1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حقوق دو گے تو ملیں گے۔۔۔۔ محمد اعظم رضا تبسم

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏28 فروری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حقوق دو گے تو ملیں گے۔۔۔۔ محمد اعظم رضا تبسم

    کسی بڑے شہر میں ایک مشہور سوداگر رہا کرتا تھا۔ دولت کی فراوانی تھی قدرت مہربان تھی کہ گھر میں زندگی کی ہر سہولت موجود تھی۔ زندگی ہنسی خوشی گزر رہی تھی کہ ایک دن سوداگر کی بیوی مر گئی۔ ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ وہ خود بھی دمے کے مرض کا بری طرح شکار ہو گیا سوچا ایسا نہ ہو کہ میں بھی اچانک سے دنیا سے چلا جائوں اور میرے کاروبار کا میری اولاد کو علم تک نہ ہو چنانچہ اس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو اپنے پاس بلا کر تمام کاروبار کی تفصیل سمجھائی اور کہا کہ آج سے اس سب کو تم سنبھالو گے مجھے ایسا لگتا ہے کہ میری زندگی کا چراغ گل ہونے کو ہے مختصر یہ کہ اس نے اپنی کل جائیداد اپنے جوان بیٹے کے نام کردی۔ پرانے زمانے کے مطابق وہ لاکھوں کی جائیداد آج کی اربوں کا اثاثہ تھی لیکن مفت میں اتنی جائیداد پاکر پہلے پہلے تو نوجوان لڑکا اور اس کے بیوی بچے سب سوداگر کی خوب اچھی طرح خاطر داری کرتے رہے مگر ابھی نصف سال بھی نہ گزرا تھا کہ ان کا یہ جوش ٹھنڈا ہوگیا۔ اب حالات اس کے برعکس ہو گئے، اس قدر کہ علاج معالجہ بھی چھوٹ گیا اور کھانا بھی وہی ملنے لگا جو معمولی انداز کا گھر میں پکتا تھا بلکہ ایک دن تو نوجوان بیٹے نے صاف کہہ دیا کہ بابا! آپ اپنی چارپائی ڈیوڑھی میں بچھالیں تو بہتر ہو گاکہ ہر وقت کھانستے رہنے سے بچوں میں بیماری پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ آپ کی اتنی خدمت کی ہے شاید ہی کسی اولاد نے اپنے ماں باپ کی اتنی خدمت کی ہو۔ اب چونکہ آئے دن آپ کی بیماری میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ایسا نہ ہو کہ آپ کی وجہ سے میرے بیوی بچے بھی بیمار ہو جائیں۔ بوڑھا اب خالی ہاتھ تھا مال و دولت تو سب کا سب بیٹے کو دے چکا تھا۔رعب و وقار والی بات رہی نہ تھی اور بیماری بھی اس قدر شدیدکہ کہیں اور جا نہ سکتا تھا پس اس کے پاس صبروشکر کے سوا کوئی چارا نہ تھا،صبر کا کڑوا گھونٹ بھرا اور خاموشی کا لباس اوڑھ کر اپنے بچے سے کانپتی آواز سے مخاطب ہو ا بیٹا !
    مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں بس ایک عرضی مان لو تو یہ آخری احسان ہو گا مجھے اوڑھنے کے لیے ایک کمبل چاہیے کہ ابھی سردی باقی ہے۔
    نوجوان نے چھوٹے بیٹے سے کہا: دادا کے لیے گائے کو اوڑھانے والا کمبل اُٹھا لاؤ۔ لڑکا جھٹ کمبل اُٹھا لایا، اور دادا سے کہا: لو دادا،اس میں سے آدھا تم پھاڑ لو اور آدھا مجھے دیدو۔ دادا بولا: بھلا آدھے کمبل سے سردی کیا جائے گی؟ باپ نے بھی بیٹے سے کہا کہ دادا کو سارا ہی کمبل دیدو۔
    جس پر چھوٹے لڑکے نے باپ کو مخاطب کر کے جواب دیا: گھر میں ایسا کمبل تو ایک ہی ہے، اگر سارا دادا کو دیدیا تو جب تم بوڑھے اور بیمار ہوکر ڈیوڑھی میں چارپائی بچھاؤ گے تو میں تمہیں کیا دوں گا۔؟
    نوجوان باپ لڑکے کی یہ بھولی بات سن کرسُن ہوگیا اور باپ سے معافی مانگ کر پوری اطاعت اور خدمت کرنے لگا جس سے باپ بھی خوش ہوگیا اور اس کی اپنی عاقبت بھی سنور گئی۔ درست کہا جاتا ہے جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ اپنا بڑھاپے کا سہارا بنانا ہے تو پہلے اپنے والدین کا سہارا بنیں۔ زندگی چار دن کی ہے اسے لالچ حرص ہوس کے جال میں مت الجھائیں۔ حقوق دیجیے تا کہ آپ کو حقوق ملیں۔ حسنِ معاشرہ کی بنیاد 2 ہی چیزوں پر قائم ہے۔ یعنی فرائض اور حقوق۔ آپ کے فرائض کسی کے حقوق ہیں اور آپ کے حقوق کسی کے فر ائض ہیں۔ جب کہیں بھی ہم انسانوں نے اپنے حصے کے فرائض میں کوتاہی کی ہے تب ہی دوسروں کے حقوق تلف ہوئے ہیں۔ اور جس کے حقوق پورے نہ ہوں وہ بھی اپنے فرائض میں کوتاہی کرتا ہے اس طرح حق تلفی کا ایک لمبا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ آپ اپنے حصے کا چراغ جلایئے لوگ کیا کرتے ہیں لوگ کیا کہتے ہیں اس سے ہٹ کر چلیں۔ اس فارمولے کو یاد رکھیں ایک برائی دوسری برائی کا جواز نہیں اگر کسی محلے کے تمام لوگ ہی برے ہیں تو یقین مانیے آپ سے آپ کے بارے میں سوال ہو گا۔
    کسی کے اعمال کا بوجھ کسی پر نہیں ڈالا جائیگا۔ بالکل اسی طرح جیسے کھانا آپ کھائیں تو بھوک بھی آپ کی ہی مٹتی ہے نا کہ دیکھنے سننے والوں کی۔ اب رہی بات ماں باپ کی تو آدھے کمبل سے آسان مثال آپ کو نہیں دے سکتا۔ بچے یعنی فطرتاً ہر آنے والا بچہ آپ کے کہے بتائے سے زیادہ کیے کا فالور ہوتا ہے۔ آپ کیا کرتے ہیں کیسے کرتے ہیں اس کو زیادہ کاپی کیا جاتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے سکول کالج کی لیبارٹری میں ٹیچر پریکٹیکل کر کے دکھاتے ہیں پھر طلبا ء اس کو پرفارم کرتے ہیں۔ والدین ہر معاملے میں اپنے بچوں کی پہلی درس گاہ ہیں جیسا سبق آپ دیں گے ویسا ہی بچے سیکھیں گے جو آپ پرفارم کریں گے وہی وہ پرفارم کریں گے۔ کوشش کریں آپ معاشرے ،گھر، محلے، مسجد اور خاندان کے ایک باوقار شخص کی طرح یعنی ایسی عظیم عزت دار شخصیت کی طرح پرفارم کریں جو انفرادی اور اجتماعی ہر قسم کی برائی اور بری محفل برے عمل سے دور رہتی ہے۔جس کی عدم موجودگی میں لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں۔جس کے لب ہلتے ہیں تو خوشبو جیسی باتیں نکلتی ہیں تو یقین جانیے آپ اپنے بچوں کے اصل ہیرو بنیں گے۔ اس بات کو یاد رکھیے گا آپ کا کردار خاموش تبلیغ ہے جو آپ سے ملنے والے ہر انسان کو دعوت دیتا ہے اچھا کردار اچھی دعوت برا کردار بری دعوت۔ اچھی چیز کو اچھے پسند کرتے ہیں بری کو برے۔ جیسا کردار ہوگا آپ کے گرد ہجوم بھی ویسا ہی ہوگا۔ مٹھاس کے گرد شہد کی مکھیاں گندگی کے گرد دوسری مکھیاں۔ اب یہ آپ پر ہے کس قسم کی زندگی جینا چاہتے ہیں آدھا کمبل یا پورے حقوق ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں