1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکایات سعدی

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از ملک بلال, ‏3 مئی 2013۔

  1. احتشام محمود صدیقی
    آف لائن

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2011
    پیغامات:
    4,538
    موصول پسندیدگیاں:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
  2. احتشام محمود صدیقی
    آف لائن

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2011
    پیغامات:
    4,538
    موصول پسندیدگیاں:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
  3. احتشام محمود صدیقی
    آف لائن

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2011
    پیغامات:
    4,538
    موصول پسندیدگیاں:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
    شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ شام کے ایک شہرمیں کہرام برپا ہوگیا۔ شیخ سعدی نے لوگوں سے اس کا سبب معلوم کیا ۔ پتہ چلا کہ سپاہی ایک پارسا کو پکڑ کر لے گئے ہیں ۔میں اس سے ملنے زنداں گیا تو دیکھا کہ وہ نہایت اطمینان سے وہاں بیٹھا ہے اور اسکے چہرے پر ملال اور تردد کا نام و نشاں نہ تھا۔میں نے ان سے پوچھا آپ اس قدر مطمئین کیو ںہیں؟ اس نے کہا خواہ عزت ہو یا مرتبہ ہو یا ذلت اور قید ۔میں اسے اللہ کی طرف سے سمجھتا ہوں۔۔ اس لئے میں مطمئن ہوں۔
     
  4. احتشام محمود صدیقی
    آف لائن

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2011
    پیغامات:
    4,538
    موصول پسندیدگیاں:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
  5. احتشام محمود صدیقی
    آف لائن

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2011
    پیغامات:
    4,538
    موصول پسندیدگیاں:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
  6. احتشام محمود صدیقی
    آف لائن

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2011
    پیغامات:
    4,538
    موصول پسندیدگیاں:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
  7. احتشام محمود صدیقی
    آف لائن

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2011
    پیغامات:
    4,538
    موصول پسندیدگیاں:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
  8. احتشام محمود صدیقی
    آف لائن

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2011
    پیغامات:
    4,538
    موصول پسندیدگیاں:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
  9. احتشام محمود صدیقی
    آف لائن

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2011
    پیغامات:
    4,538
    موصول پسندیدگیاں:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
    حکایتِ شیخ سعدیؒ،

    کسی نے ایک شخص کو ، جس نے کبھی کسی یتیم کے پیر سے کانٹا نکالا تھا، خواب میں دیکھا کہ وہ باغوں کی سیر کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ اس کانٹے کی بدولت مجھ پر کس قدر پھول کھلے ہیں۔ لہذا جب تک ممکن ہو سکے لوگوں پر رحم کروکیونکہ جب تک انسان دوسروں پر رحم کرتا رہے گا، اس پر بھی رحمت ہوتی رہے گی۔ یعنی جب انسان کسی پر شفقت کرتا ہے تو رحمت خدا و ندی کا مستحق ہو جاتا ہے۔
    جب کسی پر رحم کرو تو اس عمل پر غرور نہ کرنا اور یہ نہ سوچنا کہ تم نے جس کی مدد کی ہے وہ تم سے کم تر ہے۔ اگر زمانے کی گردش نے اسے گرا دیا ہے تو کیا اس زمانے کی گردش اب ختم ہو گئی ہے ۔ اسی طرح جب لوگوں کو دعا گو دیکھو تو اس وقت پروردگار کی نعمتوں کا شکر ادا کیا کرو۔ یہ بھی جان لو کہ بہت سے لوگوں کی نظریں امید سے تم پر لگی ہوئی ہیں اور مہربانی اور کرم کرناتو سرداروں کی سیرت ہوتی ہے۔ یہ تم پر اللہ تعالٰی کی مہربانی اور رحمت ہے کہ تمہیں کسی کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے میں یہ کہتا ہوں کہ لطف و کرم کرنا تو پیغمبروں کا شیوا ہے۔
     
    غوری، ملک بلال اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. احتشام محمود صدیقی
    آف لائن

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2011
    پیغامات:
    4,538
    موصول پسندیدگیاں:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
    ایک مرتبہ چند بڑے لوگوں کے ہمراہ میں ایک کشتی میں بیٹھا ہوا تھا . ایک ڈونگی ہمارے سامنے ڈوب گئی دو بھائی بھنور میں پھنسہ گئے ،سرداروں میں سے ایک نے ملاح سے کہا ان دونوں کو پکڑ کر یعنی بھنور سے نکال . میں ہر ایک کے عوض پچاس دینار سرخ ( سونے کا ہوتا ہے ) دونگا . ملاح پانی میں گھسا اور ایک کو نکال لایا اور دوسرا ہلاک ہو گیا . سعدی فر ماتے ہیں کہ میرے منہ سے نکلا کہ اسکی عمر باقی نہیں رہی تھی .اسی وجہ سے ملاح تو نے اس کے نکالنے میں دیر لگادی اور دوسرے کے نکالنے میں جلدی کی . ملاح ہنسا اور کہا ! جو آپ نے فر مایا وہ یقنی بات ہے لیکن ایک سبب اور بھی ہے میں نے کہا وہ کیا ہے ؟
    میری دلی رغبت اس ایک کے نکالنے میں زیادہ تھی اسلئے کہ ایک وقت میں جنگل میں رہ گیا تھا اس نے مجھے اونٹ پر بٹھا لیا تھا .دوسرے کے ہاتھ سے بچپن کے زمانہ میں احقر نے کو ڑے کھائے تھے . یہ سن کر میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے سچ فر مایا ہے کہ جس نے نیک عمل کیا اپنے نفس کے فائدہ کیلئے ،اور جس نے برا عمل کیا اپنے اوپر یعنی اس کا نقصان اسی کو پہنچے گا .
    قطعہ: جب تک تجھ سے ہو سکے کسی کے دل کو مت چھیل (مت ستا) کہ اس راستے میں بہت کا نٹے ہیں ،حاجت مند فقیر کے کام کو پورا کر کہ تجھ کو بھی بہت سےکام پیش آئینگے
    فائدہ: اس حکایت کا یہ ہے کہ عام لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنی چاہئے ، حاجت مندوں کی ضرورت حتی الامکان پوری کر نے کی سعی کرنی چاہئے تا کہ نیکی کی جزا نیکی کی صورت میں پیش آئے .
     
    غوری، پاکستانی55 اور ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
  12. احتشام محمود صدیقی
    آف لائن

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2011
    پیغامات:
    4,538
    موصول پسندیدگیاں:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
  13. احتشام محمود صدیقی
    آف لائن

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2011
    پیغامات:
    4,538
    موصول پسندیدگیاں:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
  14. احتشام محمود صدیقی
    آف لائن

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2011
    پیغامات:
    4,538
    موصول پسندیدگیاں:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
  15. شہباز حسین رضوی
    آف لائن

    شہباز حسین رضوی ممبر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2013
    پیغامات:
    839
    موصول پسندیدگیاں:
    1,321
    ملک کا جھنڈا:
    ادلے کا بدلہ

    ایک لومڑی ایک چیل کی سہیلی بن گئی۔ دونوں میں اتنا پیار ہوا کہ ایک دوسرے کے بغیر رہنا مشکل ہو گیا۔ ایک دن لومڑی نے چیل سے کہا۔

    "کیوں نہ ہم پاس رہیں۔ پیٹ کی فکر میں اکثر مجھے گھر سے غائب رہنا پڑتا ہے۔ میرے بچے گھر میں اکیلے رہ جاتے ہیں اور میرا دھیان بچوں کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ کیوں نہ تم یہیں کہیں پاس ہی رہو۔ کم از کم میرے بچوں کا تو خیال رکھو گی۔"

    چیل نے لومڑی کی بات سے اتفاق کیا اور آخرکار کوشش کرکے رہائش کے لیے ایک پرانا پیڑ تلاش کیا جس کا تنا اندر سے کھوکھلا تھا۔ اس میں شگاف تھا۔ دونوں کو یہ جگہ پسند آئی۔ لومڑی اپنے بچوں کے ساتھ شگاف میں اور چیل نے پیڑ پر بسیرا کر لیا۔

    کچھ عرصہ بعد لومڑی کی غیر موجودگی میں چیل جب اپنے گھونسلے میں بچوں کے ساتھ بھوکی بیٹھی تھی، اس نے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے لومڑی کا ایک بچہ اٹھایا اور گھونسلے میں جا کر خود بھی کھایا اور بچوں کو بھی کھلایا۔ جب لومڑی واپس آئی تو ایک بچہ غائب پایا۔ اس نے بچے کو ادھر ادھر بہت تلاش کیا مگر وہ نہ ملا۔ آنکھوں سے آنسو بہانے لگی۔ چیل بھی دکھاوے کا افسوس کرتی رہی۔

    دوسرے دن لومڑی جب جنگل میں پھر شکار کرنے چلی گئی اور واپس آئی تو ایک اور بچہ غائب پایا۔ تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کا ایک اور بچہ غائب ہو گیا۔ چیل لومڑی کے سارے بچے کھا گئی۔ لومڑی کو چیل پر شک جو ہوا تھا، وہ پختہ یقین میں بدل گیا کہ اس کے تمام بچے چیل ہی نے کھائے ہیں مگر وہ چپ رہی۔ کوئی گلہ شکوہ نہ کیا۔ ہر وقت روتی رہتی اور خدا سے فریاد کرتی رہتی کہ ۔

    "اے خدا! مجھے اڑنے کی طاقت عطا فرما تاکہ میں اپنی دوست نما دشمن چیل سے اپنا انتقام لے سکوں۔"
    خدا نے لومڑی کی التجا سن لی اور چیل پر اپنا قہر نازل کیا۔ ایک روز بھوک کے ہاتھوں تنگ آ کر چیل تلاش روزی میں جنگل میں اڑی چلی جا رہی تھی کہ ایک جگہ دھواں اٹھتا دیکھ کر جلدی سے اس کی طرف لپکی۔ دیکھا کچھ شکاری آگ جلا کر اپنا شکار بھوننے میں مصروف ہیں۔

    چیل کا بھوک سے برا حال تھا۔ بچے بھی بہت بھوکے تھے۔ صبر نہ کرسکی۔ جھپٹا مارا اور کچھ گوشت اپنے پنجوں میں اچک کر گھونسلے میں لے گئی۔ ادھر بھنے ہوئے گوشت کے ساتھ کچھ چنگاریاں بھی چپکی ہوئی تھیں۔ گھونسلے میں بچھے ہوئے گھاس پھوس کے تنکوں کو آگ لگ گئی۔ گھونسلا بھی جلنے لگا۔ ادھر تیز تیز ہوا چلنے لگی۔ گھونسلے کی آگ نے اتنی فرصت ہی نہ دی کہ چیل اپنا اور اپنے بچوں کا بچاؤ کر سکے۔ وہیں تڑپ تڑپ کر نیچے گرنے لگے۔ لومڑی نے جھٹ اپنا بدلہ لے لیا اور انہیں چبا چبا کر کھا گئی۔
    حاصل کلام

    جو کسی کے لیے کنواں کھودتا ہے، خود بھی اسی میں جا گرتا ہے۔ اس لیے سیانوں نے کہا ہے کہ برائی کرنے سے پہلے سوچ لے کہیں بعد میں پچھتانا نہ پڑے۔​
     
    غوری اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  16. احتشام محمود صدیقی
    آف لائن

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2011
    پیغامات:
    4,538
    موصول پسندیدگیاں:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
    کہتے ہیں کہ اہک شکار گاہ میں نوشیرواں عادل کے لئے اسکے غلام کباب بنا رہے تھے۔نمک نہ تھا اسلئے ایک غلام کو قریبی گاؤں کی جانب روانہ کیا گیا کہ وہان سے لے آئے۔
    نوشیرواں نے حکم دیا کی قیمت ادا کرکے لایا جاے۔قیمت ادا کئے بغیر چیز لینے کی رسم نہ پڑ جائے ۔اور گاؤں میں اجاڑ نہ ہو جائے۔
    ملازمین شاہی نے عرض کی کہ ایک چٹکی نمک سے کیا حرج ہے۔
    نوشیرواں عادل نے کہا کہ ظلم کی بنیاد دنیا مین بہت کم تھی جو کوئی بعد میں آیا وہ اس میں اضافہ ہی کرتا گیا۔حتٰی کہ وہ انتہا کو پہنچ گیا۔
    (اگر بادشاہ رعیت کے باغ سے ایک سیب توڑ لے تو اس کے ملازم درخت کو جڑ سے اکھارڑ دیں گےاگر بادشاہ تھوڑے سے انڈے مفت کھالے تو اس کے شپاہی ہزار مرغ لوگوں سے چھین کر سیخوں پر چڑھا دیں گے۔۔)
     
    غوری، شہباز حسین رضوی اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. احتشام محمود صدیقی
    آف لائن

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2011
    پیغامات:
    4,538
    موصول پسندیدگیاں:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
    شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب "بوستان سعدی" میں فرماتے ہیں کہ ایک فقیر مدینہ منورہ کی ایک مبارک گلی میں بیٹھا تھا۔ اتفاقاً امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اُس طرف گزرے اور بے توجہی میں فقیر کے پاؤں پر پاؤں پڑگیا۔ فقیر ناراض ہوکر چلانا، "اے شخص! کیا تو اندھا ہے؟" حضرت امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ نے کمالِ مہربانی سے جواب دیا، "بھائی! اندھا تو نہیں ہوں لیکن مجھ سے قصور ضرور ہوا ہے، برائے مہربانی مجھے معا ف کردو۔"
    یہ حکایت بیان کرتے ہوئے حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، سبحان اللہ! بزرگوں کا اخلاق کس قدر پاکیزہ تھا، مقابل کوئی کمزور ہوتا تھا تو اُن کے لہجے میں نرمی آ جاتی تھی سچ ہے کہ ہر بلند مرتبہ شخص منکسر المزاج اور دوسروں کی دلجوئی کرنے والا ہوتا ہے۔ اس کی مثال تو اس درخت کی سی ہوتی ہت جس پر جتنے زیادہ پھل آتے ہیں اُس کی شاخیں اُسی قدر جھک جاتی ہیں۔ جو خوش نصیب کمزروں کے ساتھ نرمی اور مروت کا برتاؤ کرتے ہیں وہ قیامت کے دن شاداں و فرحاں ہونگے، لیکن مغروروں کو شرمندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔
     
    شہباز حسین رضوی اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  18. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    علماء میں سے ایک ، ایک شہزادے کی تربیت کرتا تھا ۔ اسے بے پروا ہی سے مارتا اور بے پناہ ظلم کیا کرتا تھا ۔ ایک مرتبہ بیٹے نے نڈھال ہو کر اپنے باپ سے شکایت کی اور اپنے دکھتے جسم سے لباس ہٹا دیا ۔ باپ کے دل کو بہت تکلیف ہوئی ۔

    اس نے استاد کو بلایا اور کہا !

    تم عام رعایا کے بیٹوں سے اس قدر سرزنش اور ظلم کا سلوک روا نہیں رکھتے جس قدر میرے بیٹے سے رکھتے ہو ؛ اس کی کیا وجہ ہے ؟

    اس نے کہا !

    وجہ یہ ہے کہ سنجیدہ بات اور اچھا عمل کرنا سب مخلوق کے لیۓ عام طور پر اور بادشاہوں کے لیۓ خاص طور پر ضروری ہے ۔ اس لیۓ کہ جو قول و فعل ان ( بادشاہوں ) سے سرزد ہوتا ہے یقینا لوگ اسے اپنا لیتے ہیں جبکہ عام لوگوں کے قول و فعل کو اس قدر اہمیت حاصل نہیں ہوتی ۔

    ٭ اگر کوئی غریب آدمی ایک سو ناپسندیدہ باتیں کرے تو اس کے ساتھی سو میں سے ایک بھی نہیں جانتے ۔

    ٭ اور اگر کوئی بادشاہ ایک مذاق کرے تو اسے ایک خطے سے دوسرے خطے میں پہنچا دیتے ہیں ۔

    پس واجب ٹھہرا کہ شہزادے کے استاد کو بادشاہوں کے بیٹوں کی اخلاقی شائستگی کے لیۓ ، کہ خداوند تعالی ان کی نیک تربیت میں پرورش کرے ، عوام کی نسبت زیادہ کوشش کرنی چاہیۓ ۔

    ٭ وہ جس کو اس کے بچپن میں تربیت نہ کریں ، بڑے ہو کر بھلائی اس سے جاتی رہتی ہے ۔

    ٭ گیلی لکڑی ( چھڑی ) کو جیسے چاہو موڑو ، خشک لکڑی آگ کے سوا کہیں سیدھی نہیں ہوتی ۔

    بادشاہ کو عالم کی حسن تدبیر اور جواب کی ادائیگی پسند آئی، اسے نعمت اور خلعت عطا کی اور اس کا رتبہ اور عہدہ بڑھا دیا ۔
     
    پاکستانی55، ملک بلال اور احتشام محمود صدیقی نے اسے پسند کیا ہے۔
  19. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    بزرگوں کا دامن
    بچپن میں شیخ سعدی اپنے والد کی انگلی پکڑے ہوئے کسی میلے میں جارہے تھے۔ راستے میں کسی جگہ بندر کا کھیل دیکھنے میں ایسے لگے کہ والد کی انگلی چھوٹ گئی۔ والد اپنے دوستوں کے ساتھ آگے نکل گئے اور سعدی تماشا دیکھتے رہے۔ کھیل ختم ہوا تو والد کو سامنے نہ پاکر بے اختیار رونے لگے۔ آخر اللہ اللہ کر کے والد بھی انھیں ڈھونڈتے ہوئے آنکلے۔ انھوں نے سعدی کو روتا دیکھ کر ان کے سر پر ہلکا سا چپت مارا اور کہا: "نادان بچے! وہ بے وقوف جو بزرگوں کا دامن چھوڑ دیتے ہیں، اسی طرح روتے ہیں۔"
    سعدی کہتے ہیں کہ میں نے سوچا تو دنیا کو ایسا ہی پایا، ایک میلے کی طرح۔ آدمی اس میلے میں مجھ جیسے نادان بچوں کی طرح ان بزرگوں کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے، جو اچھے اخلاق سکھاتے اور دین کی باتیں بتاتے ہیں، تب اچانک اسے دھیان آتا ہے کہ زندگی غفلت میں گزر گئی، پھر روتا اور پچھتاتا ہے۔
     
    پاکستانی55 اور غوری .نے اسے پسند کیا ہے۔
  20. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    ہارون الرشید کا انصاف

    بیان کیا جاتا ہے۔ بنو عباس کے مشہور خلیفہ ہارون الرشید کا ایک بیٹا ایک دن اس کے پاس ایسی حالت میں آیا کہ غصے اور رنج سے اس کا چہرہ تمتمایا ہوا تھا۔ خلیفہ نے بیٹے کی یہ حالت دیکھ تو اس سے پوچھا جان پدر! کیا بات ہے ؟ تم پریشان کیوں نظر آرہے ہو؟ شہزادے نے کہا، فلاں سپاہی کے بیٹے نے مجھے ماں کی گالی دی ہے۔ بیٹے کی یہ بات سن کر خلیفہ نے اپنے درباریوں سے پوچھا، بتاؤ ایسے مجرم کو کیا سزادی جائے؟

    ایک نے کہا، ایسے ناہنجار کو قتل کر دینا چاہیے، دوسرا بولا، اس کی زبان کٹوا دینی چاہیے، تیسرے نے مشورہ دیا کہ اس سے باپ کی ساری جائیداد ضبط کر لی جائے، ہارون نے سب کے مشورے پوری توجہ سے سنے پھر اپنے بیٹے کی طرف دیکھ کر بولا، بیٹا! خدا نے ہمیں یہ اختیار دیا ہے کہ مجرم کو سخت سے سخت سزادے سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے نزدیک سب سے اچھی بات یہ ہے کہ تم اسے معاف کر دو۔ یا پھر زیادہ سے زیادہ یہ کرو کہ تم بھی اسے ماں کی گالی دے دو، لیکن یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ اس سلسلے میں معمولی سی زیادتی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ خدا ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو زیادتی کرتے ہیں۔

    مرد اس کو نہیں کہتے جو لڑے ہاتھی سے
    یہ بڑی بات خرد مندوں کے نزدیک نہیں
    ہاں مگر طیش میں رکھے جو حواس اپنے درست
    اس کی عزت کرو مل جائے اگر تم کو کہیں

    وضاحت

    حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں نہایت دلکش اور موثر انداز میں صاحب اقتدار طبقے کو یہ بات سمجھانے کی کوشش فرمائی ہے کہ اگر کمزوروں اور زیردستوں سے کسی قسم کی خطا سرزد ہو جائے تو عفو و درگزر ان کے شایان شان ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ سپاہی زادے نے شہزادے کو ماں کی گالی دی تھی جسے سن کر غریب اور کمزور شخص بھی آپے سے باہر ہو جاتا ہے لیکن ہارون الرشید نے اپنے بیٹے کو مشورہ دیا کہ وہ مجرم کو معاف کر دے۔

    ٭٭٭
     
    شہباز حسین رضوی اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  21. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    عجمی طبیب

    روایت ہے، عجم کے ایک عیسائی بادشاہ نے عقیدت ظاہر کرنے کے خیال سے اپنے ملک کے ایک نامور طبیب کو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی خدمت اقدس میں اس خیال سے بھیجا کہ وہ مدینہ شریف میں رہ کر بیمار مسلمانوں کا علاج معالجہ کر ے۔

    اس طبیب کو مدینہ شریف میں رہنے کی اجازت مل گئی اور وہ مطب کھول کر وہاں رہنے لگا لیکن کتنے ہی دن گزر گئے ایک مسلمان بھی علاج کرانے کے خیال سے اس کے مطب میں نہ آیا۔ طبیب نے اپنے طور پر خیال کیا کہ شاید یہ لوگ میرے عیسائی ہونے کی وجہ سے مجھ سے علاج نہیں کراتے۔چنانچہ وہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس بات کی شکایت کی کہ مسلمان مجھ سے نفرت کرتے ہیں اور اس وجہ سے علاج نہیں کراتے۔ حضرت رسول اللہ صلی علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا، ایسی بات ہر گز نہیں بلکہ صحیح صورت یہ ہے کہ لوگ بیمارہی نہیں ہوتے اور ان کے تندرست رہنے کی خاص وجہ یہ ہے کہ جب تک خوب بھوک نہ لگے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتے اور جب کچھ بھو ک باقی ہوتی ہے تو د ستر خوان سے اٹھ جاتے ہیں۔

    حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا یہ ارشاد مبارک سن کر طبیب مطمئن ہو گیا۔ اس کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ مدینہ شریف کے مسلمان علاج کی غرض سے اس کے مطب میں کیوں نہیں آتے۔

    بولنے میں اور کھانے میں اگر ہو اعتدال
    معتبر بنتا ہے انساں، محترم رہتی ہے جان
    خیق میں پھنستے ہیں ہم بے اعتدالی کے سبب
    ہوا گر محتاط تو گھٹتی نہیں انساں کی شان

    وضاحت

    حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں با عزت اور تندرست رہنے کا زریں گر بتا یا ہے۔ دنیا کے تمام دانشمند اس بات پر متفق ہیں کہ کم کھانے کم بولنے اور کم سفر کرنے والے لوگ فائدے میں رہتے ہیں۔یہ سب باتیں یقیناً ضروری ہیں لیکن ان کا اصل فائدہ اس وقت پہنچتا ہے جب اعتدال اور احتیاط کا راستہ اختیار کیا جائے۔

    ٭٭٭
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں