1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکایت اقبال نوجوانوں کئےلیئے۔۔۔ اخترِ صبح

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏8 اپریل 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    اخترِ صبح

    گزشتی تیز گام اے اختر صبح

    مگر از خواب ما بیزار رفتی

    من از نا آگہی گم کردہ راہم

    تو بیدار آمدی، بیدار رفتی

    اے صبح کے ستارے! تو آسمان پر نمودار تو ہوا، لیکن بہت تیزی کے ساتھ گزر گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ تو ہمیں کوئی پیغام دینے آیا تھا، لیکن جب تو نے دیکھا کہ ہم لوگ بیدار ہونے کے وقت بھی غفلت اور مدہوشی کی نیند سو رہے ہیں تو ہماری غفلت پر تو ہم سے ناراض ہوگیا اور ٹھہر کر ہمارے بیدار ہونے کا انتظار کرنے کی بجائے نہایت تیزی کے ساتھ ہماری دنیا سے چلا گیا۔

    اے صبح کے ستارے! تیری ناراضی اور برہمی بالکل بجا ہے۔ ہم اپنی غفلت کی وجہ سے اپنی راہ گم کر بیٹھے۔ ہم سوتے رہے اور اس طرح اپنی زندگی کا مقصد حاصل نہ کر سکے۔ قدرت نے ہمارے لیے جو منزل مقرر کر رکھی تھی، ہم اپنی غفلت کے باعث اس تک نہیں پہنچ سکے۔ اس طرح ناکامی و نامرادی ہمارا مقدر بن گئی، مگر تُو چوں کہ بیدار تھا، اس لیے کامیاب و کامران رہا۔ تو ایک لحظے کے لیے بھی غفلت کا شکار نہیں ہوا… تو بیدار آیا، بیدار رہا اور بیدار ہی گیا۔
    علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس رباعی میں صبح کے ستارے سے خطاب کرتے ہوئے ہمیں اس حقیقت کی طرف متوجہ کیا ہے کہ اس دنیا میں کامیابی و کامرانی ان ہی کا مقدر بنتی ہے جو قوانینِ فطرت کی پابندی کرتے ہوئے اپنا فرضِ منصبی ادا کرتے ہیں۔ ستارے فطرت کے قوانین کی پابندی کرتے ہوئے کمال دیانت داری اور انتہائی باقاعدگی و مستعدی کے ساتھ اپنا فرضِ منصبی انجام دیتے ہیں، لیکن انسان فطرت کے قوانین کو پسِ پشت ڈالے ہوئے ہے۔ وہ ان قوانین سے آگاہی بھی حاصل نہیں کرتا اور اس طرح اپنی راہ گم کردیتا ہے۔ وہ غفلت کی نیند سوتا رہتا ہے، اس لیے اس کی زندگی کی منزل کھوئی ہوجاتی ہے۔ ستارے ہشیار و بیدار رہتے ہیں، اس لیے اپنی منزل کو پالیتے ہیں۔

    حرکت اور بیداری کا یہی پیغام علّامہ اقبالؒؒؒ نے بانگِ درا میں اپنی نظم ’’چاند اور تارے‘‘ میں بھی دیا ہے، جس میں چاند ستاروں سے کہتا ہے کہ اس جہان کی زندگی حرکت پر موقوف ہے اور حرکت یہاں کا پرانا دستور ہے۔ یہاں تلاش ہر شے کو ہر وقت حرکت میں رکھتی ہے۔ اس راستے میں ٹھہرنا بالکل بے جا ہے، کیوں کہ ٹھہرنے میں موت چُھپی ہوئی ہے، یعنی جو ٹھہرا، ختم ہوگیا۔ چلنے والے آگے نکل جاتے ہیں اور خود ذرا بھی ٹھہرے، وہ دوسروں کے قدموں تلے آکر روندے اور کچلے جاتے ہیں۔ اس چلنے کا آغاز عشق سے ہوتا ہے اور اس کی آخری منزل حسن کے سوا کچھ نہیں۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں