1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حق و باطل کا پہلا معرکہ ۔۔۔۔غزوۃ بدر ۔۔۔۔۔ عبدالمالک

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏30 اپریل 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حق و باطل کا پہلا معرکہ ۔۔۔۔غزوۃ بدر ۔۔۔۔۔ عبدالمالک

    اسلام اور کفر کے درمیان پہلا معرکہ بدر کے مقام پر2ھ 17رمضان المبارک کو ہواجس میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کو شاندار فتح سے نوازااورکفر کی کمر توڑ کر رکھ دی ۔اس لئے17رمضان کو اللہ تعالیٰ نے’’ یوم الفرقان‘‘ کانام دیاہے۔یہ روئے زمین کی پہلی جنگ تھی جو اسلحہ اور ظاہری مال و اسباب کے بجائے اللہ پرکامل ایمان اور ایقان کی بنیاد پر لڑی گئی۔ بدر مکہ اور مدینہ سے شام جانے والے تجارتی قافلوں کی گزر گاہ پر ایک چھوٹا سا گائوں تھا جس کے اردگرد چھوٹے پہاڑی ٹیلے تھے ۔تجارتی راستہ ہونے کی وجہ سے اس کی خاص اہمیت تھی ۔ میدان بدر مدینہ منورہ سے قریباً 80اورمکہ سے 220 میل کے فاصلے پر تھا۔مسلمانوں کے مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ چلے جانے کے بعد اسلام دشمن خصوصاًسرداران قریش سوچتے تھے کہ مسلمان اپنی جانیں بچا کر ان کے ہاتھ سے نکل گئے علاوہ ازیں اسلام دشمن سرداروں کو یہ خوف بھی لاحق تھا کہ مسلمان قوت پکڑ کر اس تجارتی راستے کو بند کردیں گے اور مکہ کی تجارت اور کاروبار ختم ہوجائے گا کفار مکہ دن رات اسی سوچ بچار میں تھے کہ کسی طرح مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے کچل دیا جائے ،وہ غصے اور انتقام کی آگ میں جھلس رہے تھے اورمدینہ پر چڑھ دوڑنے کا بہانہ ڈھونڈ رہے تھے۔انہی دنوں مکہ کا ایک تجارتی قافلہ ابو سفیان کی قیادت میں شام سے مال تجارت لیکر واپس آرہا تھا ۔اس قافلے کی حفاظت کی آڑ میں سرداران قریش نے ایک ہزار جنگجوئوںکا بہت بڑا لشکر تیارکیا جو ہر طرح کے اسلحے سے لیس تھا۔
    نبی کریم حضرت محمد ﷺ کو مدینہ پر حملے کی غرض سے قریشی لشکر کی آمد کی اطلاع ملی تو آپﷺ نے خطرے سے نپٹنے کیلئے تجاویز طلب فرمائیں، مہاجرین نے جانثاری کا یقین دلایا۔ آپﷺ نے دوبارہ مشورہ طلب کیا تو انصار میں سے حضرت سعد بن عبادہؓ نے عرض کیا کہ غالباً آپ ﷺکا روئے سخن ہماری طرف ہے۔ آپ ؐنے فرمایا’’ ہاں‘‘۔ حضرت سعد بن عبادہؓ نے عرض کیا ’’یا رسولؐ اللہ ! ہم آپؐ پر ایمان لائے ہیں۔ ہم نے آپ ؐکی تصدیق کی اور گواہی دی ہے کہ جو کتاب آپﷺ لائے ہیں وہ حق ہے اور ہم نے آپ ﷺ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا عہد کیا ہے۔ آپؐ جس طرف جانے کا حکم دیں گے ہم میں کوئی ایک بھی اس سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ قسم ہے اُس ذات کی جس نے حق کے ساتھ آپﷺ کو معبوث کیا اگر آپؐ ہمیں سمندر میںکود جانے کا حکم دیں گے تو ہم سمندر میںکود جائیں گے۔‘‘حضرت مقداد ؓنے عرض کیا’’ہم موسیٰؑ کی امت کی طرح نہیں ہیں جس نے موسیٰؑ سے کہا کہ تم اور تمہارا رب جاکر دشمن سے لڑو۔ ہم تو یہاں بیٹھ کر دیکھیںگے ، بلکہ ہم آپ ﷺکے دائیں بائیں اور آگے پیچھے آپﷺ کے ساتھ لڑیں گے۔‘‘

    غزوۂ بدر میں مسلمانوں کی فتح کا سب سے بڑا اور اصل سبب نصرت الہٰی تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے حضور نبی اکرمﷺ نے نہایت گریہ وزاری سے دعا فرمائی ’’اے خدا! یہ قریش ہیں اپنے سامان غرور کیساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں۔ اے اللہ! اب تیری وہ مدد آجائے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا۔ اے اللہ ! اگر آج یہ مٹھی بھر نہتے لوگ مارے گئے تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں بچے گا۔‘‘دعا کے دوران آپ ﷺ کی داڑھی مبارک آنسوئو ں سے بھیگی ہوئی اور ہچکی بندھی تھی ۔ آپؐ کے کندھو ں پر پڑی چادر بار بار نیچے گر جاتی ، حضرت ابو بکر صدیقؓ ڈھارس بندھاتے کہ اللہ آپؐ کو تنہا نہیں چھوڑے گا ضرور مدد کرے گا۔

    جواب میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو فتح کی بشارت دی اور ایک ہزار فرشتوں سے امداد فرمائی جس کا ذکر سورۃ الانفال میں ہے۔جنگ سے ایک روز قبل آپ ﷺ نے میدان بدر کا معائنہ فرمایا ،آپ ﷺکے ہاتھ میں چھڑی تھی جس سے آپ ؐ نے میدان میں مختلف جگہ پر دائرے لگائے اور فرمایا، ابوجہل یہاں قتل ہوگا،ولید ، عتبہ اور شیبہ یہاں قتل ہوگا۔جنگ کے بعد صحابہ ؓ نے دیکھا کہ ان مشرک سردار وں کی لاشیں اُسی جگہ پڑی تھیں جہاں آپ ﷺ نے دائرے لگائے تھے ۔

    جنگ بدر میںمسلمانوں کی کل تعداد محض 313نفوس قدسیہ پر مشتمل تھی ،ان میں17 سالہ نوجوان سے لیکر 60 سالہ بوڑھے تک سب شامل تھے ۔ جنگی مال و اسباب اور اسلحے کی شدید قلت تھی محض 2گھوڑے اور 70اونٹ تھے ۔لڑنے والوں کے پاس ڈھنگ کی تلواریں بھی نہیں تھیں مگر اسلام کے ان سپاہیوں کو جنگی اسلحہ اور اپنی قوت بازو سے زیادہ اللہ کی مدد اور نصرت کا یقین تھا۔

    کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ

    مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

    جنگ بدر کا عجیب منظر تھا کہ بھائی بھائی کیخلاف ،باپ بیٹے اور بیٹا باپ کیخلاف،بھانجا ماموں اور چچا بھتیجے کیخلاف نبردآزما تھا حضرت ابوعبیدہ ؓنے اپنے والد جراح کو، حضرت عمر فاروق ؓنے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو،حضرت مصعب ؓنے اپنے بھائی عبید کو اور اسی طرح بہت سے صحابہؓ نے اپنے قریبی رشتے داروں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرکے غیرت اسلامی اور محبت نبویؐ کا بے مثال مظاہرہ کیا۔غزوہ ٔبدر کے بعد ایک بار حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے بیٹے جو جنگ میں کفار کی طرف سے لڑے تھے نے اپنے والد سے کہا کہ جنگ بدر میں آپؓ دو بار میری تلوار کے نیچے آئے مگر میں نے وار نہیں کیا۔حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے کہا، بیٹا اگر تو ایک بار بھی میری تلوار کے نیچے آجاتا بخدا میں اپنا ہاتھ نہ روکتا۔

    غزوۂ بد ر میں ابوجہل ،عتبہ اور شیبہ سمیت کفار کے نامور سردار مارے گئے ۔کفار کے لشکر کے 70لوگ تہ تیغ ہوئے اور 70کو قیدی بنا لیا گیا ۔کفر کے غرور اور تکبر کو اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کیلئے خاک میں ملادیا، اسلامی لشکر کے 14سپاہی شہید ہوئے ۔

    اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ساتھ فتح و نصرت کا جو وعدہ فرمایا تھاوہ پورا ہو گیا۔ ابوجہل اور دیگر قریشی سرداروں نے مکہ سے روانہ ہونے سے پہلے خانہ کعبہ کاغلاف پکڑ کر دعا کی تھی کہ ’’خدایا دونوں گروہوں میں سے جو بہتر ہے اس کو فتح عطا کراور جو ظلم کے راستے پر ہو اسے تباہ کر‘‘ چنانچہ غزوۂ بدر میں اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ فرما دیا کہ کون حق ہے اور کون باطل پر۔!

    اسلامی اخوت کا دلوں پر اس قدر غلبہ تھا کہ انصار اور مہاجر ایک دوسرے کو اپنا بھائی اور اپنے غیر مسلم رشتہ داروں کو اپنا دشمن سمجھتے تھے ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓنے مشورہ دیا کہ تعلیم یافتہ قیدیوں سے دس دس ان پڑھ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کا معاہدہ کیا جائے اور دیگر قیدیوں سے ایک ہزار سے لے کر چار ہزار درہم تک یا حسب استطاعت فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔حضور ﷺ نے تجویز کو پسند فرمایا ، حضور ﷺ چاہتے تھے کہ قیدی صحابہ کرام ؓ کے ساتھ وقت گزاریں گے تو انہیں اسلام کے متعلق جاننے کا موقع ملے گا،اسلام کی حقانیت اور صحابہ ؓ کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر ان قیدیوں میں سے اکثر نے اسلام قبول کرلیا۔

    حق و باطل کے اس پہلے معرکے میں اسلام کی شاندارفتح نے مسلمانوں کو عرب کی عظیم قوت بنا دیا۔ عرب اور عرب سے باہر دور و نزدیک اس جنگ کے چرچے ہونے لگے۔ چھوٹے قبائل جو پہلے اسلام قبول کرنے سے ڈرتے اور کفار مکہ سے خوفزدہ تھے انہوں نے کھل کر مسلمانوں کی حمایت شروع کردی اور لوگ جو ق درجوق اسلام میں داخل ہونے لگے ۔

    آج دنیا بھر میں جگہ جگہ مسلمان مظلوم ہیں مقبوضہ کشمیر ، فلسطین ہر جگہ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا اور ان کاناحق خون بہایا جارہا ہے ۔ اسلام دشمن طاقتیں مظلوم مسلمانوں کی بجائے جارحیت اور ظلم و جبر کرنے والوں کا ساتھ دے رہی ہیں ۔

    یوم بدر کا پیغام یہ ہے کہ میدان جنگ میں کامیابی کا انحصار مادی وسائل سے زیادہ نظریاتی اور اخلاقی حیثیت پر ہے بدر میں یہ ثابت ہوگیا کہ امت جب ایمان اور یقین کے ساتھ آگے بڑھتی ہے تو اللہ کی نصرت اس کے ساتھ ہوتی ہے جنگ بدر رنگ و نسل کے بجائے خالص عقیدے کی بنیاد پر تھی ایک طرف تکبر و غرور اور گھمنڈ تھا اور دوسری طرف عاجزی و انکساری اور اللہ کی نصرت پر کامل یقین تھا ۔ اسلام اور کفر کے درمیان اس جنگ میں مہاجرین اور انصار نے ایک دوسرے سے بڑھ کر قربانیاں دیں۔آج بھی نسل ، زبان اور علاقائی تعصب پر تقسیم ہونے کی بجائے عقیدے اور نظرئیے کی بنیاد پر امت کو متحد اور منظم ہونا ہوگا ۔امت کے اتحاد کی بنیاد آج بھی کلمۂ توحید اور حضور اکرم ﷺ کی محبت ہی ہے ۔

    فضائے بدر پیدا کرفرشتے تیری نصرت کو
    اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

     

اس صفحے کو مشتہر کریں