1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

خواتین پر تشدد

'گوشہء خواتین' میں موضوعات آغاز کردہ از تانیہ, ‏25 جنوری 2012۔

  1. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    کہتے ہیں
    وجود زن سے ہے تصویر کا ئنا ت میں رنگ !
    مو جودہ دور میں اس تصویر میں مز ید خو بصورت رنگ بھر نے کے لیے بیو ٹی پا رلر مو جو د ہیں ایسے ہی ایک بیوٹی پا رلر کی با ت میں یہاں کر نا چا ہوں گی بلکہ اسے قابل ستا ئش بھی کہوں گی اس پا رلر کی خا ص با ت یہ ہے کہ وہاں کی ما ہر حسن وہ لڑکیاں ہیں جن کے چہرے بھیا نک انداز میں جلے ہو ئے ہیں جنھیں معا شرے کے انا پر ست بیما ر ذہنیت مردوں نے اپنی بدلے کی بھینٹ چڑھا دیا تھا تیزاب اور جلا ئے جا نے والی ان لڑکیوں کا کو ئی پر سان حال نہیں وہ اپنے جلے ہو ئے چہروں کے سا تھ زندگی کو کس طرح انجوائے کر سکتی ہیں کہ نہ کو ئی ذریعہ معا ش ہے نہ کو ئی پنا ہ ۔ بیوٹی پا رلر کی اونر مسرت مصباح نے اس نیک کا م کا بیڑ ہ اٹھا یا وہ قابل تعریف ہیں کہ معا شرے کی ستا ئی ہو ئی ان بے سہا رالڑ کیوں کے روز گا ر اور علا ج کا نتظام کر تی ہیں۔ ہما رے معا شرے میں خواتین پر تشدد اور تیزاب پھینکنے کے وا قعات عام ہو تے جا رہے ہیں افسوس کی بات تو یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے کو ئی سخت اقداما ت نظر نہیں آتے ۔ پاکستا ن گزشتہ 2 سالوں میں خواتین پر جبر تشدد کے وا قعات میں زیادہ اضا فہ ہو ا ہے یہ بھی بدقسمتی ہے کہ جولڑکیاں اس ظلم کا شکا ر ہو ئیں ان میں اکثریت کے کیس رجسٹرڈ ہی نہیں کیے جا تے کہیں بد نامی کے خوف سے تو کہیں اس ڈر سے کہ خوا مخواہ کی دشمنی ہو گی ملز م کو سزا نہیں ملتی وہ عدالت کے کٹہرے سے باعز ت بر ی ہو کر وا پس آجا تا ہے ایسی بہت ہی کم مثالیں ہیںجو ملزم نے اپنے کیے کی سزا بھگتی ہو ۔

    ہیو من را ئٹس کمیشن آف پا کستا ن ایک ایسا ادارہ ہے جوحقو ق انسا نی سے محروم سما ج میں محروم طبقے کے لیے انصاف کی آواز اٹھا تی ہے ۔ جو مذہب رنگ نسل ، زبا ں اور علا قے کی تفریق کئے بنا ء سب کے حقوق کی با ت کر تی ہے یہ ادارہ 80ء کی دھا ئی میں قا ئم ہو ا۔اور 1990ء میں اس ادراے نے پا کستان میں اپنی سالا نہ رپو ٹوں کا دا ئرہ کا ر شروع کیا پا کستان میں انسانی حقوق خصوصاً خوا تین پر تشدد کے واقعات پریہ رپو ٹیں کم صفحات پر مشتمل تھیں پھر ان میں اضا فہ ہو تا گیا ان رپورٹس میں عمر بھر کے لیے معذور کئے جا نے ، جنسی تشد د ، اغو اء و زنا ،خو دکشی ،چولھا پھٹنے اور تیزاب سے جلا ئے جانے کی دلخراش داستانیں شامل ہیں جس قدر بھیا نک احوال اس ضخیم رپوٹ کا ہے دل دہلا دینے کے لیے کا فی ہے۔ یہ ہما رے مسلم معا شرے کی بے حسی اور سنگ دلی کا منہ بو لتا ثبوت ہے مسلم معا شرے میں یہ سب وہ لوگ کرتے ہیں جنھوں نے ا سلام کا کلمہ پڑ ھاہے لیکن حجتہ الوداع کے پیا رے خطیب صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بھول گئے جنھوں نے فر ما یا ''لو گوں عورتوں کے معا ملے میں اللہ سے ڈرو وہ تمہارے پا س خدا کی امانت ہیں پس تم ان سے نیک سلوک کرو تمہا را عورتوں پر اور عورتوں کا تم پر حق ہے۔ '' عورتوں کو تعلیم کا حق دیا گیا لیکن شما لی علا قوں میں شدت پسند وں کے ہا تھوں لڑکیوں کے تعلیم اداروں کو ایک سو چے سمجھے منصوبے کے تحت تہس نہس کیا گیا ایسا لگتا ہے ہم قبل از اسلا م کے زما نے میں داخل ہو گئے ہیں جب عورت دنیا میں با عث شرم وذلت اور گنا ہ سمجھی جا تی تھی۔ہندو مذہب میں ویدوں کی تعلیم کا دروازہ عورتوں کے لیے بند تھا وہ دا سی کہلا تی، پتی ورتا اس کا دھرم تھا شوہر اس کا معبود اور دیو تا تھا۔ یہو دیت اور عیسا ئیت میں عورت گنا ہ کی با نی سمجھی جا تی تھی انھیں کسی مذہب میں کو ئی مقام نہیں حا صل تھا لا طینی امریکا اور یو رپی مما لک میں خو اتین کو دوسرے درجے کا شہری ما ناجا تا تھا ان پر تشدد اور جبر عام سی با ت تھی ۔
    اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطا بق دنیا بھر میں 70سے 80 فی صد خوا تین کو زندگی کے کسی مرحلے میں تشدد اور جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس میں پندرہ سے چا لیس سال کی عورتوں اور لڑکیوں کے لیے زنا اور گھریلوتشدد کے وا قعات میں زیا دہ اضافہ ہوا ہے ۔دیہی اور قبا ئلی علاقوں میں کا روکا ری کی رسم جا ری ہے ایک قبیلے کا دوسرے دشمن قبیلے سے خون بہا کے بدلے لڑکی کو ونی کر نے کا رواج ہے اس میں کو ئی قبا حت نہیں سمجھی جا تی کہ مرد کتنا بڑا ہے یا معذور ہے ایسے جرائم کو روکنے کے لیے قومی اسمبلی میں قانون بھی پاس کیے گئے جس کے تحت زبر دستی کی شادی پر قید اور جرما نہ کی سزا ئیں رکھی گئی ہیں لیکن اگر یہ قانون قابل عمل بھی ہوں تبھی مفید ہوتے ہیں۔کیونکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ طاقتور اور کمزور کے لیے الگ الگ قانو ن کا دہرا نظام ہے۔

    دیکھا جا ئے توعالمی حقوق انساں کی تنظیمیں بھی دہرا معیار اپنا ئے ہو ئے ہیں۔ اس کی شر مناک مثال عا فیہ صد یقی کیس ہے۔ اس عورت پر کیے گئے ظلم وستم کے خلا ف یہ تنظیمیں مجرما نہ خامو شی اپنا ئے ہو ئے ہیں۔ قدرت کا نظام ہے کہ نیکی اور بدی آپس میں صف آرا رہی ہیں ان سب با توں کا روشن پہلو یہ ہے کہ خوا تین کو اپنے حقوق کی پہلے سے زیا دہ آگا ہی ہو ر ہی ہے جن جرا ئم کی پہلے پردہ پو شی کی جا تی تھی اب کھل کر عوام کے سا منے آرہی ہیں۔ خواتین پر تشدد کے خلا ف جہا ں معا شرے میں درد مند دل رکھنے والے اپنا کر دار اداکر رہے ہیں وہاں مسرت مصبا ح جیسی خوا تین بھی اپنی کو ششوں میں مصروف عمل ہیں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں