بندگی کا جہاں حق ادا ہو گیا نام اس دشت کا کربلا ہو گیا حق سے غافل تھا، حق آشنا ہو گیا حر ذرا دیر میں کیا سے کیا ہو گیا دی اذاں آج اکبر نے اس شان سے دشت میں شورِ صّلِ علٰی ہو گیا کوفہ والو وہ قول و قسم کیا ہوئی شہر کا شہر ہی بے وفا ہو گیا مرحبا صبرِ ابن علی :as: مرحبا غم کے ماروں کو اک آسرا ہو گیا کربلا آزمائش کا معیار ہے حشر تک کے لیئے فیصلہ ہو گیا اجل کو دیکھ کے جب مسکرا دیا تو نے حنین و بدر کا منظر دکھا دیا تو نے ہے زیبِ صفحہء تاریخ تیری قربانی خدا کی راہ میں سب کچھ لٹا دیا تو نے فرات دے نہ سکی گر چہ دردِ تشنہ لبی مگر خلوص کا دریا بہا دیا تو نے ترے نثار کہ شہ رگ کا خون ٹپکا کر خدا کے دیں کا چمن لہلہا دیا تو نے جناب حر کے مقدر کا اوج کیا کہنا حقیر ذرے کو سورج بنا دیا تو نے وہ بھید جس کو نہ سمجھی کبھی نگاہ خرد شہید ہو کے جہاں کو دکھا دیا تو نے مری نگاہ میں جچتی نہیں شہنشاہی نہ جانے کون سا عالم دکھا دیا تو نے (ماہرالقادری)
کربلا گواہی دے فاطمہ سلام اللہ علیہا کی بیٹی نے باپ کی شجاعت کو صبر سے بدل ڈالا بھائی کی رفاقت کا حق ادا کیا کیسا کربلا گواہی دے بابِ شہر حکمت سے خیمہ گاہِ نصرت تک محضرِ شہادت تک کیسے کیسے نام آئے کیاعجب مقام آئے حق کی پاسداری کو فرض جاننے والے راہِ حق میں کام آئے ساتھ ساتھ تھی زینب سلام اللہ علیہا کربلا گواہی دے پھر وہ شام بھی آئی جب بہن اکیلی تھی اک سفر ہوا انجام ریگِ گرمِ مقتل پر چند بے کفن لاشے بھائیوں بھتیجوں کے گودیوں کے پالوں کے ساتھ چلنے والوں کے ساتھ دینے والوں کے کچھ جلے ہوئے خیمے کچھ ڈرے ہوئے بچّے جن کا آسرا زینب سلام اللہ علیہا جن کا حوصلہ رینب سلام اللہ علیہا کربلا گواہی دے مشہدِ مقدس سے اک نیا سفر آغاز جس کی ایک منزل شام جس کی شامِ مظلومی اور وہ خطبہ زینب سلام اللہ علیہا پھر تو بَر سرِ دربار پوچھنے لگی دنیا ظلم کی کہانی میں داستاں سرائوں کے حاشیے کہاں تک ہیں سوچنے لگی دنیا منبرِ سَلونی کے سلسلے کہاں تک ہیں خیر کے تحفظ پر گھر لٹانے والوں کے حوصلے کہاں تک ہیں وقت نے گواہی دی جبر کے مقابل میں صبر کا سبق زینب سلام اللہ علیہا مصحف شہادت کا آخری ورق زینب سلام اللہ علیہا یہ جو دردِ محکم ہے یہ بھی اک گواہی ہے یہ جو آنکھ پُرنم ہے یہ بھی اک گواہی ہے یہ جو فرشِ ماتم ہے یہ بھی اک گواہی ہے (افتخار عارف)