1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

داستان مجاہد 17

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عرفان پتوکی, ‏11 ستمبر 2009۔

  1. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    داستان مجاہد
    نسیم حجازی کے قلم سے لازوال اسلامی تاریخی ناول



    جزا اور سزا

    ابن صادق کے متعلق یہ خبر مشہور ہوئی کہ اسے سپین کا مفتی اعظم کا عہدہ دے کر بھیجا جا رہاہے۔
    (۲)
    ۹۹ھ میں سلیمان نے اپنی فوج کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے کر قسطنطنیہ پر حملہ کردیا لیکن ابھی فتح کی حسرت پوری نہ ہوئی تھی کہ وہ دنیا سے چل بسا اور عمرؒ بن عبد العزیز تخت خلافت پر رونق افروز ہوئے۔ عمرؒ بن عبد العزیز عادات و خصائل میں بنو امیہ کے تمام خلفا سے مختلف تھے۔ ان کا عہد خلافت اموی دور حکومت کا روشن ترین زمانہ تھا۔ نئے خلیفہ کا پہلا حکم مظلوموں کی داد رسی کرنا تھا۔ بڑے بڑے مجاہدین جو سلیمان بن عبد المالک کے جذبہ حقارت کا شکار ہو کر قید خانے کی تاریک کوٹھڑیوں میں پڑے ہوئے تھے، فورا رہا کردیے گئے۔ سخت گیر حاکموں کو معزول کردیا گیا اور ان کی جگہ نیک دل اور عادل حکام بھیجے گئے۔ عبد اللہ جو ابھی تک رملہ کے قید خانے میں محبوس تھا، وہاں سے رہا کر کے دربار خلافت میں بلایا گیا۔
    عبد اللہ نے دربارخلافت میں حاضر ہو کر اپنی رہائی کے لیے شکریہ ادا کیا۔
    امیر المومنین نے پوچھا۔”اب م کہاں جاؤگے؟
    ”امیر المومنین! مجھے گھر سے نکلے ہوئے بہت دیر ہوگئی ہے۔ میں اب وہاں جاؤں گا۔“
    ”میں تمہارے متعلق ایک حکم نافذ کر چکاہوں“
    ”امیر المومنین! میں خوشی سے آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا۔“
    عمرؒ ثانی نے ایک کاغذ عبد اللہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔”میں تمہیں خراسان کا گورنرمقرر کر رچکاہوں۔ تم ایک مہینے کے لیے گھر رہ اؤ۔ اس کے بعد فوراً خراسان پہنچ جاؤ!“
    عبد اللہ سلام کرکے چند قدم چلا لیکن پھر رک کر امیر المومنین کی طرف دیکھنے لگا۔
    ”تم کچھ اور کہناچاہتے ہو؟“ امیر المومنین نے سول کیا۔
    ”امیر المومنین! میں اپنے بھائی کے متعلق عرض کرنا چاہتاہوں۔ اسے میں نے دمشق کے قید خانے سے نکالنے کی سازش کی تھی۔ وہ بے قصورتھا۔ اگر قصور کچھ تھا تو یہ کہ وہ قتیبہؒ بن مسلم اور محمدؒ بن قاسم کا دست راست تھا اور اس نے دربارخلافت میں حاضر ہو کر امیر المومنین کو قتیبہؒ کے قتل کے ارادے سے منع کیا تھا۔“
    عمرؒ ثانی نے پوچھا۔ ”تم نعیم بن عبدالرحمن کا ذکر کر رہے ہو؟“
    ”ہاں امیر المومنین! وہ میرا چھوٹا بھائی ہے۔“
    ”اب وہ کہاں ہے؟“
    ”سپین میں ۔ میں نے اسے ابو عبید کے پاس بھیج دیا تھا لیکن مجھے ڈر ہے کہ پہلے خلیفہ ابن صادق کا وہاں کا مفتی اعظم بنا کر بھیج چکے ہیں اور وہ نعیم کے خون کا پیاساہے۔“
    امیر المومنین نے کہا۔ ”ابن صادق کے متعلق میں آج ہی والی سپین کویہ حکم لکھ رہاہوں کہ اسے پابہ زنجیر دمشق بھیجا جائے اور میں تمہارے بھائی کے متعلق بھی خیال رکھوں گا۔“
    ”امیر المومنین نعیم کے ساتھ اسکا ایک دوست بھی ہے اور وہ آپ کی نظر کرم کا مستحق ہے۔“
    امیر المومنین نے کاغذ اٹھا کر والی سپین کے نام خط لکھا اور ایک سپاہی کے حوالے کرتے ہوئے کہا:
    ”اب آپ خوش ہیں۔ میں نے آپ کے بھائی کو جنوبی پرتگال کا گورنر مقرر کردیا ہے اوراس کے دوست کو فوج میں اعلیٰ عہدہ دینے کی سفارش کردی ہے اور ابن صادق کے متعلق بھی لکھ دیاہے۔“
    عبداللہ ادب سے سلام کر رخصت ہوا۔

    والی اندلس قرطبہ میں مقیم تھا۔ وہ جنوبی پرتگال میں ایک نئے جرنیل زبیر کی فتوحات کا سن کر بہت خوش ہوا۔ اس نے ابوعبید کے نام خط لکھا اور زبیر سے ملاقات کی خواہش ظاہرکی۔ نعیم قرطبہ پہنچا اور والی اندلس کی خدمت میں حاضر ہوا۔ والی اندلس نے گرمجوشی سے اس کا استقبال کیا اور اپنے دائیں ہاتھ بٹھالیا۔
    والی اندلس نے کہا”مجھے آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ ابو عبید نے اپنے خط میں آپ کی بہت تعریف کی ہے۔ چند دن ہوئے مجھے یہ خبر ملی تھی کہ شمال کے پہاڑی لوگوں نے بغاوت کردی ہے۔ میں آپ کو ان کی سرکوبی کے لیے بھیجنا چاہتاہوں۔ آپ کل تک تیار ہوجائیں گے؟“
    ”اگر بغاوت ہے تو مجھے آج ہی جانا چاہیے اور بغاوت کی آگ کو پھیلنے کا موقع نہیں دیناچاہئے۔“
    ”بہت اچھا۔ میں ابھی امیر عساکر کو مشورے کے لیے بلاتا ہوں۔“
    نعیم اور والی اندلس آپس میں یہ باتیں کر رہے تھے کہ ایک سپاہی نے آکر کہا۔”مفتی اعظم آپ سے ملناچاہتے ہیں۔“
    گورنر نے کہا۔ انہیں کہو تشریف لے آئیں!“
    ”آپ شاید ان سے نہیں ملے!“ اس نے نعیم کو مخاطب کرکے کہا۔ ”انہیں آئے ایک ہفتے سے زیادہ نہیں ہوا۔ وہ امیر المومنین کے خاص احباب میں سے معلوم ہوتے ہیں اور مجھے اس بات کاافسوس ہے کہ وہ اس منصب کے اہل نہیں۔“
    ”ان کا نام کیاہے؟“
    ”ابن صادق۔ “ گورنر نے جواب دیا۔
    نعیم نے چونک کر پوچھا۔ ”ابن صادق؟“
    ”آپ انہیں جانتے ہیں؟“
    اتنے میں ابن صادق اندر داخل ہوا اور اسے دیکھتے ہی نعیم کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ کوئی تازہ مصیبت سر پر کھڑی ہے۔
    ابن صادق نے بھی اپنے پرانے حریف کو دیکھا اور ٹھٹھک کر رہ گیا۔
    ”آپ انہیں نہیں جانتے؟“ گورنر نے ابن صادق کو مخاطب کیا۔”انکا نام زبیر ہے اور ہماری فوج کے بہت بہادر سالار ہیں۔“
    ”خوب! ابن صادق نے یہ کہہ کر نعیم کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن نعیم نے مصافحہ نہ کیا۔
    ”شاید آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔ میں آپ کا پرانا دوست ہوں۔ “ ابن صادق نے کہا۔
    نعیم نے ابن صادق کی طرف توجہ نہ کی اور گورنر سے کہا۔”آپ مجھے اجازت دیں!“
    ”ٹھہریے ۔ میں سالار کے نام حکم نامہ لکھ دیتا ہوں۔ وہ آپ کے ساتھ جتنی فوج درکار ہوگی روانہ کردے گا اور آپ بھی تشریف رکھیں!“ اس نے ابن صادق کو ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ابن صادق گورنر کے قریب بیٹھ گیا اور گورنر نے کاغذ پر حکم نامہ لکھ کر نعیم کودینا چاہا۔
    ”میں دیکھ سکتاہوں؟“ ابن صادق نے کہا۔
    ”خوشی سے۔“ گورنر نے کہا اور کاغذا بن صادق کے ہاتھ میں دے دیا۔
    ابن صادق نے کاغذ لے کر پڑھا اور گورنر کوواپس دیتے ہوئے کہا۔”اب اس شخص کی خدمات کی ضرورت نہیں۔ آپ اس کی جگہ کوئی اورآدمی بھیج دیں!“

    ”کیا یہ سچ ہے؟“ گورنر نے پریشان ہو کرسوال کیا۔
    نعیم خاموش رہا۔
    ابن صادق نے کہا۔”آپ فوراً اسے گرفتار کرلیں اور آج ہی میری عدالت میں پیش کریں۔“
    ”میں ایک سالار کو بغیر کسی ثبوت کے گرفتار نہیں کرسکتا ۔ آپ ایک دوسرے کے ساتھ پہلی ہی ملاقات میں اس طرح پیش آئے ہیں جس سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کے درمیان کوئی پرانج رنجش ہے اور اس صورت میں اگر یہ مجرم بھی ہوں تو بھی میں ان کا مقدمہ آپ کے سپرد نہیں کروںگا۔“
    ”آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ سپین کے مفتی اعظم سے باتیں کر رہے ہیں۔“
    ”اور آپ کو معلوم ہے کہ میں سپین کا عامل ہوں۔“
    ”ٹھیک۔ لیکن آپ کو معلوم نہیں کہ میں سپین کے مفتی اعظم کے علاوہ اور بھی کچھ ہوں۔“
    نعیم نے کہا۔”یہ نہیں جانتے میں بتادیتا ہوں۔ آپ امیر المومنین کے دوست قتیبہؒ بن مسلم، محمدؒ بن قاسم اور ابی عامرؒ کے قاتل ہیں۔ ترکستان کی کی بغاوت آپ کی کرم فرمائی کا نتیجہ تھی اور آپ وہ سفاک انسان ہیں جس نے اپنے بھائی اور بھتیجی کے قتل سے بھی دریغ نہیں کیا لیکن اس وقت آپ میرے مجرم ہیں۔“
    یہ کہہ کر نعیم نے بجلی کی سی پھرتی کے ساتھ نیام سے تلوار نکال لی اور اس کی نوک ابن صادق کے سینے پر رکھتے ہوئے کہا۔” میں نے تمہیں بہت تلاش کیا لیکن تم نہ ملے۔ آج قدرت خود ہی تمہیں یہاں لے آئی۔ تم امیر المومنین کے دوست ہو۔ انہیں تمہارے اس انجام سے صدمہ تو بہت ہوگا لیکن اسلام کا مستقبل مجھے خلیفہ کی خوشی سے زیادہ عزیز ہے۔ “ یہ کہہ کر نعیم نے تلوار اوپر اٹھائی۔ ابن صادق بید کی طرح کانپ رہا تھا۔ موت سر پر دیکھ کر اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ نعیم یہ حالت دیکھ کر تلوار نیچے کرلی اور کہا۔”اس تلوار سے میں نے سندھ اور ترکستان کے مغرور شہزادوں کی گردنیں اڑا چکا ہوں۔ میں اسے تم ایسے ذلیل اور بزدل انسان کے خون سے تر نہیں کروں گا۔ نعیم نے تلوار نیام میں ڈال لی اور کمرے میں کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی۔
    ایک فوجی افسر کی مداخلت نے اس سکوت کو توڑا۔ اس نے آتے ہی والی سپین کی خدمت میں ایک خط پیش کیا۔ والی سپین نے جلدی سے خط کھولا اور دو تین مرتبہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر پڑھنے کے بعد نعیم کی طرف دیکھا اور کہا:
    ”اگر آپ کا نام زبیر نہیں نعیم ہے تو اس خط میں آپ کے متعلق بھی کچھ ارشاد ہے۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے نعیم کی طرف خط بڑھا دیا۔ نعیم نے خط پڑھنا شروع کردیا۔
    یہ خط امیر المومنین عمرؒ بن عبد العزیز کی طرف سے تھا۔
    والی سپین نے تالی بجائی۔ چند سپاہی نمودار ہوئے۔
    ”اسے گرفتار کرلو!“ اس نے ابن صادق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
    ابن صادق کو وہم تک بھی نہیں تھا کہ اس کے مقدر کا ستارہ طلوع ہوتے ہی سیاہ بادلوں میں چھپ جائے گا۔
    ادھر نعیم جنوبی پرتگال کی طرف گورنر کی حیثیت سے جارہا تھا اور ادھر چند سپاہی ابن صادق کو پابہ زنجیر دمشق کی کی طرف لے جا رہے تھے ۔
    چند دنوں بعد نعیم کو معلوم ہواکہ ابن صادق نے دمشق پہنچنے سے پہلے راستے میں ہی زہر کھا کراپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا ہے۔

    آخری فرض


    نعیم نے عبد اللہ کو خط لکھ کر گھر کی خیریت دریافت کی۔ اس خط کا جواب دیر تک نہ آیا۔نعیم تنگ آگیا اور تین مہینے کی رخصت پر بصرہ کی طرف روانہ ہوا۔ چونکہ نرگس اس کے ہمراہ تھی اس لیے سفر میں دیر لگ گئی۔گھر پہنچ کر اسے معلوم ہوا کہ عبد اللہ خراسان جا چکا ہے اورعذرا کو بھی ساتھ لے گیاہے۔ نعیم خراسان جانا چاہتا تھا لیکن سپین کے شمال کی طرف اسلامی افواج کی پیش قدمی کی وجہ سے اپنا ارادہ ملتوی کرکے واپس آنا پڑا۔
    وقت دنوں سے مہینوںاورمہینوں سے برسوں میں تبدیل ہو کر گزرتا چلا گیا۔ نعیم کو جنوبی پرتگال کی گورنری پر فائر ہوئے اٹھارہ سال گزرچکے تھے۔ اس کی جوانی بڑھاپے میں تبدیل ہوچکی تھی۔ نرگس کی عمر بھی چالیس سے تجاویز کر چکی تھی لیکن اس کے حسیں چہرے کی جاذبیت میں کوئی نمایاں تبدیلی نہ آتی تھی۔
    عبد اللہ بن نعیم، ان کا بڑا بیٹا عمر کے پندرھویں برس میں قدم رکھتے ہی سپین کی فوج میں بھرتی ہو چکا تھا۔ تین سال کے اندر اندر اس نے اس قدر شہرت حاصل کرلی تھی کہ نرگس اور نعیم اپنے ہونہار لال پر بجا طور پر فخر کر سکتے تھے۔ دوسرا بیٹا حسین اپنے بڑے بھائی سے آٹھ سال چھوٹا تھا۔
    ایک دن حسین بن نعیم مکان کے صحن میں کھڑا لکڑی کے ایک تختے کو ہدف بنا کر تیر اندازی کی مشق کر رہا تھا۔ نرگس اورنعیم برآمدے میں کھڑے اپنے لخت جگر کو دیکھ رہے تھے ۔ حسین کے چند تیر نشانے پر نہ لگے۔ نعیم مسکراتا ہوا آگے بڑھا اور حسین کے پیچھے جا کر کھڑا ہوگیا۔ حسین نے تیر چڑھا کر باپ کی طرف دیکھا اور ہدف کا نشانہ لیا۔
    ”بیٹا! تمہارے ہاتھ کانپتے ہیں اورتم گردن ذرا بلند رکھتے ہو!“
    ”ابا! جب آپ میری طرح تھے۔ آپ کے ہاتھ نہیں کانپا کرتے تھے؟“
    ”بیٹا! جب میں تمہاری عمر میں تھا تو اڑتے ہوئے پرندوں کو گرالیا کرتا تھا اور جب میں تم سے چار سال بڑا تھا تو بصرہ کے لڑکوں میں سب سے اچھا تیر انداز مانا جاتا تھا۔“
    ”ابا جان! آپ نشانہ لگاکردیکھیں!“
    نعیم نے اس کے ہاتھ سے کمان لے کر تیر چلایا تو وہ ہدف کے عین درمیان میں جا کر لگا۔ اس کے بعد نعیم اسے نشانہ لگانے کا طریقہ سمجھانے لگا۔ نرگس بھی ان کے قریب آکھڑ ی ہوئی۔
    ایک نوجوان گھوڑا بھگاتا ہوا مکان کے پھاٹک پر آکر رکا۔ نوکر نے پھاٹک کھولا۔ سوار گھوڑا نوکر کے حوالے کر کے بھاگتا ہوا صحن کے اندرداخل ہوا۔
    نعیم نے ”عبد اللہ“ کہہ کر اپنے سینے سے لگالیا۔ نرگس اپنی نگاہ کی ہر جنبش میں ہزاروں دعائیں لیے آگے بڑھی۔ ”بیٹا! تم آگئے۔ الحمدللہ!“
    نعیم نے سوال کیا۔ ”کیا خبر لائے ہوبیٹا؟“
    ”اباجان! عبد اللہ بن نعیم نے سر جھکا کر غمگین سا چہرہ بناتے ہوئے کہا۔”کوئی اچھی خبر نہیں۔ فرانس کے معرکے میں ہمیں سخت نقصان اٹھا کر واپس ہونا پڑا۔ ہم سرحدی علاقے فتح کرنے کے بعد مزید پیشقدمی کی تیاری کر رہے تھے کہ ہمیں فرانس کی ایک لاکھ فوج کا سامنا کرنا پڑا۔ ہماری فوج اٹھارہ ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ہمارے سپہ سالار عقبہ نے قرطبہ سے مدد طلب کی لیکن وہاں سے خبر آئی کہ مراکش میں بغاوت ہوگئی ہے۔

    اس لیے فرانس کی طرف زیادہ فوجیں نہیں بھیجی جا سکتیں۔ ہمیں مجبوراً شاہ فرانس کے مقابلے میں صف آرا ہونا پڑا اور ہماری فوج کے نصف سے زیادہ سپاہی میدان میں کام آئے۔“
    ”اور اب عقبہ کہاں ہے؟“ نعیم نے سوال کیا۔
    ”وہ قرطبہ پہنچ چکاہے اورعنقریب مراکش کی طرف کوچ کرنے والا ہے۔ بغاوت کی آگکے شعلے مراکش سے تیونس تک بلند ہو رہے ہیں۔ بربریوں نے تمام مسلمان حکام قتل کردیے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ اس بغاوت میں خارجیوں اور رومیوں کا ہاتھ ہے۔“
    نعیم نے کہا۔”عقبہ ایک بہادر سپاہی ہے لیکن قابل سپہ سالار نہیں۔ میں نے والی سپین کو لکھا کہ مجھے فوج میں لیاجائے لیکن وہ مانتے نہیں۔“
    ”اچھا اباجان! مجھے اجازت دیجئے۔“
    ”اجازت! کہاں جاؤگے؟“ نرگس نے پوچھا۔
    ”امی جان! میں فقط آپ کواور اباجان کو دیکھنے کے لیے آیا تھا۔ مجھے فوج کے ساتھ مراکش جانا ہے۔“
    ”اچھا اللہ تمہاری حفاظت کرے!“ نعیم نے کہا۔
    ”اچھا امی خدا حافظ!“ یہ کہہ کر عبد اللہ نے حسین کو گلے لگایا اوروہ جس تیزی سے آیا تھا اسی طرح گھوڑا دوڑاتا ہوا واپس چلاگیا۔
    (۲)
    بربریوں کی بغاوت میں مسلمانوں کی ہزاروں جانیں تلف ہوئیں۔ انہوںنے مسلمان حکام کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد اپنی خود مختاری کا اعلان کردیا۔
    عقبہ مراکش کے ساحل پر اترا اور ۳۲۱ھ میں شام سے کچھ فوجیں اس کی اعانت کے لیے پہنچ گئیں۔ مراکش میں ایک گھمسان کا معرکہ ہوا۔ نیم عریاں بربریوں کی افواج چاروں طرف سے ایک سیلاب کی طرح نمودارہوئیں ۔ ہسپانیہ اور شام کی افواج نے ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن حریف کی لاتعداد فوج کے سامنے پیش نہ گئی۔عقبہ اس لڑائی میں شہید ہوا اورمسلمانوںمیں کھلبلی مچ گئی۔ بربریوں نے انہیں گھیر گھیر کر قتل کرنا شروع کردیا۔
    نعیم کا بیٹا عبد اللہ دشمن کی صفوں کو چیرتا ہوا بہت دور نکل گیا اور زخمی ہو کر اپنے گھوڑے سے گرنے کو تھا کہ ایک عربی جرنیل نے اس کی کمرمیں ہاتھ ڈال کر اپنے گھوڑے پر بٹھا لیا اور میدان جنگ سے باہر ایک محفوظ مقام پر پہنچا دیا۔
    ہسپانیہ اور شام کے لشکر کا قریباً تین چوتھائی حصہ قتل ہوچکا تھا۔ رہے سہے سپاہی ایک طرف سمٹنے لگے۔ بربریوں نے انہیں پسپا ہوتے دیکھ کر کئی میل تک تعاقب کیا۔ شکست خورد فوج نے الجزائر میں جا کر دم لیا۔
    والی سپین کو جب اس شکست کی خبر پہنچی تو اس نے ہسپانیہ کے تمام صوبوں سے نئی فوج فراہم کرنے کی کوشش کی اور اس نئے لشکر کی قیادت کے لیے نعیم کومنتخب کیا۔ نعیم کو اپنے بیٹے کے خط سے اسکے زخمی ہونے اور ایک مجاہد کے ایثار سے اس کی جان بچ جانے کا حال معلوم ہو چکا تھا۔ ۵۲۱ھ میں جب بربری تمام شمالی افریقہ میں مظالم برپا کر رہے تھے ، نعیم اچانک دس ہزار سپاہیوں کے ساتھ افریقہ کے ساحل پر اترا۔ بربری اس کی آمد سے بے خبرتھے۔نعیم انہیں شکست پرشکست دیتاہوا مشرق کی طرف بڑھا۔
    ادھرالجزائز سے شکست خوردہ افواج نے پیش قدمی کی اور بربریوں کی طرف سے سرکوبی ہونے لگی۔ ایک مہینے میں مراکش میں بغاوت کی آگ ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ لیکن افریقہ کے شمال مشرق میں ابھی یہ فتنہ کہیں کہیں جاگ رہاتھا۔ خارجیوں اور بربریوںنے مراکش شے پسپا ہو کر تیونس کو اپنا مرکز بنا لیا تھا۔ نعیم مراکش کے نظم و نسق میں مصروف تھا۔ اس لیے پیشقدمی نہ کر سکا ۔ اس نے فوج کے چیدہ چیدہ افسروں کواپنے خیمے میں اکٹھاکیا اور ایک پرجوش تقریر کرتے ہوئے کہا۔”تیونس پر حملہ کرنے کے لیے ایک سرفروش جرنیل کی ضرورت ہے۔ آپ میں سے کون ہے جو اس خدمت کا ذمہ لے گا!“

    جاری ہے
     
  2. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    عرفان صاحب۔ اتنی محنت سے ہماری اردو کے ادبی سیکشن کو خوبصورت و دلچسپ تحریروں سے مزین فرمانےکے لیے میں " خصوصی شکریہ " ادا کرتی ہوں۔ :222:
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    مجھے ابن صادق کے مرنے کی بہت خوشی ہوئی ۔
    خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کے دور میں کیا کچھ ہوا ۔ یہ جاننے کے لیے آئندہ قسطوں کا بےتابی سے انتظار ہے۔

    عرفان بھائی ۔ بہت شکریہ ۔ اور یہ پھول :222:
     
  4. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    بھائی عرفان صاحب۔
    دعا ہے کہ اردو ادب کی خدمت کی نیت سے آپکی محنت قبول ہو۔ اچھا سلسلہ ہے۔


    یہ بتائیے کہ کچھ جگہوں‌پر " امیر المومنین " کی بجائے " امیر الماؤمین " کیوں لکھا ہے ؟
     
  5. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    اسلام علیکم برادر جی
    یہ میری سب سے بڑی خامی ہے کہ میری املاء کمزور ہے
    دوسری بات یہ ہے کہ لکھتے وقت سپیڈ میں بعض اوقات لفظ آگے پیچھے ہو جاتا ہے اس لیے ایسا ہو جاتا ہے ورنہ میری کوشش ہوتی ہے کوئی بھی غلطی نہ
    شکریہ آپ نے املاء کی غلطیاں‌پکڑی
    آئیندہ کوشش کروں گا کہ کوئی غلطی نہ ملے
    آپ سب کی دعاؤں کا طالب
    محمد عرفان
     

اس صفحے کو مشتہر کریں