1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

خدا، انسان اور سائنس: حصہ دوم

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از عدنان بوبی, ‏3 اگست 2009۔

  1. عدنان بوبی
    آف لائن

    عدنان بوبی ممبر

    شمولیت:
    ‏1 فروری 2009
    پیغامات:
    1,777
    موصول پسندیدگیاں:
    30
    ملک کا جھنڈا:
    خدا کی ذات کا ثبوت

    قرآن نے خدا کے ہونے کے ثبوت کے لیے براہِ راست خارجی دنیا کی صرف ایک دلیل پیش کی ہے۔ جو کہ سورۂ النور (24:40-53) میں بیان ہوئی ہے۔ ان آیات کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ اس کائنات کی ایک ہی توجیہ ممکن ہے۔ وہ یہ کہ اللہ کو کائنات کا خالق مان لیا جائے۔

    اللہ کو نکال دینے کے بعد کائنات کی کوئی عقلی تو کیا غیر عقلی توجیہ بھی ممکن نہیں ہے۔ جس طرح ایک اندھیرے کمرے میں جب تک روشنی نہیں ہے آپ تاریکی میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے۔ جیسے ہی روشنی ہوگی ہر چیز اپنی جگہ ٹھکانے پر نظر آنے لگے گی۔ اسی طرح خدا کی دی ہوئی ہدایت کی روشنی کے بعد کائنات میں ہر چیز ( میں اسکی تفصیل قرآن کے علم الانسان کے عنوان سے آگے بیان کررہا ہوں ) اپنی درست جگہ پر نظر آئے گی اور اسکے بغیر آپ کائنات کے بارے میں بلا یقین متضاد باتیں کہتے رہیں گے۔ تاریکی پر تاریکی۔

    یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ خدا کے سوا اس کائنات کی کسی دوسری توجیہ کا نہ ہونا آخری حد تک ثابت کرتا ہے کہ اگر کائنات کے ہونے کو ہم مانتے ہیں تو ہمیں خدا کو بھی ماننا ہوگا اور اگر نہیں مانتے تو اسکا مطلب ہے کہ ہم کائنات کے وجود کے منکر ہیں۔


    دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ اس بنا پر خدا کو نہیں مانتے کہ وہ سائنسی طور پر ایک تسلیم شدہ حقیقت نہیں ہے، وہ ایک دوسری ہستی کو ماننے پر مجبور ہیں جو سائنسی طور پر ثابت شدہ ہے اور نہ اس کے دائرہ میں آتا ہے۔ یہ خود حضرتِ انسان کا اپنا شعوری وجود ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کے شعوری یا روحانی وجود کو سائنس کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے نہ اس کے قوانین کا اس پر اطلاق ہوتا ہے۔ اوپر میں دکھا چکا ہوں کہ انسان اپنی زندگی کا نقشہ بھی سائنس کی روشنی میں نہیں بناتا۔ اس کے باوجود انسان کے شعوری وجود کو نہ صرف مانا جاتا ہے بلکہ اسکے مطالعہ کے لیے علم النفسیات کے نام سے ایک پورا علم وجود میں آگیا ہے۔

    خدا کو کس نے بنایا

    اتفاق کی بات ہے کہ نیویارک میں اپنی بہن کے گھر بیٹھا جب میں یہ تحریر لکھ رہا تھا تو میری بیچ والی بھانجی ماہ رخ نے، جو پرائمری اسکول کی طالبہ ہے، اچانک مجھ سے سوال کیا کہ اللہ میاں کو کس نے بنایا۔ شاید خدا کو یہ منظور تھا کہ اس مقام پر عقلِ عام کی روشنی میں بھی یہ ثابت ہوجائے کہ خدا کے بارے میں یہ سوال ہی اصلاً غلط ہے اس لیے اس نے اس معصوم بچی کے دل میں اسی وقت یہ سوال ڈالا۔ میں اس سے مذکورہ بالا بحث نہیں کرسکتا تھا کیونکہ یہ اس کی سمجھ میں نہیں آتی۔ میں نے اس سے کہا کہ’’ a b c d ‘‘ سناؤ۔ اس نے سنائی تو میں نے اس سے پوچھا کہ aسے پہلے کیا آتا ہے۔ اس نے کہا کہ a سے پہلے تو کچھ بھی نہیں آتا۔ اس پر میں نے کہا کہ جس طرح aسے پہلے کچھ نہیں اسی طرح اللہ میاں سے پہلے بھی کچھ نہیں تھا۔ جب اللہ میاں سے پہلے کچھ نہیں تھا تو انہیں کسی نے پیدا بھی نہیں کیا۔ یہ بات باآسانی اسکی سمجھ میں آگئی۔

    جو اپنی زمین میں کاشت کاری کرتا ہے، کثرت سے اشیائے خور و نوش حاصل کرتا ہے جبکہ جو شخص خیالی پلاؤ پکاتا رہتا ہے، محتاج رہتا ہے۔ (بائبل، امثال)


    ارتقا کا نظریہ


    خدا کے سوا کائنات کی کسی دوسری توجیہ کی غیر موجودگی میں، انکارِ خدا کے لیے، منکرینِ مذہب کے پاس صرف ارتقا کا نظریہ بچا ہے۔ جس کو وہ انکارِ خدا کی اساس سمجھتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایک لمحے کے لیے اگر ہم ارتقا کے نظریے کو بالکل درست مان بھی لیں تب بھی یہ انکارِ خدا کی بنیاد کیسے بن سکتا ہے۔

    مذہب کا دعویٰ یہ ہے کہ مخلوقات کو خدا نے بنایا۔ اس نے خدا کے طریقۂ تخلیق کو بیان نہیں کیا۔ اس ضمن میں قرآن نے صرف ایک بات کہی ہے۔ وہ یہ کہ ا للہ نے آدم علیہ السلام کوخصوصی تخلیق سے پیدا کیا۔ سورہ اٰلِ عمران آیت 59 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، ’’ عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم جیسی ہے۔ اس نے اسے مٹی سے پیدا کیا۔ پھر فرمایا ہوجا تو ہو گیا‘‘۔ کیا کوئی یہ ثابت کرسکتا ہے کہ خدا کی یہ بات غلط ہے اور جس آدم علیہ السلام سے یہ انسانیت وجود میں آئی وہ مٹی سے پیدا نہیں ہوئے۔

    انسانوں کو جانوروں کی ایک ترقی یافتہ شکل ثابت کرنے کے لیے جو کچھ کہا اور پیش کیا جاتا ہے وہ اپنی خواہش کا اظہار تو ہوسکتا ہے حقائق سے اسکا کوئی تعلق نہیں۔ یہ محض اندازے اور قیاسات ہیں۔ جن پر مشرق اور مغرب دونوں جگہ بہت تنقید ہوچکی ہے۔ یہ لوگ تو انسان کے حیوانی وجود کے بارے میں بھی یہ ثابت نہیں کرسکے کہ یہ حیوانوں سے ترقی پا کر وجود پذیر ہوا ہے۔ کجا کہ وہ انسان کے اس شعوری اور روحانی وجود کے بارے میں کوئی دعویٰ کرسکیں جس کے قریب تو کیا دور تک بھی کوئی جانور نہیں پہنچ سکا۔

    (مصنف: ریحان احمد یوسفی
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    سبحان اللہ ۔ فاضل مصنف بہت عمدگی سے موضوع کیساتھ انصاف کررہے ہیں۔
     
  3. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    اچھی شئیرنگ ھے ،
     

اس صفحے کو مشتہر کریں