1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

داستان مجاہد 18

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عرفان پتوکی, ‏13 ستمبر 2009۔

  1. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    داستان مجاہد
    نسیم حجازی کا اسلامی تاریخی ناول



    آخری فرض

    نعیم نے اپنا فقرہ پورا نہ کیا تھا کہ تین جرنیل اٹھ کرکھڑے ہوگئے ۔ ان میں سے ایک اس کا پرانا دوست یوسف تھا۔ دوسرا اس کا نوجوان بیٹا عبد اللہ۔ تیسرے نوجوان کی شکل عبد اللہ سے ملتی جلتی تھی لیکن نعیم اسے ناواقف تھا۔
    ”تمہارا نام کیا ہے؟“ نعیم نے سوال کیا۔
    ”میرا نام نعیم ہے۔“ نوجوان نے جواب دیا۔
    ”عبداللہ؟ عبد اللہ بن عبدالرحمن؟“ نعیم نے پوچھا۔
    ”جی ہاں!“
    نعیم نے آگے بڑھ کر نوجوان کو گلے لگا لیا اور کہا۔”تم مجھے جانتے ہو؟“
    ”جی ہاں! آپ ہمارے سالار ہیں۔“
    ”میں اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہوں۔“ نعیم نے جوان کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا ۔”میں تمہارا چچا ہوں۔ عبد اللہ یہ تمہارا بھائی ہے!“
    ”ابا جان! انہی نے مراکش کی لڑائی میں میری جان بچائی تھی۔“
    ”بھائی جان کیسے ہیں؟“ نعیم نے سوال کیا۔
    ”انہیں شہیدہوئے دو سال ہوگئے ہیں۔ انہیں ایک خارجی نے قتل کرڈا لا تھا۔
    نعیم کے دل پر ایک چرکالگا۔ وہ کچھ دیر خاموش رہا۔ پھرہاتھ اٹھا کر دعائے مغفرت کی اور پوچھا۔”تمہاری والدہ؟“
    ”وہ اچھی ہیں۔“
    ”تمہارے بھائی کتنے ہیں؟“
    ”ایک بھائی اور چھوٹی ہمشیرہ ہے۔“
    نعیم نے باقی افسروںکو رخصت کیا اور ان کے چلے جانے کے بعد اپنی کمر سے تلوار نکال کر نعیم بن عبد اللہ کو دیتے ہوئے کہا۔”تم اس امانت کے حقدار ہو اور تم یہیں رہو۔ میں خود تیونس کی طرف جاؤں گا۔“
    ”چچا جان! آپ مجھے کیوں نہیں بھیجتے؟“
    ”بیٹا! تم جوان ہو۔ دنیاکو تمہاری ضرورت پڑے گی۔ آج سے تم یہاں کی افواج کے سپہ سالار ہو۔ عبد اللہ یہ تمہارے بڑے بھائی ہیں۔ انکا حکم دل و جان سے بجالانا!“
    نعیم بن عبد اللہ نے کہا۔”چچا جان میں آپ سے کچھ کہنا چاہتاہوں!“
    ”کہو بیٹا!“
    ”آپ گھر نہیں جائیں گے؟“
    ”بیٹا! تیونس کی مہم کے بعد میں فوراً وہاں جاؤں گا۔“
    ”چچاجان۔ آپ ضرور جائیں۔ امی جان اکثر آپ کا تذکرہ کیا کرتی ہیں۔ میری چھوٹی بہن اور بھائی بھی آپ کو بہت یاد کرتے ہیں۔“
    ”انہیں معلوم ہے کہ میں زندہ ہوں؟“
    ”امی کو یقین تھا کہ آپ زندہ رہیں۔ انہوںنے مجھے تاکید کی تھی کہ میں مراکش کی مہمکے بعد آپ کو سپین جا کر تلاش کروں اور آپ سے یہ کہوں کہ آپ چچی کے ہمراہ گھر تشریف لائیں!“

    ”میں بہت جلد وہاں پہنچ جاؤں گا۔ عبد اللہ تم اندلس جاؤ اور اپنی والدہ کو لے کر بہت جلد گھر پہنچ جاؤ۔ میں تیونس سے فراغت پاتے ہی آجاؤں گا۔ میں والی اندلس کو خط لکھ دیتاہوں۔ وہ تمہارے لیے بحری سفر کاانتظام کردے گا۔“
    (۳)
    تیونس میں باغیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے نعیم کو اپنی توقع کے خلاف بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بربری ایک جگہ سے شکست کھا کر بھاگتے تھے اوردوسری جگہ لوٹ مار شروع کردیتے تھے ۔نعیم چند مہینوں میں کئی جنگیں لڑنے کے بعد تیونس کی بغاوت فرو کرنے میں کامیاب ہوا۔ تیونس سے باغی جماعتیں پسپا ہو کرمشرق کی طرف پھیل گئیں۔ نعیم باغیوں کی سرکوبی کا تہیہ کرکے آگے بڑھتا گیا۔ تیونس اور قیروان کے درمیان باغی جماعتوںنے کئی بار نعیم کا مقابلہ کیالیکن شکست کھائی۔ قیروان کے قریب آخری جنگ میں نعیم بری طرح زخمی ہوا۔ وہ بے ہوشی کی حالت میں قیرون لایا گیا اوروہاں کے عامل نے اسے اپنے پاس ٹھہرایا اور اس کے علاج کے لیے ایک تجربہ کار طبیب بلا بھیجا۔ نعیم کو دیر کے بعد ہوش آیا لیکن بہت زیادہ خون بہ جانے کی وجہ سے وہ اس قدر کمزور ہو چکا تھا کہ اسے دن میں کئی بارغش آتا تھا۔ ایک ہفتے تک نعیم موت و حیات کی کشمکش میں بسترپر پڑا رہا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کروالی قیروان نے فسطاط سے ایک مشہور طبیب کو بلا بھیجا۔ طبیب نے نعیم کے زخم دیکھ کر اسے تسلی دی لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ انہیں دیر تک آرام کرنا پڑے گا!
    تین ہفتوں کے بعد نعیم کی حالت میں قدرے افاقہ ہوا اور اس نے گھر جانے کی خواہش ظاہرکی لیکن طبیب نے کہا۔”زخم ابھی تک اچھے نہیں ہوئے ۔ سفر میں ان کے دوبارہ پھٹ جانے کا اندیشہ ہے۔ اس لیے آپ کو کم از کم ایک مہینہ زیر علاج رہنا چاہیے۔مجھے ڈر ہے کہ یہ زخم زہر آلود ہتھیاروں لے لگے ہیں اور ممکن ہے کہ خون کی خرابی سے پھر ایک بار بگڑ جائیں!“
    نعیم نے ایک ہفتہ اور صبرکیا لیکن گھر جانے کے لیے اس بے قراری میں ہر لحظہ اضافہ ہو رہا تھا۔ وہ ساری رات بستر پر کروٹیں بدلتے گزار دیتا۔ جی میں آتی کہ ایک بار اڑ کر اس جنت ارضی میں پہنچ جائے۔
    اسے یقین تھا کہ نرگس وہاں پہنچ چکی ہوگی اور عذراکے ساتھ ریت کے ٹیلوں پر کھڑی اس کی راہ دیکھتی ہوگی۔
    بیس دن اور گزر جانے پر اس کے زخم جو کسی حد تک اچھے ہو چکے تھے بگڑنے لگے اور ہلکا ہلکا بخار آنے لگا۔ طبیب نے اسے بتایاکہ یہ تمام زہر آلود ہتھیاروں کا اثر ہے۔ زہر اس کے رگ و ریشے میں سرایت کر گیا ہے اوراسے کافی دیر تک یہاں ٹھہر کر علاج کرنے پڑے گا۔
    ایک روزآدھی رات کے قریب نعیم اپنے بستر پر لیٹا ہوا سوچ رہا تھا کہ وہ گھر پہنچ کر عذرا کو کس حالت میں دیکھے گا۔ وقت نے اس کے معصوم چہرے پر کیا کیا تغیرات پیدا کردیے ہوںگے۔ اس کی مغموم صورت دیکھنے پر اس کے دل کیا کیفیت ہوگی۔ اسے یہ خیال بھی پیداہواکہ شاید قدرت کو اب بھی اس کا گھر جانا منظور نہیں۔ وہ پہلے بھی کئی بارزخمی ہواتھا لیکن ان زخموں کی کیفیت کچھ اور تھی۔ اس نے اپنے دل میں کہا ”ہو سکتا ہے کہ یہ زخم مجھے موت کی آغوش میں لے جائیں۔ لیکن مجھے نرگس اورعذرا سے بہت کچھ کہنا ہے۔اپنے بیٹوں اوربھتیجوں کو چند وصیتیں کرنی ہیں۔ مجھے موت کا ڈر نہیں۔ میں ہمیشہ موت سے کھیلتا رہاہوں لیکن یہاں لیٹے لیٹے موت کا انتظار کرنا میرے لیے مناسب نہیں۔ مجھے عذرا نے گھر آنے کا پیغام بھیجا ہے....وہ عذرا جس کی معمولی خوشی کے لیے میں کبھی جان پرکھیل جانا آسان سمجھتا تھا اور اس کے علاوہ نرگس کے دل کی کیا حالت ہوگی؟ میں ضرور جاؤں گا ۔ مجھے کوئی نہیں روک سکتا!“
    نعیم یہ کہتا ہوا بستر سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ مجاہد کا عزم جسمانی کمزور ی پر غالب آنے لگا اور وہ عمل کے ایک بے پناہ جذبے سے بے تاب ہوکرکمرے میں ٹہلنے لگا۔ وہ بھول چکا تھا کہ وہ زخمی ہے اوراس کی جسمانی حالت ایک لمبا سفر اختیار کرنے کے قابل نہیں۔ اس وقت اس کے دماغ میں فقط نرگس، عذرا، عبد اللہ کے کمسن بچے اور بستی کے حسین نخلستانوں کا تصورتھا۔ میں ضرورجاؤں گا! یہ اس کا آخری فیصلہ تھا۔
    وہ اچانک کمرے میں ٹہلتا ٹہلتا رک گیا۔ اس نے اپنے میزبان کے نوکر کوآواز دی ۔ نوکر بھاگتاہوا کمرے میں داخل ہوا اور نعیم کو بستر پر دیکھنے کی بجائے کمرے میں چکر لگتا دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ اس نے کہا۔ طبیب کا حکم ہے کہ آپ چلنے پھرنے سے گریز کریں!“
    ”تم میرا گھوڑا تیار کرو۔جاؤ!“
    ”آپ کہاں جانا چاہتے ہیں؟“
    ”تم گھوڑا تیار کرو!“
    ”لیکن اس وقت؟“
    ”فوراً! نعیم نے سختی سے کہا۔
    ”رات کے وقت آپ کہاں جائیں گے؟“

    ”تہیں جو کچھ کہا گیاہے وہ کر۔ فضول سوالات کا جواب میرے پاس نہیں!“
    نوکر گھبرا کر کمرے سے باہر نکلا۔
    نعیم پھر بستر پر بیٹھ کر خیالات کی دنیا میں کھو گیا۔
    تھوڑی دیر بعد نوکر واپس آیااور بولا ۔”گھوڑا تیار ہے لیکن....!!“
    نعیم نے بات کاٹ کر جواب دیا”تم جو کچھ کہنا چاہتے ہو۔ میں جانتا ہوں مجھے ایک ضروری کام ہے۔ اپنے مالک سے کہنا کہ میں نے اجازت حاصل کرنے کے لیے انہیں رات کےوقت جگانامناسب خیال نہیں کیا۔“
    (۴)
    صبح ہونے سے پہلے نعیم قیروان سے کوئی دو منازل پگے جا چکا تھا۔ اس لمبے سفر میں اس نے یہ احتیاط ضرور برتی کہ گھوڑے کو تیز نہ کیا۔ اور تھوڑی تھوڑی منازل کے بعد آرام کرتا تھا۔ فسطاط پہنچ کر اس نے دور دن قیام کیا۔ وہاں کے گورنر نے پہلے تو نعیم کو اپنے پاس ٹھہرانے کے لیے اصرار کیا لیکن جب نعیم کسی صورت میں بھی رضا مند نہ ہوا تو اس نے راستے کی تمام چوکیوں کو اس کی آمد سے مطلع کرتے ہوئے اس کے لیے ہرممکن سہولت مہیا کرنے کا حکم صادر کردیا۔
    نعیم جو ں جوں منزل کے نزدیک پہنچ رہا تھا اسے اپنی جسمانی تکلیف میں افاقہ محسوس ہو رہا تھا۔ کئی دنوں بعد ایک شام وہ ایک صحرائی خطے میں سے گزر رہا تھا۔ اس کی بستی فقط چند کوس کے فاصلے پر تھے ۔ ہرنئے قدم پر نئی امنگیں بیدار ہورہی تھیں۔اس کا دل مسرت کے سمندر میں غوطے لگا رہا تھا۔اچانک اسے افق مغرب پر ایک غبار سا اٹھتا ہوا دکھائی دیا۔ ایک ساعت کے اندر اندر یہ غبار چاروں طرف پھیل گیا اور فضا میں تاریکی چھاگئی۔نعیم ریگستان کے طوفانوں سے اچھی طرح واقف تھا۔ وہ طوفان کی مصیبت میں مبتلا ہونے سے پہلے گھر پہنچ جانا چاہتاتھا۔ اس نے گھوڑے کی رفتار تیزکردی اور ہوا کا پہلا جھونکا محسوس کرتے ہی اسے سرپٹ چھوڑ دیا۔ ہوا کی تیزی اور فضا کی تاریکی بڑھتی گئی۔ گھوڑا بھگانے کی وجہ سے نعیم کے سینے کے زخم پھٹ گئے اور خون بہنے لگا۔ اس نے اس حالت میں کوئی دو کوس فاصلہ طے کیاہوگا کہ طوفان نے اسے پوری طاقت کے ساتھ گھیرا۔چاروں طرف سے جھلستی ہوئی ریت برسنے لگی۔ گھوڑا آگے نہ بڑھنے کا راستہ پا کر رک گیا۔ نعیم مجبوراً گھوڑے سے اترا اور ہوا کے مخالف پیٹھ کر کے کھڑا ہوگیا۔ گھوڑا بھی اپنے مالک کی طرح سر نیچا کرکے کھڑا تھا۔ نعیم نے اپنے چہرے کو جھلستی ہوئی ریت سے بچانے کے لیے نقاب اوڑھ کانٹے دار جھاڑیاں ہوا میں اڑتی ہوئی آتیں اور اس کے جسم میں کانٹے پیوست کرتی ہوئی گر جاتیں ۔ نعیم ایک ہاتھ سے گھوڑے کی باگ تھامے، دوسرے ہاتھ سے اپنے دامن سے چمٹی ہوئی خاردار ٹہنیوں کو جدا کر رہا تھا۔گھوڑے کی باگ پر اس کے ہاتھ کی گرفت قدرے ڈھیلی تھی۔ببول کی ایک خشک ٹہنی اڑتی ہوئی گھوڑے کی پیٹھ پر زور آکر لگی۔ گھوڑے نے بدحواس ہو کر ایک جست لگائی اور نعیم کے ہاتھ سے باگ چھڑا کر کچھ دور جا کھڑا ہوا۔ ایک اور ٹہنی گھوڑے کے کانوں میں کانٹے پیوست کرتی ہوئی گزر گئی اور وہ بدحواس ہو کر ایک طرف بھاگ نکلا۔ نعیم دیر تک اسی جگہ بے بسی کی حالت میں کھڑا رہا ۔
    سینے کا زخم پھٹ جانے سے خون کے قطرے آہستہ آہستہ بہہ کراس کے گربیان کو تر کر رہے تھے ۔ اور اس کی جسمانی طاقت لحظہ بہ لحظہ جواب دے رہی تھی۔ وہ مجبوراً ریت پر بیٹھ گیا۔ کبھی کبھی وہ ریت کے اس بے پناہ سیلاب میں دب جانے کے خوف سے اٹھ کر کپڑے جھاڑتا اور پھر بیٹھ جاتا۔ کچھ دیر بعد رات کی سیاہی طوفان کی تاریکی میں اضافہ کرنے لگی۔ ایک پہر سے زیادہ رات گزر جانے پر ہوا کا زور ختم ہوا۔ آہستہ آہستہ مطلع صاف ہو گیا اور آسمان پر جگمگاتے ہوئے ستارے نظر آنے لگے۔
    نعیم اپنی بستی سے آٹھ کوس دور تھا۔ اس کا گھوڑا ہاتھ سے جا چکا تھا اور ٹانگوں میں چلنے کی طاقت نہ تھی۔ وہ پیاس محسوس کر رہا تھا۔ اسے خیال گزرا کہ اگر صبح ہونے سے پہلے وہ ریت کے اس سمندر کو عبور کے محفوظ مقام پر نہ پہنچ گیا تو دن کی دھوپ میں اسے تڑپ تڑپ کر جان دینی پڑے گی۔
    وہ ستاروں کی سمت کا اندازہ لگاتے ہوئے پیدل چل دیا۔ ایک کوس چلنے کے بعد اس کی طاقت نے جواب دے دیااور وہ مایوس ہو کر ریت پر لیٹ گیا۔ منزل سے اتنا قریب آکر ہمت ہار دینا مجاہد کے عزم و استقلال کے منافی تھا۔ وہ ایک بار لڑکھڑاتا ہوا اٹھا اور منزل مقصود کی طرف قدم اٹھانے لگا۔ ریت میں گھٹنوں تک اس کے پاؤں دھنسے جارے تھے ۔ وہ چلتے چلتے تین بار گرا، لیکن پھر اسی عزم کے ساتھ اٹھا اور آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ پیاس کی شدت سے اس کا گلا خشک ہو رہا تھا اور کمزوری سے اس کی آنکھوں کے سامنے سیاہی طاری ہو رہی تھی۔ سر چکرا رہا تھا۔ بستی ابھی چار کوس دور تھی۔ اسے معلوم تھا کہ بستی کی طرف جانے والی ندی یہاں سے قریب ہے۔ اس نے ڈگمگاتے، گرتے اور سنبھلتے ایک کورس اور طے کیا تو ایک چھوٹی سی ندی دکھائی دی۔
    ندی کا پانی طوفان کے گرد و غبار سے گدلا ہورہا تھا اورسطح پر جھاڑیوں کی بیشمار ٹہنیاں تیر رہی تھی۔ نعیم نے جی بھر کر ندی سے پانی پیا۔ کچھ دیر ندی کے کنارے لیٹنے کے بعد کچھ تقویت محسوس ہوئی اور وہ اٹھ کر چل دیا۔
    ندی کو عبور کرتے ہی بستی کے ارد گرد نخلستان دکھائی دینے لگے۔ نعیم کے دل سے تھکاوٹ اور جسمانی کمزوری کا احساس کم ہونے لگا اور ہر قدم پر اس کی رفتار زیادہ ہونے لگی۔ چند ساعتوں کے بعد وہ ریت کے اس ٹیلے کوعبور کر رہا تھا۔ جس پر بچپن میں وہ اور عذراکھیلا کرتے تھے اورریت کے چھوٹے چھوٹے گھر تعمیر کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد وہ کھجور کے بلند درختوں میں سے گزرتا ہوا اپنے مکان کی طرف بڑھا۔ دروازے پرکچھ دیر دھڑکتے ہوئے دل کودبائے کھڑا رہا۔ بالآخر اس نے ہمت کرکے دروازہ کھٹکھٹایا۔ گھر والے ایک دوسرے کو جگانے لگ گئے۔ ایک نوجوان لڑکی نے آکر دروازہ کھولا۔نعیم نوجوان لڑکی کو متحیر ہو کر دیکھنے لگا۔ اس کی شکل ہو بہو عذرا جیسی تھی۔ لڑکی نعیم کودیکھ کر کچھ کہے بغیر واپس اندر چلی گئی۔ تھوڑا دیر بعد اس کا بیٹا عبد اللہ اور نرگس نعیم کے استقبال کے لیے آموجود ہوئے۔ عذرا ،عبد اللہ اور نرگس کے پیچھے جھجکتی ہوئی آرہی تھی۔
    نعیم نے چاند کی روشنی میں دیکھا کہ کائناتِ حسن کی ملکہ کا شباب اگر چہ گردش ایام کی نذر ہو چکا تھا لیکن ابھی تک اس کے پژمردہ چہرے پر ایک غیر معمولی رعب دار اوروقار کی جھلک باقی تھی۔
    ”بہن! نعیم نے ایک دردناک لہجے میں کہا۔
    ”بھائی!“ عذرا نے خوف زدہ چہرہ بنا کر کہا۔
    وہ جسمانی طاقت جسے نعیم نے محض اپنے عزم کی بدولت ابھی تک قائم رکھا ہوا تھا۔ یکلخت جواب دے گئی۔
    اس نے کہا ۔”عبد اللہ! بیٹا، مجھے سہارا دینا!“
    عبد اللہ اسے سہارا دے کر اندر لے گیا۔
    صبح کے وقت نعیم بسترپر لیٹا ہوا تھا۔ نرگس، عبد اللہ بن نعیم، حسین بن نعیم، خالد عذرا کاچھوٹا اورآمنہ عذرا کی لڑکی اس کے گرد کھڑے تھے۔ نعیم نے آنکھیں کھولیں۔ سب پر نگاہ دوڑائی اور اشارے سے خالد اور آمنہ کو بلاکر اپنے پاس بٹھا لیا۔
    ”بیٹا تمہارا نام کیا ہے؟“

    ”خالد۔ چچا جان۔“
    ”اور تمہارا؟“ لڑکی کی طرف دیکھ کر نعیم نے سوال کیا۔
    ”آمنہ۔“ اس نے جواب دیا۔
    خالد کی عمر سترہ سال کے لگ بھگ معلوم ہوتی تھی اور آمنہ اپنی شکل و شباہت سے چودہ پندرہ برس کی معلوم ہوتی تھی۔
    نعیم نے خالد کی طرف دیکھ کر کہا:”بیٹا! مجھے قرآن سناؤ!“
    خالد نے اپنی شیریںآواز میں سورہ یٰسین کی تلاوت شروع کی۔
    دوسرے دن پھٹے ہوئے زخم زیادہ تکلیف دینے لگے اور نعیم کوسخت بخار ہوگیا۔ سینے کے زخم سے خون برابر جاری تھا۔ خون کی کمی کی وجہ سے اسے غش پر غش آنے لگے۔ ایک ہفتے تک اس کی یہی حالت رہی۔ عبد اللہ بصرہ سے ایک طبیب لے آیا۔ وہ مرہم پٹی کرکے چلا گیا مگر اس سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔
    ایک دن نعیم نے خالد سے پوچھا۔”بیٹا! تم ابھی تک جہاد پر نہیں گئے؟“
    ”چچا جان! میں رخصت پر آیا تھا۔“ اس نے جواب دیا۔”اور اب جانے والا تھاکہ........!“
    ”تم جانے والے تھے تو گئے کیوں نہیں؟“
    ”چچا جان۔ آپ کو اس حالت میں چھوڑ کر....!“
    ”بیٹا! جہاد کے لیے ایک مسلمان کو دنیا کی عزیز ترین چیزوں سے جدا ہونا پڑتا ہے۔ تم میری فکر نہ کرو۔ اپنا فرض پورا کرو! تمہاری والدہ نے تمہیں یہ سبق نہیںدیا کہ جہاد مسلمان کا سب اہم فرض ہے؟“
    ”چچا جان! امی ہمیں بچپن ہی سے یہ سبق دیتی رہی ہیں۔ میں صرف چند دن آپ کی تیمارداری کے لیے ٹھہر گیا تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر میں آپ کو اس حالت میں چھوڑ کرچلا گیا تھا تو آپ شاید خفا ہو جائیں گے۔“
    ”میری خوشی اسی بات میں ہے کہ جس میں میرے مولیٰ کی خوشی ہو۔ جاؤ عبد اللہ کو بلا تاؤ!“
    خالد دوسرے کمرے سے عبد اللہ کو بلالیا۔
    نعیم نے سوال کیا۔”تمہارا بیٹا تمہاری رخصت ابھی ختم نہیں ہوئی؟“
    ”ابا جان! میری رخصت ختم ہوئے پانچ دن ہو چکے ہیں۔“
    ”تم گئے کیوںنہیں بیٹا؟“
    ”ابا جان! میں آپ کے حکم کا انتظار کر رہا تھا۔“
    نعیم نے کہا۔”خدااور خدا کے رسولﷺ کے حکم کے بعد تمہیں کسی کے حکم کی ضرورت نہیں بیٹا! جاؤ“ ”ابا جان! آپکی طبیعت کیسی ہے؟“
    ”میں اچھا ہوں بیٹا!“ نعیم نے اپنے چہرے کو بشاش بنانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔”تم جاؤ!“
    ”ابا جان! ہم تیار ہیں۔“
    (۵)
    خالداور عبد اللہ اپنے اپنے گھوڑوں پر زین ڈال رہے تھے ۔ دونوں کی مائیں ان کے قریب کھڑی تھیں۔ نعیم نے اپنے بھتیجے اور بیٹے کو جہاد پررخصت ہوتے ہوئے دیکھنے کے لیے اپنے کمرے کا دروازہ کھلا رکھنے کا حکم دیا۔ وہ بستر پر لیٹے لیٹے صحن کی طرف دیکھ رہا تھا۔ آمنہ نے پہلے اپنے بھائی خالد اور پھر شرماتے ہوئے عبد اللہ کی کمر میں تلوار باندھ دی۔ نعیم نے اٹھ کر کمرے سے باہر نکلنا چاہا لیکن دو تین قدم چلنے کے بعد چکر آیااور گر پڑا۔

    جاری ہے
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اس جہاد کی منطق بھی کچھ عجیب ہے کہ جو بہن بھائی ۔ ماں باپ ۔ ہر چیز سے دور بھگائے رکھتا ہے اور باغیوں کی سرکوبی میں‌ہی مصروف رہنا سکھاتا ہے۔

    لگتا ہے کہانی اختتام کے قریب آگئی ہے۔
    عرفان بھائی ۔ کیا میرا اندازہ درست ہے ؟
     
  3. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جی بلکل نعیم بھائی
    نعیم بھائی اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کو بغیر حساب کتاب کے جنت الفردوس میں اعلی مقام حاصل ہو گا
    جبکہ
    آج کل جہاد کے نام پہ لوگوں کی سیاست کام کرتی ہے جبکہ اس کہانی میں جہاد کا اصل چہرہ ہے
    پھر آج کل ابن صادق جیسے منافقوں کی تعداد ہزاروں لاکھوں تک پہنچ چکی ہے
    اللہ تعالی ہمیں اسلام کی صحیح سمجھ اور بوجھ عطا فرمائے
    آمین
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بجا فرمایا عرفان بھائی ۔ جزاک اللہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں