1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

داستان مجاہد 6

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عرفان پتوکی, ‏29 اگست 2009۔

  1. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    داستان مجاہد
    نسیم حجازی کا اسلامی تاریخی ناول

    اسیری



    اس نے اپنے خود کو نیچے سرکا کر چہرہ ڈھانپ لیا۔ نعیم کو قریب آتا دیکھ کر اسحاق راستے چند قدم ہٹ کر ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ نعیم نے بھی اس کے قریب پہنچ کر گھوڑا ٹھہرا لیا۔ دونوں سوار ایک لمحہ کے لیے ایک دوسرے کے سامنے خاموش کھڑے رہے۔ بالآخر اسحاق نے سوال کیا:
    ”آپ کون ہیں اور کہا ں جانے کا ارادہ ہے؟
    ”یہی سوال میں تم سے پوچھنا چاہتاہوں!“ نعیم نے کہا۔
    نعیم کے لہجے میں سختی سے اسحاق قدرے پریشان ہوا لیکن فوراً ہی اپنی پریشان پر قابو پاتے ہوئے بولا۔”آپ نے میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے ایک اور سوال کردیا۔“
    نعیم نے کہا ”میری طرف غور سے دیکھو! تمہیں دونوں سوالوں کا جواب مل جائے گا۔“
    یہ کہہ کہ نعیم نے ایک ہاتھ اپنے چہرے کا نقاب الٹ دیا۔
    ”تم .... نعیم؟“ اسحاق کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
    ”ہاں میں.... نعیم نے خود دوبارہ نیچے سرکاتے ہوئے کہا۔
    اسحاق نے اپنی سراسیمگی پر قابو پا کر اچانک گھوڑے کی باگیں اور دوسرے ہاتھ میں نیزہ سنبھال کر تیار ہو چکا تھا۔دونوں ایک دوسرے کے حملے کا انتظار کررہے تھے ۔ اچانک اسحاق نے نیزہ بلند کیا اور گھوڑے کو ایڑ لگائی۔ اسحاق کے گھوڑے کی ایک ہی جست میں نعیم اس کی زد میں آچکا تھا۔ لیکن وہ برق کی سی پھرتی سے ایک جھگا اور اسحاق کا نیزہ اس کی ران پر ایک ہلکا سا زخم لگاتا ہوا آگے نکل گیا۔ نعیم نے فوراً اپنا گھوڑا موڑ کر اسے پیچھے لگا دیا۔ اتنی دیر میں اسحاق اپنے گھوڑے کو چھوٹا سا چکر دے کر پھر ایک بار نعیم کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ دونوں سوار بیک وقت اپنے اپنے گھوڑوں کو ایڑ لگا کر نیزے سنبھالتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف بڑھے۔ نعیم نے پھر ایک بار اپنے آپ کو اسحاق کے وار سے بچایا لیکن اس دفعہ نعیم کا نیزہ اسحاق کے سینے آر پار چکا تھا۔ اسحاق کو خاک و خون میں تڑپتا چھوڑ کر نعیم واپس مڑا۔ اگلی چوکی پر ظہر کی نماز ادا کی گھوڑا تبدیل کیا اور ایک لمحہ ضائع کیے بغیر آگے چل دیا۔ جب نعیم اس چوکی پر پہنچا جہاں سے وہ زلیخا کو رخصت کرکے اسحاق کے تعاقب میں روانہ ہوا تھا تو وہاں اسے معلوم ہوا کہ ابن صادذق اور اسکی جماعت قلعے کو خالی چھوڑ کر کہیں جا چکے ہیں۔ نعیم نے ان کا تعاقب کرنا بے سود خیال کیا۔ ابھی شام ہونے میں کچھ دیر تھی۔ نعیم نے ایک سپاہی کو کاغذ، قلم لانے کا حکم دیا اور ایک خط محمدؒ بن قاسم کے نام لکھا اور اس خط میں اس نے سندھ سے رخصت ہو کر ابن صادق کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے حالات مختصر طور پر لکھے اور اسے ابن صادق کی سازشوں سے باخبر رہنے کی تاکید کی اور دوسرا خط اس نے حجاج بن یوسف کے نام لکھا اور اسے ابن صادق کی گرفتاری کے لیے فوری تدابیر عمل میں لانے کی تاکید کی۔ نعیم نے یہ خط چوکی والوں کے سپرد کیے اور انہیں بہت جلد پہنچا دینے کی تاکید کرکے گھوڑے پر سوار ہوگیا۔
    نعیم کو اس بات کا خدشہ تھا کہ ابن صادق شاید زلیخا کا تعاقب کرے۔ وہ ہر چوکی سے اس مختصر قافلے کے متعلق پوچھتا جاتا تھا۔ اسے معلوم ہوا کہ دوسری چوکیوں پر سپاہیوں کی قلت کی وجہ سے زلیخا کے ساتھ دس سے زیادہ سپاہی نہیں جا سکے۔ نعیم زلیخا کی حفاظت کے خیال سے فوراً اس قافلے میں شامل ہوجانا چاہتا تھا اور گھوڑے کو تیز سے تیز رفتار چلا رہا تھا۔ رات ہو چکی تھی۔ چودھویں کا چاند اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ کائنات پر سیمیں تاروں کا جال بچھا رہا تھا۔ نعیم پہاڑوں اور میدانوں سے گزر کر ایک صحرائی خطہ عبور کر رہا تھا۔ راستے میں ایک عجیب و غریب منظر دیکھ کر اس کے خون کا ہر قطرہ منجمد ہو گیا۔ ریت پر چند گھوڑوں اور انسانوں کی لاشیں پر پڑ ی ہوئی تھیں۔ ان میں بعض ابھی تک تڑپ رہے تھے۔ نعیم نے گھوڑے سے اتر کر دیکھا تو معلوم ہوا ان میں سے بعض وہ تھے جنہیں اس نے زلیخا کے ساتھ روانہ کیا تھا۔ اس وقت نعیم کے دل میں سب سے پہلا خیال زلیخا کا تھا ۔ اس نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا۔ ایک زخمی نوجوان نے نعیم سے پانی مانگا۔ نعیم نے جلدی سے گھوڑے پر سے چھاگل کھول کو پانی پلایا۔
    وہ اپنے دھڑکتے دل کو ایک ہاتھ سے دبائے کچھ پوچھنے کو تھا کہ زخمی نے ایک طرف ہاتھ سے اشارہ کیا اور کہا:
    ”ہمیں افسوس ہے کہ ہم اپنا فرض پورا نہ کر سکے۔ ہم آپ کے حکم کے مطابق اپنی جانیں بچانے کی بجائے ان کی حفاظت کے لیے آخر دم تک لڑتے رہے لیکن وہ بہت زیادہ تھے۔ آپ ان خبر لیں!“
    یہ کہہ کر اس نے پھر اپنے ہاتھ سے ایک طرف اشارہ کیا۔ نعیم جلدی سے اس طرف بڑھا۔ چند لاشوں کے درمیان زلیخا کو دیکھ کر اس کا دل کانپنے لگا۔ کان سائیں سائیں کرنے لگے۔ وہ مجاہد جو آج تک نازک سے نازک صورت حال کا مقابلہ نہایت خندہ پیشانی سے کرنے کا عادی تھا۔ یہ ہیبت ناک منظر دیکھ کر کانپ اٹھا۔
    ”زلیخا! زلیخا! تم....!“
    زلیخا میں ابھی کچھ سانس باقی تھے۔ ”آپ آگئے؟“ اس نے نحیف آواز میں کہا۔
    نعیم نے آگے بڑھ کر ایک ہاتھ سے زلیخا کے سر کو سہارا دے کر اوپر کیا اور پانی پلایا۔ زلیخا کے سینے میں ایک خنجر پیوست تھا۔ نعیم نے کانپتے ہوئے ہاتھ سے اس کا دستہ پکڑا اور اسے کھینچ کرباہر نکالنا چاہا لیکن زلیخا نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا اور کہا۔”اب اسے نکالنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ اپنا کام کرچکا ہے اورمیں آخری وقت آپ کی اس نشانی سے جدا نہیں ہو نا چاہتی۔“
    نعیم نے حیران ہو کر کہا۔”میری نشانی!“
    ”ہاں! یہ خنجر آپ کا ہے۔ ظالم چچا مجھے گرفتار کرکے لے جانا چاہتا تھا۔ میں ایسی زندگی سے مر جانا بہتر خیال کرتی تھی۔ میں آپ کی شکر گزار ہوں کہ آپ کا دیا ہوا خنجر میرے کام آیا۔“
    ”زلیخا! زلیخا! تم نے خود کشی کرلی؟“
    میں ہر روز کی روحانی موت کی بجائے ایک دن کی جسمانی موت کو بہتر خیال کرتی تھی۔ خدا کے لیے آپ مجھ سے ناراض نہ ہوں۔ آخر میں کیا کر سکتی تھی؟ اپنی بگڑی ہوئی تقدیر کو بنا لینا میرے اختیارمیں نہ تھا اور اس آخری مایوسی کو میں جیتے جی برداشت نہ کر سکتی تھی۔“
    نعیم نے کہا۔”زلیخا! میں بے حد شرمسار ہوں لیکن میں مجبور تھا۔“
    زلیخا نے نعیم کے چہرے پر ایک محبت بھری نگاہ ڈالی اور کہا ”آپ افسوس نہ کریں، قدرت کو یہی منظور تھا اور قدرت سے میں اس سے زیادہ توقع بھی نہیں رکھتی تھی۔ میری خوش بختی اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ آخری وقت میں آپ مجھے سہارا دیے ہوئے ہیں۔“ زلیخانے یہ کہہ کر ضعف اور درد کی شدت سے آنکھیں بند کرلیں۔ نعیم نے اس خیال سے کہ یہ ٹمٹماتا ہوا چراغ بجھ نہ گیا ہو۔ بیتابی کےساتھ ”زلیخا زلیخا!“ کہہ کر اس کا سر ہلایا۔ زلیخا نے آنکھیں کھول کر نعیم کی طرف دیکھا اور اپنے خشک گلے پر ہاتھ رکھ کر پانی مانگا۔ نعیم نے پانی پلایا۔ کچھ دیر دونوں خاموش رہے۔ اس خاموشی میں نعیم کے دل کی دھڑکن تیز اور زلیخا کے دل کی حرکت کم ہو رہی تھی۔ وہ مرجھائی ہوئی نگاہیں اس کے چہرے پر نثار کر رہی تھی اور وہ بے قرار نگاہوں سے اس کے سینے میں چبھے ہوئے خنجر کی طرف دیکھ رہا تھا۔ بالآخر زلیخا نے ایک سسکی لے کر نعیم کو اپنی طرف متوجہ کیا اور کہا۔”میں آپ کے گھر جا کر اسے دیکھنا چاہتی تھی۔ میری یہ آرزو پوری نہہوئی۔ آپ وہاں جا کر اسے میرا سلام کہیں۔“ یہاں تک کہ زلیخا خاموش ہوگئی اور پھر کچھ سوچنے کے بعد بولی:” اب میں ایک لمبے سفر پر جارہی ہوں اور آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں، وہ یہ ہے کہ اس دنیا میں جہاں میرا جاننے والا کوئی نہ ہوگا، جہاں شاید میرے والدین بھی مجھے پہچان نہ سکیں کیونکہ میں بہت چھوٹی تھی جب کہ میرا ظالم چچا مجھے اٹھا لایا تھا، میں یہ توقع رکھ سکتی ہوں کہ آپ اس دنیا میں مجھے ایک بار ضرور ملیں گے؟آخر وہاں کوئی تو ہو جسے میں اپنا کہہ سکوں۔ میں آپ کو اپنا سمجھتی ہوں لیکن آپ مجھ سے نزدیک بھی ہیں اور دور بھی۔“
    ”زلیخا کے یہ الفاظ نعیم کے دل میں اتر گئے۔ اس کی آنکھیں پرنم ہوگئیں۔ اس نے کہا”زلیخا! اگر تم مجھے اپنا بنانا چاہتی ہوتو اسکا ایک ہی طریقہ ہے۔“
    زلیخا کا ملول چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔ مایوسی کی تاریکی میں مرجھائے ہوئے پھول میں امید کی روشنی کے تصور نے تروتازگی پیدا کردی۔ اس نے بے قرار ہو کر پوچھا:
    ”بتائیے وہ کونسا ہے راستہ ہے؟“
    ”زلیخا ! میرے آقا کی غلامی قبول کرلو۔ پھر تم میں اور مجھ میں کوئی فاصلہ نہیں رہے گا۔“
    ”میں تیار ہوں آپ کا آقا مجھے اپنی غلامی میں لے لے گا؟“
    ”ہاں وہ بہت رحیم ہے۔“
    ”لیکن میں تو چند لمحات کے لیے زندہ ہوں۔“
    ”اس بات کے لیے طویل مدت کی ضرورت نہیں۔ زلیخا کہو!“
    ”کیا کہو؟“ زلیخا نے آنسو بہاتے ہوئے کہا۔
    نعیم نے کلمہ شہادت پڑھا اور زلیخا نے اس کے الفاظ دہرائے۔ زلیخا نے ایک بار پھر پانی مانگا اور پینے کے بعد کہا۔ میں محسوس کرتی ہوں کہ میرے دل سے ایک بوجھ اتر چکا ہے۔“
    نعیم نے کہا۔”یہاں سے چند کوس کے فاصلے پر ایک چوکی ہے۔ اگر تم گھوڑے پر سوار ہو سکتیں تو میں تمہیں وہاں لے جاتا۔ چونکہ اس حالت میں تمہارا گھوڑے پر بیٹھنا نا ممکن ہے تم تھوڑی دیر کے لیے مجھے اجازت دو۔ میں بہت جلد وہاں سے سپاہی بلا لاتا ہوں شاید وہ آس پاس کی بستی سے کوئی طبیب ڈھونڈ لائیں۔“
    نعیم زلیخا کا سر زمین پر رکھ کر اٹھنے کو تھا لیکن اس نے اپنے کمزور ہاتھوں سے نعیم کا دامن پکڑ لیا اور روتے ہوئے کہا۔”خدا کے لیے آپ کہیں نہ جائیں۔ آپ واپس آکر مجھے زندہ نہ پائیں گے۔ میں مرتے وقت آپ کے ہاتھوں کے سہارے سے محروم نہیں ہو نا چاہتی۔“
    نعیم زلیخا کی اس دردمندانہ درخواست کو رد نہ کر سکا۔ وہ پھر اسی طرح بیٹھ گیا۔ زلیخا نے اطمینان سے آنکھیں بند کرلیں اوردیر تک بے حس و حرکت پڑی رہی۔ وہ کبھی کبھی آنکھیں کھول کر نعیم کو دیکھ لیتی۔ رات کے تین پہر گزر چکے تھے۔ صبح کے آثار نمودار ہورہے تھے، زلیخا کی طاقت جواب دے چکی تھی۔ اس کے تمام اعضا ڈھیلے پڑنے لگے اور سانس اکھڑ اکھڑ کر آنے لگا۔
    ”زلیخا! نعیم نے بے قرار ہو کر پکارا۔
    زلیخا نے آخری بار آنکھیں کھولیں اور ایک لمبا سانس لینے کے بعد دائمی نیند کی آغوش میں سو گئی۔ نعیم نے ”انا للہ و انا الیہ راجعون“ کہہ کر سر جھکا دیا۔ اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہ نکلے اور زلیخا کے چہرے پر گر پڑے۔ زلیخا کی بے زبانی یہ کہہ رہی تھی:
    ”اے مقدس ہستی! میرے تیرے آنسواؤں کی قیمت ادا کرچکی ہوں۔“
    نعیم اٹھ کر گھوڑے پر سوار ہوا اور قریب کی چوکی پر پہنچ کر چند سپاہیوں کو ساتھ لیے آیا ۔ قرب و جوار کی چند بستیوں کے کچھ لوگ بھی جمع ہوگئے۔ نعیم نے نماز جنازہ پڑھائی اور زلیخا اور اس کے ساتھیوں کو سپرد خاک کرنے کے بعد گھر کی طرف کوچ کیا ۔

    اجنبی



    نعیم ایک وسیع صحرا عبور کر رہا تھا۔ وہ زلیخا کی موت کا غم،۔ سفر کی کلفتوں اور طرح طرح کی پریشانیوں سے نڈھال سا ہو کر آہستہ آہستہ منزل مقصود کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس ویرانے میں کبھی کبھی بھیڑیوں اور گیدڑوں کی آوازیں سنائی دیتیں لیکن پھر خاموشی اپنا رنگ جما لیتی۔ تھوڑی دیر بعد افق مشرق سے چاند نمودار ہوا۔ تاریکی کا طلسم ٹوٹنے لگا اور ستاروں کی چمک ماند پڑنے لگی۔ بڑھتی ہوئی روشنی میں نعیم کو دور دور کے ٹیلے، جھاڑیاں اور درخت نظر آنے لگے۔ وہ منزل مقصود کے قریب پہنچ چکا تھا۔ اسے اپنی بستی کے گرد و نواح کے نخلستانوں کی خفیف سی جھلک نظر آرہی تھی۔ وہ بستی جو اس کے رنگین خوابوں کا مرکز تھی اور جس کے ہر ذرے کے ساتھ اس کے دل کے ٹکڑے پیوست ہو چکے تھے ۔ وہ بستی اب اس قدر قریب تھی کہ وہ گھوڑے کو ایک بار سرپٹ چھوڑ کر وہاں پہنچ سکتا تھا لیکن اس کے باوجود اس کے تصورات بار بار اس مقام سے کوسوں دور زلیخا کی آخری گھر کے آخری گھر کی طرف لے جا رہے تھے ۔ زلیخا کی موت کا دردناک منظر بار بار اس کی آنکھوں کے سامنے پھر رہا تھا۔ اس کے آخری الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے ۔ وہ چاہتا تھا کہ اس دردناک کہانی کو تھوڑی دیر کے لیے بھول جائے لیکن وہ محسوس کرتا تھا کہ ساری کائنات مظلومیت کے اس شاہکار کی آہوں اور آنسواؤں سے لبریز ہے۔ گھر کے متعلق بھی اسے ہزاروں توہمات پریشان کر رہے تھے ۔ وہ اپنی زندگی کے امیدوں کے مرکز کی طرف جا رہاتھا۔ اس کے دل میں ایک نوجوان کا سا ذوق و شوق اور ولولہ نام کو نہ تھا۔ وہ اپنی گذشتہ زندگی میں گھوڑے پر اس طرح ڈھیلا ہو کر کبھی نہیں بیٹھا تھا۔ وہ خیالات ہجوم میں میں دبا جا رہاتھا کہ اچانک اسے بستی کی طرف سے چند آوازیں سنا ئی دیں۔ وہ چوکنا ہو کر سننے لگا۔ بستی کی لڑکیاں دف بجا کر گا رہی تھیں۔ یہ عرب کے وہ سیدھے سادے راگ تھے جو اکثر شادی کے موقع پرگائے جاتے تھے ۔ نعیم کے دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی۔ وہ چاہتا تھا کہ اڑ کر گھر پہنچ جائے لیکن تھوڑی دور اورچلنے کے بعد اس کے اٹھتے ہوئے ولولے سرد ہو کر رہے گئے۔ وہ اس گھر کی چار دیواری کے قریب پہنچ چکا تھا جہاں سے گانے کی آواز آرہی تھی.... اور یہ اس کا اپنا گھر تھا۔ کھلے دروازے کے سامنے پہنچ کراس نے گھوڑا روکا لیکن کسی خیال نے اسے آگے بڑھنے سے روک لیا۔صحن کے اندر مشعلیں روشن تھیں اور بستی کے لوگ کھانا کھانے میں مشغول تھے۔ چند عورتیں مکان کی چھت پر جمع تھیں۔ عبد اللہ مہمانوں کی اؤ بھگت میں مشغول تھا۔ وہ دل میں مہمانوں کے اکٹھے ہونے کی وجہ سوچنے لگا۔ اچانک اسے خیال آیا کہ شاید خدا عذا کی قسمت کا فیصلہ کر چکا ہے اور اس خیال کے آتے ہی اسے اپنے گھر کی جنت اپنی آرزاؤں کا مدفن نظر آنے لگی۔ اس نے نیچے اتر کر گھوڑے کو دروازے سے چند قدم دورایک درخت کے ساتھ باندھ دیا اور سائے میں کھڑا ہوگیا۔
    بستی کا ایک لڑکا گھر سے بھاگ کر باہرنکلا۔ نعیم نے آگے بڑھ کر اس کا راستہ روک لیا اور پوچھا۔”یہ کیسی دعوت ہے؟“
    لڑکے نے سہم کر نعیم کی طرف دیکھا لیکن ایک تو درخت کا سایہ تھا اور دوسرے نعیم کا نصف چہرہ خود میں چھپا ہوا تھا، وہ پہچان نہ سکا۔
    اس نے جواب دیا۔”یہاں شادی ہے۔“
    ”کس کی؟“
    ”عبد اللہ کی شادی ہو رہی ہے۔ آپ شاید اجنبی ہیں۔چلیے آپ بھی دعوت میں شریک ہوجائیں!“۔

    لڑکا یہ کہہ کر بھاگنے کو تھا کہ نعیم نے پھر اسے بازو سے پکڑ کر ٹھہرالیا۔
    لڑکے نے پریشان ہو کرکہا”مجھے چھوڑیے میں قاضی کو بلانے جارہا ہوں۔“
    اگرچہ نعیم کا دل اس سوال کا جواب دے چکا تھا لیکن محبت نے ناکامی اورمایوسی کا آخری منظردیکھنے کے باوجود امید کا سہارا نہ چھوڑا اوراس نے کانپتی ہوئی آوا زمیں پوچھا:
    ”عبد اللہ کی شادی کس کے ساتھ ہونے والی ہے؟“
    ”عذرا کے ساتھ۔“ لڑکے نے جواب دیا۔
    ”عبد اللہ کی والدہ کیسی ہیں؟“ نعیم نے اپنے خشک گلے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔
    ”عبد اللہ کی والدہ! انہیں تو فوت ہوئے بھی تین چار مہینے ہوگئے۔“ یہ کہہ کر لڑکا بھاگ گیا۔
    نعیم درخت کا سہارا لے کر کھڑا ہوگیا۔ ”امی ! امی!“ کہہ کر چند سسکیاں لیں۔
    آنکھوں میں آنسواؤں کا ایک دریا امڈ آیا۔ تھوڑی دیر بعد اسے وہی لڑکا اور قاضی اندر جاتے ہوئے دکھائی دیے۔ دل میں دو مختلف آرزوئیں پیدا ہوئیں۔ ایک یہ تھی کہ اب بھی تیری تقدیر تیرے ہاتھ میں ہے۔ اگر چاہے تو عذرا تجھ سے دور نہیں۔ اگر عبد اللہ کو تیرے زندہ واپس آنے کا حال معلوم ہو جائے تو وہ تیرے دل کی اجڑی ہوئی بستی کوآباد کرنے کےلیے اپنی زندگی کی تمام راحتیں بخوشی قربان کردے گا۔ ابھی وقت ہے۔“
    دوسری آوازیہ تھی کہ ”اب تیرے ایثار اورصبر کا امتحان ہے۔ عذرا کے ساتھ تیرے بھائی کی محبت کم نہیں اور قدرت کو یہی منظور ہے کہ عذرا اور عبد اللہ اکٹھے رہیں۔ جاں نثار بھائی تجھ پر اپنی خوشی قربان کرنے کے لیے تیار ہوگا۔ لیکن یہ زیادتی ہوگی ۔ اب اگر تو نے عبد اللہ سے قربانی کا مطالبہ کیا تو تو تیرا ضمیر کبھی مطمئن نہیں ہوگا۔ وہ تجھے سندھ تک تلاش کرتا پھرااوراب شاید تیرے زندہ واپس آنے سے مایوس ہو کرعذرا سے شادی کر رہاہے، تو بہادر ہے، مجاہد ہے، ضبط سے کام لے۔ عذرا کی فکر مت کر۔ وقت آہستہ آہستہ اس کے دل سے تیرا نقش مٹا دے گا، آخر تجھ میں کونسی ایسی خوبی ہے جو عبد اللہ میں نہیں؟“
    ضمیر کی دوسری آواز نعیم کو کسی حد تک بھلی معلوم ہوئی۔ اس نے محسوس کیا کہ ایک ناقابل برداشت بوجھ اس کے دل سے اتر رہاہے۔ چند لمحات میں نعیم کی دنیا تبدیل ہو چکی تھی۔
    (۲)
    جس وقت گھرمیں عبد اللہ اور عذرا کا نکاح پڑھایا جا رہا ہے۔ نعیم گھر سے باہر درخت کے نیچے سربسجود یہ دعا مانگ رہاتھا:
    ”اے کائنات کے مالک اس شادی میں برکت دے۔ عذرا اور عبد اللہ تمام عمر خوش خرم رہیں اورایک دوسرے پر دل و جان سے نثار رہیں۔ اے مالک حقیقی! میرے حصے کی تمام خوشی انکو عطا کردے!“
    نعیم بہت دیر تک سربسجود پڑا رہا۔ اٹھا تو معلوم ہوا کہ گھر کے تمام مہمان جا چکے ہیں۔ جی میں آئی کہ بھائی کو مبارکباد دے لیکن اور خیال آگے بڑھنے کی جرات نہ ہوئی۔ اس نے سوچا۔ بے شک بھائی مجھے دیکھ کر خوش ہوگا لیکن شاید اسے ندامت بھی ہو، اورعذرا پر تو یہ بھی ظاہر نہیں ہونا چاہیے کہ میں زندہ ہوں۔ وہ صبر و قرار جو عذرا نے میری واپسی سے مایوس ہو کر حاصل کیاہوگا جاتا رہے گا۔ اگر انہوں نے یہ سمجھ کر شاد ی کی ہے کہ میں مر چکا ہوں تو ان کی تمام زندگی بے کیف ہو جائے گا۔ وہ مجھے دیکھ کر نادم ہوں گے۔ عذرا کے پرانے زخم تازہ ہو جائیں گے ۔ اس لیے بہتریہی ہے کہ میں ان سے دور رہوں اور اپنی سیاہ بختی میں انہیں حصہ دار نہ بناؤں۔ ضمیر نے ان خیالات کی تائید کی ۔ ایک لمحہ کے اندر اندر مجاہد کے خیال نے عزم اور عزم نے یقین کی صورت اختیار کرلی۔ نعیم نے واپس مڑنے سے پہلے چند قدم گھر کی طرف اٹھائے اورپھاٹک کے قریب ہو کر اپنی امیدوں کے خری مدفن کی طرف حسرت بھری نگاہیں ڈالیں۔ وہ واپس ہونے کو تھا کہ صحن میں کسی کے پاؤں کی آہٹ نے اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی۔ عبد اللہ اور عذرا یک کمرے سے نکلے اور صحن میں آکھڑے ہوئے اس نے چاہا کہ منہ پھیر لے لیکن یہ دیکھ کر عبد اللہ اب شادی کے لباس کی بجائے زرہ بکتر پہنے ہوئے ہے اور عذرااس کی کمرمیں تلوار باندھ رہی ہے۔ وہ قدرے حیران ہوا اوردروازے کی آڑ میں کھڑاہوگیا۔ اس نے فوراً تاڑ لیا کہ عبد اللہ جہاد پر رخصت ہورہا ہے۔ نعیم زیادہ حیران بھی نہ ہوا۔ اسے اپنے بھائی سے یہی توقع تھی۔
    عبداللہ ہتھیار پہن کر اصطبل کی طرف گیا اور وہاں سے گھوڑا ساتھ لیے پھر عذرا کے پاس آکھڑا ہوا۔
    ”عذرا! تم غمگین تو نہیں؟“ عبد اللہ نے اس کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔
    ”نہیں۔“ عذرا نے سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔ میں توچاہتی ہوں کہ میں بھی اسی طرح زرہ پہن کر میدان میں جاؤں۔“
    ”عذرا! میں جانتا ہوں کہ تم بہادر ہو لیکن آج میں تمہیں سارا دن دیکھتا رہا ہوں ۔ مجھے معلوم ہوتاہے کہ تمہارے دل پر ابھی تک ایک بوجھ ہے جسے تم مجھ سے چھپا ناچاہتی ہو، لیکن میں جانتا ہوں ،نعیم کوئی بھول جانے والی ہستی نہیں۔ عذرا! ہم سب اللہ کی طرف سے آئے ہیں اوراسی کی طرف لوٹ جائیں گے۔ اگر وہ زندہ ہوتا تو ضرور واپس آتا۔ یہ خیال نہ کرنا کہ وہ مجھے کم عزیز تھا۔ اگر آج بھی میری جان تک کی قربانی اسے واپس لا سکے تو میں خوشی سے جان پر کھیل جاؤں گا۔ کاش تم سوچو کہ تمہاری طرح میں بھی اس دنیا میں اکیلاہوں۔ والدہ اور نعیم کے داغ مفارقت دے جانے کے بعد میرا بھی اس دنیا میں کوئی نہیں۔ ہم اگرکوشش کریں توایک دوسر ے کوخوش رکھ سکتے ہیں۔“
    عذرا نے جواب دیا۔”میں کوشش کروں گی۔“
    ”میرے متعلق زیادہ فکر نہ کرنا کیونکہ اب سپین میں مجھے کسی خطرناک مہم پر نہیں جانا پڑے گا۔ وہ ملک قریباً فتح ہو چکاہے۔ چند علاقے باقی ہیں اوران میں مقابلے کی طاقت نہیں ہے۔میں بہت جلد اؤںگا اور تمہیں بھی ساتھ لے جاؤں گا۔ مجھے زیادہ سے زیادہ چھ ماہ لگیں گے۔“
    عبداللہ خداحافظ کہہ کر گھوڑے پر سوار ہوا۔ نعیم اسے باہر نکلتے دیکھ کر دروازے سے چند قدم کے فاصلے پر ایک کھجور کی آڑمیں کھڑا ہو گیا۔دروازے سے باہر نکل کر عبد اللہ نے ایک بار عذرا کو مڑ کر دیکھا اور پھر گھوڑے کو ایڑ لگادی۔
    (۳)
    صبح کے آثار نمودار ہو رہے تھے ۔عبد اللہ گھوڑا بھگائے جارہا تھا۔ اس نے اپنے پیچھے ایک اور گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز سنی۔ مڑ کردیکھا کہ ایک سوار اسے سے زیادہ تیزی کے ساتھ آرہاہے۔ عبد اللہ گھوڑا روک کر اپنے پیچھے آنے والے سوار کو غور سے دیکھنے لگا۔ پیچھے آنے والا سوار اپنا چہرہ خود میں چھپائے ہوئے تھا۔ عبداللہ کو اس کے متعلق تشویش ہوئی اور اس نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکنا چاہا۔ لیکن اس نے عبد اللہ کے اشارے کی کوئی پرواہ نہ کی۔ اور بدستور گھوڑا دوڑاتا آگے نکل گیا۔ عبد اللہ کو اوربھی تشویش ہوئی اور اس نے اپنا گھوڑا اس کے تعاقب میں چھوڑ دیا۔ عبد اللہ کاگھوڑا تازہ دم تھا۔ اس لیے دوسرا شخص جو بظاہر ایک شہسوار معلوم ہوتا تھا عبداللہ نے اس کے قریب پہنچ کر اپنا نیزہ بلند کیا اور کہا:
    ”اگر تم دوست ہو تو ٹھہرو۔ اگر دشمن ہو تو مقابلے کے لیے تیار ہوجاؤ!“
    دوسرے سوارنے اپنا گھوڑا روک لیا۔
    ”مجھے معاف کیجئے گا “ عبد اللہ نے کہا”میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کون ہیں؟ میرا ایک بھائی بالکل آپ کی طرح گھوڑے پر بیٹھا کرتا تھا اورگھوڑے کی باگ بھی بالکل آپ کی طرح پکڑا کرتا تھا۔ اس کا قدو قامت بھی بالکل آپ جیسا تھا۔ میں آپ کا نام پوچھ سکتا ہوں؟“
    سوار خاموش رہا۔
    ”آپ بولنا نہیں چاہتے؟.... میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ کا نام کیاہے؟ .... آپ نہیں بتائیں گے؟“
    سوار پھر خاموش رہا۔
    جاری ہے
     
  2. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    شکریہ اس سلسلے کا عرفان جی
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    عرفان بھائی ۔ آپ نے قسط کو بہت تجسس بھرے موڑ‌پر لا کر ختم کیا ہے۔
    بہت مزیدار انداز میں کہانی آگے بڑھانے کے لیے شکریہ ۔
     
  4. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    السلام علیکم محترم عرفان پتوکی صاحب
    ایک اور خوبصورت و دلچسپ سلسلہء ادب کے اجراء پر مبارکباد و شکریہ قبول ہو۔
     
  5. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    شکریہ زاہرا جی
    اور شکریہ ہماری اردو کا جس نے مجھے ایک پلیٹ فارم دیا کچھ صفحات سیاہ کرنے کا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں