1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکا یت ِ رُومیؒ ۔۔۔۔۔ جان کا صدقہ مال

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏24 ستمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حکا یت ِ رُومیؒ ۔۔۔۔۔ جان کا صدقہ مال

    حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس ایک نوجوان آیا اور درخواست کی کہ اے اللہ کے نبی! میں نے سنا ہے کہ آپ ؑتما م جانوروں اور پرندوں کی بولیاں جانتے ہیں ۔ آپؑ یہ فن مجھے بھی سکھا دیجئے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے نورِ بصارت سے اس نوجوان کے ذہن میں چھپی ہوئی اصل بات دیکھ لی اور اس سے کہا ''اس خیالِ خام سے باز رہ۔ اس میں بے شمار خطرے پنہاں ہیں۔ جانوروں کی بولیاں سیکھ کر خدا کی معرفت حاصل نہیں ہوتی۔‘‘
    موسیٰ کلیم اللہ نے اس نوجوان کو بہت سمجھایا ، لیکن جس قدر آپؑ اسے روکتے اور سمجھاتے، اسی قدر وہ ضد کرتا جاتا۔ اس نے کہا : ''اے پیغمبر خدا! مجھے اس بات سے محروم کرنا آپؑ کے لطف و کرم اور مہر و محبت سے بعید ہے۔‘‘
    تب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہِ خداوندی میں عرض کیا ''یا الٰہی! تو بے نیاز ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس نوجوان کی عقل کو شیطانِ مردود نے اپنا کھلونا بنا لیا ہے۔ تو ہی بتا ٗ میں کیا کروں؟ اگر اسے جانوروں کی بولیاں سکھا دوں تو یہ بات اس کے حق میں نیک نہ ہوگی اور اگر نہ سکھائوں تو اس کا دل صدمے سے چور ہوتا ہے۔‘‘حق تعالیٰ نے حکم دیا ''اے موسیؑ تم اس نوجوان کی خواہش پوری کرو۔ کیونکہ ہم کسی کی دعا رد نہیں کرتے‘‘۔
    حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک بار پھر اس نوجوان کو باز رکھنے کی کوشش کی۔نوجوان کہنے لگا ''بہت بہتر ،کم ازکم دو جانوروں کی بولیاں تو ضرور ہی سکھا دیجئے۔ ایک اس کتے کی بولی جو میرے مکان کے دروازے پر پہرا دیتا ہے اور دوسری اس مرغ کی بولی جو میرے گھر میں پلا ہوا ہے۔ ‘‘
    حضرت موسیٰ علیہ السلام فرمایا ''اچھا ،جا آج سے ان دونوں حیوانوں کی بولی کا فن میں نے خدا کے حکم سے تجھے عطا کیا۔‘‘
    وہ نوجوان خوش خوش گھر واپس گیا ۔تھوڑی دیر بعد خادمہ نے رات کا بچا کھچا روٹی کا ایک ٹکڑا باہر پھینک دیا۔ اسی وقت مرغ پھڑ پھڑاتا ہوا آیا اور وہ ٹکڑا اٹھا کر اپنی چونچ میں دبا لیا۔ پہرا دینے والے کتے نے یہ دیکھ کرمرغ سے کہا ''یارتو بڑا لالچی ہے۔باسی روٹی کا یہ ٹکڑا ہمارے حصے کا تھا وہ بھی تو نے اُچک لیا۔‘‘مرغ نے کتے کا شکوہ سنا تو جوب میں کہا ''بھائی، اس باسی روٹی کا رنج نہ کر ذرا صبر سے کام لے۔ خدا نے تیرے لیے بہترین نعمت مقررکی ہے۔ کل ہمارے مالک کا چہیتا گھوڑا مرنے والا ہے۔ اس کا گوشت خوب پیٹ بھر کر کھائیو۔‘‘اس نوجوان نے مرغ کی یہ بات سنتے ہی تھان پر سے گھوڑا کھولا، بازار میں لے جا کر اس کے دام کھرے کیے اور خوشی خوشی گھر واپس آیا۔اگلے روز مرغ نے کتے سے کہا '' گھوڑا تو مرنے ہی والا تھا۔ یہاں نہ مرا ، دوسری جگہ جا کر مرگیا۔ ہمارا آقا گھوڑا بیچ کر نقصان سے تو بچ گیا ۔ کل اس کا اونٹ مر جائے گا۔ پھر تیری پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہوگا۔‘‘
    نوجوان لپکا ہوا گیا اور اونٹ کو بھی بازار میں لے جا کر دام وصول کر لیے۔ دل میں خوش تھا کہ ان جانوروں کی بولیاں سیکھ کر فائدے ہی میں رہا۔ تیسرے دن کتے نے غرا کر مرغ سے کہا 'زمانے بھر کے جھوٹے‘ کب تک کاٹھ کی ہانڈی آگ پر چڑھائے جائے گا۔ تو تو بڑا ہی فریبی نکلا۔ آخر تجھے جھوٹ بولنے میں مزا کیا آتا ہے؟‘‘
    مرغ نے کتے کی یہ جھاڑ سن کر کہا ''یارِ جانی‘ میں جھوٹ نہیں بولتا۔ مالک نے اونٹ کو بھی لے جا کر بیچ ڈالا اور پیسے جیب میں رکھے۔ اب وہ اونٹ جس بدنصیب نے خریدا تھا ، اس کے گھر جا کر مرگیا ہے۔ بہرحال، تو غم نہ کر۔ کل ہمارے آقا کا غلام مرے گا۔ غلام کے مرنے کے بعد آقا فقیروں کو روٹیاں اور گوشت بانٹنے کا اہتمام کرے گا، پھر تیرے مزے ہی مزے ہیں، اب خوش ہو جا۔‘‘
    مرغ کی بات سنتے ہی نوجوان نے غلام کو بھی ایک شخص کے ہاتھ اچھی قیمت پر بیچ دیا۔اس نے دل میں کہا، خدا کا لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے تین حادثوں سے بال بال بچا لیا۔چوتھے دن کتے نے لال پیلی آنکھیں نکال کر مرغ سے کہا ''جھوٹوں کے بادشاہ‘ تو نے یہ بھی سوچا کہ تیری یہ دروغ گوئی کب تک چلے گی؟ ‘‘
    مرغ نے جواب دیا ''میں نے سچ کہا تھا۔ آقا اگر اس غلام کو نہ بیچتا تو وہ اس مکان میں مرتا۔ جس نے اسے خریدا ، وہ اب رو رہا ہوگا۔ لیکن اب خود ہمارے آقا کی باری آگئی ہے۔ کل یہ مر جائے گا۔ آقا نے مرغ کی زبانی اپنے مرنے کی خبر وحشت اثر سنی تو پیروں تلے کی زمین نکل گئی۔ گرتا پڑا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوااور فریاد کی کہ اے خدا کے سچے نبی ، مجھے ملک الموت کے پنجے سے بچایئے۔ حضرت موسیٰ علیہ اسلام نے فرمایا :''ارے احمق! اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے۔ فوراً بازار میں جا اور اپنے آپ کو بھی بیچ ڈال۔ تو تو اس کام میں بڑا ہوشیار ہے۔ اس مرتبہ بھی اپنا نقصان کسی اور کے سر منڈھ دے اور خود کو بیچ کر جو مال ملے وہ اپنے خزانے میں بھر لے۔ سچ ہے ،مصیبت کو عقل مند پہلے دیکھ لیتا ہے اور بے وقوف آخر میں۔‘‘
    اس نوجوان نے پھر منت سماجت شروع کردی اور اس قدر رویا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس پر رحم آیا۔ ارشاد ہوا ''اے نوجوان ‘ اب تو تیر کمان سے نکل چکا ، قضا نے تیرا گھر تاک لیا ہے او راسے ٹالنا میرے بس میں نہیں۔ ‘‘
    اچانک نوجوان کا جی گھبرایا، ہاتھ پائو سنسنانے لگے۔ یکایک خون کی ایک قے ہوئی۔ وہ قے ہیضے کی نہ تھی ، موت کی تھی۔ اسی وقت چار آدمی اسے کندھوں پر لاد کر گھر لے گئے۔زبان بند ہوئی، آنکھوں کی پتلیاں پھر گئیں ، آخرکار اس نے ایک ہچکی لی اور اپنی جان، جان آفریں کو سونپ دی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خبر سنی تو درگاہِ الٰہی میں دعا کی کہ اے باری تعالیٰ! اسے ایمان کی دولت نصیب فرما۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں