1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکایت مولانا رومیؒ ۔۔۔۔۔ امتحانِ وفا

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏18 نومبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حکایت مولانا رومیؒ ۔۔۔۔۔ امتحانِ وفا

    آں دم کہ دل بعش دھی خوش دمے بود
    درکار خیر حابث ھیچ استخارہ نیست
    وہ وقت کتنا مبارک ہوتا ہے، کہ جس وقت دل کو حق تعالیٰ کی محبت کا درد عطا ہوتا ہے۔
    حق تعالیٰ کی محبت میں حضرت ذوالنون مصری ؒ پر عجیب کیفیت طاری ہو گئی۔ ایسی شورش و دیوانگی طاری ہو گئی تھی کہ آپ کی آہوں سے لوگوں کے کلیجے منہ کو آجاتے تھے۔
    نعرۂ مسانہ خوش می آپدم
    تا ابد جاناں چنیں می بایدم
    محبت میں بجز نالہ و فریاد کے کچھ اچھا نہیں لگتا۔ گریہ زاری سے حق تعالیٰ کا راستہ بہت جلد طے ہوتا ہے۔اس قدر قرب ہوتا ہے کہ سالہاسال کے مجاہدے سے بھی وہ بات نصیب نہیں ہوتی۔ حاکم وقت نے آپ کو قید میں ڈالنے کا حکم دیا، زندان جب آپ کو قید خانے کی جانب لے کر چلے، تو آپ کے شاگرد اور مرید روتے ہوئے آپ کے پیچھے پیچھے ہو لیے۔ وہ کہتے تھے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسے کامل ولی پر جنون کا غلبہ ہو، اس میں ضرور کوئی راز پوشیدہ ہے۔
    جب آپ کو قید خانے میں ڈال کر دروازہ بند کر دیا گیا۔ تو دوست احباب نے غور و فکر شروع کیا کہ آخر کیا ماجرا ہے کہ اتنا بڑا شیخ قید خانے میں محصور کر دیا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اپنے مہتاب باطن کو ابر جنون سے چھپانا چاہتے ہیں۔اور عوام کے شر سے بچنے کے لئے یہ صورت اختیار کی ہے۔ ایسی عقل و خرد سے پناہ جو ذوالنون مصری ؒ کے عشق و عرفان کی دولت کو جنون سمجھے۔
    آخر کار ان سب نے زندان کی سلاخوں کے قریب آکر عرض کیا کہ ، '' حضور !ہم سب آپ کے چاہنے والے ہیں۔آپ کے معتقد اور جانثار ہیں۔ آپ کی مزاج پرسی کے لئے حاضر ہوئے ہیں۔ اور حیران ہیں کہ کس نے آپ پر جنون کا الزام لگا دیا۔ آپ تو دریائے عقل ہیں۔ یہ اہل ظاہر آپ کے مقام قرب اور رفعت باطن سے ناواقف ہیں۔ اور آپ کو مجنوں اور دیوانہ سمجھتے ہیں۔حالانکہ آپ تو سچے عاشق ہیں۔ ہم لوگ آپ کے سچے محب اور دوست ہیں۔ آپ ؒکو عزیز رکھتے ہیں۔براہ کرم ہم پر اس راز کا انکشاف فرما دیجئے۔آپ اس قید خانے میں کیوں اپنی جان کو مصائب و آلام میں مبتلا کر رہے ہیں۔ آپ کی اس حالت سے ہمارا دل کڑھتا ہے۔ راز کو اپنے دوستوں سے نہیں چھپایا کرتے‘‘۔
    حضرت شیخ ذوالنون مصری ؒ نے ان کی گفتگو میں بوئے اخلاص محسوس نہ کی ، آپ نے دل میں کہا، ''آئو! ان کی وفا داری اور محبت کو آزمائیں‘‘۔ امتحان اخلاص کے لئے ان کی طرف پتھر اٹھا کر دوڑے، جیسے پاگل وحشت میں لوگوں کو مارنے کے لئے دوڑتا ہے۔ یہ معاملہ دیکھتے ہی سب لوگ ڈر کے مارے بھاگ کھڑے ہوئے۔شیخ نے ان کو یوں بھاگتے دیکھا تو ان کی محبت پر قہقہہ لگایا۔ اور گویا ہوئے، '' اس درویش کے دوستوں کو دیکھو، ان کی وفا اور الفت کے دعوے سنو!‘‘
    ارے نادانو!تم محبت اور دوستی کو کیا جانو!
    کے کراں گیرد زرنج دوست دوست
    رنج مغز و دوستی او را چو پوست
    سچا دوست ، دوست کے رنج و تکلیف سے کب کنارہ کرتا ہے، دوست کی دوستی تو پوست ہے، اور دوست کی طرف سے رنج و تکلیف اصلی مغز ہے۔
    دوت ہمچو زر بلا چوں آتش است
    زر خالص در دل آتش خوش است
    دوست مثل سونے کے ہے، اور بلا و مصیبت مثل آگ کے ہے، خالص سونا آگ کی تکلیف میں اور چمکتا ہے، اور خوش ہوتا ہے۔ اور عاشقین خام کا یہ حال ہوتا ہے کہ
    تو بیک زخمے گریزانی زعشق
    تو بجز نامے نمی دانی زعشق
    اے مخاطب ! جب ایک ہی زخم سے تو عشق سے کنار ہ کش ہو گیا،اور راہ فرار اختیار کر لی۔تو معلوم ہوا کہ تجھے ابھی عشق کی ہوا نہیں لگی۔تو نے صرف عشق کا نام سن رکھا ہے۔ پس محبت کا راستہ آسان نہیں۔
    جو حادثے یہ جہاں میرے نام کرتا ہے
    میرا شعور انہیں نذر جام کرتا ہے
    فقیہ شہر نے تہمت لگائی صوفی پر
    یہ شخص درد کی دولت کو عام کرتا ہے
    درس حیات:جو مصیبت میں کام نہ آئے،وہ دوست نہیں۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں