانی دوشیزہ ہاتھ میں چھڑی لیے بھیڑوں کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ہانکتی اور بدستور گاتی ہوئی چلی آرہی تھی۔ وہ ایک جگہ بھیڑوں کا اجتماع دیکھ کر اس طرف بڑھی اور ان کے درمیان نعیم کو خون میں لپ پت دیکھ کر ایک ہلکی سی چیخ کے بعد نعیم سے چند قدم کے فاصلے پر انگشت بدنداں کھڑی ہوگئی۔
    نعیم نے بے ہوشی کی حالت میں اپنا سر اوپر اٹھایا اور دیکھاکہ حسن فطرت کی ایک مکمل تصور ایک کوہستانی لڑکی کے وجود میں سامنے کھڑی اس کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اس کے لمبے قد کے ساتھ جسمانی صحت اور تناسب اعضاءاس کے معصوم حسن میں اضافہ کر رہے تھے ۔ اس کا موٹے اورکھردرے کپڑے کا بنا ہوا لباس تصنع سے بے نیاز تھا۔ اس نے سمور کا ایک ٹکڑا گردن کے گرد لپیٹ رکھا تھا۔ سر پر ایک ٹوپی تھی۔ حسینہ کا چہرہ ذرا لمبا تھا لیکن یہ لمبائی فقط اس قدر تھی جتنی کہ ایک حسین چہرے کو سنجیدہ بنا دینے کے لیے ضروری ہو۔ بڑی بڑی سیاہ اور چمک دارآنکھیں، پتلے اور نازک ہونٹ جن کی شگفتگی گلِ نو بہار سے کہیں زیادہ جاذب نظر تھی۔ کشادہ پیشانی اور مضبوط ٹھوڑی، تمام مل کر اس حسینہ میں بہار حسن کے علاوہ رعب حسن بھی پیداکر رہے تھے اور یہ ظاہر ہوتا تھا کہ حسن کے متعلق مشرق اور مغرب کا تخیل رنگ و بو کے اس دلفریب پیکر پر آکر ختم ہوجاتا ہے۔نعیم کو ایک نگاہ وہ عذرا اور دوسری میں زلیخا دکھائی دی۔ نوجوان لڑکی نعیم کے جسم پر خون کے نشانات دیکھنے اور کچھ دیر بد حواسی کے عالم میں خاموش کھڑی رہنے کے بعد جرات کرکے آگے بڑھی اور بولی:
    ”آپ زخمی ہیں؟“
    نعیم ترکستان میں رہ کرتاتاری زبان پر کافی عبور حاصل کر چکا تھا۔ اس نے دوشیزہ کے سوال کا جواب دینے کی بجائے اٹھ کر بیٹھنا چاہا لیکن پھر ایک چکرآیا اور وہ بے ہوش ہو کر گر پڑا۔

    نرگس

    جب نعیم کو دوبارہ ہوش آیا تو وہ کھلے میدان کی بجائے ایک پتھر کے مکان میں لیٹا ہوا تھا۔ چند مرد اورعورتیں اسے کے گرد کھڑی تھیں اور وہی نازنین جس کا دھندلا سا نقشہ اس کے دماغ میں تھا، ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا پیالہ لیے دوسرے ہاتھ سے اس کے سر کو سہارا دے کر اوپر اٹھانے کی کوشش کررہی تھی۔نعیم نے قدرے توقف کے بعد پیالے کومنہ لگایا۔ چند گھونٹ پینے کے بعد اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا تولڑکی نے اسے دوبارہ بستر پر لٹادیا اورخود ایک طرف ہٹ کر بیٹھ گئی۔ نعیم کمزوری کی وجہ سے کبھی آنکھیں بند کرلیتااور کبھی متحیر ہو کر اس حسینہ اور باقی لوگوں کی طرف دیکھتا۔ ایک نوجوان مکان کے دروازے میں کھڑا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں نیزہ اور دوسرے ہاتھ میں کمان تھی۔
    لڑکی نے اس کی طرف دیکھا اور کہا۔”بھیڑیں لے آئے؟“
    ”ہاں لے آیا ہوں اور اب جا رہاہوں۔“
    ”کہاں؟“ لڑکی نے سوال کیا۔
    ”شکار کھیلنے جا رہاہوں۔ میں نے آج ایک جگہ ریچھ دیکھا ہے۔ بہت بڑا ریچھ ہے۔ ان کو اب آرام ہے؟“
    ”ہاں! کچھ ہوش آیاہے۔“
    ”تم نے زخموں پرمرہم لگایا؟“
    ”نہیں۔ میں تمہارا انتظار کر رہی تھی۔ مجھ سے یہ نہیں اترتی، لڑکی نے نعیم کی زرہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
    نوجوان آگے بڑھا اور نعیم کو سہارادینے کے بعد اس کی زرہ کھول ڈالی ۔ قمیص اوپر اٹھا کر زخم دیکھے۔ مرہم لگا کر پٹی باندھی اور کہا۔ ”آپ لیٹ جائیں۔ زخم بہت خطرناک ہیں لیکن اس مرہم سے بہت جلد آرام آجائے گا۔“ نعیم بغیر کچھ کہے لیٹ گیا اور نوجوان باہر چلا گیا۔ اس کے بعد دوسرے لوگ بھی یکے بعد دیگرے چل دیے۔ نعیم اب اچھی طرح ہوش میں آچکا تھااور اس کایہ وہم دورہوچکاتھا کہ وہ سفر حیات ختم کرکے جنت الفردوس میں پہنچ چکاہے۔
    ”میں کہاں ہوں؟“ اس نے لڑکی کی طرف دیکھ کر سوال کیا۔
    ”آپ اس وقت ہمارے گھر میں ہیں۔“ لڑکی نے جواب دیا۔ ”آپ باہر بے ہوش پڑے تھے۔ میں نے بھائی کو آکر خبر دی۔ وہ آپ کو یہاں اٹھا لایا۔“
    ”تم کون ہو؟‘ نعیم نے سوال کیا۔
    ”میں بھیڑیںچرایا کرتی ہوں۔“
    ”تمہارا نام کیاہے؟“
    ”میرانام نرگس ہے۔“

    ”نرگس!“
    ”جی ہاں۔“
    نعیم کو جہاں اس لڑکی کی شکل میں دو صورتیں اور نظر آرہی تھیں، وہاں اب اس کے نام کے ساتھ دو اور نام بھی یاد آگئے۔ اس نے اپنے دل میں عذرا، زلیخا اور نرگس کے نام دہرائے اورایک گہری سوچ میں چھت کی طرف دیکھنے لگا۔
    ”آپ کو بھوک لگ رہی ہوگی؟“ لڑکی نے نعیم کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا اور اٹھ کر مقابل کے کمرے چند سیب اورخشک میوے لاکرنعیم کے سامنے رکھ دیے۔ نعیم کے سر کے نیچے ہاتھ دے کر اٹھایا اور اسے سہارا دینے کی غرض سے ایک پوستین اس کے پیچھے رکھ دی۔ نعیم نے چند سیب کھائے اور نرگس سے پوچھا۔
    ”وہ نوجوان جو ابھی آیا تھا وہ کون ہے؟“
    ”وہ میرا چھوٹا بھائی ہے۔“
    ”اس کا نام کیاہے؟“
    ”ہومان۔“ نرگس نے جواب دیا۔
    نرگس سے چند اور سوالات پوچھنے پر نعیم کو معلوم ہوا کہ اس کے والدین فوت ہو چکے ہیں اور وہ اپنے بھائی کے ساتھ اس چھوٹی سی بستی میں رہتی ہے اور ہومان اس گڈریوں کی بستی کا سردار ہے جس کی آبادی کوئی چھ سو انسانوں پرمشتمل ہے۔
    شام کے وقت ہومان گھر آیا اور اس نے آکر بتایا کہ اس کا شکار ہاتھ نہیں آیا۔
    نرگس اور ہومان نے نعیم کی تیمارداری میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ رات کے وقت وہ بہت دیر تک نعیم کے پاس بیٹھے رہے۔ جب نعیم کی آنکھ لگ گئی تو نرگس اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی اورہومان نعیم کے قریب ہی گھاس کے بستر پر لیٹ گیا۔ رات بھرنعیم نہایت خواب دیکھتا رہا۔عبد اللہ سے رخصت ہونے کے بعد یہ پہلی رات تھی جبکہ عالم خواب میں بھی نعیم کے خیالات کی پرواز اسے میدان جنگ کی علاوہ کہی اور لے گئی ہو۔ کبھی وہ دیکھتا کہ اس کی مرحوم والدہ اس کے زخموں پر مرہم پٹی کررہی ہے اور عذراکی محبت بھری نگاہیں اسے تسکین کا پیغام دے رہی ہیں۔ کبھی وہ دیکھتا کہ زلیخا اپنے رخ انور سے اسے کے قید خانے کی تاریک کوٹھڑی میں ضیا پاشی کررہی ہے۔
    صبح کے وقت آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ نرگس پھر اس کے سامنے دودھ کا پیالہ لیے کھڑی ہے اور ہومان اسے جگا رہا ہے۔
    نرگس کے پیچھے کھڑی بستی کی ایک اور لڑکی اس کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔ نرگس نے کہا۔”بیٹھ جاؤ زمرد!“ اور وہ چپکے سے ایک طرف بیٹھ گئی۔
    نعیم ایک ہفتے بعد چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا اور اس اور اس معصوم ماحول میں دلچسپی لینے لگا۔بستی کے لوگ بھیڑوں اور بکریوں پر گزارہ کرتے تھے۔ قرب و جوار میں بہترین چراگاہ کی بدولت ان کی حالت بہت اچھی تھی۔ کہیں کہیں سیب انگور کے باغات بھی تھے۔ بھیڑیں اور بکریاں پالنے کے علاوہ ان لوگوں کا دلچسپ مشغلہ جنگلی جانوروں کا شکار تھا۔ بستی کے آدمی شکار کے لیے دور تک برفانی علاقوں میں چلے جاتے تھے اوربھیڑیں چرانے کا کام زیادہ تر نوجوان عورتوں کے سپرد تھا۔ ان لوگوں کو ملک کے سیاسی معاملات میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ تاتاریوں کی بغاوت کی حمایت یامخالفت سے بہت حد تک بے نیاز تھے۔ رات وقت گاؤں کی نوجوان عورتیں اورمرد ایک وسیع خیمے میں اکٹھے ہو کرگاتے اور رقص کرتے۔رات کاکچھ حصہ گزارنے پر عورتیں اپنے اپنے گھروں کو چلی جاتیں اورمرد دیر تک چھوٹی چھوٹی ٹولیوںمیں بیٹھ کر گپیں ہانکتے۔ کوئی پرانے زمانے کے بادشاہوں کی کہانی سناتا۔کوئی اپنے ریچھ کے شکار کا دلچسپ واقعہ بیان کرتا۔ اورکوئی جنوں، بھوتوں اور چڑیلوں کی من گھڑت داستانیں لے بیٹھتا۔ یہ لوگ کسی حد تک توہم پرست تھے، اس لیے بھوتوں کی کہانیاں بڑے شوق سے سنتے۔ اب چند دنوں سے ان لوگوں کی گفتگو کا موضوع ایک شہزاد بھی تھا۔

    کوئی اس کے قدو قامت اور شکل و صورت کا تذکرہ چھیڑدیتا۔کوئی اس کے لباس کی تعریف کرتا۔ کوئی اس کے زخمی ہو کر اس بستی میں پہنچ جانے پر حیرانی کا اظہار کرتا ۔ کوئی کہتاکہ ہم گڈریوں کے لیے دیوتاؤں نے ایک بادشاہ بھیجا ہے اور یہ ہومان کو اپنا وزیر بنا لے گا۔ الغرض بستی کے لوگ نعیم کا نام لینے کی بجائے اسے شہزادہ کہاکرتے تھے۔
    ادھر بستی کی عورتوں میں یہ چرچا ہونے لگا کہ یہ نووارد شہزادہ نرگس کو اپنی ملکہ بنالے گا۔ گاؤں کی لڑکیاں نرگس کی خوش نصیبی پر رشک کرتیں۔ کوئی اسے شہزادے کی محبوبہ بننے پر مبارکباد دیتی اورکوئی باتوں ہی باتوں میں اسے چھیڑتی۔ نرگس بظاہر برامانتی مگر اس کا دل اپنی سہیلیوں کے منہ سے ایسی باتیں سننے پر دھڑکنے لگتا۔ سفید رخساروں پر سرخی رقص کرنے لگتی۔ اس کے کان نعیم کی تعریف میں گاؤں والوں کی زبان سے ہر نیا جملہ سننے کے لیے بے قرار رہتے۔
    نعیم ان تمام باتوںسے بے خبر ہومان کے مکان کے ایک کمرے میں اپنی زندگی کے نہایت پرسکون لمحات گزار رہا تھا۔ گاؤں کے مرد اورعورتیں ہر روز آتے اور اسے دیکھ کر چلے جاتے۔ وہ اپنے تیمار داروں کا نہایت خندہ پیشانی سے شکریہ ادا کرتا۔ لوگ اسے ایک شہزادہ خیال کرتے ہوئے پاس ادب سے کافی دور ہٹ کر کھڑے ہوتے اور اس کے حالات معلوم کرنے کے لیے سوالات کرنے سے گریز کرتے لیکن نعیم کی شگفتہ مزاجی نے انہیں بہت جلد بے تکلف بنا لیا اور یہ لوگ ادب اور احترام کے علاوہ نعیم سے محبت بھی کرنے لگے۔
    (۲)
    ایک روز شام کے وقت نعیم نماز پڑھ رہا تھا۔ نرگس اپنی سہیلیوں کے ساتھ مکان کے دروازے میں کھڑی اس کی حرکات کو بغور دیکھ رہی تھی۔
    ”یہ کیا کر رہاہے؟“ ایک لڑکی نے حیران ہو کر سوال کیا۔
    ”شہزادہ جوہوا؟“ زمرد نے بھولپن سے جواب دیا۔ ”دیکھو کس شان سے اٹھتا اور بیٹھتاہے....نرگس تم بھی اسی طرح کیا کرتی ہو؟“
    ”چپ۔“ نرگس نے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے کہا۔
    نعیم نے نماز ختم کر کے دعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیے۔ لڑکیاں دروازے سے ذرا ہٹ کر باتیں کرنے لگیں:
    ”چلو نرگس! “ زمرد نے کہا۔ ”وہاں ہمارا انتظار ہو رہا ہوگا۔“
    ”میں تمہیں پہلے بھی کہہ چکی ہوں کہ میں ان کو یہاں اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔“
    ”چلو ان کو بھی ساتھ لے چلیں!“
    ”کہیں دماغ تو نہیں چل گیا تمہارا۔ کم بخت وہ شہزاد ہ ہے یا کھلونا؟“ دوسری لڑکی نے کہا۔
    یہ لڑکیاں ابھی باتیں کر رہی تھیں کہ ہومان گھوڑے پر آتا دکھائی دیا۔ وہ نیچے اترا تو نرگس نے آگے بڑھ کر گھوڑے کی باگ پکڑ لی۔ ہومان سیدھا نعیم کے کمرے میں داخل ہوا۔
    زمرد نے کہا۔ ”چلو نرگس۔ اب تو تمہارا بھائی ان کے ساتھ بیٹھے گا۔“
    ”چلو نرگس!“ دوسری نے کہا۔
    ”چلو ۔ چلو!“ کہتے ہوئے تمام لڑکیاں نرگس کو دھکیل کرایک طرف لے گئیں۔
    ہومان کے اندر داخل ہوتے ہی نعیم نے پوچھا۔”کہو بھائی کیا خبر لائے ہو؟“
    ہومان نے جواب دیا۔ ”میں ان تمام مقامات سے پھر کر آیا ہوں ۔ آپ کی فوج کا کوئی پتہ نہیں چلا۔ ابن صادق بھی کہیں روپوش ہے۔ مجھے ایک آدم کی زبانی معلوم ہواہے کہ آپ کی فوجیں عنقریب سمرقند پر حملہ کرنے والی ہیں۔“

    ”آپ نے ہمارے گاؤں کے لوگوں کا گانا نہیں سنا؟“ ہومان نے کہا۔
    ”میں یہاں لیٹے لیٹے کئی بار سن چکا ہوں۔“
    ”چلیے آپ کو وہاں لے چلوں۔ وہ لوگ آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہو ںگے۔ آپ کو معلوم ہے وہ آپ کو شہزادہ خیال کرتے ہیں!“
    ”شہزادہ؟“ نعیم نے مسکرا کرکہا۔ ”ہم میں نہ کوئی بادشاہ ہے اور نہ کوئی شہزادہ۔“
    ”آپ مجھ سے چھپاتے کیوں ہیں؟“
    ”مجھے چھپانے سے کیا حاصل؟“
    ”تو آپ کون ہیں؟“
    ”ایک مسلمان۔“
    ”شاید آپ جسے مسلمان کہتے ہیں ہم اسے شہزادہ کہتے ہیں۔“
    گانے والوں کی آواز بلند ہو رہی تھی۔ ہومان غور سے سننے لگا۔ چلیے!“ ہومان نے پھر ایک بار کہا۔”گاؤںکے لوگوں نے کئی بار مجھ سے درخواست کی ہے کہ آپ کو ان کی مجلس میں لاؤں لیکن میں آپ کو مجبور کرنے کی جرات نہیں کر سکا۔“
    ”اچھا چلو۔“ نعیم نے اٹھتے ہوئے جواب دیا۔
    چند آدمی شہنائیاں اور ڈھول بجا رہے تھے اورایک بوڑھا تاتاری گا رہا تھا۔ نعیم اور ہومان خیمے میں داخل ہوئے تو تھوڑی دیر کے لیے خیمے میں سکوت طاری ہوگیا۔
    ”تم خاموش کیوں ہو گئے؟“ ہومان نے کہا۔ ”گاؤ!“
    گانا پھر ایک بار شروع ہوا۔
    ایک شخص نے پوستین بچھا دی اورنعیم سے بیٹھ جانے کی درخواست کی۔ نعیم قدرے تذبذب کے بعد بیٹھ گیا۔ ساز بجانے والوں نے جب گانے والے کے راگ کے ساتھ ساز کی تال کو تبدیل کیا تو مردوں اور عورتوں نے اٹھ کر ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ لیے اور رقص شروع کردیا۔ ہومان نے بھی اٹھ کر زمرد کے ہاتھ پکڑے اور رقص میں شریک ہوگیا۔
    نرگس تنہا کھڑی نعیم کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ایک بوڑھے چرواہے نے ذرا جرات سے کام لیا اور نعیم کے قریب آکر کہا۔”آپ بھی اٹھیں آپ کا ساتھی آپ کا انتظار کر رہاہے!“
    نعیم نے نرگس کی طرف دیکھا۔ نرگس نے آنکھیں جھکا لیں۔ نعیم بغیر کچھ کہے اپنی جگہ سے اٹھا اورخیمے سے باہر نکل آیا۔ نعیم کے نکلتے ہی خیمے میں پھر ایک بار سناٹا چھا گیا۔
    ”وہ ہمارا ناچ پسند نہیں کرتے۔ میں انہیں گھر تک چھوڑ کر ابھی آتاہوں۔“ یہ کہہ کر ہومان خیمے سے باہر نکلا اور بھاگ کر نعیم سے جا ملا۔
    ”بہت گھبرا گئے آپ؟“ اس نے کہا۔
    ”اوہو تم بھی آگئے!“
    ”میں آپ کو گھر تک چھوڑ اؤں؟“
    ”نہیں جاؤ میں تھوڑی دیر یہاں گھوم کر گھر جاؤں گا۔“
    ہومان واپس چلا گیا اور نعیم بستی میں ادھر ادھر پھرکر اپنی جائے قیام کے قریب پہنچا اور مکان کے باہر ایک پتھر پر بیٹھ کر ستاروں سے باتیں کرنے لگا۔ اس کے دل میں طرح طرح خیالات آنے لگے۔”میں یہاں کیا کر رہاہوں۔ مجھے زیادہ دیر یہاں نہیں رہنا چاہیے۔
    میں ایک ہفتہ تک گھوڑے پر سوار ہونے کے قابل ہو جاؤں گا۔ میں بہت جلد چلا جاؤں گا۔ یہ بستی مجاہد کی دنیا سے بہت مختلف ہے لیکن یہ لوگ بہت سیدھے ہیں۔ انہیں نیک راستے پر لانے کی ضرورت ہے۔“
    نعیم ابھی یہ سوچ رہا تھا کہ پیچھے سے کسی کے پاؤں کی آہٹ سنائی دی۔ اس نے مڑ کردیکھا۔ نرگس آرہی تھی۔ وہ سوچ سوچ کر قدم اٹھاتی ہوئی نعیم کے قریب پہنچی اور سہمی ہوئی آواز میں بولی:
    ”آپ سردی میں باہر بیٹھے ہوئے ہیں!“
    نعیم نے چاند کی دلفریب روشنی میں اس کے چہرے پر نظر دوڑائی۔ وہ حسین بھی تھی اور معصوم بھی۔ اسے نے کہا:
    ”نرگس۔ تم اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر کیوں آگئیں؟“
    ”آپ آگئے تھے۔ میں نے سوچا....آپ....اکیلے ہوںگے۔“
    نعیم کو ان ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ان گنت نغمے سنائی دینے لگے۔ ایک لمحہ کے لیے وہ بے حس و حرکت بیٹھا نرگس کی طرف دیکھتا رہا۔ پھراچانک اٹھا اور کچھ کہیے بغیر لمبے لمبے قدم اٹھاتا ہوا اپنے کمرے میں داخل ہوا۔ نرگس کی آواز دیر تک اس کے کانوں میں گونجتی رہی اور وہ بستر پر لیٹ کر کروٹیں بدلتا رہا۔
    علی الصبح نعیم کی آنکھ کھلی۔ اٹھ کر باہر نکلا۔ چشمے پر وضو کیا اور اپنے کمرے میں آکر فجر کی نماز اداکی۔ اس کے بعد وہ سیر کے لیے باہرنکل گیا۔ جب واپس آکر کمرے میں داخل ہونے لگا تو دیکھاکہ اس جگہ جہاں وہ اکثر نماز پڑھاکرتاتھا، ہومان آنکھیں بند کیے قبلہ روہو کر رکوع اورسجود کی مشق کررہاہے۔ نعیم چپکے سے دروازے میں کھڑا اس کی بے ساختہ تقلید پر مسکرارہا تھا۔ جب ہومان نے نعیم کی طرح بیٹھ کر تھوڑی دیر ہونٹ ہلانے کے بعد دائیں بائیں دیکھا تو اس کی نظر نعیم پر جاپڑی۔ وہ بدحواس ہو کراٹھا اور اپنی پریشانی پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔”میں آپ کی نقل کررہا تھا۔ گاؤں کی بہت سی لڑکیاں اور لڑکے اسی طرح کرنے لگے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ اس طرح کرتا ہوا انسان بہت بھلا معلوم ہوتاہے۔ میں آپ کے کمرے میں داخل ہوا تو نرگس بھی اسی طرح کررہی تھی۔ میں بھی....!“
    نعیم نے کہا۔”ہومان تم ہر بات میں میری نقل اتارنے کی کیوں کوشش کرتے ہو؟“
    ”کیونکہ آپ ہم سے اچھے ہیں اور آپ کی ہربات ہم سے اچھی ہے۔“
    ”اچھا یوں کرو۔ آج تمام گاؤں کے لوگوں کو جمع کرو۔ میں ان سے کچھ کہو ں گا!“
    وہ آپ کی باتیں سن کر بہت خوش ہوں گے۔ میں انہیں ابھی اکٹھا کرتاہوں۔ یہ کہہ کہ ہومان چلا گیا۔
    دوپہر سے پہلے گاؤں کے تمام لوگ ایک جگہ جمع ہوگئے۔ نعیم نے پہلے دن خدا اور اس کے رسولﷺ کی تعریف کی۔ انہیں بتایاکہ آگ اور پتھر وغیرہ تمام خداکی بنائی ہوئی چیزیں ہیں۔ چیزوں کے بنانے والے کو بھول کر اس کی بنائی ہوئی چیزوں کی پوجا کرنا عقلمندی نہیں۔ ہماری قوم کی حالت بھی تمہاری قوم جیسی تھی۔ وہ بھی پتھر کے بت بنا کر پوجا کر تی تھی۔ لیکن ہم میں خدا کا ایک برگزیدہ رسولﷺ پیدا ہوا جس نے ہمیں ایک نیا راستہ دکھایا۔ نعیم نے آقائے مدنیﷺ کی زندگی کے حالات بیان کیے۔ اس طرح چند اورتقریریں کیں اور تمام بستی والوں کو اسلام کی طرف کھینچ لیا۔ سب سے پہلے کلمہ پڑھنے والے نرگس اور ہومان تھے۔
    چند دنوں میں اس بستی کے ماحول میں یکسر تبدیلی ہوگئی۔ ان دلکش مرغزاروں میں نعیم کی اذانیں گونجنے لگیں اوررقص و سرود کی بجائے پانچ وقت کی نمازیں ادا ہونے لگیں۔
    نعیم اب مکمل طور پر تندرست ہو چکا تھا۔ اس نے کئی بار واپس لوٹنے کا ارادہ کیا لیکن برفباری کی شدت سے پہاڑی راستے بند تھے اور اسے کچھ دیر قیام کے سوا چارہ نہ تھا۔

    نعیم بے کار بیٹھ کر دن کاٹنے کا عادی نہ تھا ۔ اس لیے وہ کبھی کبھی ان لوگوں کے ساتھ شکار کے لیے باہر چلا جاتا۔ ایک دن ریچھ کے شکار میں نعیم نے غیر معمولی جرات کا مظاہر ہ کیا۔ ایک ریچھ ایک شکاری کے تیر سے زخمی ہونے پر اس قدر تندی سے حملہ آوار ہوا کہ تمام شکاریوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ وہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے بڑے بڑے پتھروں کی آڑ میں چھپ کر ریچھ پر تیر برسانے لگے۔نعیم نہایت اطمینان سے اپنی جگہ پر کھڑا رہا۔ ریچھ غضبناک ہو کر اس پر جھپٹا۔ نعیم نے بائیں ہاتھ سے اپنی ڈھال اٹھاکر اسے روکا اور دائیں ہاتھ سے نیزہ اس کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ ریچھ الٹا ہو کر گرا لیکن پھر شور مچاتا ہوا اٹھا اور نعیم پر حملہ کردیا۔ اتنی دیر میں وہ تلوار نیام سے نکال چکا تھا۔ ریچھ کے جھپٹنے کی دیر تھی کہ نعیم کی تلوار اس کی کھوپڑی پر لگی۔ ریچھ گرا۔ تڑپا اور ٹھنڈا ہوگیا۔ شکاری اپنی اپنی جائے پناہ سے نکل کر نعیم کی طرف حیرانی سے دیکھنے لگے۔ ایک شکاری نے کہا۔”آج تک اتنا بڑا ریچھ کسی نے نہیں مارا۔ اگر آپ کی جگہ ہم میں سے کوئی ہوتا تو خیر نہ تھی۔ آپ نے آج کتنے ریچھ مارے ہیں؟“
    ”یہ پہلاہے۔“ نعیم نے تلوار نیام میں ڈالتے ہوئے کہا۔
    ”پہلا؟“ وہ حیرانی سے بولا۔ ”آپ تو بہت تجربہ کار شکاری معلوم ہوتے ہیں۔“
    اس کے جواب میں ایک بوڑھے شکاری نے کہا۔”دل کی بہادری، بازو کی ہمت اور تلوار کی تیزی کو تجربے کی ضرورت نہیں۔“
    (۳)
    نعیم کو اب ہر لحاظ سے اس گاؤں کے لوگ انسانیت کا بلند ترین معیار تصورکرنے لگے اور اس کی ہر بات اور ہر حرکت قابل تقلید خیال کی جانے لگی۔ اس بستی میں اسے ڈیڑھ مہینہ گزر گیا۔ اسے اس بات کا یقین تھا کہ قتیبہ موسم بہار سے پہلے نقل و حرکت نہیں کرے گا اس لیے بظاہر اس کے وہاں ٹھہرنے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی لیکن ایک نیا احساس نعیم کو اب کسی حد تک بے چین کر رہا تھا۔
    نرگس کا طرز عمل اس کے پرسکون دل میں پھر ایک بار ہیجان پیدا کررہا تھا۔ وہ اپنے خیال میں ابتدائے شباب کے رنگین سپنوں سے بے نیاز ہو چکا تھا لیکن فطرت کی رنگینیاں ایک بار پھر اس کے دل کے سوئے ہوئے فتنوں کو بیدا رکرنے کے لیے کوشاں تھیں۔
    نرگس اپنی شکل و شباہت اور اخلا ق و عادات کے لحاظ سے اسے اس بستی کے لوگوں سے بہت مختلف نظرآتی تھی۔ ابتدا میں جب بستی کے لوگ نعیم سے اچھی طرح واقف نہ تھے نرگس اس کے ساتھ بے تکلفی سے پیش آتی رہی لیکن جب بستی کے لوگ اس سے بے تکلف ہونے لگے تو اس کی بے تکلفی تکلف میں تبدیل ہوگئی۔ شوق کی انتہا اسے نعیم کے کمرے تک لے جاتی اور گھبراہٹ کی انتہا اسے چند لمحات سے زیادہ وہاں ٹھہرنے کی اجازت نہ دیتی۔ وہ اس کے کمرے میں اس خیال سے داخل ہوتی کہ وہاں سارا دن بیٹھ کر اسے بیتاب نگاہوں سے دیکھتی رہے گی لیکن نعیم کے سامنے پہنچ کر یہ خیال غلط ثابت ہوتا۔ اپنی امیدوں اور آرزاؤں کے مرکز کی طرف دیکھتے ہی وہ آنکھیں جھکا لیتی اور دھڑکتے ہوئے دل کی پرزور درخواستوں منتوں اور سماجتوں کے باوجود اسے دوبارہ نظر اٹھانے کی جرات نہ ہوتی اور اگر کبھی وہ یہ جرات کر بھی لیتی تو حیا نعیم اور اس کے درمیان ایک نقاب بن کر حائل ہوجاتی۔ ایسی حالت میں فقط یہ خیال اس کے دل کی تسکین کا باعث ہوتا کہ نعیم اس کی طرف دیکھ رہاہے لیکن جب کبھی وہ ایک آدھ نگاہ غلط انداز سے اس کی طرف دیکھ لیتی اوراسے گہرے خیال میں گردن نیچی کیے پوستین کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے یا گھاس کے تنکوں کو کھینچ کھینچ کر توڑتے ہوئے پاتی تو اس کے دل کے اندر سلگنے والی چنگاریاں بجھ جاتیںاور جسم کے ہر رگ و ریشے میں سردی کی لہر دوڑجاتی۔ اس کے کانوں میں گونجنے والے شباب کی دلکش راگ کی تانیں خاموش ہوجاتیں اور اس کے خیالات منتشر ہوجاتے ۔ وہ اپنے دل پر ایک ناقابل برداشت بوجھ لیے اٹھتی اور نعیم کو حسرت بھرتی نگاہوں سے دیکھتی ہوئی کمرے سے باہر چلی جاتی۔
    ابتدا میں ایک معصوم لڑکی کی محبت جہاں انسان کےدل میں ارادوں کا طوفان اورتصورات و خیالات کا ہیجان پیدا کردیتی ہے وہاں غیرمعمولی توہمات اسے عمل اورحرکت کی جرات سے بھی نا کار کردیتے ہیں۔
    نعیم اس کے خیالوں، آرزاؤں اور سپنوں کی چھوٹی سی دنیا کا مرکزی نقطہ بن چکا تھا۔ اس کا حال مسرتوں سے لبریز تھا لیکن جب وہ مستقبل کے متعلق سوچتی تو ان گنت توہمات اسے پریشان کرنے لگتے ۔ وہ اس سامنے جانے کی بجائے اسے چھپ چھپ کر دیکھتی۔ کبھی ایک خیال انبساط کی کیفیت اسکے دل کو مسرور بنائے رکھتی اور کبھی ایک خیالی خوف کا تصور اسے پہروں بے چین رکھتا۔

    نعیم ایسے ذکی الحس انسان کے لیے نرگس کے دل کی کیفیت کا اندازہ کرنا مشکل نہ تھا۔ وہ اپنی قوت تسخیر سے نا آشنا نہ تھا لیکن اس اپنے دل میں اس بات کا فیصلہ نہیں کیاتھاکہ اسے اس فتح پر خوش ہو ناچاہیے یانہیں۔
    ایک دن عشا کی نماز کے بعد نعیم نے ہومان کو اپنے پاس بلایا اور اس پر واپس جانے کا رادہ ظاہر کیا۔ ہومان نے جواب دیا ”میں آپ کی مرضی کے خلاف آپ کو روکنے کی جرات تو نہیں کر سکتا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ برفانی پہاڑوں کے راستے ابھی صاف نہیں ہوئے۔ آپ کم از کم ایک مہینہ اور ٹھہر جائیں۔ موسم بدل جانے پر آپ کے لیے سفر کرنا آسان ہوگا۔“
    نعیم نے جواب دیا ”برفباری کا موسم تو اب گزر چکاہے اور ویسے بھی سفر کا ارادہ میرے لیے ہموار یا دشوار گزار راستے ایک ہی جیسے بنا دیا کرتا ہے۔ میں کل صبح جانے کا ارادہ کر چکا ہوں۔“
    ”اتنی جلدی! کل تو ہم نہیں جانے دیں گے!“
    ”اچھا۔ صبح کے وقت دیکھا جائے گا۔“ یہ کہہ کر نعیم بستر پر دراز ہو گیا۔ ہومان اپنے کمرے میں جانے کے لیے اٹھا۔ راستے میں نرگس کھڑی تھی ۔ ہومان کو آتا دیکھ کر وہ درخت کی آڑ میں کھڑی ہوگئی۔ ہومان جب دوسرے کمرے میں چلا گیا تو نرگس بھی اس کے پیچھے پیچھے داخل ہوئی۔
    ”نرگس باہر سردی ہے۔ تم کہاں پھر رہ ہی ہو؟“ ہومان نے کہا۔
    نرگس نے جواب دیا۔ ”کہیں نہیں ۔یونہی باہر گھوم رہی تھی۔“
    یہ کمرہ نعیم کی آرام گاہ سے ذرا کھلا تھا۔ فرش پر سوکھی گھاس بچھی تھی۔ کمرے کے ایک کونے میںہومان اور دوسرے میں نرگس لیٹ گئے۔ہومان نے کہا۔”نرگس! وہ کل جانے کا اردہ کر رہے ہیں۔“
    نرگس اپنے کانوں سے نعیم اور ہومان کی باتیں سن چکی تھی لیکن ایسے موضوع پر اس کی دلچسپی ایسی نہ تھی کہ وہ خاموش رہتی۔
    وہ بولی۔”تو آپ نے ان سے کیا کہا؟“
    ”میں نے تو انہیں ٹھہرنے کے لیے کہاہے لیکن اصرار کرتے ہوئے بہت ڈر لگتا ہے۔ گاؤں والوں کو ان کے جانے کابہت افسوس ہوگا۔ میں ان سے کہوں گا کہ وہ تمام مل کر انہیں ٹھہرنے پر مجبورکریں۔“
    ہومان نرگس سے چند اور باتیں کرنے کے بعد سو گیا۔ چند بار کروٹیں بدلنے اور سونے کی ناکام کوشش کے بعد اٹھ کر بیٹھ گئی۔ ”اگر انہیں اس طرح چلے جانا تھا تو آئے ہی کیوں تھے؟“ یہ خیال آتے ہی وہ اپنی جگہ سے اٹھی۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی۔ نعیم کے کمرے کا طواف کیا۔ ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولا لیکن آگے قدم اٹھانے کی جرات نہ ہوئی۔ اندر شمع جل رہی تھی اور نعیم پوستین اوڑھے سو رہا تھا۔ اس کا چہرہ ٹھوڑی تک عریاں تھا۔ نرگس نے اپنے دل میں کہا۔ ”میرے شہزادے! تم جا رہے ہو۔ نہ معلوم کہاں! تم کیا جانو کہ تم یہاں کیاچھوڑکر جارہے ہو اورکیا کچھ اپنے ساتھ لے جاؤگے۔ ان پہاڑوں، چراگاہوں، باغوں اور چشموں کی تمام دلچسپیاں اپنے ساتھ لے جاؤ گے اور اس ویرانے میں اپنی یاد چھوڑ جاؤ گے....شہزادے....میرے شہزادے.... نہیں نہیں۔ تم میرے نہیں۔ میں اس قابل نہیں۔“یہ سوچ کر نرگس سسکیاں لینے لگی۔ پھر وہ کمرے کے اندر داخل ہوئی اورتھوڑی دیر بے حس و حرکت کھڑی نعیم کی طرف دیکھتی رہی۔
    اچانک نعیم نے کروٹ بدلی۔ نرگس خوفزدہ ہو کر باہر نکلی اور دبے پاؤں اپنے کمرے میں جا کر بستر پر لیٹ گئی۔ ”اف کتنی رات طویل ہے!“ اس نے چند بار اٹھ اٹھ کر لیٹتے ہوئے کہا۔

    علی الصباح ایک گڈریے نے اذان دی۔ نعیم بستر سے اٹھا اور وضو کے لیے چشمے پر پہنچا۔ نرگس پہلے سے وہاں موجود تھی۔ نرگس کی توقع کے خلاف نعیم اسے وہاں دیکھ کر زیادہ حیران نہ ہوا۔ اس نے کہا: ”نرگس! تم آج بہت سویرے یہاں آگئیں؟“
    نرگس ہر روز نعیم کو ان درختوں کے پیچھے چھپ چھپ کر دیکھا کرتی تھی۔ آج وہ نعیم سے اس کی بے نیازی کا شکوہ کرنے کے لیے تیار ہو کرآئی تھی لیکن نعیم کے اس درجہ بے پروائی سے ہمکلام ہونے پر اس کے دل میں ولولوں کی آگ ٹھنڈی پڑ گئی۔ تاہم وہ ضبط نہ کرسکی۔ اس نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا: ”آج آپ چلے جائیں گے؟“
    ”ہاں! نرگس مجھے یہاں آہوئے بہت دیر ہوگئی ہے۔ آپ نے میرے لیے بہت تکلیف اٹھائی ہے شاید میں شکریہ ادا نہ کر سکوں۔ خدا آپ لوگوں کو جزائے خیر دے !“
    نعیم یہ کہہ کر ایک پتھر پر بیٹھ گیا اورچشمے کے پانی سے وضو کرنے لگا۔ نرگس کچھ اور بھی کہنا چاہتی تھی لیکن نعیم کا طرز عمل حوصلہ افزانہ تھا۔ دل کا طوفان یکسر ٹھنڈا ہوگیا۔ جب گاؤں کے باقی لوگ وضو کے لیے اس چشمے پر جمع ہونے لگے تو نرگس وہاں سے کھسک آئی۔
    گاؤں کا بڑا خیمہ جس میں یہ لوگ اسلام لانے سے پہلے فرصت کے لمحات میں رقص و سرود میں گزارا کرتے تھے اب نماز کے لیے وقف تھا۔ نعیم وضو کرنے کے بعد اس خیمے میں داخل ہوا۔ گاؤں کے لوگوں کو نماز پڑھائی اور دعا کے بعد انہیں بتایا کہ میں جا رہاہوں۔
    نعیم اور ہومان ایک ساتھ خیمے سے باہر نکلے۔ مکان پر پہنچ کر نعیم اپنے کمرے میں داخل ہوا۔ ہومان نے نعیم کے ساتھ داخل ہوتے وقت اپنے پیچھے گاؤں کے لوگوں کو آتے دیکھا تو اندر جانے کی بجائے چند قدم واپس ہو کر ان کی طرف متوجہ ہو ا۔ ”کیا وہ سچ مچ چلے جائیں گے؟“ ایک بوڑھے نے سوال کیا۔
    ”ہاں ۔ مجھے افسوس ہے کہ وہ نہیں ٹھہریں گے۔ہومان نے جواب دیا۔
    ”اگر ہم اصرار کریں تو بھی؟“
    ”تو شاید ٹھہر جائیں لیکن مجھے یقین نہیں ۔ تاہم آپ انہیں ضرور مجبور کریں۔ وہ جس دن سے آئے ہیں، میں محسوس کر رہاہوں کہ مجھے دنیا کی بادشاہت مل گئی ہے۔ آپ عمر میں مجھ سے بڑے ہیں۔ آپ ضرور کوشش کریں ۔ شاید وہ آپ کا کہا مان لیں۔“
    نعیم زرہ بکتر اور اسلحہ سے آراستہ ہو کر باہر نکلا۔ گاؤں کے لوگوں نے اسے دیکھ کر ایک ساتھ شور مچانا شروع کیا۔”ہم نہیں جانے دیں گے۔ ہم نہیں جانے دیں گے!“
    نعیم اپنے مخلص میزبانوں کی طرف دیکھ کر مسکرایا اورکچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ہاتھ بلند کیا۔ وہ تمام یکے بعد دیگرے خاموش ہوگئے۔
    نعیم نے ایک مختصر سی تقریر کی:
    ”برادران! اگر میں اپنے فرائض کی وجہ سے مجبور نہ ہوتا تومجھے اس جگہ چند دن اور ٹھہر جانے پر اعتراض نہ ہوتا لیکن آپ کو معلوم ہوناچاہیے کہ جہاد ایک ایسا فرض ہے جسے کسی بھی حالت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ میں آپ کی محبت کا تہہ دل سے ممنون ہوں۔ امید ہے کہ آپ مجھے خوشی سے اجازت دے دیں گے۔“
    نعیم نے اپنی تقریر ابھی ختم نہ کی تھی کہ ایک چھوٹا سا لڑکا چلا اٹھا۔ ”ہم نہیں جانے دیں گے!“ نعیم نے آگے بڑھ کر کمسن بچے کو اٹھا لیا اور اسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔”مجھے آپ لوگوںکے احسانات ہمیشہ یاد رہیں گے۔ اس بستی کا تصور مجھے ہمیشہ مسرور کرتا رہے گا۔ جب میں اس بستی میں آیا تھا تو ایک اجنبی تھا۔اب جبکہ چند ہفتوں کے بعد میں رخصت ہو رہاہوںتو یہ محسوس کرتاہوں کہ اپنے عزیز ترین بھائیوں سے جدا ہو رہاہوں۔ اگر خدا نے چاہا تو ایک بار پھر میں یہاں آنے کی کوشش کروں گا۔“
    اس کے بعد نعیم نے ان لوگوں کوچند نصیحتیں کیں اور دعا کے بعد لوگوں سے مصافحہ کرنا شروع کیا ۔

    جاری ہے
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    کہانی نے ایکبار پھر اچھا موڑ لیا ہے۔
    دیکھیے آگے کیا رنگ نظر آتے ہیں۔
    عرفان بھائی ۔ محنت سے مضمون تیار کرنے اور ہم تک پہنچانےکے لیے بہت شکریہ ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں