1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

داستان مجاہد 14

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عرفان پتوکی, ‏8 ستمبر 2009۔

  1. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    داستان مجاہد
    نسیم حجازی کے قلم سے لازوال اسلامی تاریخی ناول



    اژدہا شیروں کے نرغے میں



    سلیمان مسند خلافت پر رونق افروز تھا۔ اس کے چہرے پر تفکرات کے گہرے اثرات تھے ۔ اس نے ابن صادق کی طرف دیکھا اور کہا ۔” ابھی تک ترکستان سے کوئی خبر نہیں آئی؟“
    ”امیر الماؤمنین! بے فکر رہیں۔ انشاءاللہ ترکستان سے پہلی خبر کے ساتھ قتیبہ کا سر بھی آپ کے سامنے پیش کیاجائے گا۔“
    ”دیکھیں! سلیمان نے ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
    کچھ دیر بعد ایک دربان نے حاضر ہوکر عرض کیا کہ ”سپین سے ایک سالار عبد اللہ نامی حاضر ہواہے۔“
    ”ہاں اسے لے اؤ! ”خلیفہ نے حکم دیا۔
    دربان چلا گیا اور عبداللہ حاضر ہوا۔
    خلیفہ نے ذرا اوپر اٹھتے ہوئے دایاں ہاتھ آگے بڑھایا۔ عبد اللہ آگے بڑھا اور خلیفہ سے مصافحہ کرکے ادب سے کھڑا ہوگیا۔
    ”تمہارا نام عبد اللہ ہے؟“
    ”ہاں! امیر الماؤمنین!“
    ”میںنے سپین میں تمہارے معرکوں کی تعریف سنی ہے۔ تم تجربہ کار نوجوان معلوم ہوتے ہو، سپین کی فوج میں کب بھرتی ہوئے تھے ؟“
    ”امیر الماؤمنین! میں طارق کے ساتھ سپین کے ساحل پر پہنچا تھا اور اس کے بعد وہیں رہا۔“
    ”خوب! طارقؒ کے متعلق تمہارا کیاخیال ہے؟“
    ”امیر الماؤمنین۔ وہ صحیح معنوں میں ایک مجاہد ہے۔“
    ”اور موسےٰ کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟“
    ”امیر الماؤمنین! ایک سپاہی دوسرے سپاہی کے متعلق بری رائے نہیں دے سکتا۔ میں بذات خود موسےٰ کا مداح ہوں اور اسکے متعلق کوئی برا لفظ منہ سے نکالنا گناہ سمجھتاہوں۔“
    ”ابن ؒقاسم کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟“
    ”امیر الماؤمنین! میں اس کے متعلق اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ وہ ایک بہادر سپاہی تھا۔“
    ”تم یہ جانتے ہو کہ میں ان لوگوں سے کس قدرمتنفر ہوں؟“ سلیمان نے کہا۔
    ”امیر الماؤمنین! میں آپ کااحترام کرتاہوں لیکن میں منافق نہیں ہوں۔ آپ نے میری ذاتی رائے دریافت کی تھی، وہ میں نے بیان کردی۔“
    ”میں تمہاری اس بات کی قدرکرتاہوں اور چونکہ تم نے میرے خلاف کس سازش میں حصہ نہیں لیا۔ میں تم پر اعتماد کرتاہوں۔“
    امیرالماؤمنین مجھے اس اعتماد کے قابل پائیں گے ۔“
    ”بہت اچھا ۔ ہمیں قسطنطنیہ کی مہم کے لیے ایک تجربہ کار جرنیل کی ضرور ت تھی۔ وہاں ہماری فوجوں کو کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ تمہیں سپین سے اسی لیے بلایا گیاہے کہ تم بہت جلد یہاں سے پانچ ہزار سپاہی لے کر قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوجاؤ!“
    سلیمان نے ایک نقشہ اٹھا کر کھولا اور عبد اللہ کو اپنے قریب بلا کر قسطنطنیہ پر حملے کے مختلف طریقوں پر ایک لمبی چوڑی بحث شروع کردی۔
    دربان نے آکر ایک خط پیش کیا۔
    سلیمان نے جلدی سے خط کھول کر پڑھا اور ابن صادق کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا:
    ”قتیبہ قتل ہوچکا ہے اور چند دن تک اس کا سریہاں پہنچ جائے گا۔“
    ”مبارک ہو!“ ابن صادق نے خلیفہ کے ہاتھ سے خط لے کر پڑھتے ہوئے کہا۔”اورآپ نے اس نوجوان کے متعلق کیا سوچا؟“
    ”کون سا نوجوان؟“
    ”وہی جو قتیبہ کی طرف سے پچھلے دنوں یہا ں آیا تھا۔ بہت خطرناک آدمی معلوم ہوتا ہے۔ “
    ”ہاں اس کے متعلق بھی ہم عنقریب فیصلہ کریںگے۔“
    خلیفہ پھرعبد اللہ کی طرف متوجہ ہوا۔
    ”تمہاری تجاویز مجھے کامیاب نظر آتی ہیں۔ تم فوراً روانہ ہو جاؤ!“
    ”میں کل ہی روانہ ہو جاؤں گا۔“ عبد اللہ سلام کرکے باہر نکل گیا۔
    (۲)
    عبد اللہ دربار خلافت سے نکل کر زیادہ دور نہیں گیا تھاکہ پیچھے سے کسی نے اس کے کندھے پرہاتھ رکھ کر ٹھہرالیا۔ عبد اللہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک خوش وضع نوجوان اس کی طرف دیکھ کر مسکرارہا تھا۔ عبد اللہ نے اسے گلے لگا لیا۔
    ”یوسف! تم یہاں کیسے؟ تم سپین سے ایسے غائب ہوئے کہ پھر تمہاری شکل تک دکھائی نہ دی۔“
    ”مجھے یہاں کوتوال کا عہدہ دیا گیاہے۔ آج تمہیں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ عبد اللہ تم پہلے آدمی ہو جس کی بیباکی پر خلیفہ خفا نہیں ہوا۔“
    ”یہ اس لیے کہ اسے میری ضرورت تھی!“ عبد اللہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔”تم وہیں تھے؟“
    ”میں ایک طرف کھڑاتھا لیکن تم نے دھیان نہیں دیا۔“
    ”تم صبح جا رہے ہو؟“
    تم نے سن ہی لیا ہوگا؟“
    ”آج را ت تومیرے پاس ٹھہروگے نا؟“
    ”مجھے تمہارے پاس ٹھہرتے ہوئے بہت خوشی ہوتی لیکن علی الصباح لشکر کو کوچ کی تیاری کا حکم دینا ہے اس لیے میرا مستقر میں ٹھہرنا زیادہ مناسب ہوگا!“
    عبد اللہ چلو اپنی فوج کو تیاری کا حکم دے اؤ۔ میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ ہم تھوڑی دیر میں واپس آجائیں گے ۔ اتنی دیر کے بعد ملے ہیں۔ باتیں کریں گے؟“
    ”اچھا چلو!“
    عبد اللہ اور یوسف باتیں کرتے ہوئے لشکر کی قیام گاہ میں داخل ہوئے۔ عبد اللہ نے امیر لشکر کو خلیفہ کا حکم نامہ دیا اور پانچ ہزار سپاہیوں کو علی الصباح کوچ کے لیے تیار رہنے کی ہدایت دی اور یوسف کے ساتھ واپس شہر میں چلا آیا۔
    رات کے وقت یوسف کے مکان پر عبد اللہ اور یوسف کھانا کھانے کے بعد باتوں میں مشغول تھے ۔
    وہ قتیبہ بن مسلم باہلی کی فتوحات کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کے حسرتناک انجام پر اظہار افسوس کررہے تھے ۔
    عبد اللہ نے سوال کیا۔ ”وہ شخص کون تھا جس نے امیر الماؤمنین کو قتیبہ کے قتل کی خبر آنے پر مبارکباد دی تھی؟“
    یوسف نے جواب دیا ”وہ تمام دمشق کے لیے ایک معما ہے۔ میں اس کے متعلق اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ اس کا نام ابن صادق ہے اورخلیفہ ولید نے اس کے سر کی قیمت ایک ہزار اشرفی مقرر کی تھی، خلیفہ کی وفات کے بعد یہ کسی گوشہ سے باہر نکل کر سلیمان کے پاس پہنچا۔ نئے خلیفہ نے اس کا بے حد احترام کیااور اب یہ حالت ہے کہ خلیفہ اس سے زیادہ کسی کی نہیں سنتا۔“
    عبد اللہ نے کہا۔ ”مدت ہوئی میں نے اس کے متعلق کچھ سنا تھا۔ دربارخلافت میں اس کا اقتدار تمام مسلمانوں کے لیے خطرے کا باعث ہوگا۔ موجودہ حالات یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ہمارے لیے بہت برا وقت آرہا ہے۔“
    یوسف نے کہا۔ ”میںنے اس سے زیادہ سنگ دل اور کمینہ انسان آج تک نہیں دیکھا۔محمدؒ بن قاسم کے المناک انجام پر کوئی شخص ایسا نہ تھا جس نے آنسو نہ بہائے ہوں۔ خود سلیمان نے اس قدر سخت دل ہونے کے باوجودکسی سے کئی دن بات نہ کی۔ لیکن یہ شخص تھا جو اس دن بے حد بشاش تھا۔ اگر میرے بس میں ہو تو اسے کتوں سے نوچوا ڈالوں۔ یہ شخص جس کی طرف انگلی اٹھاتا ہے، خلیفہ اسے جلاد کے سپرد کردیتے ہیں۔ قتیبہ کوقتل کرنے کا مشورہ اسی نے دیا تھا اور آج تم نے سنا، یہ شخص خلیفہ کو ایک قیدی یاد دلا رہا تھا!“
    ”ہاں ۔ وہ کون ہے؟“
    ”وہ قتیبہ کا ایک نوجوان جرنیل ہے۔ جب اس شخص کا خیال آتا ہے ، میرے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مجھے اس کا انجام محمدؒ بن قاسم سے زیادہ المناک نظر آتا ہے۔ عبد اللہ میرا جی چاہتا ہے کہ نوکری چھوڑ کر پھر فوج میں شامل ہوجاؤں۔ میرا ضمیر مجھے ہر وقت کوستا رہتاہے۔ محمدؒ بن قاسم پر عرب کے تمام بچے اوربوڑھے فخر کرتے تھے لیکن اس کے ساتھ وہ سلوک کیا گیاجو بدترین مجرم کے ساتھ بھی نہیں کیاجاتا۔جب اسے واسط کے قید خانہ میں بھیجا گیا تو مجھے بھی اس کی نگرانی کے لیے وہاں پہنچنے کا حکم ہوا۔ واسط کا حاکم صالح پہلے ہی اس کے خون کا پیاسا تھا۔ اس نے محمدؒ بن قاسم کو سخت اذیتیں دیں۔ چند دن بعد ابن صادق بھی وہاں پہنچ گیا۔ یہ شخص ہر روز محمدؒ بن قاسم کا دل دکھانے کے لیے کوئی نہ کوئی طریقہ سوچتا۔ مجھے وہ وقت نہیں بھولتا جب محمدؒ بن قاسم قتل سے ایک دن پہلے قید خانے کی کوٹھڑی میں ٹہل رہا تھا، میں لوہے کی سلاخوں سے باہر کھڑا اس کی ہرحرکت کا معائنہ کر رہا تھا، اس کے خوبصورت چہرے کی متانت دیکھ کر میرا دل چاہتا تھا کہ اندر جا کر اس کے پاؤں چوم لوں۔ رات کے وقت مجھے سخت نگرانی کا حکم تھا۔ میںنے اس کی اندھیری کوٹھڑی میں شمع جلادی۔عشاءکی نماز ادا کرنے کے بعد اس نے آہستہ آہستہ ٹہلنا شروع کردیا۔ رات گزر چکی تھی۔ یہ ذلیل کتا ابن صادق قید خانے کے پھاٹک پر آکر چلانے لگا۔ پہرے دار نے دروازہ کھولا اورابن صادق نے میرے پاس آکر کہا”میں محمد بن قاسم سے ملنا چاہتاہوں!“
    میں نے جواب دیا۔”صالح کا حکم ہے کہ کسی کو بھی اس سے ملاقات کی اجازت نہ دی جائے۔“
    اس نے جوش میں آکر کہا ”تم جانتے ہو میں کون ہوں؟“
    میں قدرے گھبرا گیا۔ اس نے لہجہ بدل کر مجھے تسلی دیتے ہوئے کہاکہ صالح تمہیں کچھ نہیں کہے گا۔ میں نے مجبورا محمدؒ بن قاسم کی کوٹھڑی کی طرف اشارہ کیا۔ ابن صادق آگے بڑھ کر دروازہ کی سلاخوں میں سے اسے جھانکنے لگا۔ محمدؒ بن قاسم اپنے خیالات میں محو تھا۔ اس نے اس کی طرف توجہ نہ کی۔ ابن صادق نے حقارت آمیز لہجے میں کہا:
    ”حجاج کے لاڈلے بیٹے! تمہارا کیا حال ہے؟“

    محمدؒ بن قاسم نے چونک کر اس کی طرف دیکھا لیکن کوئی با ت نہ کی۔
    ”مجھے پہچانتے ہو؟“ ابن صادق نے دوبارہ سوال کیا۔
    محمدؒ بن قاسم نے کہا۔ ”مجھے یاد نہیں آپ کون ہیں۔“
    اس نے کہا۔”دیکھا تم بھول گئے لیکن میں تمہیں نہیں بھولا!“
    محمدؒ بن قاسم نے آگے بڑھ کر دروازہ کی سلاخوں کو پکڑتے ہوئے ابن صادق کی طرف غورسے دیکھنے کے بعد کہا۔ ”شاید میں نے کہیںآپ کو دیکھا ہے لیکن یاد نہیں۔“
    ابن صادق نے بغیر کچھ کہے اپنی چھڑی اس کے ہاتھ پر دے ماری اور اس کے منہ پر تھوک دیا۔
    میں حیرا ن تھا کہ اس کے چہرے پر غصے کے آثار تک پیدانہ ہوئے۔ اس نے اپنی قمیص کے دامن سے اپنے چہرے کو پونچھتے ہوئے کہا۔” بوڑھے آدمی! میں نے تمہاری عمر کے کسی آدمی کو کبھی تکلیف نہیں دی۔ اگر میں نے لا علمی میں تمہیں کوئی دکھ پہنچایا ہو تو میں خوشی سے تمہیں ایک بار اور تھوکنے کی اجازت دیتا ہوں۔“
    میں سچ کہتاہوں کہ اس وقت محمدؒ بن قاسم کے سامنے اگر پتھر بھی ہوتا تو پگھل کر رہ جاتا۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں ابن صادق کی داڑھی نوچ لوں۔ لیکن شاید یہ دربار خلافت کا احترام تھا یا میری بزدلی کہ میں کچھ نہ کر سکا۔ اس کے بعد ابن صادق گالیاں بکتا ہوا واپس چلاآیا۔ آدھی رات کے قریب میں نے قید خانے کا چکر لگاتے ہوئے دیکھا کہ وہ دوزانو بیٹھا ہاتھ اٹھا کر دعا کر رہا ہے۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں قفل کھول کر کوٹھڑی کے اندر داخل ہوا۔ اس نے دعا ختم کر کے میری طرف دیکھا۔
    ”اٹھیے!“ میں نے کہا۔
    ”کیوں؟“ اس نے حیران ہو کر سوال کیا۔
    میں نے کہا”میں اس گناہ میں حصہ نہیں لینا چاہتا۔ میں آپ کی جان بچاناچاہتاہوں۔“
    اس نے بیٹھے بیٹھے ہاتھ بڑھا کر میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ مجھے اپنے قریب بٹھا لیا اور کہا۔”اول تومجھے اس بات کا یقین نہیں کہ امیر الماؤمنین میرے قتل کا حکم صادر فرمائیں گے۔ اگر یہ ہوا بھی توتمہارا کیا خیا ل ہے کہ میں اپنی جان بچانے کے لیے تمہاری جان خطرے میں ڈال دوں گا؟“
    میں نے کہا۔”میری جان خطرے میں نہیں پڑے گی۔ میں بھی آپ کے ساتھ جاؤں گا۔ میرے پاس دو نہایت تیز رفتار گھوڑے ہیں۔ ہم بہت جلد یہاں سے دور نکل جائیں گے ۔ ہم کوفہ اور بصرہ کے لوگوں کی پناہ لیں گے۔ وہ لوگ آپ کے لیے خون آخری قطرہ تک بہانے کے لیے تیار ہیں۔ اسلامی دنیا کے تمام بڑے بڑے شہرآپ کی آواز پر لبیک کہیں گے۔“
    اس نے مسکر ا کر میری طرف دیکھا اور کہا۔”تمہارا کیا خیال ہے کہ میں بغاوت کی آگ پھیلا کر مسلمانوں کی تباہی کا تماشہ دیکھوںگا؟ نہیں یہ نہیں ہوگا۔ میں اسے ایک بزدلی خیال کرتاہوں۔ بہادروں کوبہادروں کی موت مرناچاہیے۔ میں اپنی جان کی حفاظت کے لیے ہزاروں مسلمانوں کی جانیں خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔ تم یہ چاہتے ہو کہ دنیا محمدؒ بن قاسم کو ایک مجاہد کے نام سے یاد کرنے کی بجائے ایک باغی کہے؟“
    میں نے کہا۔”لیکن مسلمانوں کو آپ جیسے بہادر سپاہیوں کی ضرورت ہے۔“
    اس کہا۔”مسلمانوں میں میرے جیسے سپاہیوں کی کمی نہیں۔ اسلام کو تھوڑابہت سمجھنے وال شخص بھی ایک بہترین سپاہی کے اوصاف پیدا کر سکتا ہے۔“
    میرے پاس اور الفاظ نہیں تھے ۔ میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔”معاف کیجئے۔ آپ میرے خیال سے بہت بلند نکلے۔ اس نے اٹھ کر میرے ساتھ ہاتھ ملایا اورکہا۔”دربارخلافت مسلمانوں کی طاقت کا مرکز ہے۔ اس سے بے وفائی کا خیال کبھی اپنے دل میں نہ لانا۔“
    یوسف نے بات ختم کی۔ عبد اللہ نے اس کی اشک آلو آنکھوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ”وہ ایک ہونہار مجاہد تھا۔“
    یوسف نے کہا۔” اب میرے لیے ایک اور بات سوہان روح بنی ہوئی ہے۔ میں ابھی آپ سے قتیبہ بن مسلم باہلی کے ایک جرنیل کا تذکرہ کر رہا تھا۔ اس کی شکل و صورت آپ سے ملتی جلتی ہے۔ قد ذرا آپ سے لمبا ہے۔ مجھے اس کے ساتھ بہت انس ہو گیا ہے اور خدا نہ کرے اگر اس کا انجام بھی وہی ہوا تو میں بغاوت کا علم بلند کردوں گا۔ اس بے چارے کا بس اتنا قصور ہے کہ اس نے محمدؒ بن قاسم اور قتیبہؒ کے متعلق چند اچھے الفاظ کہہ دیے۔ اب ابن صادق ہر روز قید خانے میںجا کر اس کا دل دکھاتاہے۔ میں محسوس کرتاہوں کہ اسے ابن صادق کی باتوں سے بے حد تکلیف ہوتی ہے، اس نے مجھ سے کئی بار پوچھا ہے کہ اسے کب آزاد کیاجائے گا۔ مجھے ڈر ہے کہ ابن صادق کے اصرار سے خلیفہ اسے آزاد کرنے کی بجائے قتل کرڈالے گا۔محمدؒبن قاسم کے چند اور دوست بھی قید ہیں لیکن جو سلوک اس کے ساتھ کیاجاتا ہے، شرمناک ہے۔ اس کی تاتاری بیوی بھی اس کے ساتھ آئی ہے اور وہ اپنے ایک رشتہ دار کے ساتھ شہر میں رہتی ہے۔ اس نے چند روز ہوئے مجھے اپنی بیوی کا پتہ دیا تھا۔ اس کا نام شاید نرگس ہے۔ میری خالہ کا مکان اس کے مکان کے قریب ہی ہے۔ خالہ کو اس کے ساتھ بہت انس ہوگیا ہے۔ وہ سارا دن وہاں رہتی ہے اور مجھے مجبور کرتی ہے کہ میں اس کے شوہر کو بچانے کی کوئی صورت نکالوں۔ میں حیران ہوں کہ کیاکروں اور کس طرح اس کی جان بچاؤں؟“
    عبد اللہ ایک گہری سوچ میں ڈوبا یوسف کی باتیں سن رہا تھا۔ اس کے دل میں طرح طرح کے خیالات پیدا ہو رہے تھے ۔ اس نے یوسف سے سوال کیا۔ اس کی شکل مجھ سے ملتی جلتی ہے؟“
    ”ہاں، لیکن وہ آپ سے ذرا لمبا ہے۔“
    ”اس کا نام نعیم تو نہیں؟“ عبد اللہ نے مغموم لہجے میں پوچھا۔
    ”ہاں نعیم! آپ اسے جانتے ہیں؟“
    ”وہ میراچھوٹا بھائی ہے۔ میرا چھوٹا بھائی۔“
    ”اف! مجھے یہ معلوم نہ تھا۔“
    عبد اللہ نے ایک لمحے کی خاموشی کے بعد کہا۔ ”اگر اس کا نام نعیم ہے اور اس کی پیشانی میری پیشانی سے کشادہ، اس کی ناک میری ناک سے ذرا پتلی، اس کی آنکھیں میری آنکھوں سے بڑی، اس کے ہونٹ میرے ہونٹوں کے مقابلے میں پتلے اور خوب صورت، اس کا قد میرے قدسے ذرالمبا، اس کا جسم میرے جسم کے مقابلے میں ذرا پتلا ہے تو میں قسم کھا سکتاہوں کہ وہ میرے بھائی کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ وہ کتنی دیر سے زیر حراست ہے؟“
    ”اسے قید ہوئے کوئی دو مہینے ہونے والے ہیں۔ عبد اللہ! اب ہمیں اسے بچانے کی تدبیر کرنی چاہیے!“
    ”تم اپنی جان کو خطرے میں ڈالے بغیر اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتے؟“ عبد اللہ نے کہا۔
    ”عبد اللہ! تمہیں یاد ہے کہ قرطبہ کے محاصرے میں جب میں زخموں سے چور تھا، تم نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر میری جان بچائی تھی اور تیروں کی بارش میں لاشوں کے ڈھیر سے مجھے اٹھا لائے تھے ؟“
    ”وہ میرا فرض تھا۔ تم پر احسان نہیں تھا!“
    ”میں بھی اسے اپنا فرض خیال کرتاہوں۔ تم پر احسان نہیں سمجھتا۔”
    عبد اللہ کچھ دیر تک یوسف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا رہا۔ وہ کچھ کہنے کو تھا کہ یوسف کے حبشی غلام زیاد نے آکر اطلاع دی کہ ابن صادق دروازے پر کھڑا آپ سے ملنا چاہتاہے۔
    یوسف کا چہرہ زردپڑگیا۔ اسے گھبرا کر عبد اللہ سے کہا۔”آپ دوسرے کمرے میں چلے جائیں وہ شک نہ کرے !“

    جاری ہے
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ابن صادق منافق کا کام تمام ہو تو پھر مزہ آئے کہانی کا۔

    عرفان بھائی ۔ بہت شکریہ ۔
     
  3. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    نعیم بھائی
    وہ تو ولن ہے اور ولن کو تو آخر کار مرنا ہی ہے اور شائد آخر میں جا کے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں