1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حلق تک بھری تلخی

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از صدیقی, ‏16 فروری 2012۔

  1. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    حلق تک بھری تلخی​


    اختر عباس​



    وہ ایک بھرپور نظر تھی جس نے پورے بل بورڈ کا احاطہ کیا اوربدمزہ ہو کر پلٹ آئی۔ مال روڈ پہ واقع میاںمیر اوورہیڈبرج کے عین وسط میں ریلوے لائنوں کے درمیان سے اگے ہوئے اس بورڈ نے فورٹریس سٹیڈیم جاتے ہوئے متوجہ کیا تھا۔ ڈان بریڈ بنانے والوں نے ایک نوآموز اداکارہ کو اس پہ لا بٹھایا تھا۔ اس کی فلم تو ایک ہی آئی تھی مگر شہرت کئی فلموں کی بدنامی سے زیادہ ہو چکی تھی۔ اس فلم کے ایک گانے کے لیے باغ جناح میں تاج محل کا پورا سیٹ لگایا گیا تھا۔
    ایورنیو پکچرز والے ریاض صاحب جو اس فلم کے ڈائریکٹر بھی تھے نے بتایا کہ ہم نے سٹوڈیو میں لوہے کے بڑے بڑے فریم بنوا کر ٹرالروں پہ رکھوائے اور باغِ جناح لے آئے۔ ٹرالے اتنے بڑے تھے کہ گیٹ سے گزر نہیں سکتے تھے اور اندر داخل ہونے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ یوں پلرز کو توڑ کرایک درمیانی راستہ نکالا گیا جس میں گیٹ نہیں تھا اور ٹرالے اندر لے آئے گئے۔ اس پہ کافی ہاہاکار مچی لیکن کام ہوگیا۔ گانا پکچرائز ہوچکا تو اسی شام تب پنجاب کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی، گورنر ہائوس سے ٹہلتے ہوئے حسب معمول باغِ جناح آئے تو انھیں وہ سیٹ بھا گیا۔انھوں نے سیٹ توڑنے والوں کو منع کردیا اور یوں اگلے چھ ماہ یہ سیٹ سیر کے لیے لاہور اور بیرونِ لاہور سے آنے والون کو متوجہ کرتا رہا۔ تمام سیٹ کرائے کی چیزوں پر مشتمل تھا۔ چھ ماہ میں کرائے کا بل لاکھوں روپے سے تجاوز کر گیا۔ پسند، فرمائش اپنی جگہ پہ مگر بل بھی تو چکانا تھا، اُس کے لیے کوئی آمادہ نہ تھا۔ دیوالیہ ہوتے ٹھیکیدار نے رقم ملنے کی مزید آس چھوڑتے ہوئے ایک روز آنکھ بچا کر سیٹ اُکھاڑا اور اپنے آپ کو مزید نقصان سے بچا لیا۔

    اس بل بورڈ کی قسمت البتہ اتنی اچھی نہ تھی کہ چھ دن بھی سجا رہتا۔ انہی دنوں پورا لاہور لڑکیوں کی تصاویر والے بل بورڈز پہ کالا رنگ پھیرنے، سیاہی سے بھرے گولے پھینکنے کی زد میں تھا۔ اکثر بے ضرر اور معصوم شکل تصاویر اس مہم کی زد میں آئیں کہ وہ آسان ہدف تھیں۔یہ بل بورڈ اشتہارات کی دنیا میں اعلانیہ عریانی کی بارش کا وہ پہلا قطرہ تھا جس نے ملک میں ماڈلز کی تصاویر کی شائستگی پہ آخری ضرب لگائی اور سلیولیس کلچر کی ایسی مضبوط بنیاد رکھی کہ آنے والا ہر دن فلموں، الیکٹرانک میڈیا، ماڈلز اور پرنٹ میڈیا ہر جگہ روا رکھی جانے والی اس احتیاط یا تہذیبی شرم و حیا سے عاری ہوگیا جس میں ماڈل لڑکیوں کے ننگے بازو تک بڑی نزاکت، ذہانت اور آرٹسٹک وے سے سر کے لمبے بالوں کو ہلکا سا پھیلا کر ڈھانپ دیئے جاتے تھے۔

    عریاں بازو چھاپنے، دکھانے اور پھیلانے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔میاں میر جیسے بزرگ کے نام سے موسوم پُل پر لگے اس بل بورڈ نے عامۃالناس کو لبھانے کے ساتھ ساتھ ملک میں اشتہاری دنیا کا ٹرینڈ اور نقشہ ہی بدل دیا۔خدا جانے یہ ایڈ ایجنسی کا آئیڈیا تھا یا ڈان بریڈ کے مالک فدا خان کی پسند کا شاخسانہ تھا۔ مگر اس کے اثرات ہر طرف گئے۔ ایک خبر مجھے یاد ہے جو اخبارات کی زینت بنی۔ ایک اخبار نویس نے اس اداکارہ سے پوچھا ’’آپ نے ایسی تصویر کیوں بنوائی اور لگوائی جو ہمارے قومی مزاج اور کلچر سے ہی ہم آہنگ نہ تھی۔‘‘اس نے مسکراتے ہوئے کہا’’ آپ تو خوبصورتی کی تعریف بھی نہیں کر سکتے، لوگ تو محسوس کر سکتے ہیں۔ اب تک اس بل بورڈ پر لگی تصویر کی خوبصورتی کو دیکھتے ہوئے ۸ ؍ حادثے ہو چکے ہیں۔‘‘اُس روز دفتر واپسی پہ ایک صاحب کو فون کیا کہ شہر بھر میں آپ لوگ لڑکیوں کی ان تصویروں کے پیچھے پڑے ہو جو آپ کی دسترس میں ہیں۔ اگرسوسائٹی کے لیے کسی تصویر کے نقصان دہ ہونے کی بنیاد پر ایسا کرتے ہیں تو خیال رہے یہ ایک تصویر سب کچھ تہس نہس کرنے جار ہی ہے ۔


    انھوں نے خدا جانے کیا کیا کہ اگلے روز اس تصویر کے چہرے اور ننگے بازوئوں پہ کوئی رنگ تو نہ پھینکا گیا البتہ اشتہاری کمپنی نے عوامی دبائو اور خوف کے باعث پورے بل بورڈ پہ سفید کپڑا ڈال دیا۔ لوگ گزرتے اور کپڑا دیکھ کر مسکراتے تھے۔ میں بھی گیا۔ ہاں یہ سوچ کر مسکرا نہیں سکا کہ ہمارے ہاں ہر مسئلہ ویسے ہی موجود رہتا ہے مگر ہم وقتی طور پہ کپڑا ڈال کر یا ڈلوا کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔مسئلے حل کرنے کا یہ نسخہ اتنا کارگر ہے کہ کبھی تودل چاہتا ہے کوئی کمپنی کھول کر ایسے حل ایکسپورٹ کرنے شروع کر دیے جائیں۔بنیادی طور پر ہم انتہائی معصوم لوگ ہیں ہر بُری بات حتیٰ کہ تصویر کے بارے میں بھی یہی سوچتے ہیں کہ یہ ساری بیماری اور یہی کیا ہر طرح کی بیماری یہود اور ہنود کی پھیلائی ہوئی ہے۔

    ہمارا کیا قصور اور ہم کر بھی کیا کر سکتے ہیں مگر یقین مانیے اِس بار کوئی سازشی تھیوری ڈھونڈنے سے نہیں ملے گی۔ اپنے ہاتھوں اپنی مرضی سے بوئی فصل کے بیج اور پھل دونوں کا ذمہ کسی دوسرے کے سر نہیں ڈالا جا سکتا، نہ کریڈٹ کسی اور کے گلے میں لٹکایا ، یا ماتھے پر سجایا جا سکتا ہے ۔یہ کہنا جزوی طور پر غلط ہوگا کہ کیبل آنے سے پہلے ڈش اور اس سے پہلے وی۔سی۔آر اس سوچ کے ذمے دار ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے ہاں پی ٹی وی میں اس قدر احتیاط کی جاتی تھی کہ ڈرامے میں لڑکی کا ہاتھ تک نہیں پکڑا جاتا تھا۔ فلموں میں بھی دو پرندوں کی چونچوں کو دکھا کر سین مکمل کر دیا جاتا تھا۔جنرل مشرف کے عہدِنامبارک کے دن تھے۔ روشن خیالی کے نام پہ تہذیب اور اقدار کی ہر خوشبودار جمی ہوئی روایت کو خاموشی کی سل پہڈال کے کچلا اور مسلا جاتا رہا اور مزاحمت نام کو نہ تھی۔ ہم بھی خوب قوم ہیں کہ صرف سیاسی بیانات اور مضامین کو ہی کُل مزاحمت تصور کرتے ہیں۔ اسی ادنیٰ تصور نے مجروں کو خاموشی سے پہلے سٹیج اور پھر سماجی تقریبات کا حصہ بنا دیا۔ جس بات کو کبھی سوچتے اور اظہار کرتے یا تماش بینی کے لیے بازارِ حسن جاتے شرم آتی تھی۔ وہ سارے منظر عام لوگوں کی زندگی اور معمول کا حصہ بن گئے۔

    حکومت پنجاب کے ایک اعلیٰ سطح کے افسر نے جو کبھی سیکرٹری اطلاعات تھے اور آثارِقدیمہ کے سربراہ رہے ایک بار بتایا کہ پہلے سربراہان کے آنے کا پتا چلتا تو تقریبات میں افسران فوری طور پہ کسی پکے راگ گانے والے کو یا نیم کلاسیکل موسیقی کا آئٹم لے آتے۔ مشرف عہد میں مزاج شناس افسران صاحب کو دیکھتے ہی مجرہ یا اسی قسم کا آئٹم گانا شروع کرا دیتے۔نوبت یہاں تک پہنچی کہ ۱۴؍اگست کو ایوانِ صدر اور ان کو دیکھتے ہوئے آخری سال وزیرِاعظم ہائوس میں ماڈل اور کال گرلز کی کیٹ واک کرا دی گئی۔عاصم یار ٹوانہ اور QTY نے بڑے فخر سے ان کا اہتمام کیا اور اپنے پروفائل کو چار چاند لگوائے۔ پھر یہ بھرپور روایت بڑے شہروں میں میڈیا، سٹیج شوز، تقریبات سے قصبوں سے ہوتی اور عام گھروں تک پھیلتی چلی گئی۔
    جناب نجم سیٹھی اور سلمان تاثیر کے انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز نے ایک نئی اختراع کا سہرا اپنے سر باندھا کہ شام کی تقریبات میں سلیولیس بازوئوں والی لڑکیوں کو کئی کئی صفحات پر پھیلا دیا۔ پہلے صرف بازو ننگے کیے، پھر کمر (بیک لیس نام دیا گیا) اور ڈاؤن نیک متعارف کرایا گیا پھر اس پر تسلی نہیں ہوئی تو دو قدم آگے بڑھ کر پرائی لڑکیوں کے ساتھ گلے ملنے، گالوں سے گال ملانے کی تصاویر کو اس تواتر سے چھاپا کہ احساسِ گناہ بھی جاتا رہا۔ کچھ اُردُو اخبارات نے بھی پستی کی طرف بہتی اس گنگا میں اپنے صفحات بھگو ڈالے۔


    اب تقریبات کی کوریج کے نام پر یہ روایت بیشتر انگریزی، اُردو سنڈے میگزینز کا یوں لازم حصہ بن چکی ہے جیسے اس کو روکنا تو درکنار ایسا سوچنا بھی شجرِممنوعہ کو چھونے جیسا ہوگا۔ٹی وی سکرین تک اس روایت نے جاتے جاتے جو قیامتیں دکھائیں، اُس کا اندازہ کسی روز ایک گھنٹے تک مختلف چینل دیکھ کر یا کسی سکول کے فنکشن میں جا کربھی کیا جا سکتا ہے۔ٹی وی مارننگ شوز سے ڈراموں تک یوں لگتا ہے بازو ننگے رکھنے اور کم کپڑے پہننے کا مقابلہ شروع ہوگیا ہے۔ بوڑھے ہو چکے اداکار نئی نئی کم لباس اداکارائوں کے ساتھ اور بوڑھی ہوتی اداکارائیں سلیو لیس کپڑوں میں مٹکتی، ادائیں دکھاتی، یوں بیڈ سینز(Bed Scenes) دے رہی ہیں جیسے صدیوں سے یہی چلن تھا اور ہماری معاشرت میں کبھی تہذیب، تمیز، شائستگی، حیا نام کی کوئی روایت تھی ہی نہیں۔

    مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک زمانے میں جنید جمشید نے ماہ نور بلوچ کے ساتھ ایوری ڈے کا ایک ٹی وی ایڈ کیا تھا، جس میں وہ گاتا اور لہراتا ہوا غیر محسوس انداز میں ماہ نور کے پیچھے جا کھڑا ہوتا ہے۔ چھوئے بغیر… اور آج چند سالوں کے اندر عالم یہ ہے کہ چھونا تو معمولی بات ہے، لڑکی کو ہاتھوں میں اٹھانے، گلے لگانے، گالوں سے گال ملانے سے کم پر سین مکمل ہی نہیں ہوتا۔ نہ کسی کو اعتراض ہوتا نہ کسی کے ماتھے پر شکن آتی ہے۔ کیا یہ کسی ذہنی ناآسودگی کا اظہار ہے یا اپنی قیمتی اقدار اور تہذیب کو ہاتھ سے جاتے دیکھنے پر مکمل بے بسی کی کیفیت۔ اﷲ رسول کی ناراضگی کا تو ذکر ہی کہیں نہیں۔ اُن سے میل ملاقات اور سوال و جواب تو شاید ہی کسی حاشیہ خیال میں آتے ہوں گے۔اِس معاملے میں رہی سہی کسر خود روپودوں کی طرح اُگنے والے ٹی وی چینلز نے پوری کر دی جو سوچے سمجھے بنا مقابلے میں کود پڑے اور ریٹنگ کی اندھی دوڑ میں شامل ہوگئے۔ ہندوستان کے چینلز کے ناکام اور ناکارہ ورائٹی شوز، رائیلٹی شوز، ڈانس شوز اور بگ باس جیسے پروگراموں کو اپنی طویل دورانیے کی نشریات کاپیٹ بھرنے کے لیے اندھا دھند خریدنے اور ناظرین کو دکھانے کا اہتمام کرنے لگے۔ایسے ہی ایک موقع پر اشفاق احمد مرحوم نے بڑے دُکھی لہجے میں کہا تھا ’’انھوں نے پہلے بازو ننگے کرائے پھر پیٹ۔ اپنے کپڑے پورے ہیں۔

    ان بیچاریوں کے حسن کے مقابلے کروا کروا کر زمانے بھر میں تماشا بنا دیا ہے۔ ان کم عقلوں کو سمجھ نہیں آتی کہ اس کم لباسی کی کوئی حد نہیں ہوتی۔‘‘اب تو شاید اِس کا تذکرہ بھی فیشن میں نہیں۔ وہ تو یہ ہوا کہ پچھلے دِنوں شادی کی ایک محفل میں جانا ہوا۔ دُولہا دُلہن سٹیج پر تھے۔ خوبصورت وردیوں میں ملبوس ویٹر جوس سرو کر رہے تھے۔ جب نکاح ہوا تو نہ کسی نے مولوی صاحب کے بول سننے کا تکلف کیا، نہ تلاوت ہوئی۔ دستخط کرنے کی رسم نجانے کیسے نبھائی گئی ہوگی۔ چند لمحوں کے اندر سٹیج کے سامنے ناچنے والوں کا ہجوم جمع ہوگیا۔

    کچھ منچلے دولہے کو بھی نیچے لے آئے۔ ممکن ہے کم لباس دُلہن کا دل بھی نیچے آنے کو مچل رہا ہو چونکہ ڈراموں میں تو ایسا ہی ہو رہا ہے مگر اس کا موقع نہیں آیا۔ بڑوں کا شوق پورا ہوا تو بچے میدان میں آگئے۔ وہ اڑھائی سال کی بچی ہوگی یا تین سال کی۔ منی بدنام ہوئی پہ اس نے جو ناچنا شروع کیا تو سب ناچنے والے تھم گئے۔ میرے ساتھ بیٹھے صاحب پہلے مسکرائے پھر بولے’’ میری بیٹی ہے۔ ماشاء اللّٰہ بہت ذہین ہے۔ ڈانس کے سٹیپس تو یوں سیکھتی ہے کہ ہم حیران رہ رہ جاتے ہیں۔ پاکستان میں رائیلٹی ڈانس شو نہیں ہوتے ورنہ کب کی شیلڈ گھر لا کر دھوم مچا چکی ہوتی۔بچی ناچ رہی تھی، لوگ تالیاں بجا رہے تھے، دھیرے دھیرے رش بڑھنے لگا۔ میرے ساتھ بیٹھے صاحب بھی بے اختیاری میں کھڑے ہوگئے۔ ان کے ہاتھ بھی ردھم میں بج رہے تھے۔ پھر اچانک بچی کی پرفارمنس کا وہ موڑ آگیا جس پر میں گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا۔بچی نے مستی میں آ کر کسی فلمی رقاصہ کی طرح پوری ادا سے اپنا Upper اتارا اور لوگوں کی طرف پھینک دیا۔ اتفاق جانئے وہ سیدھا آکر اس کے باپ کے منہ پر پڑا جو بڑے پرجوش طریقے سے تالیاں بجا رہا تھا۔ اس پہ کیا بیتی، میں نہیں جان سکا۔ نہ دیکھ سکا، یہ دیکھنے کے لیے کچھ لمحے وہاں اور رکنا پڑتا۔ جو مجھ سے نہیں ہوسکا اور میں کھانا کھائے بغیر محفل سے نکل آیا۔سوچتا ہوں ایک صدقہ جاریہ ہوتا ہے۔ نسلوں تک اجر اور ثواب ماں باپ کو ملتا رہتا ہے۔ ایک درجہ گناہ جاریہ کا بھی ہوتا ہوگا۔ یہ کہاں کہاں سے ہوتا، کسی بل بورڈ پہ بیٹھنے والی، کسی روشن خیالی کے مارے صدر ، کسی اخبار کے ایڈیٹر، کسی سٹیج شو کو خریدنے اور اپنے نیٹ ورک پہ دکھانے والے ڈائریکٹر، کسی اخبار کے صفحات پہ نیم عریاں تصاویر چھاپنے والے فوٹو گرافر، سماجی تقریبات میں پرفارم کرنے اور کروانے والے پروڈیوسر کون کون سے اِس گناۂ جاریہ میں شامل اور اس مکروہ کاروبار کا حصہ بن چکے ہیں۔محفل سے جاتے ہوئے میں نے جو نظر ڈالی وہ ایسی بھرپور نہ تھی جو پورے منظر کا احاطہ کرتی، یہ کوئی بل بورڈ تھوڑی تھا جس پہ ایک اداکارہ براجمان تھی۔یہ تو خوشی اور مسرت سے بھرے زندہ لوگوں کی ایک محفل کا منظر تھا جہا ں ایک بچی رقص کناں تھی۔ کاش ایسے منظروں کی زبان ہوتی تو ان کے بولے جملوں کی تلخی حلق تک بھر جاتی۔میں نہ تو اس منظر کا دکھ اور نہ ہی پھینکے ہوئے Upper کا بوجھ اُٹھا سکا۔ اُس اڑھائی تین سال کی بچی کا باپ ضرور کوئی بہت ہی مضبوط انسان رہا ہوگا جس نے یہ بوجھ اپنے سر پر اُٹھا رکھا تھا
     
  2. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حلق تک بھری تلخی

    بالکل حقیقت پر مبنی تحریر ہے۔۔اتنی تلخ حقیقت ہے کہ واقعی حلق تک تلخی در آئی۔۔۔سب سے زیادہ دکھ اس بزدلی اوربے بسی کا ہے جو ہمارے اندرپیدا ہوچکی ہے۔۔۔کہ اب بڑے بھی بچوں کو اچھا برا سمجھاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں کہ کہیں ہم پر قدامت پرستی کا ٹھپہ نہ لگا دیا جائے۔۔ماڈرن ہونے اور ماڈرن کہلوانے کے شوق میں مبتلا یہ لوگ بچوں کے سلسلے میں اپنے اوپر عائد ہونے والی ایک عظیم ذمہ داری سے غفلت برتتے ہیں اور جلد یا بدیر اس کے انجام سے بھی دوچار ہوتے ہیں ۔ یہ صرف والدین یا خاندان یا سکول والوں کی ذمہ داری نہیں ہے۔ معاشرے کا ہر فرد اپنی اپنی جگہ اس کا ذمہ دار ہے۔گھر میں کھانے کو کچھ ہو یا نہ ہو لیکن ہر گھر میں کیبل ، انٹرنیٹ اور ہر فرد کے ہاتھ میں موبائل ضرور موجود ہوتا ہے۔ان سہولیات کی افادیت سے انکار نہیں‌لیکن ان چیزوں کے لیے جس قسم کی مانیٹرنگ کی ضرورت ہے کیا اس کا خیال رکھا جاتا ہے؟کیا حکومت اس بات کی ذمہ دار نہیں کہ میڈیا پر کیا دکھایا جائے اور کیا نہیں۔ اجتماعی طور پر عائد ہونے والے حقوق و فرائض سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔لیکن شخصی آزادی اور انفرادیت کے شوق میں ہرفرد صرف اپنا فائدہ سوچے گا تو ہمارا معاشرہ اسی طرح چوں چوں کا مربہ بنا رہے گا۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں