1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

خواجہ حیدر علی آتش

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏18 نومبر 2018۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    ہوائے دورِ مئے خوش گوار راہ میں ہے
    خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے

    گدا نواز کوئی شہسوار راہ میں ہے
    بلند آج نہایت غبار راہ میں ہے

    شباب تک نہیں پہونچا ہے عالمِ طفلی
    ہنوز حسنِ جوانیِ یار راہ میں ہے

    عدم کے کوچ کی لازم ہے فکر ہستی میں
    نہ کوئی شہر نہ کوئی دیار راہ میں ہے

    طریقِ عشق میں اے دل عصائے آہ ہے شرط
    کہیں چڑھاؤ کسی جا اتار راہ میں ہے

    طریقِ عشق کا سالک ہے واعظوں کی نہ سُن
    ٹھگوں کے کہنے کا کیا اعتبار راہ میں ہے

    جگہ ہے رحم کی یار ایک ٹھوکر اس کو بھی
    شہیدِ ناز کا ترے مزار راہ میں ہے

    سمندِ عمر کو اللہ رے شوقِ آسایش
    عناں گسستۂ و بے اختیار راہ میں ہے

    نہ بدرقہ ہے نہ کوئی رفیق ساتھ اپنے
    فقط عنایتِ پروردگار راہ میں ہے

    نہ جائیں آپ ابھی دوپہر ہے گرمی کی
    بہت سی گرد بہت سا غبار راہ میں ہے

    تلاشِ یار میں کیا ڈھونڈیے کسی کا ساتھ
    ہمارا سایہ ہمیں ناگوار راہ میں ہے

    جنوں میں خاک اڑاتا ہے ساتھ ساتھ اپنے
    شریکِ حال ہمارا غبار راہ میں ہے

    سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
    ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے

    کوئی تو دوش سے بارِ سفر اتارے گا
    ہزار راہزنِ امیدوار راہ میں ہے

    مقام تک بھی ہم اپنے پہنچ ہی جائیں گے
    خدا تو دوست ہے دشمن ہزار راہ میں ہے

    بہت سی ٹھوکریں کھلوائے گا یہ حسن اُن کا
    بتوں کا عشق نہیں کوہسار راہ میں ہے

    پتا یہ کوچۂ قاتل کا سن رکھ اے قاصد
    بجائے سنگِ نشاں اِک مزار راہ میں ہے

    پیادہ پا ہوں رواں سوئے کوچۂ قاتل
    اجل مری مرے سر پر سوار راہ میں ہے

    چلا ہے تیر و کماں لے کے صیدگاہ وہ تُرک
    خوشا نصیب وہ جو جو شکار راہ میں ہے

    تھکیں جو پاؤں تو چل سر کے بل نہ ٹھہر آتش
    گُلِ مراد ہے منزل میں خار راہ میں ہے

    (خواجہ حیدر علی آتش)​
     
  2. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    وہ نازنیں یہ نزاکت میں کچھ یگانہ ہوا
    جو پہنی پھولوں کی بَدّھی تو دردِ شانہ ہوا

    شہید و ناز و ادا کا ترے زمانہ ہوا
    اڑایا مہندی نے دل، چور کا بہانہ ہوا

    شب اس کے افعیِ گیسو کا جو فسانہ ہوا
    ہوا کچھ ایسی بندھی گُل چراغِ خانہ ہوا

    نہ زلفِ یار کا خاکہ بھی کر سکا مانی
    ہر ایک بال میں کیا کیا نہ شاخسانہ ہوا

    توانگروں کو مبارک ہو شمعِ کافوری
    قدم سے یار کے روشن غریب خانہ ہوا

    گناہ گار ہیں محرابِ تیغ کے ساجد
    جھکایا سر تو ادا فرضِ پنج گانہ ہوا

    غرورِ عشق زیادہ غرورِ حسن سے ہے
    اُدھر تو آنکھ پھری، دم ادھر روانہ ہوا

    دکھا دے زاہدِ مغرور کو بھی اے صنم آنکھ
    جمالِ حور کا حد سے سوا فسانہ ہوا

    بھرا ہے شیشۂ دل کو مئے محبت سے
    خدا کا گھر تھا جہاں واں شراب خانہ ہوا

    ہوائے تند نہ چھوڑے مرے غبار کا ساتھ
    یہ گردِ راہ کہاں خاکِ آستانہ ہوا

    خدا کے واسطے کر یار چینِ ابرو دور
    بڑا ہی عیب لگا جس کماں میں خانہ ہوا

    ہوا جو دن تو ہوا اُس کے پاسِ رسوائی
    جو رات آئی تو پھر نیند کا بہانہ ہوا

    نہ پوچھ حال مرا چوبِ خشک صحرا ہوں
    لگا کے آگ مجھے کارواں روانہ ہوا

    نگاہِ نازِ بتاں سے نہ چشمِ زخم بھی رکھ
    کسی کا یار نہیں فتنۂ زمانہ ہوا

    اثر کیا طپشِ دل نے آخ اس کو بھی
    رقیب سے بھی مرا ذکرِ غائبانہ ہوا

    ہوائے تند سے پتّہ اگر کوئی کھڑکا
    سمندِ بادِ بہاری کا تازیانہ ہوا

    زبانِ یار خموشی نے میری کھلوائی
    میں قفل بن کے کلیدِ درِ خزانہ ہوا

    کیا جو یار نے کچھ شغلِ برق اندازی
    چراغِ زندگیِ خضر تک نشانہ ہوا

    رہا ہے چاہِ ذقن میں مرا دلِ وحشی
    کنویں میں جنگلی کبوتر کا آشیانہ ہوا

    خدا دراز کرے عمرِ چرخِ نیلی کو
    یہ بے کسوں کے مزاروں کا شامیانہ ہوا

    نہیں ہے مثلِ صدف مجھ سا دوسرا کم بخت
    نصیبِ غیر مرے منہ کا آب و دانہ ہوا

    حنائی ہاتھوں سے چوٹی کو کھولتا ہے یار
    کہاں سے پنجۂ مرجاں حریفِ شانہ ہوا

    دکھائی چشمِ غزالاں نے حلقۂ زنجیر
    ہمیں تو گوشۂ صحرا بھی قید خانہ ہوا

    ہمیشہ شام سے ہمسائے مر رہے آتشؔ
    ہمارا نالۂ دل گوش کو فسانہ ہوا

    (خواجہ حیدر علی آتشؔ)​
     
  3. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
    کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا

    کیا کیا الجھتا ہے تیری زلفوں کے تار سے
    بخیہ طلب ہے سینہ صد چاک شانہ کیا

    زیر زمیں سے آتا ہے جو گل سوز بکف
    قاعدوں نے راستہ میں لٹایا خزانہ کیا

    اڑتا ہے شوقِ راحت منزل سے اسپ عمر
    مہمیز کس کو کہتے ہیں اور تازیانہ کیا

    زینہ صبا کو ڈھونڈتی ہے اپنی مشت خاک
    بام بلند یار کا ہے آستانہ کیا

    چاروں طرف سے صورت جاناں ہو جلوہ گر
    دل صاف ہو ترا تو ہے آئینہ خانہ کیا

    صیاد اسیرِ دام رگ گل ہے عندلیب
    دکھلا رہا ہے چھپ کے اسے آب و دانہ کیا

    طبل و علم ہی پاس ہے اپنے نہ ملک و مال
    ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا

    آتی ہے کس طرح سے مری قبض روح کو
    دیکھوں تو موت ڈھونڈ رہی ہے بہانہ کیا

    ہوتا ہے زر و سن کے جو نا مرد مدعی
    رستم کی داستاں ہے ہمارا فسانہ کیا

    بے یار ساز گار نہ ہو گا وہ گوش کو
    مطرب ہمیں سناتا ہے اپنا ترانہ کیا

    صیاد گل غدار دکھاتا ہے سیرِ باغ
    بلبل قفس میں یاد کرے آشیانہ کیا

    ترچھی نظر سے طائرِ دل ہو چکا شکار
    جب تیر کج پڑے گا اڑے گا نشانہ کیا

    بیتاب ہے کمال ہمارا دل حزیں
    مہماں، سرائے جسم کا ہو گا ردانہ کیا

    یاں مدعی حسد سے نہ دے داد تو نہ نہ دے
    آتشؔ غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا

    (خواجہ حیدر علی آتشؔ)​
     
  4. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُوبرُو کرتے
    ہم اور بلبل ِبے تاب گفتگو کرتے

    پیام بر نہ میّسر ہوا تو خوب ہوا
    زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے

    مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
    کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے

    ہمیشہ رنگ زمانہ بدلتا رہتا ہے
    سفید رنگ ہیں آخر سیاہ مُو کرتے

    لٹاتے دولتِ دنیا کو میکدے میں ہم
    طلائی ساغر مئے نقرئی سبُو کرتے

    ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا
    تمام عمر رفو گر رہے رفو کرتے

    جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم
    اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے

    بیاضِ گردنِ جاناں کو صبح کہتے جو ہم
    ستارہء سحری تکمہء گلُو کرتے

    یہ کعبہ سے نہیں بے وجہ نسبتِ رخ ِیار
    یہ بے سبب نہیں مردے کو قبلہ رُو کرتے

    سکھاتے نالہء شب گیر کو در اندازی
    غمِ فراق کا اس چرخ کو عدو کرتے

    وہ جانِ جاں نہیں آتا تو موت ہی آتی
    دل و جگر کو کہاں تک بھلا لہو کرتے

    نہ پوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتش
    برستی آگ، جو باراں کی آرزو کرتے

    (خواجہ حیدر علی آتش)​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں