1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

داستان مجاہد 15

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عرفان پتوکی, ‏9 ستمبر 2009۔

  1. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    داستان مجاہد
    نسیم حجازی کا اسلامی تاریخی ناول​


    اژدہا شیروں کے نرغے میں​


    عبد اللہ جلدی سے پچھلے کمرے میں چلا گیا۔ یوسف نے کمرے کا دروازہ بند کرنے کے بعد اطمینان کا سانس لیا اور زیاد سے کہا۔”اسے اندر لے اؤ!“
    زیاد چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد ابن صادق داخل ہوا۔ ابن صادق نے کوئی رسمی گفتگو شروع کرنے کی بجائے آتے ہی کہا۔”آپ مجھے دیکھ کر بہت حیران ہوئے ہوں گے؟“
    یوسف نے اپنے ہونٹوںپر ایک معنی خیز تبسم لاتے ہوئے کہا۔ ”اس جگہ کیا، میں آپ کو ہر جگہ دیکھ کر حیران ہوتا ہوں۔ آپ تشریف رکھیں!“
    ”شکریہ۔“ ابن صادق نے چاروں طرف نظر دوڑا کر عقبی کمرے کے دروازے کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے ہوئے کہا۔” میں آج بہت مصروف ہوں۔ وہ آپ کے دوست کہاں ہیں؟“
    یوسف نے پریشان ہو کر کہا۔”کون سے دوست؟“
    ”آپ جانتے ہیں میں کون سے دوست کے متعلق پوچھ رہا ہوں؟“
    ”مجھے آپ کی طرح علم غیب نہیں ہے۔“
    ”میرا مطلب ہے کہ نعیم کا بھائی عبد اللہ کہا ںہے؟“
    ”نعیم کے متعلق معلومات مہیا کرتے ہوئے میں نے کئی سال گزار دیے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ مجھے اس کے ساتھ کس قدر دلچسپی ہے؟“
    یوسف نے ترش لہجے میں جواب دیا۔”یہ تو میں جانتاہوں لیکن میں یہ پوچھنے کی جرات کرسکتا ہوں کہ آپ کو عبد اللہ کے ساتھ کیا کام ہے؟“
    ابن صادق نے جواب دیا”آپ کو یہ بھی معلوم ہو جائے گا۔ پہلے آپ یہ بتائیں کہ وہ کہاں ہے؟“
    ”مجھے کیا معلوم۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ کو کسی کے ساتھ دلچسپی ہو تو میں بھی اس کی جاسوسی کرتا پھروں۔“
    ابن صادق نے کہا۔ ”جب دربار خلافت سے باہر نکلا تھا آپ اس کے ساتھ تھے، جب لشکر کی قیام گاہ میں پہنچا تو آپ اس کے ساتھ تھے۔ جب وہ واپس شہر کی طرف آیا تھا تو آپ اس کے ساتھ تھے۔ میرا خیال تھاکہ اب بھی وہ آپ کے ساتھ ہوگا!“
    ”وہ یہاں سے کھانا کھا کر چلا گیا ہے۔“
    ”کب؟“
    ”ابھی۔“
    ”کس طرف؟“
    ”غالباً لشکر کی قیام گاہ کی طرف۔“
    ”یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قید خانے کی طرف گیا ہو یااپنے بھائی کی بیوہ کو تسلی دینے کے لیے گیاہو۔“
    ”بھائی کی بیوہ؟ آپ کا مطلب ہے کہ ........؟“
    ابن صادق نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے جواب دیا”میرا مطلب ہے کہ وہ کل تک بیوہ ہو جائے گی۔ میں آپ کو امیر الماؤمنین کا یہ حکم سنانے آیا ہوں کہ محمدؒ بن قاسم کے تمام دوستوں کی اچھی طرح نگرانی کریں۔ کل ان کے متعلق حکم سنایا جائے گا اور میں اپنی طرف سے آپ کی خدمت میںعرض کرناچاہتا ہوں کہ اگر آپ اپنی جان عزیزرکھتے ہیں تو عبد اللہ کے ساتھ مل کر نعیم کی رہائی کی سازش نہ کریں!“

    ”آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ میں ایسی سازش کر سکتاہوں؟ “ یوسف نے غصے میں آکر کہا۔
    مجھ کو یقین تو نہیں لیکن شاید عبد اللہ کی دوستی کا پاس آپ کو مجبور کردے ۔ آپ نے قید خانے پر کتنے سپاہی مقرر کیے ہیں؟“
    یوسف نے جواب دیا۔”چالیس اورمیں خود بھی وہاں جارہاہوں!“
    ”اگر ہو سکے تو چند اور سپاہی مقرر کردیں کیونکہ وہ آخری وقت پر بھی فرار ہو جایاکرتاہے۔“
    ”آپ اس قدر گھبراتے کیوںہیں؟ وہ ایک معمولی آدمی ہے ۔ قید خانے پر اگر پانچ ہزار آدمی بھی حملہ کردیں تو بھی اسے چھڑا کر لے جانا محال ہے۔“
    ”میری فطرت مجھے آنے والے خطرات سے آگاہ کردیتی ہے۔ اچھا میں جاتاہوں۔ چند اورسپاہی بھی آپ کے پاس بھیج دوں گا ۔ آپ ان کو بھی نعیم کی کوٹھڑی پر متعین کردیں!“
    یوسف نے تسلی آمیز لہجے میں کہا۔”آپ مطمئن رہیں۔ نئے پہریداروں کی ضرورت نہیں۔ میں خود پہرہ دوں گا۔ آپ اتنے فکر مند کیوںہیں؟“
    ابن صادق نے جواب دیا۔”آپ کو شاید معلوم نہیں۔ اس کی رہائی دوسرے معنوں میں میری موت ہو گی۔ جب تک اس کی گردن پر جلاد کی تلوارنہیں پڑتی، مجھے چین نہیں آسکتا!“
    ابن صادق نے اپنا فقرہ ختم کیاہی تھاکہ عقبی کمرے کا دروازہ یکا یک کھلا اورعبد اللہ نے باہر نکلتے ہوئے کہا اور یہ بھی ہو سکتاہے کہ نعیم کی موت سے پہلے تم قبرکی آغوش میں سلا دیے جاؤ!“
    ابن صادق چونک کر پیچھے ہٹا اورچاہتا تھا کہ وہاں سے بھاگ نکلے لیکن یوسف نے آگے بڑھ کر راستہ روک لیا اور اپنا خنجر دکھاتے ہوئے کا:
    ”اب تم نہیں جا سکتے!“
    ابن صادق نے کہا ۔”تم جانتے ہو میں کون ہوں؟“
    ”ہم اتمہیں اچھی طرح جانتے ہیں اور اب تمہیں یہ جاننا ہوگاکہ ہم کون ہیں؟“ یہ کہہ کر یوسف نے تالی بجائی اور اس کا غلام زیاد بھاگتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔ وہ اپنے جسم کے طول و عرض اور شکل و شباہت کی ہیبت سے ایک کالا دیو معلوم ہوتا تھا۔ توند اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ چلتے وقت اس کا پیٹ اوپر نیچے اچھلتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ ناک نہایت لمبوتری اور موٹی تھی۔ نیچے کا ہونٹ اس قدر موٹا تھا کہ نچلے دانت مسوڑھوں تک نظر آتے تھے۔ اوپرکے دانت اوپر کے ہونٹ سے مقابلتاً لمبے تھے۔ آنکھیں چھوٹی لیکن چمکدار تھیں۔ اس نے ابن صادق کی طرف دیکھااور اپنے آقا کے حکم کا انتظار کرنے لگا۔
    یوسف نے ایک رسی لانے کا حکم دیا۔ زیادہ اسی طرح پیٹ کو اوپر نیچے اچھالتا ہوا باہر نکلا اور رسی کے علاوہ ایک کوڑا بھی لے آیا۔
    یوسف نے کہا۔”زیاد! اسے رسی سے جکڑ کر اس ستون کے ساتھ باندھ دو!“
    زیادہ پہلے سے زیادہ خوفناک شکل بنا کر آگے بڑھا اور اس نے ابن صادق کو بازاؤں سے پکڑ لیا۔ ابن صادق نے کچھ جدوجہد کی لیکن اپنے طاقت ور حریف کی گرفت میں بے بس ہو کر رہ گیا۔ زیاد نے اسے بازواؤں سے پکڑ کر اس قدر جھنجھوڑاکہ اس کے ہوش و حواس جاتے رہے۔ اس کے بعد نہایت اطمینان سے اس کے ہاتھ پاؤں باندھے اور ایک ستون کے ساتھ جکڑ دیا۔ عبد اللہ نے اپنی جیب سے رومال نکالا اور اس کے منہ پر کس کر باندھ دیا۔
    یوسف نے عبد اللہ کی طرف دیکھا اور اس سے سوال کیا۔”اب ہمیں کیاکرنا چاہیے؟“
    عبد اللہ نے جواب دیا۔ ”میںنے سب کچھ سوچ لیا ہے۔تم تیارہوجاؤ اورمیرے ساتھ چلو۔ تمہیں اس مکان کا پتہ ہے جہاں نعیم کی بیوی رہتی ہے؟“
    ”ہاں وہ نزدیک ہی ہے۔“
    ”بہت اچھا یوسف تم ایک لمبے سفر پر جارہے ہو۔ فوراً تیار ہوجاؤ!“
    یوسف لباس تبدیل کرنے میں مصروف ہوگیا اورعبد اللہ نے کاغذ اور قلم اٹھایا اور جلدی جلدی میں خط لکھ کر اپنی جیب میں ڈالا۔
    ”یہ خط آپ کس کے نام لکھ رہے ہیں؟“
    ”یہ بات اس ذلیل کتے کے سامنے بتانا قرین مصلحت نہیں۔ میں باہر نکل کر بتاؤں گا، آپ اپنے غلام سے کہہ دیں کہ میں جس طرح کہوں اس طرح کرے، اسے میں آج صبح اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔“
    اور اس کا کیاہوگا؟“ یوسف نے ابن صادق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
    عبد اللہ نے جواب دیا۔”تم اس کی فکر نہ کرو۔ زیاد کو کہہ دو کہ جب تک میں واپس نہ اؤں، اس کی حفاظت کرے.... اور آپ کے ہاں لکڑی کا کوئی بڑا صندوق ہے جو اس خطرناک چوہے کے لیے پنجرے کا کام دے سکے ؟“
    یوسف عبداللہ کا مقصد سمجھ کر مسکرایا۔ اس نے کہا۔”ہاں ایک بڑا صندوق دوسرے کمرے میں پڑاہے۔ جو اس کے لیے اچھے خاصے پنجرے کا کام دے سکے گا۔ آئیے میں آپ کو دکھاتا ہوں۔“
    یہ کہہ کر یوسف عبد اللہ کو اپنے ساتھ دوسرے کمرے میں لے گیا اورلکڑی کے ایک صندوق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔”میرے خیال میں یہ آپ کی ضرورت کو پورا کر سکے گا!“
    ”ہاں، یہ بہت اچھا ہے۔ اسے فوراً خالی کرو!“ یوسف نے ڈھکنا اوپر اٹھایا اور صندوق کو اٹھا کر تمام سامان فرش پر ڈھیرکردیا۔ عبد اللہ نے صندوق کے ڈھکنے میں چاقو سے دو تین سوراخ کردیے اور کہا۔”بس اب ٹھیک ہے۔ زیادہ سے کہو کہ اسے اٹھاکر دوسرے کمرے میں لے جائے۔“
    یوسف نے زیاد کو حکم دیااور وہ صندوق اٹھا کر دوسرے کمرے میں لے گیا۔
    عبد اللہ نے کہا۔ ”اب تم زیاد سے کہو کہ اسکی پوری پوری نگرانی کرے اور اگر یہ آزاد ہونے کی کوشش کرے تو فوراً اس کا گلا گھونٹ دے ۔“
    یوسف نے زیا د کی طرف دیکھا اور کہا ۔”زیاد! تم سمجھتے ہو تمہیں کیا کرنا ہے؟“
    زیادنے اثبات میں سر ہلا دیا۔
    ”ان کا حکم بالکل میرا حکم سمجھنا!“
    زیاد نے پھر اسی طرح سر ہلادیا۔
    عبد اللہ نے کہا۔”چلو اب دیر ہو رہی ہے۔“
    یوسف اور عبداللہ کمرے سے باہر نکلنے کو تھے کہ یوسف کچھ سوچ کر رک گیا اور بولا۔”شاید میں اس شخص سے دوبارہ نہ ملوں۔ مجھے اس سے کچھ کہنا ہے۔“
    عبد اللہ نے کہا۔”اب ایسی باتوں کا وقت نہیں۔“
    ”کوئی لمبی بات نہیں۔ ”یوسف نے کہا ۔”ڈرا ٹھہریے!“
    یہ کہہ کر یوسف، ابن صادق کی طرف متوجہ ہوا۔”میں آپ کا مقروض ہوں اور اب چاہتا ہوں کہ آپ کاتھوڑا بہت قرضہ اداکردوں۔ دیکھیے، آپ نے محمدؒ بن قاسم کے منہ پرتھوکا تھا، اس لیے میں آپ کے منہ پر تھوکتا ہوں۔“ یہ کہہ کر اس نے ابن صادق کے منہ پر تھوک دیا۔
    آپ نے اس کے ہاتھ پر چھڑی بھی ماری تھی، اس لیے لیجئے۔“ یو سف نے اسے ایک کوڑا رسید کرتے ہوئے کہا۔”آپ کویاد ہے کہ آپ نے نعیم کے منہ پر تھپڑ بھی مارا تھا، یہ اس کا جواب ہے۔“یوسف نے یہ کہہ کر زور سے ایک تھپڑ رسید کیا۔”اور آپ نے نعیم بال بھی نوچے تھے۔“ یوسف نے اس کی ڈاڑھی کو زور زور سے جھٹکے دیتے ہوئے کہا۔
    ”یوسف بچے نہ بنو۔“ جلدی کرو!“عبد اللہ نے واپس مڑ کر اسے بازو سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے کہا۔
    ”اچھا۔ باقی پھر سہی۔ زیاد ! اس کا اچھی طرح خیال رکھنا!“
    زیاد نے پھر اسی طرح سر ہلایا اویوسف عبد اللہ کے ساتھ باہرنکل گیا۔“
    (۳)
    راستے میں یوسف نے پوچھا۔ ”آپ نے کیا تجویز سوچی ہے؟“
    عبد اللہ نے کہا۔”سنو! تم مجھے نعیم کی بیوی کے مکان پر چھوڑ کر قید خانے کی طرف جاؤ اور نعیم کو وہاں سے نکال کر اپنے گھر لے جاؤ۔ وہاں سے نکالنے میں کوئی دقت تو نہیں ہوگی؟“
    ”کوئی دقت نہیں۔“
    ”اچھا، تم نے بتایا تھا کہ تمہارے پاس دو بہترین گھوڑے ہیں۔ میرا گھوڑا فوجی اصطبل میں ہے۔ تم ایک اور گھوڑے کا انتظام نہیں کر سکتے؟“
    ”انتظام تو دس گھوڑوں کا بھی ہو سکتا ہے لیکن نعیم کے اپنے تین گھوڑے بھی تو اس کے گھر میں موجود ہیں۔“
    ”اچھا تم نعیم کو نکال کر اپنے گھر لے اؤ۔ میں اتنی دیرمیں اس کی بیوی کے ساتھ شہر کے مغربی دروازے کے باہر تمہارا انتظار کروںگا۔ تم دونوں گھر سے سوار ہور کر وہاں پہنچ جاؤ!“
    عبد اللہ نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہو خط جیب سے نکال کر یوسف کو دیتے ہوئے کہا:
    ”تم یہاں سے سیدھے قیروان جاؤ گے ۔ وہاں کا سالار اعلیٰ میرادوست ہے اور نعیم کا ہم مکتب بھی رہ چکاہے۔ وہ تمہیں سپین تک پہنچانے کا بندوبست کردے گا۔ سپین پہنچ کر طیطلہ کے امیر عساکر ابوعبید کو یہ خط دینا۔ وہ تمہیں فوج میں بھرتی کرلے گا۔ وہ میرا نہایت مخلص دوست ہے، آپ کی پوری پوری حفاظت کرے گا۔ اسے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ نعیم میرا بھائی ہے۔میں نے لکھ دیا ہے کہ آپ دونوں میرے دوست ہیں۔ کسی اور کو اپنے حالات سے آگاہ نہ کرنا۔ میں قسطنطنیہ سے آکر امیر الماؤمنین کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کروںگا۔“
    یوسف نے خط لے کرجیب میں رکھ لیااور ایک خوبصورت مکان کے دروازے پر پہنچ کربتایا کہ نعیم کی بیوی اس جگہ رہتی ہے۔“
    عبد اللہ نے کہا۔”اچھا، تم جاؤ اور اپنا کام ہوشیاری سے کرنا!“
    ”بہت اچھا۔خدا حافظ!“
    ”خدا حافظ!“
    یوسف کے چند قدم دور چلے جانے کے بعد عبد اللہ نے مکان کے دروازے پر دستک دی۔ برمک نے اندر سے دروازہ کھولا اور عبد اللہ کو نعیم سمجھتے ہوئے خوشی سے اچھل کر تاتاری زبان میں کہا۔”آپ آگئے؟ نرگس! نرگس! ! بیٹا وہ آگئے!“
    عبد اللہ شروع شروع میں کچھ عرصہ ترکستان میں گزار چکا تھا۔ اس نے برمک کاسمجھ کر کہا۔”میں اس کی بھائی ہوں۔“
    اتنے میں نرگس بھاگتی ہوئی آئی۔ ”کون آگئے!“ اس نے آتے پوچھا۔
    ”یہ نعیم کے بھائی ہیں۔“ برمک نے جواب دیا۔

    ”میں سمجھی تھی وہ....!“ نرگس کا اچھلتا ہوا دل میں بیٹھ گیا اور وہ آگے کچھ نہ کہہ سکی۔
    ”بہن! میں نعیم کا پیغام لے کر آیا ہوں۔“ عبد اللہ نے مکان کے صحن میں داخل ہوکر دروازہ بند کرتے ہوئے کہا۔
    ”ان کا پیغام؟ آپ ان سے مل کرآئے ہیں؟ وہ کیسے ہیں؟ بتائیے! بتائیے!!“
    نرگس نے آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے کہا۔
    ”تم میرے ساتھ چلنے کے لیے فوراً تیار ہوجاؤ!“
    ”کہاں؟“
    ”نعیم سے ملنے کے لیے !“
    ”وہ کہاں ہیں؟“
    ”وہ آپ کو شہر سے باہر ملیں گے۔“
    نرگس نے مشکوک نگاہوں سے عبد اللہ کو دیکھا اور کہا۔”آپ تو سپین میں تھے!“
    عبد اللہ نے کہا ۔”میں وہیں سے آیا ہوںاور آج مجھے معلوم ہے کہ وہ قید میں پڑا ہوا ہے۔ میںنے اسے قید سے نکالنے کا انتظام کیا ہے۔ آپ جلدی کریں!“
    برمک نے کہا۔“ چلیے آپ کمرے میں چلیں، یہاں اندھیرا ہے۔“
    برمک، نرگس اور عبد اللہ مکان کے ایک روشن کمرے میں پہنچے۔ نرگس نے عبد اللہ کو شمع کی روشنی میں غور سے دیکھا۔ نعیم کے ساتھ اس کی غیر معمولی مشابہت دیکھ کر اسے بہت حد تک اطمینان ہوگیا۔
    ”ہم پیدل جائیں گے؟“ اس نے عبد اللہ سے سوال کیا۔
    ”نہیں گھوڑوں پر۔“ یہ کہہ کہ عبد اللہ نے برمک کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ ”گھوڑے کہاں ہیں؟“
    اس نے جواب دیا۔”وہ سامنے اصطبل میں ہیں۔“
    ”چلو ہم گھوڑے تیار کریں۔“
    عبداللہ اور برمک نے اصطبل میں پہنچ کر گھوڑوں پر زینیں ڈالیں۔ اتنے میں نرگس تیار ہو کر آگئی۔ عبد اللہ نے اسے ایک گھوڑے پر سوار کرایا اور باقی دوگھوڑوں پر وہ اور برمک سوار ہو گئے۔ شہر کے دروازے پر پہریداروں نے روکا۔ عبد اللہ نے انہیںبتایا کہ وہ صبح کے وقت قسطنطنیہ جانے والی فوج کے ساتھ شامل ہونے کے لیے لشکر کی قیام گاہ کی طرف جا رہاہے اور ثبو ت میں خلیفہ کا حکم نامہ پیش کیا۔ پہریداروں نے ادب سے جھک کر سلام کیا اور دروازہ کھول دیا۔ دروازے سے چند قدم آگے چل کر یہ تینوں گھوڑوں سے اتر ے اور درختوں کے سائے میں کھڑے ہوکر یوسف اور نعیم کا انتظار کرنے لگے۔
    ”وہ کب آئیں گے؟“ نرگس بار بار بے چین ہو کر پوچھتی۔
    عبد اللہ ہر بار شفقت آمیزلہجے میں جواب دیتا۔”بس وہ آہی رہے ہوںگے!“
    انہیں انتظار میں تھوڑا عرصہ گزرا تھا کہ دروازے کی طرف سے گھوڑوں کی ٹاپ سنائی دی۔ ”وہ آرہے ہیں!“ عبد اللہ نے آہٹ پا کر کہا۔
    سواروں کے آنے پر عبداللہ اور نرگس درختوں کے سائے سے نکل کرسڑک پر کھڑے ہوگئے۔
    نعیم قریب پہنچ کر گھوڑے سے اترا اوربھائی سے لپٹ گیا۔
    عبد اللہ نے کہا۔ ”اب دیر نہ کرو۔ صبح ہونے والی ہے۔ قیروان پہنچنے سے پہلے دم نہ لینا۔ برمک میرے ساتھ چلے گا!“
    جاری ہے
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ عرفان بھائی ۔

    عبداللہ کو فرشتہ بنا کر مظلوموں‌اور معصوموں کی جان بچانے کے لیے انتظام کر دیا گیا۔
     
  3. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    بھائی عرفان صاحب ۔ داستان خوب ہے۔ اللہ محنت قبول کرے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں