1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

خالد علیم

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از زیرک, ‏8 دسمبر 2012۔

  1. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    بے تعلّق میں خود اپنے ہی گھرانے سے ہوا
    اور یہ سانحہ، دیوار اُٹھانے سے ہوا
    میری مٹّی تھی کہاں کی، تو کہاں لائی گئی
    بے زمیں میں جو ہوا بھی تو ٹھکانے سے ہوا
    کام جتنا تھا محبت کا، محبت نے کیا
    جتنا ہونا تھا زمانے سے، زمانے سے ہوا
    میری رُسوائی کا سامان نہ ہوتا، لیکن
    تیری آواز میں آواز ملانے سے ہوا
    تم لئے پھرتے ہو کیا ڈُوبتے سورج کا ملال
    وہ اندھیرا جو ستاروں کے بجھانے سے ہوا؟
    اتنا بے کیف مری آنکھ کا منظر تو نہ تھا
    خالدؔ اس شخص کو آئینہ دِکھانے سے ہوا

    خالدؔ علیم
     
  2. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خالد علیم


    شہر میں جب غُنچہ دہنی، گُل پیرہنی، مقبول ہوئی
    زُہرہ جبینوں، ماہ وشوں کو بے مہری معمول ہوئی
    دلزدگاں کی بات ہی کیا ہے، دلزدگاں کی بات نہ کر
    رات کا قصّہ ختم ہوا جب ان کی حکایت طول ہوئی
    ہجر کی رُت سوغات بنی، ہم سوختگاں کی بات بنی
    جلتے جلتے جل گئے اتنا، راکھ بھی آخر دھول ہوئی
    ہم تو سیدھے سادھے لوگ ہیں لیکن دُنیا والوں سے
    تیرا میرا عشق روایت کرنے میں کچھ بھول ہوئی
    یہ تو خیر ہِمیں چپ رہتے ہیں، ورنہ اکثر خالدؔ
    ذرا ذرا سی بات پہ بھی رنجش اُس کا معمول ہوئی

    خالدؔ علیم
     
  3. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خالد علیم

    ہم ہی، ممکن ہے ترے ناز اُٹھانے لگ جائیں
    پہلے یہ زخم پرانے تو ٹھکانے لگ جائیں
    تیرے آوارہ، چلو ہم ہی رہیں گے، لیکن
    یہ نہ ہو، تجھ کو بھلانے میں زمانے لگ جائیں
    روک لو اپنے سلگتے ہوئے جذبوں کے شرار
    اس سے پہلے کہ کوئی حشر اُٹھانے لگ جائیں
    ریزہ ریزہ، جنہیں سینے میں بہم رکھتا ہوں
    وہی چپکے سے مری خاک اُڑانے لگ جائیں
    میری جاں! دیکھ یہی وصل کے موسم نہ کہیں
    قریۂ گُل پہ تگ و تاز اُٹھانے لگ جائیں
    روکتے روکتے بھی، آنکھ چھلک اُٹھتی ہے
    کیا کریں، دل کو اگر روگ پرانے لگ جائیں
    تم نے باندھا ہے جنہیں تارِ نظر سے خالدؔ
    وہی دریا نہ کہیں آگ لگانے لگ جائیں

    خالدؔ علیم
     
  4. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خالد علیم

    اگر یہ رات نہ اپنے دِیے بجھایا کرے
    تو کیسے کوئی حساب غمِ بقایا کرے
    وہ ایک عکس گماں ہے تو دل سے دور رہے
    وہ خواب ہے تو مری آنکھ میں نہ آیا کرے
    اسے کہو، ہمیں بے چارگی کی خو ہے مگر
    ہمارے ظرف کو اتنا نہ آزمایا کرے
    طویل ہجر کا حاصل ہے ایک لمحۂ وصل
    تو کوئی اس کا بھی احسان کیا اٹھایا کرے
    کبھی تو ہو کہ ہماری خموش گویائی
    سماعتوں میں صدا بن کے پھیل جایا کرے
    ادھر سے پھر نہیں لوٹا گل آفتاب مرا
    ہوا کو چاہیے پچھم سے روز آیا کرے
    کوئی تو آ کے شب ہجر سے کہے خالدؔ
    رہے رہے، مگر اتنا نہ سر اٹھایا کرے

    خالدؔ علیم
     
  5. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خالد علیم

    اسے کیا خبر کہ پلک پلک روش ستارہ گری رہی
    اسے کیا خبر کہ تمام شب کوئی آنکھ دل سے بھری رہی

    کوئی تار تار نگاہ بھی تھی صد آئنہ، اسے کیا خبر
    کسی زخم زخم وجود میں بھی ادائے چارہ گری رہی

    میں اسیر شام قفس رہا مگر اے ہوائے دیارِ دل
    سرِ طاقِ مطلعِ آفتاب مری نگاہ دھری رہی

    سفر ایک ایسا ہوا تو تھا کوئی ساتھ اپنے چلا تو تھا
    مگر اس کے بعد تو یوں ہوا نہ سفر نہ ہم سفری رہی

    وہ جو حرفِ بخت تھا لوحِ جاں پہ لکھا ہوا، نہ مٹا سکے
    کفِ ممکنات پہ لمحہ لمحہ ازل کی نقش گری رہی

    ترے دشتِ ہجر سے آ چکے بہت اپنی خاک اڑا چکے
    وہی چاک پیرہنی رہا وہی خوئے دربدری رہی

    وہی خواب خواب حکایتیں وہی خالد اپنی روایتیں
    وہی تم رہے وہی ہم رہے وہی دل کی بے ہنری رہی

    خالد علیم
     
  6. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خالد علیم

    گرفتِ خاک سے باہر مجھے نکلنے دے
    اے دشت خواب مجھے دو قدم تو چلنے دے

    جو ہو سکے مرے اشکوں کو منجمد مت کر
    ہوائے شہر خرابی مجھے پگھلنے دے

    اے دشت شام کی پاگل ہوا بجھا نہ مجھے
    نواحِ شب میں کوئی تو چراغ جلنے دے

    نہ روک مجھ کو کہیں بھی تو اے ستارۂ ہجر
    میں چل پڑا ہوں، کوئی راستہ نکلنے دے

    وہ قطرہ قطرہ سحر آنکھ میں طلوع تو ہو
    اے ماہِ شب، نم شبنم میں مجھ کو ڈھلنے دے

    اسے کہو، نہ ابھی بال و پر کشادہ کرے
    ابھی کچھ اور ہواؤں کو رخ بدلنے دے

    خالد علیم
     
  7. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خالد علیم

    اوڑھے ہوئے ہیں کب سے ردائے سراب ہم
    ذروں میں دیکھتے ہیں ستاروں کے خواب ہم

    اک موج تہ نشیں ہیں تہِ بحر جستجو
    چلتے ہیں آسمان پہ پا در رکاب ہم

    وابستۂ شب غم ہجراں ہوئے تو کیا
    کچھ تو لگا ہی لیں گے سحر کا حساب ہم

    پھرتے ہیں کوئے دیدہ وراں میں لیے ہوئے
    پابستگی دربدری کا عذاب ہم

    اس عہد دلفریب میں شاید کہ بھول جائیں
    ایام رفتگاں کی شکستہ کتاب ہم

    کیا رات تھی کہ دن بھی اندھیروں میں کھو گیا
    شاید کہ رہ گئے ہیں پس آفتاب ہم

    خالد سواد ہجر سے نکلے تو ہو گئے
    آوارۂ دیار شب ماہتاب ہم

    خالد علیم
     
  8. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خالد علیم

    کیا ضروری ہے وہ ہمرنگِ نوا بھی ہو جائے
    تم جدھر چاہو، اُدھر کو یہ ہوا بھی ہو جائے
    اپنے پر نوچ رہا ہے ترا زندانئ دل
    اسے ممکن ہے رہائی کی سزا بھی ہو جائے
    دل کا دامانِ دریدہ نہیں سلِتا، تو میاں
    بھاڑ میں جائے اگر چاک رِدا بھی ہو جائے
    تم یقیں ہو، تو گماں ہجر کا کم کیا ہو گا
    چشمِ بے خواب اگر خواب نما بھی ہو جائے
    کہیں ایسا نہ ہو، اس ڈوبتے خورشید کے ساتھ
    تیری آواز میں گم میری صدا بھی ہو جائے
    ہم اسیرِ دل و جاں خود سے بھی سہمے ہوئے ہیں
    خلقتِ شہر تو ہونے کو خدا بھی ہو جائے
    مجلسِ شاہ کے ہیں سارے مصاحب خاموش
    ہمنوا دل کا امیر الامرا بھی ہو جائے

    خالدؔ علیم
     

اس صفحے کو مشتہر کریں