1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

داستان مجاھد مؤلف نسیم حجازی

'ادبی کتب' میں موضوعات آغاز کردہ از ابوازھر, ‏26 فروری 2014۔

  1. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]

    اس لڑی میں ، میں اردو کے مشہور ناول نگار نسیم حجازی کا مشہور ناول ؛داستان مجاھد شیئر کرنے کی جسارت کر رہا ہوں امید ہے کہ آپ حضرات ضرور حوصلہ افزائی فرمائیں گے ان شاءاللہ
    سب سے پہلے محترم نسیم حجازی کا تعارف
    نسیم حجازیاردو کے مشہور ناول نگار تھے جو تاریخی ناول نگاری کی صف میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان کا اصل نام شریف حسین تھا لیکن وہ زیادہ تر اپنے قلمی نام "نسیم حجازی" سے معروف ہیں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل پنجاب کے ضلع گرداسپور میں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ برطانوی راج سے آزادی کے وقت ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا اور باقی کی زندگی انہوں نے پاکستان میں گزاری۔ وہ مارچ 1996ء میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے ناول مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخ پر مبنی ہیں جنہوں نے اردو خواں طبقے کی کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ وہ صرف تاریخی واقعات بیان کر کے نہیں رہ جاتے بلکہ حالات کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور ناول کے کرداروں کے مکالموں سے براہ راست اثر لیتا ہے۔
     
    Last edited: ‏26 فروری 2014
    مقصود حسنی، ھارون رشید، نعیم اور 3 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    سب پہلے فہرست[​IMG]
     
    مقصود حسنی, bilal260, پاکستانی55 اور مزید ایک رکن نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    صابرہ ​

    سورج کئی بار مشرق سے نکل کر مغرب میں غروب ہوا۔ چاند نے اپنے مہینے بھر کا سفر ہزاروں بار طے کیا۔ ستارے لاکھوں بار رات کی تاریکی میں چمکے اور صبح کی روشنی میں غائب ہوگئے۔ ابنِ آدم کے باغ میں کئی بار بہار اور خزاں نے اپنا اپنا رنگ جمایا۔ جنت سے نکالے ہوئے انسان کی نئی بستی ایک ایسی رزم گاہ تھی جس میں فطرت کے مختلف عناصر ہمیشہ برسرپیکار رہے۔ طرح طرح کے انقلابات آئے۔ تہذیب و تمدن نے کئی چولے بدلے۔ ہزاروں قومیں قعر مذلت سے اٹھیں اور آندھی اور بگولہ بن کر ساری دنیا پر چھا گئیں۔ لیکن قانون فطرت میں کمال اور زوال کا رشتہ ایسا مضبوط ہے کہ کسی کوبھی ثبات نہیں۔ وہ قومیں جو تلواروں کے سائے میں فتح کے نقارے بجاتی ہوئی اٹھیں، طاؤس اور رباب کی تانوں میں مدہوش ہو کر سو گئیں ۔ کوئی اس نیلگوں آسمان سے پوچھے جس کے وسیع سینے پر گزرے ہوئے زمانے کی ہزاروں داستانیں نقش ہیں جس نے قوموں کو بنتے اور بگڑتے دیکھا ہے۔ جس نے بڑے بڑے جابر بادشاہوں کو تاج و تخت سے محروم ہو ہو کر گداؤں کا لباس پہنتے اور گداؤں کو اپنے سر پر تاج رکھتے دیکھا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان داستانوں کے بار بار دہرائے جانے سے کچھ بے نیاز ہو گیا ہو۔ لیکن ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ صحرا نشینانِ عرب کی ترقی اور تنزلی کی طویل داستان میں جو ربع مسکوں کی تمام داستانوں سے مختلف ہے، اسے ابھی تک یاد ہوگی۔ اگرچہ اس داستان کا کوئی حصہ بھی دل چسپی سے خالی نہیں ، لیکن اس وقت ہمارے سامنے اس کا وہ رنگین باب ہے جب کہ مغرب و مشرق کی وادیاں، پہاڑ اور صحرا مسلمانوں کے سمند اقبال کے قدم چوم رہے تھے اوران کی خار اشگاف تلواروں کے سامنے ایران اور روما کے سلطان عاجز آچکے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ ترکستان ، اندلس اور ہندوستان کی سر زمین مسلمانوں کو قوت تسخیر کے امتحان کی دعوت دے رہی تھی۔
    بصرہ سے کوئی بیس میل کے فاصلے پر سرسبزو شاداب نخلستان کے درمیان ایک چھوٹی سی بستی تھی، جس کے ایک سیدھے سادے مکان کے صحن میں صابرہ، ایک ادھیڑ عمر کی عورت عصر کی نمازپڑھ رہی تھی۔ دوسرے تین بچے کھیل کود میں مصروف تھے۔ دو لڑکے اور ایک لڑکی۔ لڑکی نے ہاتھوں میں لکڑی کی دو چھوٹی چھوٹی چھڑیاں پکڑی ہوئی تھیں۔ لڑکی غور سے ان کی حرکات کا معائنہ کر رہی تھی۔ بڑے لڑکے نے چھڑی گھماتے ہوئے چھوٹے کی طرف دیکھا اور کہا:
    ”دیکھو نعیم! میری تلوار!“
    چھوٹے لڑکے نے بھی اپنی چھڑی گھمائی اور کہا:
    ”میرے پاس بھی تلوار ہے۔ اؤ ہم جنگ کریں۔“
    ”تم رو پڑو گے!“ چھوٹے لڑکے نے جواب دیا۔
    ”تو پھراؤ!“ بڑے نے تن کر کہا ۔
    معصوم بچے ایک دوسرے پر وار کرنے لگے اور لڑکی قدرے پریشان ہو کر یہ تماشہ دیکھنے لگی۔ اس لڑکی کا نام عذرا تھا۔“
     
    مقصود حسنی، نعیم، bilal260 اور 2 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    صابرہ ​

    چھوٹے لڑکے کا نام نعیم اور بڑے کا نام عبد اللہ تھا۔ عبد اللہ نعیم سے تین سال بڑا تھا۔ اس کے ہونٹوں رپ مسکراہٹ کھیل رہی تھی لیکن نعیم کے چہرے سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ واقعی میدان کار زارمیں کھڑا ہے۔ نعیم وار کرتا اور عبد اللہ متانت سے روکتا۔ اچانک نعیم کی چھڑی اس کے بازو پر لگی۔ عبد اللہ نے قدرے غصے سے آکر وار کیا۔ اب نعیم کی کلائی پر چوٹ لگی اور اس کے ہاتھ سے چھڑی گر پڑی۔ عبد اللہ نے کہا ۔ ”دیکھو اب رونا مت۔“
    ”میں نہیں، تم روپڑو گے!“ نعیم نے غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے جواب دیا اور زمین سے ایک ڈھیلا اٹھا کر عبد اللہ کے ماتھے پر دے مارا۔ اس کے بعد اس نے اپنی چھڑی اٹھالی اور گھر کی طرف بھاگ کھڑا ہوا ۔ عبد اللہ بھی سر سہلاتا ہوا اس کے پیچھے بھاگا لیکن اتنی دیرمیں نعیم صابرہ کی گودمیں چھپنے کی کوشش کر رہا تھا۔
    ”امی! بھائی مارتا ہے۔“ اس نے کہا۔
    عبد اللہ غصے سے ہونٹ کاٹ رہا تھا۔ لیکن ماں کو دیکھ کر خاموش ہو گیا۔
    ماں نے پوچھا۔ ”عبد اللہ! کیا بات ہے؟“
    اس نے جواب دیا ”امی! اس نے مجھے پتھر مارا ہے۔“
    ”تم لڑے کیوں تھے بیٹا؟“ صابرہ نے نعیم کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔ ہم تلواروں سے جنگ کر رہے تھے ۔ اس نے میراہاتھ توڑ دیا۔ پھر میں نے بھی بدلہ لے لیا۔“
    ”تلواروں سے ؟ تلواریں تم کہاں سے لائے؟“
    ”یہ دیکھو امی! “ نعیم نے اپنی چھڑی دکھاتے ہوئے کہا ۔ ”یہ لکڑی کی ہے لیکن مجھے لوہے کی تلوارچاہیے۔ لے دو نا۔ میں جہاد پر جاؤں گا!“
    کم سن بیٹے کے منہ سے جہاد کالفظ سننے کی خوشی وہی مائیں جان سکتی ہیں جو اپنے جگر کے ٹکڑوں کو لوری دیتے وقت یہ گایا کرتی تھیں:
    ”اے رب کعبہ! میرا یہ لال مجاہد بنے اور تیرے محبوب کے لگائے ہوئے درخت کو جوانی کے خون سے سیراب کرے۔“
    نعیم کی زبان سے تلوار اور جہاد کے الفاظ سن کر صابرہ کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھااور اس کے رگ و ریشہ میں مسرت کی لہریں دوڑنے لگیں ۔ اس نے فرط انبساط سے آنکھیں بند کرلیں۔ وہ ماضی اور حال کو فراموش کر چکی تھی اور تصورمیں اپنے بیٹوں کو نوجوان مجاہدوں کے لباس میں خوبصورت گھوڑوں پر سوار میدان جنگ میں دیکھ رہی تھی۔
    ....وہ یہ دیکھ رہی تھی کہ اس کے لال دشمن کی صفوں کو چیرتے اور روندتے ہوئے جارہے ہیں اوردشمن کے گھوڑے اور ہاتھی ان کے بے پناہ حملوں کی تاب نہ لا کر آگے بھاگ رہے ہیں۔ اس کے نوجوان بیٹے ان کے تعاقب میں ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریاؤں میں گھوڑے ڈال رہے ہیں۔ وہ دشمن کے نرغے میں کئی باراٹھ اٹھ کر گرتے ہیں اور بالآخر زخموں سے نڈھال ہو کر کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے خاموش ہو جاتے ہیں ۔ وہ دیکھ رہی ہے کہ جنت کی حوریں ان کے لیے شراب طہور کے جام لیے کھڑی ہیں۔ صابرہ نے انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا اور سجدے میں سررکھ کر دعا مانگی
    ”اے زمین و آسمان کے مالک! جب مجاہدوں کی مائیں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں تو میں کسی سے پیچھے نہ رہوں گی۔ ان بچوں کو اس قابل بنا کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کی روایات کو قائم رکھ سکیں۔“
    دعا کے بعد صابرہ اٹھی اور بچوں کو گلے لگالیا۔
    انسانی زندگی کے ہزاروں واقعات ایسے ہیں جو عقل کی محدود چار دیواری سے گزر کر مملکت دل کی لا محدود وسعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔“
     
    bilal260، پاکستانی55 اور ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    صابرہ ​

    ہم دنیا کے ہر واقعہ کو عقل کی کسوٹی پر پرکھیں تو ہمارے لیے بعض اوقات نہایت معمولی باتیں بھی طلسم بن کر رہ جاتی ہیں۔ہم دوسروں کے احساسا ت و جذبات کا اندازہ اپنے احساسات و جذبات سے کرتے ہیں۔ اس لئے ان کی وہ حرکات جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہوتی ہیںہمارے لیے ایک معمہ بن جاتی ہیں۔ آج کل کی ماؤں کو قرون اولیٰ کی ایک بہادر ماں کی تمنائیں اور دعائیں کس قدر عجیب معلوم ہو ں گی۔ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو آگ اورخون میں کھیلتے ہوئے دیکھنے کی آرزو انہیں کس قدر بھیانک نظر آتی ہوگی۔ اپنے بچوں کوبلی کا خوف دلا کر سلانے والی مائیں ان کے شیروں کے مقابلے میں کھڑے ہونے کے خواب کب دیکھتی ہوںگی۔
    ہمارے کالجوں، ہوٹلوں اور قہوہ خانوں میں پہلے ہوئے نوجوانوں کاعلم اور عقل پہاڑوں کی بلندی اور سمندر کی گہرائی کو خاطر میں نہ لانے والے مجاہدوں کے دلوں کا راز کیسے جان سکتی ہے۔رباب کے تاروں کی جنبش کے ساتھ لرزجانے والے نازک مزاج انسانوں کو تیروں اور نیزوں کے مقابلے میں ڈٹ جانے والے جواں مردوں کی داستانیں کس قدر حیرت زا معلوم ہوں گی۔ اپنے گھونسلے کے ارد گرد چکر لگانے والی چڑیاں عقاب کے انداز پرواز سے کس طرح واقف ہو سکتی ہے؟
    (۲)
    صابرہ کا بچپن اورجوانی زندگی کے نا ہموار ترین راستوں سے گزر چکے تھے۔ اس کے رگ و ریشہ میں عرب کے ان شہسواروں کا خون تھا جو کفر و اسلام کی ابتدائی جنگوں میں اپنی تلواروں کے جوہر دکھا چکے تھے ۔ ان کا دادا جنگ یرموک سے غازی بن کر لوٹا اور قادسیہ میں شہید ہوا۔ وہ بچپن ہی سے غازی اور شہید کے الفاظ سے آشنا تھی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جب وہ اپنی توتلی زبان سے ابتدائی حروف ادا کرنے کی کوشش کیا کرتی تو اس کی ماں کا سکھلایا ہوا پہلا فقرہ ”ابا غازی “ اور چند دنوں کے بعد کا سبق ” ابا شہید“ تھا۔ ایسے ماحول میں پرورش پانے کے بعد اس کی جوانی اور بڑھاپے سے ہر وہ توقع کی جا سکتی تھی جو ایک مسلمان فرض شناس عورت سے وابستہ کی جاسکتی ہے ۔ وہ بچپن میں عرب عورتوں کی شجاعت کے افسانے سنا کر تی تھی۔ بیس سال کی عمر میں اس کی شادی عبد الرحمن کے ساتھ ہوئی۔ نوجوان شوہر ایک مجاہد کی تمام خوبیوں سے آراستہ تھا اور وفا شعار بیوی کی محبت اسے گھر کی چاردیواری میں بند کردینے کی بجائے ہمیشہ جہاد کے لیے ابھارتی رہی۔
    عبد الرحمن جب آخری مرتبہ جہاد پر روانہ ہوا تو اس وقت عبد اللہ کی عمر تین سال اور نعیم کی عمر تین مہینے سے کچھ کم تھی۔ عبد الرحمن نے عبد اللہ کو اٹھاکر گلے لگا لیا اور نعیم کو صابرہ کی گود سے لے کر پیارکیا۔ چہرے پر قدرے ملال کے آثار پیدا ہوئے لیکن فوراً ہی مسکرانے کی کوشش کی۔ رفیق حیات کو میدان جنگ کی طرف رخصت ہو تا دیکھ کر صابرہ کے دل میں تھوڑی دیر کے لیے طوفان سا امڈ آیا لیکن اس نے اپنی آنکھوں میں چھلکتے ہوئے آنسواؤں کو بہنے کی اجازت نہ دی۔
    عبد الرحمن نے کہا ”صابرہ! مجھ سے وعدہ کرو کہ اگرمیں جنگ سے واپس نہ آیا تو میرے بیٹے میری تلواروں کو زنگ آلود نہ ہونے دیں گے!“
    ”آپ تسلی رکھیں۔“ صابرہ نے جواب دیا۔ ”میرے لال کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے۔“ عبد الرحمن نے خدا حافظ کہہ کر گھوڑے کی رکاب میں پاؤں رکھا ۔ صابرہ نے اس کے رخصت ہونے کے بعد سجدے میں سر رکھ کر دعا کی۔
    ”اے زمین و آسمان کے مالک! اسے ثابت قدم رکھنا!“
    جب شوہر اور بیوی صورت اور سیرت کے لحاظ سے ایک دوسرے کے لیے قابل رشک ہوں گی تو محبت کے جذبات کا کمال کی حد تک پہنچ جانا کوئی نئی بات نہیں۔ بیشک صابرہ اور عبد الرحمن کا تعلق جسم اور روح کا تعلق تھا۔
     
    نعیم، پاکستانی55 اور ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    صابرہ​

    اور رخصت ہونے کے وقت لطیف جذبات کو اس طرح دبا لینا کسیحد تک عجیب معلوم ہوتا ہے۔ لیکن وہ کونسا عظیم الشان مقصد تھا جس کے لیے یہ لوگ دنیا کی تمام خواہشات اور تمناؤں کو قربان کر دیتے تھے ؟ وہ کون سا مقصد تھا جس نے تین سو تیرہ کو ایک ہزار کے مقابلہ میں کھڑا کیا تھا؟ وہ کونسا جذبہ تھا جس نے مجاہدوں کو دریاؤں اور سمندروں میں کودنے، تپتے ہوئے وسیع صحراؤں کو عبور کرنے اور فلک بوس پہاڑوں کو روندنے کی قوت عطاکی تھی؟
    ان سوالات کا جواب ایک مجاہد ہی دے سکتاہے۔
    عبد الرحمن کو رخصت ہوئے سات مہینے گزر چکے تھے۔ اس بستی کے چار اور آدمی بھی اس کے ہمراہ گئے۔ ایک دن عبد الرحمن کا ساتھی واپس آیا اور اونٹ سے اترتے ہی صابرہ کے گھر کی طرف بڑھا۔ اس کے آتے ہی بہت سے لوگ اس کے ارد گرد اکٹھے ہوگئے۔ کسی نے عبدالرحمن کے متعلق پوچھا۔ نووارد نے کوئی جواب نہ دیا اور چپ چاپ صابرہ کے مکان میں داخل ہو گیا۔
    صابرہ نماز کے لئے وضو کر رہی تھی۔ اسے دیکھ کر اٹھی۔ نووارد آگے بڑھااورچند قدم کے فاصلے پر کھڑا ہوگیا۔
    صابرہ نے دھڑکتے ہوئے دل پر قابو پا کر پوچھا:
    ”وہ نہیں آئے!“
    ”وہ شہید ہوگئے“
    ”شہید!“ ضبط کے باوجود صابرہ کی آنکھوں سے آنسواؤں کے چند قطرے بہہ نکلے۔نووارد نے کہا۔ ”اپنے آخری لمحات میں جب وہ زخموں سے چور تھے۔ انہو ں نے یہ خط مجھے اپنے خون سے لکھ کردیاتھا۔“
    ”صابرہ! میری آرزو پوری ہوئی۔ اس وقت جب کہ میں زندگی کے آخری سانس پورے کر رہاہوں۔ میرے کانوں میں ایک عجیب راگ گونج رہاہے۔ میری روح جسم کیقید سے آزاد ہو کراس راگ کی گہرائیوں میں کھو جانے کے لئے پھڑپھڑا رہی ہے۔ میں زخموںسے چور ہونے کے باوجود ایک فرحت سی محسوس کرتاہوں۔ میری روح ایک ابدی سرور کے سمندرمیں غوطے کھا رہی ہے۔ میں اس بستی کوچھوڑ کر ایک ایسی دنیا میں جا رہاہوں جس کاہر ذرہ اس دنیا کی تمام رنگینیاں اپنے پہلو میں لیے ہوئے ہے۔
    میری موت پر آنسو نہ بہانا۔ میں اپنے مقصود کو پا چکا ہوں۔ یہ خیال نہ کرنا کہ میں تم سے دور جا رہاہوں۔ ہم کسی دن ایسے مقام پر اکٹھے ہوںگے جو دائمی سرور کا مرکز ہے۔ جہاں کی صبح شام سے اور بہارخزاں سے آشنا نہیں۔ یہ مقام اگرچہ چاند اور ستاروں سے کہیں بلند ہے مگر مرد مجاہد وہاں ایک ہی جہت میں پہنچ سکتا ہے۔ عبد اللہ اور نعیم کو اس مقام پر پہنچ جانے کا راستہ دکھانا تمہارا فرض ہے! میں تمہیں بہت کچھ لکھتا مگر میری روح جسم کی قید سے آزاد ہنے کے لئے بے قرار ہے۔ میں آقائے نامدار کے پاؤں چومنے کے لیے بے تاب ہوں۔ میں تمہیں اپنی تلوار بھیج رہاہوں۔ بچوں کی قدر و قیمت بتانا۔ جس طرح میرے لیے تم ایک فرض شناس بیوی تھیں میرے بچوں کے لئے ایک فرض شناس ماں بننا۔ مامتا کواپنے ارادوں میں حائل نہ ہونے دینا۔ انہیں یہ بتانا کہ مجاہد کی موت کے سامنے دنیا کی زندگی بے حقیقت او ر ہیچ ہے۔

    (تمہارا شوہر )
     
    نعیم، پاکستانی55 اور ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    میرا خیال تھا کہ میں داستان کو وقفے وقفے سے شائع کرتا رہونگا مگر چونکہ کل میرا پیکج ختم ہورہا ہے اس وجہ سےساری اقساط ایک ساتھ ہی آپ کی نظر
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    عذرا

    عبد الرحمن کو شہید ہوئے تین سال ہو چکے تھے ۔ ایک دن صابرہ اپنے مکان کے صحن میں کھجور کے درخت کے نیچے بیٹھی عبداللہ کو سبق پڑھا رہی تھی۔ نعیم ایک ڈنڈے کا گھوڑا بنا کراسے چھڑی سے ہانکتا ہوا ادھر ادھر بھاگتا پھرتا تھا۔ کسی نے باہر کے دروازے پر دستک دی۔ عبد اللہ نے جلد ی سے اٹھ کر دروازہ کھولا اور ماموں جان ماموں جان کہتا ہو نووارد سے لپٹ گیا۔
    ”کون، سعید!“ صابرہ نے اندر سے آواز دی۔
    سعید ایک کم سن لڑکی کو انگلی سے لگائے صحن میں داخل ہوا۔ صابرہ نے اٹھ کر چھوٹے بھائی کا خیر مقدم کیا اور لڑکی کو پیار کرتے ہوئے پوچھا:
    ”یہ عذرا تو نہیں؟ اس کی شکل و صورت بالکل یاسمین جیسی ہے!“
    ”ہاں بہن یہ عذراہے۔ میں اسے آپ کے پاس چھوڑنے آیا ہوں۔ مجھے فارس جانے کا حکم ملا ہے۔ وہاں خارجی بغاوت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں بہت جلد وہاں پہنچ جا نا چاہتا ہوں۔ پہلے سوچا تھا کہ عذرا کو کس کے ساتھ آپ کےپاس بھیج دوں گا مگر یہی مناسب سمجھا کہ خود ہی یہاں سے ہوتا جاؤں۔“
    ”یہاں سے کب روانہ ہونے کا ارادہ ہے؟“ صابر ہ نے پوچھا۔
    ”آج ہی چلاؤں تو بہتر ہے۔ آج ہماری فوج بصرہ میں قیام کرے گی۔ کل صبح ہم وہاں سے فارس کی طرف روانہ ہو جائیں گے ۔“
    عبد اللہ والدہ کے پاس کھڑا یہ باتیں سن رہا تھا ۔ نعیم جوکچھ دیر پہلے ایک لکڑی کی چھوڑی کو گھوڑا سمجھ کر دل بہلا رہا تھا، عبداللہ کے پاس کھڑا ہوگیا۔ سعید نے نعیم کو اٹھاکر گلے لگایا، پیار کیا اور پھر ہمشیرہ سے باتیں کرنے لگا۔ نعیم پھر کھیل کودمیں مصروف ہوگیا۔ لیکن تھوڑی دیر بعد کچھ سوچ کر عبد اللہ کے پاس گیا اور عذرا کی طرف غور سے دیکھنے لگا۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن حیا کی وجہ سے خاموش رہا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے جرات سے کام لیا اور عذرا سے مخاطب ہو کر پوچھا:
    ”تم بھی گھوڑا لوگی؟“
    عذرا شرما کر سعید کے پیچھے چھپ گئی۔
    ”جاؤ بیٹا! “ سعید نے عذراکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا“ اپنے بھائی کے ساتھ کھیلو!“
    عذرا شرماتی ہوئی آگے بڑھی اور اس نے نعیم کے ہاتھ سے چھڑی پکڑ لی۔دونوں صحن کے دوسری طرف جا کر اپنے اپنے لکڑی کے گھوڑوں پر سوار ہوگئے اور بے تکلفی سے باتیں کرنے لگے ۔
    عبد اللہ نعیم کی حرکات سے نا خوش تھااور اسکی طرف گھُور گھُور کر دیکھ رہا تھا۔ لیکن نعیم تھوڑے ہی عرصے میں اپنے نئے ساتھی سے کچھ اس درجے مانوس ہو گیا تھا کہ عبداللہ اسکی طرف دیکھتا بھی تو وہ منہ دوسری طرف پھیر لیتا۔ جب عبد اللہ نے اس کو منہ چڑانا شروع کیا تو وہ ضبط نہ کرسکا:
    دیکھو امی جان! عبداللہ منہ چڑاتا ہے!“
    ماں نے کہا ۔ ”نہ عبد اللہ اسے کھیلنے دو!“
    عبد اللہ سنجیدہ ہوا تو نعیم نے منہ چڑانا شروع کیا۔ عبداللہ نے تنگ آکر اس کی طرف سے منہ پھیرلیا۔
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    عذراکی کہانی صابرہ سے مختلف نہ تھی۔ وہ ان لوگوں میں سے تھی جو ہوش سنبھالنے سے پہلے والدین کے سائے سے محروم ہو جاتے ہیں۔
    عذرا کا باپ ظہیر فسطاط کے سرکردہ لوگوں میں سے تھا۔ اسنے بیس سال کی عمر میں ایرانی نسل کی ایک حسین لڑکی یاسمین سے شادی کی تھی۔
    یاسمین کے سہاگ کی پہلی شب تھی۔ وہ اپنے محبوب شوہر کے پہلو میں امنگوں کی ایک نئی دنیا بیدار کر رہی تھی۔ کمرے میں چند شمعیں جل رہی تھیں ۔ یاسمین اور ظہیر کی آنکھوں میں ایک خمار تھا لیکن وہ خمار نیند کے خمار سے بہت مختلف تھا۔
    ظہیر پوچھ رہا تھا۔ ”یاسمین! سچ سچ بتاؤ تم خوش ہونا !“
    دلہن نے انتہائی مسرت کی حالت میں بولنے کی بجائے نیم باز آنکھیں اوپر اٹھائیں اور پھر جھکا لیں۔
    ظہیر نے پھر وہی سوال کیا۔ یاسمین نے شوہر کی طرف دیکھا ، حیا اور مسرت کی گہرائیوں میں کھوئے ہوئے ایک دلفریب تبسم کے ساتھ اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ یہ بھولا بھالا سا جواب کس قدر معنی خیز تھا۔ اس وقت جب کہ رحمت کے فرشتے مسرت کا گیت گا رہے تھے اور یاسمین کا دھڑکتا ہوا دل ظہیر کے دل کی دھڑکن کا جواب دے رہا تھا ۔ الفاظ کس قدر بے حقیقت معلوم ہو تے تھے۔ ظہیر نے پھر اپنا سوال دہرایا۔
    ”اپنے دل سے پوچھو۔“ یاسمین نے جواب دیا۔
    ظہیر نے کہا ”میرے دل میں تو آج خوشی کا طوفان امڈ رہا ہے۔ مجھے ایسے معلوم ہوتا ہے کہ آج کائنات کی ہر چیز مسرت کے نغموں سے لبریز ہے۔ کاش! یہ نغمے ہمیشہ ایسے ہی رہیں“۔
    ”کاش!“ یاسمین کے منہ سے بے اختیار نکلا اور اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں جو ایک لمحہ پیشتر مسرتوں کا گہوارہ بنی ہوئی تھیں۔ مستقبل کاخیال آتے ہی پرنم ہوگئیں۔ ظہیر محبوب بیوی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بے اختیار ہو گیا۔
    ”یاسمین! یاسمین! تم رو پڑیں۔ کیوں؟“
    ”نہیں“ ۔ یاسمین نے مسکرا نے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا۔ آنسواؤں میں بھیگی ہوئی مسکراہٹ اس کے حسن کودوبارہ کر رہی تھی ۔
    ”نہیں۔ کیوں؟ تم سچ مچ رو رہی ہو۔ یاسمین تمہیں کیا خیال آیا۔ تمہاری آنکھوں میں آنسو دیکھنا میری قوت سے باہر ہے۔“
    ”مجھے ایک خیال آیا تھا۔ یاسمین نے چہرے کو ذرا شگفتہ بناتے ہوئے جواب دیا۔
    ”کیسا خیال؟ ظہیر نے سوال کیا۔
    ”کوئی خاص بات نہیں۔ مجھے حلیمہ کا خیال آیا تھا۔ بے چاری کی شادی کو ایک سال بھی نہ ہوا تھا کہ اس کا شوہر اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔“
    ظہیر نے کہا ”میں ایسی موت سے بہت گھبراتا ہوں۔ بے چارے نے بیماری کی حالت میں بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دی۔ ایک مجاہد کی موت کتنی اچھی ہوتی ہے۔ لیکن افسوس وہ اس سعادت سے محروم رہا۔ اس بیچارے کا اپنا قصور بھی تو نہ تھا۔ وہ بچپن سے مختلف جسمانی بیماریوں کا شکار رہا۔ جب اس کی موت سے چند دن پہلے مزاج پرسی کے لیے گیا تو اس کی عجیب حالت تھی، اس نے مجھے اپنے پاس بٹھالیا اور میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر کہنے لگا:
    ”تم بہت خوش ہو۔ تمہارے بازو لوہے کی طرح مضبوط ہیں۔ تم گھوڑے پر چڑھ کر میدان جنگ میں دشمنوں کے تیروں اور نیزوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوگے لیکن میں یہاں پڑا ایڑیاں رگڑ رہاہوں۔ دنیامیں میرا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ میں بچپن میں مجاہد بننے کے خواب دیکھا کرتا تھا لیکن اب جوانی کا وقت آیا ہے تو میرے لیے بستر سے اٹھ کرچند قدم چلنا بھی دشوار ہے۔“
    جب وہ یہ کہہ رہا تھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔ میں نے اسے بہت تسلی دی لیکن وہ بچوں کی طرح رونے لگا۔ وہ جہاد پر جانے کی حسرت اپنے ساتھ ہی لے گیا لیکن اس کے پہلو میں ایک مجاہد کادل تھا۔ وہ موت سے نہیں ڈرتا تھا لیکن ایسی موت اسے پسند نہ تھی۔
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    ظہیر نے بات ختم کی اور دونوں ایک گہری سوچ میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ صبح کے آثار نمودار ہو رہے تھے اور ماؤذن دنیا والوں کوخواب غفلت سے بیدار کرکے نماز میں شریک ہونے کا خدائی حکم سنا رہا تھا۔ یہ دونوں اس حکم کو بجا لانے کی تیاری کر رہے تھے کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ ظہیر نے دروازہ کھولا تو سامنے سعید سر سے پاؤں تک لوہے میں ڈھکا ہوا گھوڑے پر بیٹھا تھا۔ سعید گھوڑے سے اترا اور ظہیر نے بڑھ کر اسے گلے سے لگا لیا۔
    سعید اور ظہیر بچپن کے دوست تھے۔ ان کی دوستی سگے بھائیوں کی محبت سے بھی زیادہ بے لوث تھی۔ دونوں نے ایک ہی جگہ تعلیم پائی تھی۔ ایک ہی جگہ فنون سپہ گری سیکھے تھے اورکئی میدانوں میں دوش بدوش لڑ کر اپنے بازاؤں کی طاقت اور تلواروں کی تیزی کے جوہر دکھا چکے تھے۔ ظہیر نے سعید کے اس طرح اچانک آنے کی وجہ پوچھی۔
    ”مجھے والی قیرون نے آپ کی طرف بھیجاہے!“
    ”خیر تو ہے؟“
    ”نہیں“۔ سعید نے جواب دیا ”افریقہ میں بغاوت نہایت سرعت کے ساتھ پھیل رہی ہے ۔ اہل روم جاہل بربریوں کو اکسا کر ہمارے مقابلے میں کھڑا کر رہے ہیں۔ اس آگ کو فرو کرنے کے لیے تازہ دم فوجوں کی ضرورت ہے۔ گورنر نے دربار خلافت سے چلا چلا کر مدد مانگی ہے لیکن وہاں ہماری آواز کوئی نہیں سنتا۔ نصرانی ہماری کمزوری سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اگر ان حالات پر قابو نہ پایا گیا تو ہم اس وسیع خطہ زمین کو ہمیشہ کے لئے کھو بیٹھیں گے۔ گورنر نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے اور آپ کے نام یہ خط دیاہے۔“
    ظہیر نے خط کھول کر پڑھا، خط کا مضمون یہ تھا:
    ”سعید تمہیں افریقہ کے حالات بتا دے گا۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے تمہارا فرض ہے کہ جس قدر سپاہی فراہم کر سکوں ان کو لے کر فوراً پہنچ جاؤ۔ میں نے ایک خط دربار خلافت میں بھی بھیجا ہے لیکن موجودہ حالات میں جبکہ اہل عرب طرح طرح کی خانہ جنگیوں میں مبتلا ہیں، مجھے وہاں سے کسی مدد کی امید نہیں۔ تم اپنی طرف سے کوشش کرو۔“
    ظہیر نے ایک نوکر کو بلاکر سعید کا گھوڑا اس کے حوالے کیا اور اسے اپنے ساتھ مکان کے ایک کمرے میں لے گیا۔ اس کی آنکھوں سے شب عروسی کا خمار اتر چکا تھا۔ اس نے دوسرے کمرے میں جا کر دیکھا، یاسمین بارگاہ الٰہی میں سربسجود تھی۔ دل کو گونہ مسرت ہوئی۔ واپس سعید کے پاس آکر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا:
    ”سعید میری شادی ہوچکی ہے!“
    ”مباک ہو۔ کب ؟“
    ”کل“
    ”مبارک ہو!“ سعید مسکرا رہا تھا۔ لیکن اس کی مسکراہٹ اچانک پژمردگی میں تبدیل ہونے لگی۔ وہ دیرینہ دوست کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہا تھا اور اس کی نگاہیں سوال کر رہی تھیں کہ شادی کی خوشی نے تمہیں جذبہ جہاد سے تو عاری نہیں کردیا؟ ظہیر کی آنکھیں اس سوال کا جواب نفی میں دے رہی تھیں۔
    دنیا میں کم و بیش ہر انسان کی زندگی میں کبھی نہ کبھی ایسا وقت ضرور آتا ہے جب اسے کسی بلندی تک پہنچنے یا بڑا کام کرنے موقع ملتا ہے لیکن ہم اکثر نفع نقصان کی سوچ میں ایسے موقع کو کھو دیتے ہیں۔
    سعید نے پوچھا ”آپ نے خط کے متعلق کیا سوچا؟“
    ظہیر نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ سعید کے کندھوں پر رکھ دیا اور کہا:
    ”اس میں سوچنے کی کیا بات ہے ۔چلو!“۔
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    ”چلو“ بظاہر ایک سادہ سا لفظ تھا لیکن ظہیر کے منہ سے سعید کو یہ لفظ سن کر جو خوشی ہوئی اس کا اندازہ کرنا ذرا مشکل ہے۔ وہ بے اختیار اپنے دوست سے لپٹ گیا۔ ظہیر نے کوئی اور بات نہ کی۔ سعید کو اپنے ساتھ لے کر گھر سے باہر نکلا اور مسجد کی طرف ہو لیا۔
    صبح کی نماز ختم ہوئی اور ظہیر تقریر کے لیے اٹھا۔ ایک مجاہد کو اپنی زبان میں اثر پیدا کرنے کے لئے اچھے اچھے الفاظ اور لمبی لمبی تاویلوں کی ضرورت نہ تھی۔ اس کے سیدھے سادے مگر جذبے سے بھرے ہوئے الفاظ لوگوں کے دلوں میں اتر گئے۔ اس نے تقریر کے دوران میں آواز بلند کرتے ہوئے کہا:
    ”مسلمانوں! ہماری خود غرضیاں اور خانہ جنگیاں ہمیں کہیں کا نہ چھوڑیں گی۔ آج وہ وقت آگیا ہے کہ اہل روم جن کی سلطت کو ہم کئی بار پاؤں تلے روند چکے ہیں ایک بار پھر ہمارے مقابلے کی جرات کر رہے ہیں۔ وہ لوگ یرموک اور اجنادین کی شکستیں بھول چکے ہیں ۔ اؤ انہیں ایک بار پھر بتائیں کہ مسلمان اسلام کی عظمت کی حفاظت کے لئے اب بھی اپنے خون کو اتنا ہی ازاں سمجھتا ہے جتنا کہ پہلے سمجھتا تھا۔ انہوں نے طرح طرح کی سازشیں کر کے افریقہ کے لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کررکھا ہے۔ وہ یہ خیلات کرتے ہیں کہ ہم خانہ جنگیوں کی وجہ سے کمزور ہوچکے ہیں لیکن میں یہ کہتاہوں کہ اس دنیا میں جب تک ایک بھی مسلمان زندہ ہے ، ان لوگوں کو ہم سے ڈر کر رہنا چاہیے۔
    مسلمانو! اؤ ایک بار پھر انہیں یہ بتادیں کہ ہمارے سینوں میں وہی تڑپ ہے،ہمارے بازاؤں میں وہی طاقت اور ہماری تلواروں میں وہی کاٹ ہے جو کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں تھی۔“
    ظہیر کی تقریر کے بعد اڑھائی سو نوجوان اس کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہوگئے۔
    (۳)
    یاسمین اپنی زندگی کی تمام خواہشوں کے مرکز کو اپنی آنکھوں سے میدان جنگ کی طرف رخصت ہوتے دیکھ رہی تھی۔ دل کا بخار آنکھوں کے راستے آنسو بن کر بہنے کے لیے جدوجہد کر رہا تھا لیکن یاسمین کے نسوانی غرور نے شوہر کے سامنے اپنے آپ کو بزدل ظاہر کرنے کے اجازت نہ دی۔ آنکھوں کے آنسو آنکھوں میں ہی دبے رہے۔
    ظہیر نے بیوی کی طرف دیکھا۔ وہ حزن و ملا کی تصور بنی سامنے کھڑی تھی۔ دل نے سفارش کی کہ ایک لمحہ اور ٹھہر جاؤ۔ چند باتیں کرو۔ لیکن اسی دل کی دوسری آرزو تھی کہ ایک اور امتحان سے بچو!
    ”اچھا یاسمین! خدا حافظ“۔ کہہ کر ظہیر لمبے لمبے قدم اٹھاتا دروازے کی طرف بڑھا۔ پھر کچھ سوچ کر رک گیا۔ ایک ایسا خیال جسے اس نے ابھی تک اپنے قریب نہ بھٹکنے دیا۔ برق کی سی تیز رفتاری کے ساتھ س اس کے دل و دماغ پر حاوی ہو گیا۔ دل کے لطیفے حصے نے اپنی کمزور آواز میں فقط اتنا کہا کہ شاید یہ آخری ملاقات ہو لیکن ایک لمحے کے اندر اندر اس خیال نے ایک ہنگامے کی صورت اختیار کرلی۔ وہ رکا اور مڑ کر یاسمین کی طرف دیکھنے لگا ۔ وہ آگے بڑھی۔ ظہیر نے آنکھیں بند کرکے بانہیں پھیلا دیں اور وہ روتی ہوئی اس سے لپٹ گئی۔
    ”یاسمین!“
    ”آقا!“
    وہ آنسو جنہیں یاسمین اپنے دل کی گہرائیوں میں پوشیدہ رکھنے کی نا کام کوشش کر رہی تھی، بے اختیار بہہ نکلے۔ دونوں کے دل دھڑک رہے تھے۔ لیکن دلوں کی یہ دھڑکن اس وقت بہت مدھم تھی اور بدستور کم ہو رہی تھی۔ کائنات اسی پرکیف نغمے سے لبریز تھی لیکن اس نغمے کی تانیں پہلے کی نسبت بہت گہری تھیں۔ مجاہد کے امتحان کا وقت تھا۔ احساس محبت اور احساس فرض کا مقابلہ....! ظہیر کے سامنے یاسمین تھی۔ فقط یاسمین۔ حسن و لطافت کا ایک پیکر۔ رنگ و بو کی دنیا۔ پھر اچانک اس کے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی ہوگئی اور وہ ایک قدم پیچھے ہٹ گیا:
    ”یاسمین یہ فرض ہے۔“
    ”آقا مجھے معلوم ہے۔“ یاسمین نے جواب دیا۔
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    ”میرے آنے تک حنیفہ تمہارا خیال رکھے گی۔ تم گھبرا تو نہ جاؤ گی؟“
    ”نہیں۔ آپ تسلی رکھیں۔“
    ”یاسمین مجھے مسکرا کر دکھاؤ۔ بہادر عورتیں ایسے موقع پر آنسو نہیں بہایا کرتیں۔ تم ایک مجاہد کی بیوی ہو!“
    شوہر کے حکم کی تعمیل میں یاسمین مسکر ادی۔ لیکن اس مسکراہٹ کے ساتھ ہی آنسواؤں کے دو موٹے موٹے قطرے اس کی آنکھوں سے چھلک پڑے۔
    ”آقا مجھے معاف کرنا۔“ اس نے جلدی سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔” کاش میں نے بھی ایک عرب ماں کی گود میں پرورش پائی ہوتی۔“ یہ فقرہ ختم کرتے ہوئے انتہائی کرب کی حالت میں اس نے آنکھیں بند کرلیں اور اپنے بازو ایک بار پھر ظہیر کی طرف پھیلا دیے لیکن آنکھیں کھولنے پر معلوم ہوا کہ محبوب شوہر جا چکا ہے۔
    (۴)
    جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے ۔ یاسمین نے ایک ایرانی ماں کی گود میں پرورش پائی تھی۔ اس لیے اس کے وجود میں نسوانیت کا لطیف اور نازک حصہ عرب عورتوں کے مقابلے میں زیادہ تھا۔ ظہیر کے رخصت ہوتے ہی اس کی بے قراری کی حد نہ رہی۔ دنیا بدلی ہوئی نظر آنے لگی۔ حنیفہ اس کی پرانی خامہ ہر ممکن کوشش سے اس کا دل بہلاتی۔ چند مہینوں کے بعد یاسمین کو اس بات کا احساس ہوا کہ اس کے پہلو میں ایک نیا وجود پرورش پا رہا ہے۔ اس دوران میں شوہر کی طرف سے چند خطوط بھی ملے۔
    حنیفہ نے اپنی طرف سے ظہیر کو لکھ بھیجا کہ تمہارے گھر ایک کمسن مہمان تشریف لانے والا ہے۔ واپس آنے پر گھر کی رونق میں اضافہ محسوس کروگے۔ ہاں تمہاری بیوی سخت غمگین ہے اگر رخصت مل جائے تو چند دنوں کے لیے آکر تسلی دے جاؤ!“
    آٹھ ماہ ظہیر نے لکھا کہ دو مہینوں تک گھر آجائے گا۔ اس خط کے بعد یاسمین کو انتظار کی گھڑیا ں پہلے کی نسبت دشوار نظر آنے لگیں۔ اس کے لیے دن کا چین اور رات کی نیند حرام ہو گئی اور صحت بگڑنے لگی۔
    ظہیر کے انتظار کے ساتھ ننھے مہمان کا انتظار بھی بڑھنے لگا۔بالآخر ایک انتظار کی مدت ختم ہوئی اور ظہیر کے گھر کی خاموش فضا میں ایک بچے کے بلکنے نے کچھ رونق پیدا کردی۔ یہ بچہ عذرا تھی۔
    عذرا کی پیدائش کے بعد جب یاسمین نے ہوش میں آکر آنکھیں کھولیں تو اس کا پہلا سوال یہ تھا۔“ وہ نہیں آئے؟“
    ”وہ بھی آجائیں گے۔“ حنیفہ نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
    ”اتنی دیر ہوگئی۔ خدا جانے کب آئیں گے ۔“
    (۵)
    عذرا کو پیدا ہوئے تین ہفتے گزر چکے تھے۔ یاسمین کی صحت روز بروز بگڑتی جارہی تھی۔ وہ رات کو سوتے میں اکثر ظہیر ظہیر! پکارتی اٹھ بیٹھتی اور بعض اوقات خواب کی حالت میں چلنے لگتی اور دیواروں سے ٹکرا کر گرپڑتی۔
    حنیفہ سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے اسے تسلی دیتی۔ اس کے سوا وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔ ایک دن دوپہر کے وقت یاسمین اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی ۔ حنیفہ اس کے قریب ایک کرسی پر بیٹھی عذرا کو پیار کر رہی تھی کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔
    ”کوئی بلا رہا ہے۔“ یاسمین نے نہایت کمزور آواز میں کہا۔
    حنیفہ عذرا کو یاسمین کے پاس لٹا کر اٹھی اور باہر جا کردروازہ کھولا۔ سامنے سعید کھڑا تھا۔
    حنیفہ نے اضطراب اور پریشانی کی حالت میں کہا۔ ”سعید تم آگئے۔ ظہیر کہا ں ہے۔ وہ نہیں آیا؟“
    یاسمین کا کمرہ اگرچہ باہر کے دروازے سے کافی دور تھا لیکن حنیفہ کے الفاظ یاسمین کے کانوں تک پہنچ چکے تھے۔ سعید کا نام سنتے ہی اس کا
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    کلیجہ منہ کو آنے لگا اور ایک لمحے کے اندر اندر ہزاروں توہمات پیدا ہوگئے۔وہ اپنے دھڑکتے ہوئے دل کو ہاتھوں سے دبائے بستر سے اٹھی۔ کانپتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی اور حنیفہ سے دو تین قدم کے فاصلے پر کھڑی ہوگئی۔ حنیفہ دروازے میں کھڑی ابھی تک سعید کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس لیے یاسمین کی آمد سے بے خبر تھی اور سعید چونکہ دروازہ سے باہر کھڑا تھا۔ اس لیے وہ یاسمین کو نہ دیکھ سکا۔
    حنیفہ نے پھر اپنا سوال دہرایا لیکن سعید خاموش رہا۔
    ”سعید!“ حنیفہ نے کہا ۔ ” جواب کیوں نہیں دیتے کیا وہ....؟“
    سعید نے گردن اٹھا کر حنیفہ کی طرف دیکھا ۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہا تھا لیکن زبان کے قابو میں نہ تھی۔ اس کی بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں سے آنسو چھلک رہے تھے اور اس کا حسین چہرہ غیر معمولی حزن و ملال کا اظہار کررہا تھا۔
    ”سعید....کہو! “ حنیفہ نے پھر سوال کیا۔
    ”وہ شہید ہو چکا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں زندہ واپس آیا ہوں۔“
    سعید نے کہا اور چھلکتے ہوئے آنسو اس کی آنکھوں سے گر پڑے۔
    سعید نے اپنا فقرہ ابھی پورا ہی کیا تھا کہ حنیفہ کے پیچھے سے ایک چیخ سنائی دی اور کسی چیز کے دھڑام سے زمین پر گرنے کی آواز آئی۔ حنیفہ گھبرا کر پیچھے مڑی۔ سعید بھی حیران ہو کر مکان کے صحن میں آگیا۔ یاسمین منہ کے بل پڑی تھی۔
    سعید نے جلدی سے اٹھایا اور کمرے کے اندر لاکر اس کے بستر پرلٹا دیا اور ہوش میں لانے کی کوشش کی۔ جب مایوسی ہوئی تو طبیب کو بلانے کے لئے بھاگا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب طبیب کو لے کر واپس آیا تو دیکھا کہ گھر میں محلے کی بہت سی عورتیں جمع ہیں۔ کسی نے طبیب کو دیکھ کر کہا۔”اب آپ کی ضرورت نہیں، وہ جا چکی ہے۔“
    یام کے قریب شہر کے عامل نے یاسمین کا جنازہ پڑھایا۔ ظہیر کی شہادت کا واقعہ بھی مشہور ہوگیا تھا۔ اس لیے اس کے لیے بھی دعائے مغفرت کی گئی۔ اس کے بعد ظہیر اور یاسمین کم سن یادگار عذرا کے حق میں درازی عمر کی دعا مانگی گئی۔

    (۶)
    سعید نے اسی دن عذرا کو ایک دایہ کے سپرد کیا اور حنیفہ سے کہا کہ اگر تم ظہیر کے مکان میں رہنا چاہو تک میں تمہارے اخراجات برداشت کروں گا اوراگر میرے گھر رہنا پسند کرو تو بھی میں تمہاری خدمت کروںگا لیکن حنیفہ نے کہا:
    ”میں حلب میں اپنے گھر جانا چاہتی ہوں۔ وہاں میرا یک بھائی رہتاہے۔ اگر میراوہاں دل زیادہ دیر نہ لگا تو میں آپ کے پاس واپس آجاؤں گی۔“
    سعید نے حنیفہ کے سفر کا انتظام کیا اور پانچ سو دینار دے کر رخصت کیا۔
    دو سال کے بعد سعید عذرا کو اپنے گھر لے آیا اور خود اس کی پرورش کرنے لگا۔ جب اسے فارس کی طرف خارجیوں کے خلاف مہم پر جانا پڑا تو وہ عذرا کو صابرہ کے پاس چھوڑ گیا۔
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    بچپن

    بستی کے نخلستانوںمیں سے ایک ندی گزرتی تھی۔ بستی والوںنے مویشیوں کے لیے اس ندی کے کنارے ایک تالاب کھود رکھا تھا۔ جو ندی کے پانی سے ہر وقت بھرا رہتا تھا۔ تالاب کے ارد گرد کھجوروں کے درخت ایک دلفریب منظر پیش کر رہے تھے۔ بستی کے بچے اکثر اوقات اس جگہ آکر کھیلا کرتے تھے ۔
    ایک دن عبد اللہ۔ نعیم اور عذرا بستی کے دوسرے بچوں کے ساتھ اس جگہ کھیل رہے تھے۔ عبد اللہ نے اپنے عم عمر لڑکوں کے ساتھ تالاب میں نہانا شروع کیا ۔ نعیم اور عذرا تالاب کے کنارے کھڑے بڑے لڑکوں کو پانی میں تیرتے، اچھلتے اور کودتے دیکھ کر خوش ہو رہے تھے ۔ نعیم کو کسی بات میں بھی اپنے بھائی سے پیچھے رہنا گوارا نہ تھا۔ ابھی اس نے تیرنا نہیں سیکھا تھا لیکن عبد اللہ کوتیرتے ہوئے دیکھ کر ضبط نہ کر سکا۔ اس نے عذرا کی طرف دیکھا اور کہا ۔ ”اؤ عذرا، ہم بھی نہائیں!“
    عذرا نہیں جواب دیا۔”امی جان خفا ہوگی۔“
    ”عبد اللہ سے کیوں خفا نہیں ہوگی۔ ہم سے کیوں ہو گی۔“
    ”وہ بڑا ہے۔ اسے تیرنا آتا ہے۔ اس لیے امی جان خفا نہیں ہوتیں۔“
    ”ہم گہرے پانی میں نہیں جائیں گے۔چلو!“
    ”اوں ہوں۔“ عذرا نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
    ”تم ڈرتی ہو؟“
    ”نہیں تو۔“
    جس طرح نعیم ہر بات میں عبد اللہ کی تقلید کرنے بلکہ اس سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتا تھا۔ اسی طرح عذرا بھی نعیم کے سامنے اپنی کمزوری کا اعتراف کرنا گوارا نہ کرتی۔ نعیم نے ہاتھ بڑھایا اور عذرا اس کا ہاتھ پکڑ کر پانی میں کود گئی۔ کنارے پر پانی زیادہ گہرا نہ تھا لیکن وہ آہستہ آہستہ گہرے پانی کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ عبد اللہ اور دوسرے بچے مقابل کے کنارے کھجور کے ایک خمدار درخت پر چڑھ کر باری باری پانی میں چھلانگیں لگا رہے تھے ۔ عبد اللہ کی نظر نعیم اور عذرا پر اس وقت پڑی جب پانی ان کے گردنوں کے برابر آیا ہوا تھا اور دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ بدستور پکڑا ہوا تھا۔ عبد اللہ نے گھبرا کر چلانا شروع کیا لیکن اس کی آواز پہنچنے سے پہلے عذرا اور نعیم گہرے پانی میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے ۔ عبد اللہ تیزی سے تیرتا ہوا ان کی طرف بڑھا۔ اس کے پہنچنے سے پہلے نعیم کا پاؤں زمین پر لگ چکا تھا لیکن عذرا ڈبکیاں کھا رہی تھی۔ عبداللہ نعیم کو محفوظ دیکھ کر عذرا کی طرف بڑھا۔
    عذرا بھی تک ہاتھ پاؤں مار رہی تھی۔ وہ عبد اللہ کے قریب آتے ہی اس کے گلے میں بازو ڈال کر لپٹ گئی۔
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  16. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    عبد اللہ میں اس کا بوجھ سہارنے کی طاقت نہ تھی۔ عذرا اس کے ساتھ بری طرح چمٹی ہوئی تھی اور اس کے بازو پوری طرح حرکت نہیں کر سکتے تھے۔ وہ دو تین بار پانی میں ڈوب ڈوب کر ابھرا۔ اتنی دیر میں نعیم کنارے پر پہنچ چکا تھا۔ اس نے باقی لڑکوں کے ساتھ مل کر چیخ پکار شروع کردی۔ ایک چرواہا اونٹوں کو پانی پلانے کے لیے تالاب کی طرف آرہا تھا، لڑکوں کی چیخ و پکار سن کر بھاگا اور تالاب کے کنارے پر سے یہ منظر دیکھتے ہی کپڑوں سمیت پانی میں کود پڑا۔ اتنی دیرمیں عذرا بے ہوش کر عبد اللہ کو اپنے ہاتھوں کی گرفت سے آزاد کر چکی تھی۔ وہ ایک ہاتھ سے عذرا کے سر کے بال پکڑے دوسرے ہاتھ سے تیرنے کی کوشش کررہا تھا۔
    چرواہے نے تیزی کے ساتھ جھپٹ کر عذراکو اوپر اٹھالیا ۔ عبد اللہ عذرا سے نجات پا کر آہستہ آہستہ تیرتا ہوا کنارے کی طرف بڑھا۔ چرواہا عذرا کو لے کر پانی سے باہر نکلا اور تیزی سے صابرہ کے مکان کی طرف چل دیا۔ عبد اللہ کے تالاب سے نکلتے ہی نعیم جھٹ دوسرے کنارے پر گیا اور عبد اللہ کے کپڑے اٹھا لایا۔ عبد اللہ نے کپڑے پہنتے ہوئے نعیم پر ایک قہر آلود نظر ڈالی۔ نعیم پہلے ہی آبلہ بن رہا تھا، بھائی کے غضب کی تاب نہ لا سکا اور سسکیاں لینے گا۔ عبداللہ نے نعیم کو روتے ہوئے بہت کم دیکھا تھا۔ اس موقع پر نعیم کے آنسو اس کا دل موم کرنے کے لیے کافی تھے، اس نے کہا ”بہت گدھے ہو تم۔ گھر چلو!“
    نعیم نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا۔ ”امی جان ماریں گی۔ میں نہیں جاؤ گا۔“
    ”نہیں ماریں گی۔“ عبد اللہ نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
    عبد اللہ کے تسلی آمیز الفاظ سنتے ہی نعیم کے آنسو خشک ہوگئے اور وہ بھائی کے پیچھے ہو لیا۔ چرواہا عذرا کو اٹھائے ہوئے صابرہ کے گھر پہنچا تو صابرہ کی پریشانی کی کوئی حد نہ رہی۔ پڑوس کی چند اور عورتیںبھی اکٹھی ہوگئیں۔ بہت کوشش کے بعد عذرا کو ہوش میںلایا گیا۔ صابرہ نے چرواہے کی طرف متوجہ ہو کرکہا:
    ”یہ نعیم کی شرارت ہوگی۔ میں اسے عذرا کے ساتھ باہربھیجتے ہوئے ہمیشہ ڈرا کرتی تھی، پرسوں ایک لڑکے کا سر پھوڑ دیا۔ اچھا، آج وہ گھر آئے سہی!“
    چرواہے نے کہا، اس میں نعیم کا تو کوئی قصور نہیں۔ وہ بے چارا تو کنارے پرکھڑا چیخ پکار کر رہا تھا۔ میں اس کی آواز سن کر بھاگتا ہوا تالاب پر پہنچا تو آپ کے بڑے لڑکے نے عذرا کو بالوں پکڑا ہوا تھا اور وہ غوطے کھا رہی تھی۔
    ”عبد اللہ۔“ صابرہ نے حیران ہو کر کہا۔ ”وہ تو ایسا نہیں!“
    چرواہے نے کہا ” آج تو میں بھی اس کی حرکت دیکھ کر بہت حیران ہوا ہوں۔ اگر میں موقع پر نہ پہنچتا تو اس نے معصوم لڑکی کو ڈبو دیا تھا۔“
    اتنے میں عبد اللہ گھر پہنچا۔ نعیم اس کے پیچھے پیچھے سر جھکائے آرہا تھا۔ جب عبد اللہ صابرہ کے رو برو ہوا تو نعیم اس کے پیچھے چھپ کر کھڑا ہوگیا۔
    صابرہ غضبناک ہوکر بولی ”عبد اللہ! جاؤ، میری آنکھوں سے دور ہو جاؤ۔ میرا خیال تھا کہ تم میں کچھ شعور ہے۔ مگر آج تم نعیم سے بھی چند قدم آگے بڑھ گئے۔ عذرا کو ڈبونے کے لیے ساتھ لے گئے تھے؟“
    عبد اللہ جو سارا راستہ نعیم کو بچانے کی تجاویز سوچتا آیا تھا۔ اس غیر متوقع استقبال پرحیران ہوا ۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ یہ قصور نعیم کی بجائے اس کے پر تھونپا جا رہا ہے۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ ننھے بھائی کی نگاہیں التجا کر رہی تھیں کہ مجھے بچاؤ۔ عبد اللہ کو اس کے بچانے کی یہی صورت نظر آئی کہ وہ نا کردہ گناہ اپنے سر لے، یہ سوچ کر وہ خاموش کھڑا رہا اورماں کی ڈانٹ ڈپٹ سنتا رہا۔
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    رات کے وقت عذرا کو زکام کا ساتھ بخار کی شکایت ہوگئی۔ صابرہ عذرا کے سرہانے بیٹھی تھی۔ نعیم بھی غمگین صورت بنائے پاس بیٹھا تھا۔ عبد اللہ اندر داخل ہوا اورچپکے سے صابرہ کے قریب آکر کھڑا ہوگیا۔ صابرہ اس کی آمد سے بے خبر عذرا کا سر دباتی رہی۔ نعیم نے ہاتھ سے عبد اللہ کو چلے جانے کا اشارہ کیا اوراپنا مکا دکھا کر اسے اشاروں میں یہ بتانے کی کوشش کی کہ چلے جاؤ ورنہ خیر نہیں۔ عبد اللہ نے اس کے اشاروں سے متاثر ہونے کی بجائے نفی میں سر ہلا دیا۔
    نعیم کو اشارہ کرتے دیکھ کر صابرہ نے عبد اللہ کی طرف نگاہ اٹھائی ۔ عبد اللہ ماں کی غضب آلود نظروں سے گھبرا گیا۔ اس نے کہا۔ ” اب عذرا کیسی ہے؟“
    صابرہ پہلے ہی بھری بیٹھی تھی۔ اب ضبط نہ کر سکی۔ ”ٹھہرو میں تمہیں بتاتی ہوں!“ یہ کہہ کراٹھی اور عبد اللہ کو کان سے پکڑ کر باہر لے آئی۔ صحن کی ایک طرف اصطبل تھا۔ صابرہ نے عبد اللہ کو دروازے پر لے جا کر کہا۔”عذرا کو اس لیے دیکھنے گئے تھے کہ وہ ابھی تک مری کیوں نہیں، تم رات یہیں بسر کرو!“ عبد اللہ کو یہ حکم دے کر صابرہ پھر عذرا کے سرہانے آ بیٹھی۔
    جب نعیم کھانا کھانے بیٹھا تو اسے بھائی کا خیال آیا اور لقمہ اس کے حلق میں اٹک کر رہ گیا۔ اس نے صابرہ سے ڈرتے ڈرتے پوچھا:
    ”امی جان! بھائی کہا ہے؟“
    ”وہ آج اصطبل میں رہے گا۔“
    ”امی اسے کھانا دے اؤں؟“
    ”نہیں ،خبردار اس کے پاس گئے تو!“
    نعیم نے چند بار لقمہ اٹھایا مگر اس کا ہاتھ منہ تک پہنچ کر رک گیا۔
    ”کھاتے نہیں؟“ صابرہ نے پوچھا۔
    ”کھا رہا ہوں امی!“ نعیم نے ایک لقمہ جلدی سے منہ میں رکھتے ہوئے جواب دیا۔
    صابرہ عشا کی نماز کے لیے وضو کرنے اٹھی اور جب وضو کر کے واپس آئی تو نعیم کو اسی حالت میں بیٹھے دیکھ کر بولی:
    ”نعیم تم نے آج بہت دیر لگائی۔ ابھی تک کھانا نہیں کھایا؟“
    نعیم نے جواب دیا۔ ”کھا چکا ہوں امی!“
    صابرہ نے برتن جن میں کھانا ابھی تک ویسے ہی تھا، اٹھا کر دوسرے کمرے میں رکھ دیے اورنعیم کوسو جانے کے لیے کہا۔ نعیم اپنے بستر پر جا کر لیٹ گیا۔ جب صابرہ نماز کے لیے کھڑی ہوگئی تو وہ چپکے سے اٹھا اور دبے پاؤں دوسرے کمرے سے کھانا اٹھا کر اصطبل کی طرف چل دیا۔ عبد اللہ چرنی پر بیٹھا ایک گھوڑے کے منہ پر ہاتھ پھیررہا تھا۔ چاند کی روشنی دروازے کے راستے عبداللہ کے منہ پر پڑ رہی تھی۔ نعیم نے کھانا اس کے سامنے رکھ دیا اور کہا ۔ ”امی جان نماز پڑھ رہی ہیں ۔ جلدی سے کھا لو!
    عبد اللہ نعیم کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور بولا۔ ”لے جاؤ میں نہیں کھاؤ ںگا۔“
    ”کیوں مجھ سے ناراض ہونا ؟“ اس نے آنکھوں میں آنسو لاکر کہا۔
    ”نہیں نعیم، امی جان کا حکم ہے تم جاؤ!“
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  18. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    ”میں نہیں جاؤں گا، میں بھی یہیں رہو ں گا۔“
    ”جاؤ نعیم، تمہیں امی جان ماریں گی!“
    ”نہیں میں نہیں جاؤں گا۔“ نعیم نے عبد اللہ سے لپٹتے ہوئے کہا۔
    نعیم کے اصرار پر عبد اللہ خاموش ہو گیا۔
    ادھر صابرہ نے نماز ختم کی۔ مامتا زیادہ ضبط کی طاقت نہ رکھتی تھی۔ ”اف! میں کتنی ظالم ہوں۔“ اسے خیال آیا اور نماز ختم کرتے ہی اصطبل کی طرف چل دی۔ نعیم نے ماں کو آتے دیکھا تو چھپنے کی بجائے بھاگ کر اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیا اور چلایا:
    ”امی! بھائی کا کوئی قصور نہیں۔ میں عذرا کو گہرے پانی میں لے گیا تھا۔ بھائی تو اسے بچا رہا تھا۔“ صابرہ کچھ دیر پریشانی کی حالت میں کھڑی رہی۔ بالآخر اس نے کہا۔ ”میرا بھی یہی خیال تھا۔ عبد اللہ ادھر اؤ!“ عبد اللہ اٹھ کر آگے بڑھا۔ صابرہ نے پیار سے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور اس کا سر سینے سے لگا لیا۔
    عبد اللہ نے کہا۔ ”امی آپ نعیم کو معاف کردیں!“
    صابرہ نے نعیم کی طرف دیکھا اور کہا :
    ”بیٹا تم نے اپنی غلطی کا اعتراف کیوں نہ کیا؟“
    نعیم نے جواب دیا ”مجھے کیامعلوم تھا کہ آپ بھائی کو سزا دیںگی۔“
    ”اچھا تم کھا اٹھا لو۔“
    نعیم نے کھانا اٹھا لیا اور تینوں مکان کے کمرے میں داخل ہوئے۔ عذرا سو رہی تھی۔ ان تینوں میں سے کسی نے ابھی تک کچھ نہیں کھایا تھا۔ تمام ایک جگہ بیٹھ کر کھانے لگے۔
    (۳)
    ان بچوں کی تعلیم و تربیت صابرہ کی زندگی کی تمام دلچسپیوں کا مرکز تھی۔ اس تنہائی کے باوجود جو ایک عورت کو خاوند کی موت کے بعد محسوس ہوا کرتی ہے، صابرہ کا اجڑا ہوا گھر اس کے لیے ایک پر رونق شہر سے کم نہ تھا۔
    رات کے وقت جب وہ عشاءکی نماز سے فارغ ہوتی تو عبد اللہ، عذرا اور نعیم اس کے قریب بیٹھ کر کہانی سنانے کا مطالبہ کرتے۔ صابرہ انہیں کفر و اسلام کی ابتدائی جنگوں کے واقعات سناتی اور رسول برحقﷺ کے حالات بتاتی۔
    ان بچوں کی بے فکری کا زمانہ گزرتا گیا۔صابرہ کی تربیت کے باعث ان کے دلوں میں سپاہیانہ زندگی کے تمام خصائص روز بروز ترقی کر رہے تھے ۔عبد اللہ عمر میں جس قدر بڑا تھا، عذرا اور نعیم کے مقابلے میں اتنا ہی سنجیدہ اورمتین تھا۔ وہ تیرہ سال کی عمر میں قرآن پاک اور چند ابتدائی کتابیں ختم کر چکا تھا۔ نعیم ایک تو کم عمر ہونے کی بناءپر اور دوسرے کھیل کود میں زیادہ حصہ لینے کی وجہ سے پڑھائی میں عبد اللہ سے پیچھے تھا۔ اس کی شوخی اور چلبلا پن تمام بستی میں مشہور تھا۔ وہ اونچے سے اونچے درخت پر چڑھ سکتا تھا اور تند سے تندگھوڑے پر سواری کرنے کا عادی تھا۔ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سواری کرتے ہوئے اس نے کئی بار گر کر چوٹیں کھائیں۔ لیکن وہ ہر بار ہنستا اور خطرے کے مقابلے کے لیے پہلے کی نسبت زیادہ جرات لے کر اٹھتا۔ تیر اندازی میں بھی اس نے اتنی مہارت پیدا کرلی تھی کہ گاؤں میں بڑی عمر کے لڑکے بھی اس کا لوہا مانتے تھے ۔
    ایک دن عبد اللہ صابرہ کے سامنے بیٹھا سبق سنا رہا تھا اور نعیم تیر کمان ہاتھ میں لیے مکان کی چھت پر کھڑا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  19. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    صابرہ نے آواز دی۔”نعیم ادھر اؤ! آج تم نے سبق یاد نہیں کیا؟“
    ”آتا ہوں امی۔“
    صابرہ پھر عبد اللہ کی طرف متوجہ ہوگئیں۔ اچانک ایک اڑتا ہوا کوا آیا۔ نعیم نے جلدی سے نشانہ لیا۔ کوا قلابازیاں کھاتا ہوا صابرہ کے قریب آگرا۔ صابرہ نے گھبرا کر اوپر دیکھا۔ نعیم کمان ہاتھ میں لیے فاتحانہ انداز میں مسکر ا رہا تھا۔ صابرہ نے اپنی مسکراہٹ کو چھپاتے ہوئے کہا۔”بہت نالائق ہو تم!“
    ”امی! آج بھائی نے کہا تھا کہ تم اڑتے ہوئے پرندے کو نشانہ نہیں بنا سکتے!“
    ”اچھا، بہت بہادر ہو تم، اؤ، اب سبق سناؤ!“
    چودہ سال کی عمر میں عبد اللہ علوم دینی اور فنون سپہ گری کی تکمیل کے لیے بصرہ کے ایک مکتب میں داخل ہونے کے لیے رخصت ہوا اورعذرا کی دنیا کی آدھی خوشی اور ماں کے محبت بھرے دل کا ایک ٹکڑا ساتھ لیتا گیا۔ ان تینوں بچوں کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا ضروری نہیں کہ عذرا کو نعیم اور عبد اللہ سے بے حد محبت تھی۔ لیکن یہ جاننا بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ان دونوں میں سے کسی کو زیادہ چاہتی تھی۔اس کے معصوم دل پر کون زیادہ گہرے نقوش پیدا کر چکا تھا۔ اس کی آنکھیں کس کو بار بار دیکھنے کے لیے بے قراررہتیں اور اس کے کانوں میں کس کی آواز ایک نغمہ بن کر گونجتی تھی۔
    بظاہر خود عذرا بھی اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکتی تھی۔ اس کے لیے نعیم اور عبد اللہ ایک ہی وجود کے دو مختلف نام تھے اور نعیم کے بغیر عبداللہ اور عبد اللہ کے بغیر نعیم کا تصور اس کے لیے نا ممکن تھا۔ اس نے اپنے دل میںکبھی ان دونوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ان دونوں کی موجودگی میں بھلا اسے کسی گہری سوچ میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ جب ان دونوں میں سے کوئی ہنستا ہوا نظر آتاتو وہ اس کی ہنسی میں شریک ہو جاتی اور جب کسی کو سنجیدہ دیکھتی تو فوراً سنجیدہ ہو جاتی۔
    عبد اللہ کے بصرہ چلے جانے کے بعد اسے ان باتوںکے متعلق سوچنے کا موقع ملا۔ اسے معلوم تھا کہ کچھ عرصہ بعد نعیم بھی وہاں چلاجائے گا۔ لیکن نعیم سے جدائی کا تصور بھیاسے عبد اللہ کی جدائی سے زیادہ صبر آزما محسوس ہوتا تھا۔ عبد اللہ کا عمر میں بڑا ہونا، اس کی متانت و سنجیدگی عذرا کے دل میں اس کی محبت کے ساتھ ساتھ اس کی عظمت اور بلندی کا احساس پیدا کر چکی تھی۔ وہ محبت سے زیادہ اس کا احترام کرتی تھی۔ اسے نعیم کی طرح بھائی جان کہہ کر پکارتی اور اپنے سے ارفع اور اعلیٰ سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ میل جول اور باتوں میں قدرے تکلف سے کام لیتی۔ نعیم کی عظمت بھی اس کے دل میں کم نہ تھی۔ لیکن اس کے ساتھ گہرے لگاؤ نے اسے تکلفات سے بے نیاز کردیا تھا۔ اس کی دنیا میں عبد اللہ ایک سورج کی حیثیت رکھتا تھا۔ جس کی طرف ہم اس کی خوشنمائی کے باوجود آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھ سکتے اور اس کے قریب جانے کے خیال سے گھبراتے ہیں لیکن نعیم کی ہر بات اسے اپنے منہ سے نکلی ہوئی معلوم ہوتی۔
    عبداللہ کے چلے جانے کے بعد نعیم کی عادات میں ایک عجیب تغیر رونما ہوا۔ شاید اس خیال سے کہ صابرہ عبد اللہ کی جدائی بہت زیادہ محسوس نہ کرے یا اس کی وہ بھی بصرہ کے مدرسے میں داخل ہونے کے لیے بے تاب تھا۔ بہر حال وہ بچپن کی تمام عادات چھوڑ کر پڑھائی میں دلچسپی لینے لگا۔ اس نے ایک دن عابدہ سے سوال کیا ”امی! آپ مجھے بصرہ کب بھیجیں گی؟“
    ماں نے جواب دیا”بیٹا جب تک تم اپنی ابتدائی تعلیم ختم نہیں کر لیتے۔ میں تمہیں وہاں بھیج کر لوگوں سے یہ کہلوانا پسند نہیں کرتی کہ عبد اللہ کا بھائی بے علم ہے۔ گھوڑے پر چڑھنے اور تیر چلانے کے سوا کچھ نہیں جانتا۔“
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  20. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    ماں کے الفاظ نعیم کے دل میں نشتر کی طرح چبھے۔ اس نے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا۔ ”امی ! مجھے کوئی جاہل کہنے کی جرات نہیں کر ے گا۔ میں تمام کتابیں اسی ختم کرلوں گا۔“
    صابرہ نے پیار سے نعیم کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:
    ”بیٹا! تمہارے لیے کوئی بات مشکل نہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ تم کچھ کرتے نہیں!“
    ”ضرور کروں گا۔ امی اب آپ کو مجھ سے یہ شکایت نہ رہے گی۔“

    (۴)
    ماہ رمضان کی چھٹیوں میں عبد اللہ گھر آیا۔ وہ سپاہیانہ لباس پہنے ہوئے تھا۔ بستی کے لڑکے اسے دیکھ کر حیران ہو رہے تھے ۔ نعیم اسے دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سماتا۔ عذرا اسے دور ہی دور سے دیکھ کر شرما جاتی اور صابرہ بار بار اس کی پیشانی چومتی۔ نعیم نے عبداللہ سے مدرسے کے متعلق بہت سے سوالات کیے۔ عبد اللہ نے اسے بتایا کہ وہاں پڑھائی کے علاوہ زیادہ فنون جنگ کی تحصیل میں صرف ہوتاہے۔ نیزہ بیازی، تیغ زنی اور تیر اندازی سکھائی جاتی ہے۔ تیز اندازی کے متعلق سن کر نعیم کا دل خوشی سے اچھلنے لگا۔
    ”بھائی جان مجھے بھی ساتھ لے چلو۔“ اس نے ملتجی ہو کر کہا!
    ”تم ابھی بہت چھوٹے ہو۔ وہاں تمام لڑکے تم سے بہت بڑے ہیں۔ تمہیں کچھ مدت صبر کرنا پڑے گا۔“
    نعیم نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد سوال کیا۔ ”بھائی جان! مدرسے میں آپ سب لڑکوں پرسبقت لے جاتے ہوں گے؟“
    عبد اللہ نے جواب دیا۔
    ”نہیں بصرہ کا ایک لڑکا میرا مد مقابل ہے۔ اس کا نام محمد بن قاسم ہے۔ وہ تیر اندازی اور نیزہ بازی میں تمام مدرسے کے لڑکوں سے اچھا ہے۔ تیغ زنی میں ہم دونوں برابر ہیں۔ اس سے کبھی کبھی تمہارا ذکر کرتاہوں۔ وہ تمہاری باتیں سن کر بہت ہنسا کرتاہے۔“
    ”ہنسا کرتاہے؟“ نعیم نے تیوری چڑھا کر کہا۔ ” میں اسے جاکر بتاؤں گا کہ میں ایسا نہیں ہوں کہ لوگ مجھ پر ہنسا کریں۔“
    عبد اللہ نے نعیم کو برگشتہ دیکھ کر گلے لگا لیا اور اسے خوش کرنے کی کوشش کی۔
    رات کے وقت عبد اللہ لباس تبدیل کرکے سو گیا۔ نعیم اس کے قریب بستر پر پڑا کافی دیر تک جاگتا رہا۔ جب نیند آئی تو اس نے خواب میں دیکھا کہ وہ بصرہ کے مدرسے کے طلبا کے ساتھ تیر اندازی اورنیزہ بازی میں مصروف ہے۔ وہ علی الصباح سب سے پہلے اٹھا۔ جلدی جلدی عبد اللہ کی وردی پہنی اور عذرا کوآجگایا۔
    ”عذرا دیکھو! مجھے یہ لباس کیسا لگتاہے؟“
    عذرا اٹھ کر بیٹھ گئی۔ نعیم کو سر سے پاؤں تک دیکھا، مسکرائی اور بولی۔ ”تم اس لباس میں بہت بھلے معلوم ہوتے ہو۔“
    ”عذرامیں بھی وہاں جاؤں گا اور وہاں سے یہ لباس پہن کر اؤں گا!“
    عذرا کے چہرے پر اداسی چھا گئی۔ ”تم وہاں کب جاؤگے؟“ اس نے سوال کیا۔
    ”عذرا میں امی جان سے بہت جلد اجازت لے لوں گا۔“
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  21. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    مکتب

    ۳۵ءسے ۷۵ءتک کی اسلامی تاریخ چند ایسے خونیں حادثات سے پر ہے جن کے متعلق گذشتہ صدیوں میں بہت آنسو بہائے جا چکے ہیں اور جن کی یاد مستقبل میں بھی اشکوں اور آہوں کے بغیر تازہ نہ کی جا سکے گی۔ وہ تلوار جو خدا کے نام پر بلند ہوتی تھی، اس زمانے میں خدا کا نام لینے والوں کی گلے کاٹتی رہی۔ یہ خطرہ رو ز بروز ترقی کررہا تھا کہ مسلمان چند سال کے عرصے میں جس سرعت کے ساتھ اطراف عالم میں چھا گئے تھے ، کہیں اتنی ہی تیزی کے ساتھ سمٹ کر جزیرہ نمائے عرب میں محبوس نہ ہوجائیں۔ اس زمانے میں کوفہ اور بصرہ طرح طرح کی سازشوں کے مرکز بنے ہوئے تھے ۔ مسلمان اپنی ابتدائی روایات کو بھول کر جذبہ جہاد سے منہ پھیر چکے تھے ۔ ان کے پیش نظر ذاتی اغراض و مقاصد کے لیے جدوجہد اور اپنی واجب اور نا واجب باتوں پر اڑ بیٹھنے کے سوا اور کوئی نظریہ نہ تھا۔ مسلمانوں کو پھر ایک مرکز پر لانے کے لیے ایک آہنی ہاتھ کی ضرورت تھی۔
    صحرائے عرب میں ایک آتش فشاں پہاڑ پھٹا اور عرب و عجم میں بغاوتوں کی سلگتی ہوئی چنگاریاں اس آتش فشاں پہاڑ کے مہیب شعلوں کی لپیٹ میں آکر نا بود ہوگئیں۔ یہ آتش فشاں پہاڑ حجاج بن یوسف تھا۔ بے حد سخت گیر، بے رحم اور سفاک لیکن قدرت صحرائے عرب کی اندرونی جنگوں کو ختم کرکے مسلمانوں کے تند گھوڑوں کا رخ مشرق و مغرب کی رزم گاہوں کی طرف پھیردینے کا کا م اسی سے لینا چاہتی تھی۔
    حجاج بن یوسف کو مسلمانوں کا دوست بھی کہا جا سکتا ہے اور بدترین دشمن بھی۔ بہترین دوست اس لیے کہ اس نے ایک پر امن فضا پیدا کرکے پیش قدمی کے لیے تین زبردست راستے صاف کیے۔ ایک راستہ وہ تھا جو مسلمانوں کی فوج کو فرغانہ اور کاشغر تک لے گیا ۔ دوسرا راستہ وہ جو مسلمانوں کے سمنداقبال کو مراکش، سپین اور فرانس کی حدود تک لے گیا۔ تیسرا راستہ وہ تھا جس نے محمد بن قاسم کی مٹھی بھر فوج کو سند ھ تک پہنچا دیا۔
    بدترین دشمن اس لیے کہ اس کی خون آشام تلوار جو شرپسندوں اور مفسدوںکی سرکوبی کے لیے بے نیام ہوئی تھی، بسا اوقات اپنی حدود سے گزر کر بے گناہ کی گردن تک بھی جا پہنچتی تھی۔ اگر حجاج بن یوسف کا دامن مظلوموں کے خون سے داغدارنہ ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ تاریخ کے اس زمانے کے ایک عظیم الشان انسان کی حیثیت سے نہ دیکھتی۔ وہ ایک ایسا بگولہ تھا جو کانٹے دار جھاڑیوں کے ساتھ گلشن اسلام کے کئی مہکتے ہوئے پھول اور سر سبز ٹہنیاں بھی اڑا کر لے گیا۔
    بہرحال اس کے عہد کا ایک بے حد المناک اور دوسرا بے حدخوشگوار تھا۔وہ اس آندھی کی طرح تھا جس کی تیزی بعض سر سبز درختوں کو جڑ سے اکھاڑ ڈالتی ہے لیکن جس کی آغوش میں چھپے ہوئے بادل برس کر ہزاروں سوکھی ہوئی کھیتیوں کو سرسبز و شاداب بناتے ہیں۔
    ۵۷ءمیں صحرائے عرب کی خانہ جنگیاں ختم ہو گئیں۔ مسلمان پھر ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں تلوار لے کر اٹھے۔ اس زمانے میں حجاج بن یوسف کے نام کے ساتھ زید بن عامر کے نام کا چرچا ہونے لگا۔ زید بن عامر کی عمر اسی سال تھی۔ جوانی کے عالم میں وہ ان شاہسواروں کے ہم رکاب رہ چکا تھا جو ایران کے کسریٰ اور شام و فلسطین میں قیصر کی سلطنت کو پائمال کر چکے تھے۔ جب بڑھاپے کی کمزور ی نے تلوار اٹھانے سے انکار کردیا تو اس نے ایران کے ایک صوبہ میں قاضی کا عہدہ قبول کرلیا۔ جب عرب میں شورش برپا ہوئی تو ابن عامر کوفہ پہنچا اور اپنی تبلیغ سے وہاں کے حالات سدھارنے کی کوشش کرنے لگا لیکن اس کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔“
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  22. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    کوفہ کے لوگوں کی بے اعتنائی دیکھ کر ابن عامر بصرہ پہنچا لیکن وہاں کے حالات بھی کوفہ سے کچھ مختلف نہ تھے۔ فارغ البال اور شرپسند لوگوں نے اس کی طرف توجہ تک نہ کی۔ نوجوانوں اور بوڑھوں سے مایوس ہو کر ابن عامر نے اپنی تمام امیدیں کم سن بچوں کے ساتھ وابستہ کردیں اور اپنی تمام کوششوں سے ان کی تعلیم و تربیت کی طرف مبذول کردیں۔ ا س نے شہر کے باہر ایک مدرسے کی بنیاد رکھی۔ جب بصرہ میں امن قائم ہوا تو وہاں کے چیدہ چیدہ لوگوںنے ابن عامر کی حوصلہ افزائی کی۔ مدرسہ میں طلباءکو دینی کتب پڑھانے کے علاوہ جنگی فنون کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔ حجاج بن یوسف اس بے لوث خدمت سے متاثر ہوا اور مدرسے کے تمام اخراجات اپنے ذمے لے لیے۔ طلبا ءکو جنگ اور شاہسواری وغیرہ میں پوری مہارت دلانے کے لیے بہترین نسل کے گھوڑے اور نئے نئے اسلحہ جات مہیا کیے اور گھوڑوں کے مکتب کے پاس ہی ایک شاندار اصطبل تیار کرا دیا۔
    طلباءہر شام مدرسہ کے قریب ایک وسیع میدان میں جمع ہو جاتے۔ وہاں انہیں عملی طورپر فوجی تعلیم دی جاتی۔ شہر کے لوگ شام کے وقت اس میدان کے ارد گرد جمع ہو کر طلباءکی تیغ زنی، نیزہ بازی اور شاہسواری کے نئے نئے کرتب دیکھاکرتے۔
    سعید نے جب اس مدرسے کی شہرت سنی تو صابرہ کو خط لکھ کر مشورہ دیاکہ عبد اللہ کو اس مدرسے میں بھیج دیا جائے۔ عبد اللہ اس ماحول میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہاتھا۔ وہ جہاں تعلیم میں اپنے بہت سے ساتھیوں کے لئے قابل رشک تھا وہاں فنون سپہ گری میں بھی ایک امتیازی حیثیت حاصل کر چکا تھا۔
    عبد اللہ کو اس شہر میں آئے ابھی دو سال ہوئے تھے کہ بصرہ کے بچے اور بوڑھے اس کے نام سے واقف ہوگئے۔ ابن عامر کی نگاہوں سے بھی اس ہونہار شاگرد کے جوہر پوشیدہ نہ تھے ۔
    (۲)
    ایک روز دوپہر کے وقت ایک نو عمر لڑکا گھوڑے پر سوار شہر میں داخل ہوا ۔ اس نووارد کے ہاتھ میں نیزہ اور دوسرے میں گھوڑے کی باگ تھی۔ کمرکے ساتھ تلوار لٹک رہی تھی۔ میں حمائل اور پیٹھ پر ترکش بندھا ہوا تھا۔ کمان زین کے پچھلے حصے کے ساتھ بندھی ہوئی تھی، اس کی تلواراس کے قد و قامت کے تناسب سے بہت بڑی تھی۔ کم سن سوار گھوڑے پر اکڑ کر بیٹھا ہوا تھا۔ ہر راہگیر اسے گھور گھور کر دیکھتا اورمسکرا دیتا اور بعض ہنس بھی پڑتے۔ اس کے ہم عمر لڑکے اسے ایک دل لگی سمجھ کر اس کے ارد گرد جمع ہوگئے اور تھوڑی دیر میں اس کے آگے پیچھے ایک اچھا خاصاہجوم اکٹھا ہوگیا۔ لڑکوں نے اس کے لیے آگے بڑھنے اور پیچھے ہٹنے کا راستہ روک لیا۔ ایک لڑکے نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ”بدو“ کا نعرہ بلند کیا اور تمام بدو بدو کہہ کر چلانے لگے، دوسرے نے ایک کنکر اٹھا کر اس کی طرف پھینکا۔ اب تمام لڑکوں نے کنکر پھینکنے شروع کردیے۔ ایک من چلے نے جو اس گروہ کا سرغنہ معلوم ہوتا تھا، آگے بڑھ کر اس کا نیزہ چھیننا چاہا لیکن نووارد نے نیزہ مضبوطی سے تھامے رکھا اور اور گھوڑے کی باگ کھینچ کر ایڑ لگادی۔ گھوڑے کا سیخ پا ہونا تھا کہ تمام لڑکے ادھر ادھر ہٹ گئے۔ نووارد نے ٹولی کے رہنما کی طرف نیزہ بڑھا کر گھوڑا اس کے پیچھے لگادیا۔ وہ بدحواس ہو کر بھاگ کھڑا ہوا۔ نووارد نے ہلکی رفتار سے اس کا تعاقب کیا۔ باقی لڑکے پیچھے پیچھے بھاگتے آرہے تھے۔ چند عمر رسیدہ لوگ بھی یہ منظر دیکھ کر اس جلوس میں شامل ہوگئے۔ آگے بھاگنے والے لڑکے کا پاؤں کسی چیز سے ٹکریا اور وہ منہ کے بل گر پڑا۔ نووارد نے گھوڑے کی باگ تھام لی اور پیچھے آنے والوں کی طرف مڑ کر دیکھا اور وہ اس سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑے ہوگئے۔
    اس گروہ میں سے مالک بن یوسف ایک ادھیڑ عمر کا آدمی آگے بڑھا۔ اس کا قد پست اور بدن چھریرا تھا۔ سر پر ایک بہت بڑا عمامہ تھا اور اوپر کے دانت کچھ اس حد تک باہر نکلے ہوئے تھے کہ وہ مسکراتا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر نووارد سے سوال کیا:
    ”تم کون ہو؟“
    ”مجاہد“۔ کم سن لڑکے نے اکڑ کر جواب دیا۔
    ”بہت اچھا نام ہے۔ تم بہت بہادر ہو۔“
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  23. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    وقفہ
     
    پاکستانی55، شاہنوازعامر اور ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  24. شاہنوازعامر
    آف لائن

    شاہنوازعامر ممبر

    شمولیت:
    ‏5 مارچ 2012
    پیغامات:
    400
    موصول پسندیدگیاں:
    287
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب یہ آرام سے پڑھنے والی داستان ہے اور نسیم حجازی کا نام ہی کافی ہے ۔ ان کے تاریخی واقعات ڈرامائی صورت میں ٹی وی سکرین پر پیش ہوچکے ہیں۔
     
    ابوازھر, زاھراحتشام, ملک بلال اور مزید ایک رکن نے اسے پسند کیا ہے۔
  25. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    جی بھائی مجھے انکے ناول بھت پسند ہیں
     
  26. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    وقفے کے بعد دوبارہ حاضر ہوں
     
  27. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    ”میرا نام نعیم ہے۔“
    ”تو تمہارا نام مجاہد نہیں؟“
    ”نہیں میرا نام نعیم ہے۔“
    ”تم کہاں جاؤ گے؟“ مالک نے سوال کیا۔
    ”ابن عامر کے مکتب میں، وہاں میرا بھائی پڑھتا ہے۔“
    ”وہ لوگ اس وقت اکھاڑے میں ہو ں گے۔ چلو میں بھی وہیں جارہاہوں۔“
    نعیم مالک کے ساتھ چل دیا۔ چند لڑکے تھوڑی دور ساتھ دے کر مڑ گئے اور کچھ نعیم کے پیچھے پیچھے چلتے رہے۔
    نعیم نے اپنے رہنما سے سوال کیا۔ ”اکھاڑے میں تیراندازی بھی ہوتی ہے؟“
    ”ہاں۔ تم تیر چلانا جانتے ہو؟“
    ”ہاں میں اڑتے ہوئے پرندے کو گرا لیتاہوں۔“
    مالک نے پیچھے مڑ کر نعیم کی طرف دیکھا۔ نعیم کی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں۔ اکھاڑے میں بہت سے لوگ الگ الگ ٹولیوں میں کھڑے طلباءکی تیر اندازی، تیغ زنی اور نیزہ بازی دیکھ رہے تھے۔مالک نے وہاں پہنچ کر نعیم سے کہا:
    ”تمہارا بھائی یہیں ہوگا۔ تم کھیل ختم ہونے سے پہلے اس سے نہیں مل سکو گے۔
    فی الحال یہ تماشا دیکھو!“
    نعیم نے کہا۔ میں تیر اندازی دیکھوں گا۔“
    مالک اسے تیر اندازوں کے اکھاڑے کی طرف لے گیا اور دونوں تماشائیوں کی صف میں جا کھڑے ہوئے۔
    اکھاڑے میں ایک کونے پر لکڑی کا ایک تختہ نصب تھا جس کے درمیان ایک سیاہ نشان تھا۔لڑکے باری باری اس پر نشانہ لگاتے۔ نعیم دیر تک کھڑا دیکھتا رہا۔ اکثر تیر تختے پر جا کر لگتے لیکن سیاہ نشان پر ایک طالب علم کے سوا کسی کا تیر نہ لگا۔
    نعیم نے مالک سے پوچھا۔ ”وہ کون ہے۔ اس کا نشانہ بہت اچھاہے؟“
    مالک نے جواب دیا۔ ”وہ حجاج بن یوسف کا بھتیجا محمد بن قاسم ہے۔“
    ”محمد بن قاسم!!“
    ”ہاں، تم اسے جانتے ہو؟“
    ”ہاں، وہ میرے بھائی کا دوست ہے۔ بھائی جان اس کے نشانے کی بہت تعریف کرتے ہیں لیکن یہ نشاندہی کوئی مشکل تو نہیں۔“
    ”مشکل کیا ہے؟ یہ تو شاید میں بھی لگا سکوں۔ ذرا مجھے اپنی کمان تو دینا۔ حجاج کا بھتیجا کیا خیال کرے گا کہ اب دنیا میں کوئی تیر انداز نہیں رہا۔“
    یہ کہہ اس نے نعیم کے گھوڑے کی زین سے کمان کھولی۔ نعیم نے اسے ترکش سے تیر لٹکال کردیا۔ مالک نے آگے بڑھ کر شست باندھی۔ لوگ اس کی طرف دیکھ کر ہنسنے لگے۔ مالک نے کانپتے ہاتھوں سے تیرا چھوڑا جو ہدف کی طرف جانے کی بجائے چند قدم کے فاصلے پر زمین میں دھنس گیا۔ تماشائیوں نے ایک پروزور قہقہہ لگایا۔ مالک کھسیانا ہوکروا پس ہوا اور کمان نعیم کو دے دی۔ محمد بن قاسم ہنستا ہوا آگے بڑھا۔ تیر زمین سے کھینچ کر نکالا اور آگے بڑھ کر مالک کو پیش کرتے ہوئے کہا:
    ”آپ ایک بار اور کوشش کریں!“
     
  28. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    مالک کے چہرے پر پسینہ آگیا۔ اس نے بدحواسی میں محمد بن قاسم سے تیر لے کر نعیم کی طرف بڑھا دیا۔ مالک کی اس حرکت سے لوگوں کی توجہ نعیم کی طرف مبذول ہوگئی اور وہ یکے بعد دیگرے کھسک کھسک کر نعیم کی طرف آنے لگے۔ محمد بن قاسم بدستور ہنستا ہوا آگے بڑھا اور نعیم کو مخاطب کرکے بولا۔”آپ بھی شوق فرمائیے!“ لوگ پھر ہنسنے لگے۔
    نعیم اس کی طنز اور لوگوں کی ہنسی برداشت نہ کر سکا۔ اس نے جھٹ نیزہ نیچے گاڑ دیا اورکمان میں تیر چڑھا کر چھوڑ دیا۔ تیر ہدف کے سیاہ نشان کے عین درمیان میں جا کر پیوست ہو گیا۔ مجمع پر ایک لمحہ کے لیے سکوت طاری ہوگیا۔ اور پھر ایک شور بلند ہوا۔
    نعیم نے ترکش سے دوسرا تیر نکالا۔ تمام لوگ اپنی اپنی جگہ چھوڑ کر اس کے گرد جمع ہوگئے۔ اس کا دوسرا تیر بھی عین نشانے پر لگا۔ چاروں طرف سے مرحبا مرحبا کی صدا بلند ہوئی۔ نعیم نے مجمع پر ایک نگاہ دوڑائی اور دیکھا کہ تمام لوگوں کی نگاہیں اس پر عقیدت کے پھول برسا رہی ہیں۔ محمد بن قاسم مسکراتا ہوا آگے بڑھا اور نعیم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بولا:
    ”آپ کا نام کیاہے؟“
    ”مجھے نعیم کہتے ہیں۔“
    ”نعیم، نعیم بن؟“
    ”نعیم بن عبد الرحمن۔“
    ”تم عبد اللہ کے بھائی ہو؟“
    ”ہاں!“
    ”یہاں کب آئے؟“
    ”ابھی۔“
    ”عبداللہ سے نہیں ملے؟“
    ”ابھی نہیں۔“
    ”تمہارا بھائی نیزہ بازی یا شمشیر زنی کی مشق کر رہا ہوگا۔ تم تلوار چلانا جانتے ہو؟“
    ”میں بستی میں سیکھا کرتا تھا۔“
    ”تمہاری تیر اندازی دیکھ کر میں محسوس کرتاہوں کہ تم تلوار چلانے میں بھی کافی مہارت حاصل کرچکے ہوگا۔ آج ایک لڑکے کے ساتھ تمہارا مقابلہ ہوگا!“
    مقابلے کا لفظ سن کر نعیم کی رگوں میں خون کا دور تیز ہوگیا۔ اس نے پوچھا:
    ”کتنا بڑا ہے وہ؟“
    ”تم سے کوئی زیادہ بڑانہیں۔ اگر پھرتی سے کام لوگے تو اس سے جیت جانا تمہارے لیے کوئی بات نہیں۔ ہاں تمہاری تلوار ذرا بھاری ہے۔ زرہ بھی بہت ڈھیلی ہے۔ میں ابھی اس کا انتظام کیے دیتا ہوں۔ تم گھوڑے سے اترو!“
    محمد بن قاسم نے ایک شخص کو اپنی زرہ، خود اورتلوار لانے کے لیے کہا:

    (۳)
    تھوڑی دیر میں نعیم ایک نئی زرہ پہنے اور ہاتھ میں ایک ہلکی سی تلوار لیے تماشائیوں کی صف میں کھڑا ابن عامر کے شاگردوں کو تیغ زنی کی
     
  29. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    مشق کرتے دیکھ رہا تھا۔ اس کے سر پر یونانی وضع کے خود نے اس کا چہرہ ٹھوڑی تک چھپا رکھا تھا۔ اس لیے ان لوگوں کے سوا جواس کی تیر اندازی سے متاثر ہو کر اس کے ساتھ چلے آئے تھے، کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ کوئی اجنبی ہے۔
    ابن عامر تماشائیوں کے گروہ سے الگ میدان میں کھڑا اپنے شاگردوں کو ہدایات دے رہا تھا۔ ایک لڑکے کے مقابلے کے لیے یکے بعد دیگرے چند لڑکے میدان میں نکلے لیکن اس کے سامنے کسی کی پیش نہ چلی۔ وہ اپنے ہر نئے مقابل کو کسی نہ کسی داؤ میں لا کر ہار منوا لیتا۔ بالآخر ابن عامر نے محمد بن قاسم کی طرف دیکھا اور کہا ”محمد! تم تیار نہیںہوئے؟“
    محمد بن قاسم نے آگے بڑھ کر دبی زبان میں ابن عامر سے کچھ کہا۔
    بن عامر مسکراتا ہوا نعیم کی طرف آیا اور اس کے کندھے پر پیار سے ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔”تم عبد اللہ کے بھائی ہو؟“
    ”جی ہاں۔“
    ” اس لڑکے سے مقابلہ کروگے؟“
    ”جی مجھے اتنی زیادہ مشق نہیں اور پھر وہ مجھ سے بڑا بھی ہے۔“
    ”کوئی حرج نہیں۔“
    لیکن میرا بھائی کہا ں ہے؟“
    ”وہ بھی یہیں ہے۔ تمہیں اس سے ملائیں گے۔ پہلے اس کے ساتھ مقابلہ کرکے دکھاؤ!“
    نعیم جھجکتا ہوا میدان میں آیا۔ تماشائی جو پہلے خاموش کھڑے تھے ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے ۔
    دو تلواریں آپس میں ٹکرائیں اور ان کی جھنکار آہستہ آہستہ بلند ہونے لگی۔ کچھ دیر نعیم کا مد مقابل اسے کم سن سمجھ کر فقط اس کے وار روکتا رہا لیکن نعیم نے اچانک پینترا بدلا اور اسقدر تیزی کے ساتھ وار کیا کہ وہ اس غیر متوقع وار کو بروقت نہ روک سکا اور نعیم کی تلوار اس کی تلوار پر سے پھسلتی ہوئی اس کے خود سے ٹکرا گئی۔ تماشائیوں نے تحسین و آفرین کے نعرے بلند کیے ۔
    نعیم کے مد مقابل کے لیے یہ بالکل نئی بات تھی۔ اس نے غصے کی حالت میں چند وار شدت کے ساتھ کیے اور نعیم کو پیچھے دھکیلنا شروع کیا۔ چند قدم پیچھے ہٹنے کے بعد نعیم کا پاؤں ڈگمگایا اور وہ پیٹھ کے بل گر پڑا۔
    نعیم کا مقابل فاتحانہ انداز میں تلوار نیچے کرکے اس کے دوبارہ اٹھنے کا انتظار کرنے لگا۔ نعیم غصے کی حالت میں اٹھا اور تیغ زنی کے تمام اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے انتہائی تندی اور تیزی سے اس پر وار کرنے لگا۔ نعیم کو سپاہیانہ رسوم سے باہر جاتا دیکھ کر اس نے پوری طاقت کے ساتھ تلوار گھما کر وار کیا۔ نعیم نے یہ وار اپنی تلوار پر روکنے کی کوشش کی لیکن تلوار اس کے ہاتھ کی گرفت سے نکل کر چند قدم دور جا گری۔ نعیم پریشان سا ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ محمد بن قاسم اور ابن عامر مسکراتے ہوئے آگے بڑھے۔ ابن عامر نے ایک ہاتھ اپنے شاگرد اور دوسرا ہاتھ نعیم کے کندھے پر رکھتے ہوئے نعیم سے کہا۔”اؤ اب تمہیں تمہارے بھائی سے ملائیں !“
    ”جی ہاں! کہاں ہیں وہ؟“
    ”ابن عامر نے دوسرے لڑکے کا خود اتارتے ہوئے کہا۔ ”ادھر دیکھو!“
    نعیم ”بھائی بھائی! “ کہتاہوا عبد اللہ سے لپٹ گیا۔ عبد اللہ کو انتہائی پریشانی کی حالت میں دیکھ کر محمد بن قاسم نے نعیم کا خود اتار دیا اور کہا”عبد اللہ! یہ نعیم ہے۔ کاش یہ میرا بھائی ہوتا!“
    (۴)
    صابرہ کے لال ابن عامر جیسے مشفق استاد کے سایہ میں ایک غیر معمولی رفتار سے روحانی، جسمانی اور ذہنی ترقی کر رہے تھے ۔
     
  30. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    مکتب میں عبد اللہ کا نام سب سے پہلے آتا لیکن اکھاڑے میں نعیم سب سے اول رہتا۔محمد بن قاسم کبھی کبھی اکھاڑے میں آتا اور نعیم کو بعض باتوں میں اس کی برتری کا اعتراف کرنا پڑتا۔
    محمدبن قاسم کو تیغ زنی میں زیادہ مہارت تھی۔ نیزہ بازی میں دونوں ایک جیسے تھے، تیر اندازی میں نعیم سبقت لے جاتا۔ محمد بن قاسم بچپن ہی میں اپنےآپ کو ان خصائل کا مالک ثابت کرچکا تھا جو بعض لوگوں کو ہر ماحول میں ممتاز رکھتے ہیں۔ ابن عامر کہا کرتا تھا کہ وہ کسی بڑے کام کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔
    عبد اللہ اور نعیم کے ساتھ محمد بن قاسم کی دوستی کا رشتہ مضبوط ہوتا گیا۔ بظاہر محمد بن قاسم کی نظروں میں وہ دونوں ایک جیسے تھے لیکن عبد اللہ خود اس بات کو محسوس کرتا تھا کہ نعیم اس سے زیادہ قریب ہے۔ نعیم کو مکتب میں داخل ہوئے ابھی آٹھ مہینے گزر تھے کہ محمد بن قاسم فارغ التحصیل ہو کر فوج میں شامل ہو گیا۔
    محمد بن قاسم کے جانے کے بعد مکتب میں نعیم کا ایک اور جوہر نمایاں ہونے لگا۔ اس مدرسے کے طلباءہفتے میں ایک بار کسی نہ کسی موضوع پر مناظرہ کیا کرتے تھے۔ موضوع ابن عامر خود تجویز کرتے۔ نعیم نے بھی اپنے بھائی کی دیکھا دیکھی ایک مناظرے میں حصہ لیا لیکن وہ پہلے مناظرے میں چند ٹوٹے پھوٹے جملے کہہ کر گھبرا گیا اور کھسیانا سا ہو کر ممبر سے اتر آیا۔ لڑکوں نے اس کا مذاق اڑایا۔ ابن عامر نے اسے تسلی دی لیکن وہ سارا دن مغموم رہا اوررات بھی کروٹیں بدلتے گزار دی۔ علی الصباح وہ بستر سے اٹھا اور باہر چلا گیا۔ دوپہر تک ایک کھجور کے سائے تلے بیٹھ کر اپنی تقریر رٹتا رہا۔ اگلے ہفتے اس نے پھر مناظرے میں حصہ لیا اور ایک پرجوش تقریر سے سامعین کو محو حیرت کردیا۔ اس کے بعد اس کی جھجک جاتی رہی اور اب بے تکلفی سے ہر مناظرے میں حصہ لینے لگا۔ اکثر مناظروں میں عبد اللہ اور نعیم دونوں شامل ہوتے۔ ایک بھائی ایک موضوع کے حق میں تقریر کرتا تو دوسرا اس کی مخالفت میں۔ شہر کے وہ لوگ جو اس کے جوہر دیکھ کر گرویدہ ہو چکے تھے ۔ اس کی تقریروں میں بھی دلچسپی لینے لگے۔ ابن عامر نعیم کی رگوں میں سپاہیانہ خون کی حرارت کے علاوہ اس کے دل و دماغ میں ایک غیر معمولی مقرر کی صلاحیت بھی دیکھ چکا تھا۔ اس نے ہونہار شاگرد کے اس جوہر کی تربیت کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ وہ چند تقریروں سے نہ صرف اپنے مدرسے کا بہترین مقرر سمجھا جانے لگا بلکہ بصرہ کی گلیوں میں بھی اس کی جادو بیانی کے چرچے ہونے لگے۔ ابن عامر کے شاگردوں کی تعداد میں آئے دن اضافہ ہو رہا تھا لیکن اس کے بلند ارادوں کی تکمیل کے راستے میں بڑھاپا اور خرابی © صحت بری طرح حائل ہو رہے تھے ۔ اس نے والی بصرہ سے درخواست کی کہ مدرسہ میں ایک تجربہ کار استاد کی ضرورت ہے۔ والی بصرہ کو اس کام کے لیے سعید سے زیادہ جوان دنوں والی قبرص تھا اور کوئی آدمی موزوں نظر نہ آیا۔ حجاج نے دربار خلافت میں درخواست کی اور وہاں سے سعید کو فوراً بصرہ پہنچ جانے کا حکم صادر ہوا۔
    نعیم اور عبد اللہ کو اس بات کا علم تھا کہ ایک نیا استاد آرہاہے لیکن وہ یہ نہ جانتے تھے کہ وہ ان کا ماموں ہے۔سعید قبرص کے ایک نو مسلم گھرانے کی لڑکی سے شادی کر چکا تھا۔ وہ اپنی بیوی سمیت پہلے صابرہ کے پاس پہنچا اور چند دن وہاں رہ کر بصرہ چلا آیا۔ مکتب میں آتے ہی اس نے پوری تن دہی سے کام شروع کردیا۔ اسے یہ معلوم کرکے بے حد مسرت ہوئی کہ اس کے بہترین شاگرد اس کے اپنے بھتیجے ہیں۔
    بعد ازاں عبد اللہ اپنی جماعت کے چند اور نوجوان طلباءکے ساتھ فارغ التحصیل ہوگیا۔ جب ان طلباءکو رخصت کرنے کا دن آیا تو ابن عامر نے حسب معمول الوداعی جلسہ منعقد کیا۔ والی بصرہ نے بھی اس جلسے میں شرکت کی۔ طلباءکو دربار خلافت کی طرف سے گھوڑے اور اسلحہ جات تقسیم کیے گئے۔
    ابن عامرنے الوداعی خطبہ دیتے ہوئے کہا:
    ”نوجوانوں! اب تمہارا حوادث کی دنیا میں قدم رکھنے کا وقت آ پہنچاہے۔ مجھے امید ہے کہ تم میں سے ہر ایک یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے گا کہ میری محنت رائیگاں نہیں گئی۔مجھے اس وقت ان تمام باتوں کے دہرانے کی ضرورت نہیں جو تم سے کئی بار کہہ چکاہوں ۔
     
    شاہنوازعامر نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں