1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

:::::حقوق الزوجین::::: 1::::: خاوند کا رُتبہ و حیثیت :::::

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از عادل سہیل, ‏9 دسمبر 2008۔

  1. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    :::::حقوق الزوجین::::: 1::::: خاوند کا رُتبہ و حیثیت ::::​
    :

    :::::حقوق الزوجین ::: میاں بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق :::::

    ::::: خاوند کا رُتبہ و حیثیت :::::

    [align=justify:2v7h7f52]اِس موضوع پر بات کرتے ہوئے کچھ ڈر سا لگتا ہے :hathora: کیونکہ ہمارے معاشرے میں ، اور مسلم معاشرے میں عام طور پر خواتین کا اثر و رسوخ یا واضح الفاظ میں یہ کہنا چاہیے کہ خواتین کا رعب و دبدبہ مناسب حدود سے بہت باہر ہو چکا ہے :rona: اور اکثر مرد حضرات '''بے چارگی ''' کی حالت میں نظر آتے ہیں :pagal: اور کچھ اسی طرح کا معاملہ دوسری طرف بھی ہے کہ مرد حضرات بھی کم نہیں کرتے اور جہاں بھی موقعہ ملے اپنی مردانگی کاناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ :boxing:
    اِن شاء اللہ تعالیٰ اِس مضمون میں مختصر طور پر یہ بیان کروں گا کہ میاں بیوی کے لیے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کیا حقوق اور کیا فرائض مقرر کیئے گئے ہیں ، سب سے پہلے یہ بات جاننے اور اس پر ایمان لانے والی ہے کہ مرد عورت سے افضل ہیں اور بلند درجہ رکھتے ہیں ،
    [/align:2v7h7f52]
    [align=justify:2v7h7f52]اللہ العلیم الحکیم کا فرما ن ہے ((( الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّہُ بَعضَہُم عَلَی بَعضٍ وَبِمَا اَنفَقُوا مِن اَموَالِہِم::: مرد عورتوں سے برتر ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان میں سے کچھ کو کچھ پرفضیلت دی ہے اور اِس لیے کہ مرد عورتوں پراپنے مال میں سے خرچ کرتے ہیں ،،،،،،))) سورۃ النساء /آیت ٣٤[/align:2v7h7f52] [align=justify:2v7h7f52] [highlight=#FF8040:2v7h7f52]::::: ایک فلسفہ اور اُس کا جواب :::::[/highlight:2v7h7f52] اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ اکیلا خالق ہے اور اُس کے عِلاوہ جو کچھ ہے اُس کی مخلوق ہے ، لہذا جِس کو اُس نے جیسا چاہا ویسا بنایا اور جو دینا چاہا عطاء فرمایا اور جو نہ دینا چاہا اُس سے روک لیا ، مَردوں کو عورتوں پر برتری بھی اِسی طرح اکیلے لا شریک خالق و مالک و داتا ، اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی سے دی ہے ، کِسی کے لیے کوئی گُنجائش نہیں کہ وہ کوئی فلسفہ گھڑ کر اللہ تعالیٰ کے کِسی بھی کام کا اِنکار کرے یا اُس پر اعتراض کرے ، ایسا کرنے والا دائرہِ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ، مثلاً اگر کوئی یا سوچے کہ عورتیں مرد سب برابر ہیں ، ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں ، مرد کی برتری کیسی ؟ ایسا کہنے والے بے چارے یہ تک بھی نہیں جانتے کہ گاڑیوں کے چلنے کا کیا نظام ہوتا ہے ، پہیے دو ہوں یا دس اُن کو گھمانے اور اُن کے ذریعے گاڑی چلانے کے لیے کوئی قوت درکار ہوتی ہے اور وہ قوت مہیا کرنے والی چیز کو انجن کہا جاتا ہے ، اگر انجن کام نہ کرے یا مُناسب قوت مہیا نہ کرے تو برابری کا دعویٰ کرنے والیاں پہیہ صاحبات کب تک اور کیسے گھومتی ہیں ؟ اوراُنکی شخصیت اور اُن کے خاندان کی گاڑی کہاں پہنچتی ہے ؟ اور جِس معاشرے میں یہ پہیے کِسی تحکم (Control ) کے بغیرگھومتے ہیں اُس معاشرے کی گاڑی کہاں پہنچتی ہے ؟ یہ باتیں درست عقل رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے ، دیکھتا اور سُنتا ہے ، لہذا یہ فلسفہ عملی طور پر خود کو جھوٹاثابت کرتا ہے ، اور یہ بات روزِ روشن کی طرح صاف اور واضح نظر آتی ہے کہ مَرد و عورت کِسی بھی معاشرے میں ہوں کِسی بھی دِین اور دِین کے کِسی بھی مذھب و مسلک سے وابستہ ہوں ،کِسی بھی صورت ایک گاڑی کے دو پہیے قرار نہیں پا سکتے ہیں[/align:2v7h7f52] [align=justify:2v7h7f52][highlight=#FF8040:2v7h7f52]::::: فلسفہ در فلسفہ اور اُس کا جواب ::::[/highlight:2v7h7f52] مرد و عورت کی برابری کے دعویٰ دار ، اور عورت کی آزادی اور کارِ حیات میں برابر کی شرکت کے طلبگار وں میں سے کچھ لوگ بغیر انجن کے پہیے گھمانے والے فلسفے کو ذرا اِسلامی رنگ دیتے ہوئے ایک اور فلسفہ شامل کرتے ہیں کہ ، مرد کے برتر ہونے کی وجہ یہ کہ وہ عورت پر خرچ کرتا ہے ، اور یہ اِس لیے ہوتا ہے کہ عورت کو خود کمانے کا موقع نہیں دِیا جاتا ، اگر عورت خود کمائے تو پھر مرد کو اُس پر خرچ کرنے کی ضرورت رہتی ہے نہ عورت کو مرد سے خرچہ لینے کی ، لہذ ثابت ہوا کہ عورتیں مَردوں کے برابر ہیں مگر اُنہیں اُن کی صلاحیات استعمال کرنے کا موقع نہیں دِیا جاتا ،
    اِس مضمون کا موضوع عورت کی آزادی یا برابری نہیں ، اِس موضوع پر بات پھر کبھی اِن شاء اللہ تعالیٰ ، فی الحال اتنا ہی کہنا کافی ہو گا اِن شاء اللہ کہ معاشرتی اور دینی معاملات میں عورت و مرد کی برابری کی سوچ یا اِس کی بنیاد پر گھڑا گیا کوئی بھی فلسفہ اللہ تعالیٰ کے ایک کام کا اِنکار اور اُس پر اعتراض ہے ، جو یقینا ایسا کُفرہے جو اسلام سے خارج کردیتا ہے ،اِسلام سے خارج کرنے والے کاموں کا تعارف عقیدے کے تعارفانہ رواں خاکہ جات (Flow Charts ) میں مُیسر ہے ،
    اللہ تعالیٰ سب مُسلمانوں کو اپنا اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع فرمان بننے کی توفیق عطا فرمائے اور اِسی تابع فرمانی پر ہمارے خاتمے فرمائے اور اِسی پر ہمارا حشر فرمائے
    اللہ تعالیٰ کے اِس مذکورہ بالا ( اُوپر ذِکر کیے گئے) فرمان سے ہمیں پتہ چلا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مکمل ترین بے عیب حکمت سے مَردوں کو عورتوں پر برتری عطاء فرمائی ہے ، یہ برتری بحیثیتِ جنس عام ہے یعنی مَرد بہر صورت عورت پر برتر ہے ، رہا معاملہ مختلف رشتوں کے حقوق کا تو وہ اللہ تعالیٰ نے او ر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف رکھے ہیں جو کہ مَرد کی عورت پر برتری کو ختم نہیں کرتے اور نہ ہی عورت کی عِزت و احترام میں کمی کرتے ہیں ، میاں بیوی کے رشتے میں منسلک ہونے کے بعد مَرد کی حیثیت اور حق کتنا بڑھ جاتا ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زُبانی سنیئے :::
    [highlight=#FFFF40:2v7h7f52]::::: (١)[/highlight:2v7h7f52] عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں جب معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہُ شام سے واپس آئے تو اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دریافت فرمایا ( مَا ہَذایا مُعَاذ ؟ ::: یہ کیا معاذ ؟ ))) معاذ رضی اللہ عنہ ُ نے عرض کیا ::: میں شام گیا تھا وہاں میں نے دیکھا کہ عیسائی اور یہودی اپنے اپنے مذہبی رہنماوں اور عالِموں کو سجدہ کرتے ہیں ، لہذا میرے دِل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ہم آپ کو سجدہ کریں ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا (((فَلا تَفعَلُوا فَاِنِی لَو کُنت ُ آمِراً احداً ان یَسجُدَ لِغَیرِ اللَّہِ لامَرت ُ المَراَئۃَ ان تَسجُدَ لِزَوجِہَا وَالَّذِی نَفسُ مُحَمدٍ بِیدِہِ لا تُؤَدِّی المَراۃُ حَق َّ رَبِّہَا حَتٰی تُؤَدِّی حَق َّ زَوجِہَا وَلَو سَاَئلَہَا نَفسَہَا وَہِیَ عَلَی قَتبٍ لَم تَمنَعہ ُ ::: تُم سب ایسا مت کرو (یعنی مجھے سجدہ مت کرو)، اگر میں کِسی یہ حُکم دینے والا ہوتا کہ وہ اللہ کے عِلاوہ کِسی اور کو سجدہ کرے ( یعنی اگر یہ کام حلال ہوتا ) تو عورت کو حُکم دیتا کہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے ، اُس کی قسم جِس کے ہاتھ میں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے ، عورت اپنے رب کا حق اُس وقت تک ادا نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ اپنے خاوند کا حق ادا نہ کرے ، اور (خاوند کا حق اتنا زیادہ ہے کہ ) اگر بیوی اُونٹ کے کاٹھی پر بیٹھی ہو اور خاوند اپنی بیوی کو ( اپنی جنسی طلب پوری کرنے کے لیے ) بلائے تو بھی وہ خاوند کو منع نہیں کرے گی ))) صحیح ابن حبان / حدیث ٧١٤١ او ١٣٩٠ ، سنن ابن ماجہ /حدیث١٨٥٣/کتاب النکاح/باب٤، المستدرک الحاکم / حدیث ٧٣٢٥ ،کتاب البر و الصلۃ، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ / حدیث ٣٣٦٦ ، ٣٤٩٠ ، ١٢٠٣۔
    [highlight=#FFFF40:2v7h7f52]::::: (٢)[/highlight:2v7h7f52] انس بن مالک رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (((لا یَصلَحُ لِبَشرٍ ان یَسجُدَ لِبشرٍ ولَو صَلَحَ ان یَسجُدَ بَشَرٌ لِبشرٍ لامرتُ المراۃَ ان تَسجُدَ لَزوجِہا مِن عَظَمِ حَقِہِ عَلِیہَا ، والذِی نَفسِی بِیَدہِ لَو ان مِن قَدمِیِ اِلیٰ مَفرَقِ راسِہِ قَرحَۃً تَنبَجس بالقیحِ و الصدیدِ ثُمَ اقبَلَت تَلحَسہُ ما ادَت حَقَہ ُ::: کِسی اِنسان کے لیے حلال نہیں کہ وہ کِسی اِنسان کو سجدہ کرے ، اگر ایسا کرنا حلال ہوتا تو عورت پر خاوند کے حق کی عظمت ( بڑائی ) کی وجہ سے میں ضرور عورت کو حُکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے ))) اِمام النسائی کی کتاب، عِشرۃ النساء /حدیث ٢٦٨ /باب حق الرجُلِ علیٰ المراۃِ ، مُسند احمد (عالم الکتب کی پہلی طباعت میں)/ حدیث ١٢٦٤١،
    مضمون """ حقوق الزوجین """ جاری ہے ، اگلا حصہ ان شا اللہ بعنوان ’’’ خاوند کے بیوی پر حقوق ‘‘‘ ملاحظہ فرمائیے گا ۔[/align:2v7h7f52]
     
    نصیرعالم نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    السلام علیکم جناب عادل سہیل صاحب ۔
    آپ وقتا فوقتاً ہماری اردو اور دیگر فورمز پر بہت فکر انگیز اور سبق آموز تحاریر ارسال کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالی آپکی اس محنت شاقہ قبول فرمائے۔
    لیکن معافی کے ساتھ عرض کرنا چاہوں گا کہ بعض مقامات پر اعتدال کی بجائے شدت اور انتہا پسندی کے رجحانات و عناصر نظر آتے ہیں۔ جس میں آپ اپنی سوچ و توجیح کے مطابق براہ راست "خارج از اسلام " کا فتوی صادر فرماتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ایسے فتاویٰ سے اجتناب فرمایا جانا چاہیے۔ اللہ تعالی نے اگر علم عطا فرما دیا ہے تو اسکا مثبت استعمال ہونا چاہیے۔

    آپ اہل علم بھی ہیں اور سعودی عرب میں طویل عرصہ قیام کی وجہ سے اب اہل لغت بھی کہلا سکتے ہیں۔ آپ کو بخوبی معلوم ہوگا کہ عربی زبان کس قدر " وسیع المعانی" زبان ہے۔ ایک ایک لفظ کے درجنوں بلکہ سینکڑوں معانی بھی بیان ہوتے ہیں۔ اسی لیے قرآن مجید اور دین اسلام کو تا ابدالآباد ہدایت ربانی کا درجہ حاصل ہے کہ اسکی کثرت معانی و مطالب و مفاہیم کی خصوصیت ہر دور کے تقاضوں کے مطابق امت مسلمہ کی بالخصوص اور پورے عالم انسانیت کی بالعموم رہنمائی مہیا کرتی رہے گی ۔ انشاءاللہ ۔

    مذکورہ بالا آیت میں آپ نے جو " قوام" کا ترجمہ برتر کیا ہے ۔ بلاشبہ درست ہے ۔ لیکن اسکے دیگر مطالب و مفاہیم میں " منتظم ، محافظ ، نگران" کے معنی بھی آتے ہیں جو کہ ایک ادارہ، انسٹیٹیوٹ کے انتظامی معاملات کی طرف اشارہ کرتے نظر آتے ہیں اور بہت سے مترجمین و مفسرین نے یہ معنی لیے بھی ہیں۔
    پھر آگے لفظ " وبما" ہے جو کہ کسی خاص وجہ پر دلالت کرتا ہے اور وجہ آگے بیان کی گئی ہے کہ "مرد عورتوں کے نان نفقے، انکی ضروریاتِ حیات، پر اپنے مال میں سے خرچ کرتے ہیں۔ یعنی بطور منتظم، نگران ، محافظ یا بقول آپکے "برتر" کا عہدہ قائم رکھنے کے لیے کیا ضروری نہیں کہ اپنی ذمہ داری پوری کی جائے ؟ ایک منتظم اسی وقت تک منتظم ہوتا ہے جب تک وہ اپنے ذمے کے انتظامی معاملات خوش اسلوبی سے ادا کرتا رہتا ہے۔ ایک محافظ یا نگران اسی وقت تک محافظ و نگران کہلانے کا حقدار ہے جب تک وہ حفاظت و نگرانی کی ذمہ داریاں ادا کرتا رہتا ہے۔ اپنی منصبی ذمہ داری سے غفلت پر تو وہ سزا کا حقدار ہوجاتا ہے۔

    اس لیے میرے خیال میں آپکا موقف ، مزاجِ عدلِ الہی اور دیگر قرآنی آیات کہ جہاں مرد و عورت کو نفسِ واحدہ سے پیدا کرکے برابری و مطابقت و مساوات کا احکامات ہیں سے جوڑ کھاتا نظر نہیں آتا کہ مرد خواہ عورت کے حقوق پورے کرے یا نہ کرے، اسکی ضروریات اپنی کمائی سے پوری کرے یا نہ کرے اور اپنی گھریلو ذمہ داریاں پوری کرے یا غفلت برتے اسکے باوجود اسے مطلقاً برتر (Absolute Mastership, or Superemacy) حاصل رہے گی۔

    عظیم مفسر مولانا ابولاعلی مودودی کی تفسیر " تفہیم القرآن " حاضرِ خدمت ہے۔ جہاں انہوں نے مطلقا برتری ثابت کرنے کی بجائے قوام کا معنی " محافظ ، نگران و منتظم لیے ہیں
    [​IMG]

    اسی طرح ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے ترجمہ " عرفان القرآن " میں بھی قوامون کے معنی محافظ و منتظم لیے ہیں۔

    34. الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّهُ وَاللاَّتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلاَ تَبْغُواْ عَلَيْهِنَّ سَبِيلاً إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًاO
    34. مرد عورتوں پر محافظ و منتظِم ہیں اس لئے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے (بھی) کہ مرد (ان پر) اپنے مال خرچ کرتے ہیں، پس نیک بیویاں اطاعت شعار ہوتی ہیں شوہروں کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت کے ساتھ (اپنی عزت کی) حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں، اور تمہیں جن عورتوں کی نافرمانی و سرکشی کا اندیشہ ہو تو انہیں نصیحت کرو اور (اگر نہ سمجھیں تو) انہیں خواب گاہوں میں (خود سے) علیحدہ کر دو اور (اگر پھر بھی اصلاح پذیر نہ ہوں تو) انہیں (تادیباً ہلکا سا) مارو، پھر اگر وہ تمہاری فرمانبردار ہو جائیں تو ان پر (ظلم کا) کوئی راستہ تلاش نہ کرو، بیشک اللہ سب سے بلند سب سے بڑا ہےo

    کنز الایمان میں بھی اس آیت کا ترجمہ
    " مرد افسر ہیں عورتوں پر " کیا گیا ہے۔ اور افسر بھی کسی ادارہ میں انتظامی عہدہ کی دلالت کرتا ہے۔

    اسی طرح دیگر کئی تراجم میں قوامون کے معنی مطلقاً برتری کی بجائے، محافظ و منتظم و نگران کیے گئے ہیں۔

    المختصر یہ کہ ہمیں اپنا نکتہء نظر ضرور بیان کرنا چاہیے۔ لیکن خواہ مخواہ اور کو " خارج از اسلام" جیسے الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے۔

    ایک بات واضح کردوں کہ میں نہ تو بحث مباحثہ میں پڑنا چاہتا ہوں۔ نہ آپکی علمیت کو معاذاللہ کوئی چیلینج کررہا ہوں بلکہ صرف راہ اعتدال پر رہتے ہوئے دیگر علما و مفسرین کے موقف کو بھی سامنے لانا چاہتا ہوں تاکہ ہم دو انتہاؤں کی جانب چلنے کی بجائے اسلام کے مزاج کے مطابق راہ اعتدال پر رہ سکیں۔

    والسلام علیکم
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ۔
    عادل سہیل بھائی اور محترم برادر بھائی !
    ہماری راہنمائی کرنے کا شکریہ ۔
    جزاکمااللہ خیرا
     
  4. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
    جزاک اللہ خیرا ، برادر بھائی ،
    اللہ آپ کے نیک مشوروں پر آپ کو بہترین اجر عطا فرمائے ، اور اللہ مجھے آپ کے حسن ظن سے زیادہ بہتر بنائے ، آپ کی کسی بات کا کوئی جواب ارسال کرنے سے پہلے میں یہ گذراش کروں گا کہ ، اس سے پہلے یہاں بھإی خاور بلال نے ایک مراسلہ ارسال کیا تھا جسکا میں نے جواب بھی ارسال کیا تھا اور اب وہ دنوں مراسلات غائب ہیں !!! کیا میں اس کا سبب جان سکتا ہوں ؟؟؟
    بھائی اگر یوں ہی کیا جانا ہے تو پھر یہ یک طرفہ کاروائی ہوئی ، اب اگر میں آپ کے ارشادات کے جواب میں کچھ عرض کروں اور وہ بھی غائب کر دیا جائے ، تو بھائی ہماری گفتگو کا کیا فائدہ ہو گا ؟
    بھائی میں طالب علم ہوں ، اور اس قسم کی برادرانی گفتگو کے ذریعے اللہ تعالیٰ مجھے بہت کچھ سکھاتا ہے ،
    بس اتنا عرض کرتا ہوں جو بھائی خاور بلال کے لیے جواب میں بھی عرض کیا تھا کہ ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے کلام پاک کا مفہوم ، مطلوب و مقصود ، لغت کے قواعد و معانی کے مطابق نہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین ، اور عمل مبارک ، اور پھر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے اقوال و افعال کے مطابق سمجھا جاتا ہے ،
    مزید ان شا اللہ ، اس تاکید کے بعد کہ میری معروضات کو حذف نہیں‌ کیا جائے گا ،
    بھائی میں طالب علم ہوں ، اور اس قسم کی برادرانہ گفتگو کے ذریعے اللہ تعالیٰ مجھے بہت کچھ سکھاتا ہے ، میں ایسی گفتگو بحث مباحثہ سمجھ کر نہیں کرتا ، حصول علم کے لیے کرید سمجھ کر کرتا ہوں ، اور حق جاننے کے لیے تاکید سمجھ کر کرتا ہوں ،
    میں فی الحال کچھ اور کاموں میں مصروف تھا اور ارادہ تھا کہ اس مضمون کے اگلے‌حصے دو چار دن بعد ارسال کروں گا ، لیکن شاید اللہ کو یہ منظور نہیں ،
    برادر بھائی ، اس مضمون کے باقی مضامین بھی پڑھ لیجیے ، ان شا اللہ بہت کچھ واضح ہو جائے گا ، و السلام علیکم۔
     
  5. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
    نعیم بھائی ، اللہ آپ کو بھی بہترین اجر عطا فرمائے ،
    ہم سب ہی ایک دوسرے سے کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں ،
    و السلام علیکم۔
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم بھائی عادل سہیل صاحب !
    یہ بھائی خاور بلال صاحب کون ہیں اور انکے کونسے سوال کے جواب میں آپ نے کیا ارسال کیا تھا ؟؟ :nose:
    کہیں کسی اور فورم کے شبہے میں تو یہاں کچھ نہیں لکھ دیا ؟
     
  7. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    جزاک اللہ کل خیر ، نعیم بھائی ، آپ نے بالکل ٹھیک پکڑا ، وہ کسی اور فورمز کی بات ہے ، اور یقینا میں یہ غلط لکھ گیا ہوں ، اللہ آپ کا بھلا فرمائے ، جزاک اللہ خیرا ،
    میری اس غلطی کی زد میں جو کوئی بھی آتا ہو میں اُس سے معذرت خواہ ہوں ،
    و السلام علیکم
     

اس صفحے کو مشتہر کریں