1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حیوان کی دوستی ,حکایت مولانا رومیؒ

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏31 دسمبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حیوان کی دوستی ,حکایت مولانا رومیؒ
    upload_2019-12-31_1-43-2.jpeg
    پہلوان کسی جنگل میں سے گزر رہا تھا۔اس نے دیکھا کہ ایک اژدہے نے ریچھ کو قابو میں کر رکھا ہے ، ریچھ بچنے کی کوششیں کر کے ہارگیا۔ پہلوان کو یہ دیکھ ریچھ پر ترس آیا اور اس نے اژدہے کو تلوار کے ایک ہی وار سے کاٹ کر رکھ دیا۔اژدہے کو پہلوان نے ایسے دائو سے تلوار ماری کہ ریچھ کے بدن پر خراش تک نہ آئی۔ پہلوان کے پاس زور بازو بھی تھا اور دائو پیچ بھی خوب جانتا تھا۔ اس کے برعکس اژدہے کے پاس قوت تو تھی، مگر دائو پیچ سے آگاہ نہ تھا۔ غرض ریچھ کی جان بچ گئی اور وہ اس جواں مرد، قوی ہیکل پہلوان کا اس طرح شکرگزار ہوا کہ اصحابِ کہف کے کتے کی مانند اس کے پیچھے پیچھے ہولیا۔اژدہے کے قبضے سے ریچھ کو چھڑانے میں پہلوان کو کچھ قوت صرف کرنی پڑی تھی اور ویسے بھی وہ لمبا فاصلہ طے کر کے آ رہا تھا۔ تھوڑی دیر سستانے کے لیے ایک درخت کی چھائوں میں لیٹ گیا۔ ریچھ ازراہِ اُلفت پاسبانی کے فرائض انجام دینے لگا۔ اتفاق سے اسی وقت ایک اور شخص ادھر سے گزرا۔ اس نے ریچھ اور آدمی کی دوستی کا یہ حال دیکھا تو پہلوان کے پاس آیا اور کہنے لگا : ’’بھائی! تو کون ہے اور اس ریچھ سے دوستی کیسے ہوئی؟‘‘پہلوان نے اسے سارا قصہ سنایا۔ راہ گیر نے حیرت سے دانتوں میں انگلی دبا لی اور پہلوان سے کہنے لگا ’’معلوم ہوتا ہے تو بہت سادہ لوح ہے۔ اس ریچھ کی اور تیری کیا یاری؟ اس موذی حیوان پر بھروسہ نہ نہ کرنا ورنہ خطا کھائے گا۔ بے وقوف کی یاری، دشمنی سے بدتر ہے۔ جس طرح بھی ممکن ہو، اس ریچھ سے چھٹکارا حاصل کر یا اسے مار ڈال۔‘‘ پہلوان نے جواب دیا ’’ یہ بات تو حسد سے مجبور ہو کر کہہ رہا ہے۔ اس ریچھ کو مت دیکھ، اس کی محبت اور الفت کا دھیان کر کہ کس طرح مجھ پر واری صدقے ہو رہا ہے۔ میں ہرگز اسے نہ بھگائوں گا۔‘‘ راہ گیر نے کہا ’’ارے بھائی! میری نصیحت پر غور کر۔ نادانوں اور بے وقوفوں کی محبت پائیدار نہیں ہوتی۔ بھلا مجھے کیا ضرورت پڑی ہے حسد کرنے کی؟ اور بالفرض حسد ہو بھی تو یہ ریچھ کی محبت سے بہتر ہے کہ میں آدمی ہوں۔ ریچھ کو بھگا دے اور مجھے اپنا رفیق بنا لے۔ میں ہر ممکن خدمت بجالانے کو تیار ہوں۔ اب بھی کہتا ہوں کہ ریچھ کا ساتھ چھوڑ دے۔ میرا دل ڈرتا ہے کہ تیری اس کی یاری کا نتیجہ برا نکلے گا۔ یہ وہم نہیں ،میں مومن ہوں اور مومن خدا کے نور سے دیکھتا ہے۔ دیکھ، اس آتش کدے سے دور رہ۔‘‘ غرض اس شریف النفس راہ گیر نے پہلوان کو ہر چند برا بھلا سمجھایا، لیکن اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ سچ ہے کہ بدگمانی انسان کی عقل و خرد کے آگے دیوار بن کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ راہ گیر نے آخر میں کہا ’’اچھا بھائی! ہم نے تجھے نیک و بد خوب سمجھا دیا۔ اب تو مان نہ مان، خدا تیرا حافظ و نگہبان ہو۔‘‘ پہلوان نے دُرشتی سے کہا ’’یہاں سے چلتا بن۔ بڑا آیا میرا خیر خواہ اور ہمدرد بن کر۔ جان نہ پہچان بڑی خالہ سلام۔‘‘ راہ گیر نے چلتے چلتے پھر کہا ’’میری بات مان لے۔ دیکھ خدا جانتا ہے میں تیرا دشمن نہیں ہوں۔ تیری بھلائی اسی میں ہے کہ ریچھ کو چلتا کر دے۔‘‘ پہلوان نے ناراض ہو کر کہا ’’کیا بک بک لگا رکھی ہے؟ میرا پیچھا چھوڑ اور اپنا راستہ ناپ۔ خبردار جو اب اِدھر آیا۔‘‘ ہائے افسوس! وہ پہلوان کس قدر احمق اور بدگمان تھا۔ اس نے اپنی بدگمانی اور گدھے پن کے سبب دور اندیش ناصح پر حسد کی تہمت لگائی اور ریچھ کو محبت اور وفا کا نشان سمجھا۔ جب اس مردِ مومن نے دیکھا کہ بے وقوف پر کوئی نصیحت کارگر نہیں ہوتی تو لاحول پڑھتا ہوا وہاں سے رخصت ہوا اورجی میں کہا کہ میں نے اِتمام حجت کر دی۔ اسے نیک و بد اچھی طرح بتا دیا۔ اب بھی نہ مانے تو اپنی بربادی کا خود ذمے دار ہے۔ ایسے لوگوں سے پرے ہٹ جانا ہی بہتر ہے۔اِدھر پہلوان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کے اثر سے بند ہونے لگیں اور چند لمحے بعد وہ خراٹے لینے لگا۔ ریچھ قریب بیٹھا مکھیاں اڑاتا رہا۔ لیکن مکھیاں بار بار آنے لگیں اور انہیں اڑاتے اڑاتے تنگ آگیا۔ آخر کار وہ طیش میں آکر اٹھا اور دوڑا دوڑا ایک پہاڑی ٹیلے کی طرف گیا۔ وہاں سے بڑا سا پتھر اٹھا کر لایا اس دوران بے شمار مکھیاں پہلوان کے منہ پر بھنبھنا رہی تھیں۔ ریچھ نے وہ بھاری پتھر پہلوان کے منہ پردے مارا، اپنی دانست میں اس نے یہ پتھر مکھیوں پر مارا تھا لیکن بدنصیب پہلوان کا منہ چٹنی بن گیا۔ سچ ہے، نادان کی دوستی ایسی ہی ہوتی ہے۔ اس کی دشمنی، دوستی اور دوستی، عین دشمنی۔ خدا ایسی محبت سے محفوظ رکھے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں