1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقۂ نماز

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از واحد نعیم, ‏25 جولائی 2008۔

  1. واحد نعیم
    آف لائن

    واحد نعیم ممبر

    شمولیت:
    ‏2 جولائی 2008
    پیغامات:
    58
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّهُ قَالَ : خَرَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَنْ فَرَسٍ فَجُحِشَ، فَصَلَّي لَنَا قَاعِدًا، فَصَلَّيْنَا مَعَهُ قُعُوْدًا، ثُمَّ انْصَرَفَ فَقَالَ : إِنَّمَا الإِمَامُ (أَوْ إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ) لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا کَبَّرَ فَکَبِّرُوْا، وَإِذَا رَکَعَ فَارْکَعُوْا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوْا، وَإِذَا قَالَ : (سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ)، فَقُوْلُوْا : (رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ)، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوْا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

    الحديث رقم 2 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : صفة الصلاة، باب : إيجاب التکبير وافتتاح الصلاة، 1 : 257، الرقم : 700، وفي کتاب : الجمعة، باب : صلاة القاعد، 1 / 375، الرقم : 1063، ومسلم في الصحيح، کتاب : الصلاة، باب : ائتمام المأموم بالإمام، 1 / 308، الرقم : 411، والترمذي في السنن، کتاب : الصلاة عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء إذا صلي الإمام قاعدا فصلوا قعودا، 2 / 194، الرقم : 361، وقال أبوعيسي : هذا حديث حسن صحيح، وأبوداود في السنن، کتاب : الصلاة، باب : الإمام يصلي من قعود، 1 / 164، الرقم : 601، والنسائي في السنن، کتاب : التطبيق، باب : ما يقول المأموم، 2 / 195، الرقم : 1061، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامة الصلاة والسنة فيها، باب : ماجاء في إنما جعل الإمام ليؤتم به، 1 / 393، الرقم : 1238، والشافعي في المسند، 1 / 58، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 110، الرقم : 12095، وابن حبان في الصحيح، 5 / 477، الرقم : 2113.

    ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھوڑے سے نیچے تشریف لے آئے تو خراش آ گئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں بیٹھ کر نماز پڑھائی اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیٹھ کر نماز پڑھی، پھر فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : امام اسی لئے بنایا جاتا ہے کہ اُس کی پیروی کی جائے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، جب رکوع کرے تو رکوع کرو، جب سر اٹھائے تو سر اٹھاؤ اور جب وہ (سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ) کہے تو تم (رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ) کہو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو۔‘‘

    عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضي الله عنه قَالَ : کَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُوْنَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ الْيَدَ الْيُمْنَي عَلَي ذِرَاعِهِ الْيُسْرَي فِي الصَّلَاةِ. وَقَالَ أَبُوْحَازِمٍ : لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا يَنْمِي ذَلِکَ إِلَي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم.

    رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمَالِکٌ.

    الحديث رقم 4 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : صفة الصلاة، باب : وضع اليمني علي اليسري في الصلوة، 1 / 259، الرقم : 707 ومالک في الموطأ، 1 / 159، الرقم : 376، وأبو عوانة في المسند، 1 / 429، الرقم : 1597، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 140، الرقم : 5772.

    ’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا : لوگوں سے کہا جاتا تھا کہ نمازی حالت نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو اپنی بائیں کلائی پر رکھے۔ ابوحازم نے فرمایا کہ مجھے تو یہی معلوم ہے کہ حضرت سہل اس بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کرتے تھے۔‘‘
     
  2. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    :salam:
    سبحان اللہ ۔ بہت معلوماتی شئیرنگ ہے
     
  3. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جزک اللہ ِ خیرآ وَ کثیرآ

    لیکن برادر، ان احادیث میں صرف دوسری حدیث آپ کی پوسٹ کے عنوان کے عین مطابق ہے
    پہلی حدیث میں‌ طریقہ ء نماز نہیں‌بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نماز پڑھنا اور امام کی اہمیت کا بیان ہے۔

    جبکہ آپکی پوسٹ کے عنوان سے لگتا تھا شائید حضور ِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کیسے ادا فرماتے تھے، مثلآ نماز شروع کرنے کا طریقہ، قیام و رکوع وسجود اور ان میں‌پڑھی جانے والی دعائیں‌وغیرہ۔

    اگر ہو سکے تو اسی طرح مستند روایات سے وہ طریقے بھی فراہم کریں

    اللہ آپ کے علم میں‌ اور اضافہ فرمائے، اور زندگی میں‌لبالب برکتیں‌اور رحتمیں‌بھر دے۔ آمین، ثم آمین
     
  4. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    السلام و علیکم
    شُکر ہے ماحول ذرا مزیدار ہو گیا :dilphool:
    لیکن لوگو، یہ مت بھول جانا:
    جزاکَ اللہِ خیراً و کثیراً
     
  5. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    آپ چڑانا چھوڑ دیں میں قربان ہو جائوں گا ۔ ۔ ۔ ویسے ایسی قربانی آپ کے ہاں کیا کہلاتی ہے؟
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    چڑچڑاتی قربانی :hasna:
     
  7. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    چڑانا نہیں چھوڑ سکتے ثابت ہو گیا
    کہتے ہیں سر جائے تو جائے عادت نہ جائے؟
     
  8. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0


    السلام و علیکم وسیم اور نعیم صاحب
    آپ دونوں‌سے میں اوپر اقتباس میں کیئے گئے سوال کے جواب کا منتظر ہوں کہ
    برائے مہربانی ذرا حوالہ جات مہیا کر دیں
     
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    Re: نماز میں ٹانگیں پھیلانا ، بے ادبی ہے

    بات دل کو لگتی ہے۔
    بارگاہِ الہی میں عجز و انکساری کی بجائے اکڑ کر اور چوڑا ہوکر کھڑے ہونا کسی طور بھی خشوع و خضوع کی علامت نہیں :no:
     
  10. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    Re: نماز میں ٹانگیں پھیلانا ، بے ادبی ہے

    بات دل کو لگتی ہے۔
    بارگاہِ الہی میں عجز و انکساری کی بجائے اکڑ کر اور چوڑا ہوکر کھڑے ہونا کسی طور بھی خشوع و خضوع کی علامت نہیں :no:[/quote:2t3fwauw]
    نعیم صاحب
    آپ سے پوچھا کچھ ہے، اور آپ ادھر اُدھر کی ہانکنے لگ گئے؟
    اوپر میری پوسٹ میں‌ایک سوال ہے، اسکا جواب دیجئے گا۔
     
  11. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    نعیم بھائی اگر جواب نہیں ہے تو اس کا اقرار کرنے میں کیا حرج ہے اور اگر تلاش کر رہے ہیں تو انتظار کرنے کا کہہ سکتے ہیں۔
     
  12. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    Re: نماز میں ٹانگیں پھیلانا ، بے ادبی ہے

    بات دل کو لگتی ہے۔
    بارگاہِ الہی میں عجز و انکساری کی بجائے اکڑ کر اور چوڑا ہوکر کھڑے ہونا کسی طور بھی خشوع و خضوع کی علامت نہیں :no:[/quote:1nk1tkmn]
    اللہ تعالی ہمیں اپنی بارگاہ میں عاجزی و انکساری کے ساتھ عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
     
  13. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    Re: نماز میں ٹانگیں پھیلانا ، بے ادبی ہے

    فرخ صاحب۔ ہانکتے ہوں گے آپ کے محبوب راہنما جو حضرت علی :rda: کی شان میں درجنوں فضیلت کی روایات چھوڑ کر غریب اور ناقابلِ اعتبار روایت ڈھونڈ ڈھونڈ کر خلیفہء راشد اور بابِ شہرِ علم نبوت حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شان میں ہرزہ سرائی اور گستاخیاں کرتے پھرتے ہیں۔
    شانِ صحابہ و اہلبیت رض۔ میں ایسی زبان درازی اور ہرزہ سرائی کو " ہانکنا" کہتے ہیں اور وہی ہانکتے ہیں جن کی شخصیت کی پرستش میں آپ احباب اندھے ہوکر صحابہ کرام رض اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی فضیلت کا دفاع کرنے کی بجائے اپنے ممدوح مولانا کا دفاع کرنے اور انکی شان میں قصیدہ گوئی شروع کردیتے ہیں۔ عقائدِ وہابیہ کے دفاع پر اپنی عمریں صرف کردیتے ہیں۔ اور زندگی میں اپنے نبی اکرم :saw: کی شان میں ایک قصیدہ لکھنا یا پڑھنا بھلے نصیب ہو یا نہ ہو۔
     
  14. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    Re: نماز میں ٹانگیں پھیلانا ، بے ادبی ہے

    فرخ صاحب۔ ہانکتے ہوں گے آپ کے محبوب راہنما جو حضرت علی :rda: کی شان میں درجنوں فضیلت کی روایات چھوڑ کر غریب اور ناقابلِ اعتبار روایت ڈھونڈ ڈھونڈ کر خلیفہء راشد اور بابِ شہرِ علم نبوت حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شان میں ہرزہ سرائی اور گستاخیاں کرتے پھرتے ہیں۔
    شانِ صحابہ و اہلبیت رض۔ میں ایسی زبان درازی اور ہرزہ سرائی کو " ہانکنا" کہتے ہیں اور وہی ہانکتے ہیں جن کی شخصیت کی پرستش میں آپ احباب اندھے ہوکر صحابہ کرام رض اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی فضیلت کا دفاع کرنے کی بجائے اپنے ممدوح مولانا کا دفاع کرنے اور انکی شان میں قصیدہ گوئی شروع کردیتے ہیں۔ عقائدِ وہابیہ کے دفاع پر اپنی عمریں صرف کردیتے ہیں۔ اور زندگی میں اپنے نبی اکرم :saw: کی شان میں ایک قصیدہ لکھنا یا پڑھنا بھلے نصیب ہو یا نہ ہو۔[/quote:qysfnsjq]


    :201: :201: :201: :201: :201:

    میں آپ سے اسطرح کی بدزنی اور بد گمانی کی اُمید نہیں کررہا تھا کہ دین کا علم دینے کی بجائے آپ طوطے کی طرح ایک ہی رٹا لگا لگا چیخیں مارنا شروع کر دیں گے۔

    اب تو مجھے بھی یقین ہو گیا ہے، کہ آپ کو صحیح دین کا علم نہیں ہے اور ایک بدعت پسند مولوی جو بدعتوں کی روحانی بیماری کا شکار لگتا ہے۔ جو کہ ڈھول طبلے پر ناچنے والوں‌کو واہ واہ کرنے اور ویلیں دینے اور سالگراہوں‌پر موسیقی کی محفلیں منتعقد کرنے کا شوقین ہے کی تقلید میں اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ اسکی بے بنیاد باتوں پر بجائے تحقیق کے اکڑ اور انا پرستی کے گہرے کھڈے میں گرتے جا رہے ہیں۔

    وسیم کی پوسٹ کی گئی اس وڈیو میں ذرا طاہر القادری کے بے وقوفانہ نظریہ کو تو ملاحظہ کیجئےجسکو کو اللہ کے سامنے حاضر ہونے اور dsp، dc اور کسی گورنمنٹ کے آفیسر کے سامنے حاضر ہونے میں کوئی فرق نہیں دکھائی دیتا؟

    جسکو پائیچے اونچے کرنے والوں کی موٹی موٹی پنڈلیاں تو بڑی پسند آئیں، مگر اسے شائید کپڑوں کو ٹخنوں سے اوپر کرنے کی حدیث تک کا علم نہیں؟
    استغراللہ العظیم

    اور جسکی تقلید میں‌آپ اسقدر اندھے ہوئے جا رہے ہیں کہ نماز کے طریقوں پر صحیح علم فراہم کرنے کی بجائے ایک مرتبہ پھر ادھر اُدھر کی ہانک رہے ہیں؟

    یہ بدعتیوں کا طرہ امتیاز رہا ہے، کہ جب ان کے بے وقوفانہ روش پر ان سے دین میں سے کوئی حوالہ مانگو، تو فوراً دوسروں پر وہابیت کا الزام تھوپ دیتے ہیں۔

    یہاں‌بات ہو رہی ہے، نماز کے طریقوں کی، اور آپ کے ذھن پر کچھ اور بھوت سوار ہے۔ اگر آپ کو صحیح بات کا علم نہیں ہے تو جا کر ذرا اپنے ناچنے گانے اور موسیقی کے دلدادہ مولوی طاہر القادری سے کیوں نہیں پوچھ لیتے۔ جبکہ اسکی وڈیو وغیرہ تو بڑے شوق سے دکھاتے پھرتے ہیں
    ۔
     
  15. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
  16. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
  17. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    السلام و علیکم مبازر بھائی
    جزاک اللہِ خیراً و کثیراً

    میں‌خود بھی ان احادیث کی تلاش میں‌تھا، کیونکہ مجھے رفع یدین کرتے ہوئے نماز پڑھنے کے احادیث مل چُکی تھیں۔اللہ تعالٰی نے آپکے ذریعے یہ علم بھی پہنچا دیا۔ :dilphool: :dilphool: :dilphool:

    اللہ تعالٰی آپ کو ہر جہان میں آباد رکھے اوربہترین رحمتوں‌اورمغفرتوں‌میں رکھے۔ آمین۔ ثم آمین
     
  18. عاطف چوہدری
    آف لائن

    عاطف چوہدری ممبر

    شمولیت:
    ‏17 جولائی 2008
    پیغامات:
    305
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    قرآن کہتا ہے کہ
    آپ اپنا رُک مشرق کی طرف یا مغرب کی طرف کر لو یہ نیکی نہیں
    بلکہ بھوکے کو کھانا قرض دار کی مدد ہمسایوں سے مکبت سے پیش انا ہے
    رہی بات نماز کیسے پڑھی جایے ہاتھ چھوڑ کر یا ہاتھ باندھ کر ۔۔۔۔۔۔۔تو یہ آپ کی مرضی ہے
    آپ جیسے دل کرتا ہے نماز پڑھو شرط نیت ہے
    نیت پاک نماز پاک
    لہذا فضؤل بھث کی بجایے معلوماتی بھث کرو
    جس سے کچھ سبق بھی ملے
    دے تیرے کی دے میرے کی ھااھھاھھاھاھاہر جگہ ہے
     
  19. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    چوہدری صاحب
    نماز کے طریقوں‌پر جو احادیث یہاں‌بیان ہوئیں ہیں وہ فضول بحث نہیں‌ہے، بہت معلوماتی بحث ہے۔
    یہ اللہ تعالٰی کا ہی ارشاد ہے، کہ جس نے میرے محبوب بندے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کی، اس نے میری پیروی کی اور جس نے اس کی مخالفت کی اسے نے میری مخالفت کی۔
    تو کچھ خدا کا خوف کریں، بھوکے کو کھانا کھلانا، قرض دار کی مدد، اور ہمسایوں‌سے محبت سے پیش آنا بے شک نیکیوں‌کے کام ہیں، لیکن دین میں‌سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر چلے بغیر تو آپ صحیح مسلمان نہیں‌بن سکتے۔

    اس بحث سے آپ چاہیں تو نماز کا طریقہ سیکھ سکتے ہیں۔ اللہ توفیق دے۔ آمین۔
     
  20. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    Re: نماز میں ٹانگیں پھیلانا ، بے ادبی ہے

    فرخ صاحب۔ ہانکتے ہوں گے آپ کے محبوب راہنما جو حضرت علی :rda: کی شان میں درجنوں فضیلت کی روایات چھوڑ کر غریب اور ناقابلِ اعتبار روایت ڈھونڈ ڈھونڈ کر خلیفہء راشد اور بابِ شہرِ علم نبوت حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شان میں ہرزہ سرائی اور گستاخیاں کرتے پھرتے ہیں۔
    شانِ صحابہ و اہلبیت رض۔ میں ایسی زبان درازی اور ہرزہ سرائی کو " ہانکنا" کہتے ہیں اور وہی ہانکتے ہیں جن کی شخصیت کی پرستش میں آپ احباب اندھے ہوکر صحابہ کرام رض اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی فضیلت کا دفاع کرنے کی بجائے اپنے ممدوح مولانا کا دفاع کرنے اور انکی شان میں قصیدہ گوئی شروع کردیتے ہیں۔ عقائدِ وہابیہ کے دفاع پر اپنی عمریں صرف کردیتے ہیں۔ اور زندگی میں اپنے نبی اکرم :saw: کی شان میں ایک قصیدہ لکھنا یا پڑھنا بھلے نصیب ہو یا نہ ہو۔[/quote:1b64e62t]


    :201: :201: :201: :201: :201:

    میں آپ سے اسطرح کی بدزنی اور بد گمانی کی اُمید نہیں کررہا تھا کہ دین کا علم دینے کی بجائے آپ طوطے کی طرح ایک ہی رٹا لگا لگا چیخیں مارنا شروع کر دیں گے۔

    اب تو مجھے بھی یقین ہو گیا ہے، کہ آپ کو صحیح دین کا علم نہیں ہے اور ایک بدعت پسند مولوی جو بدعتوں کی روحانی بیماری کا شکار لگتا ہے۔ جو کہ ڈھول طبلے پر ناچنے والوں‌کو واہ واہ کرنے اور ویلیں دینے اور سالگراہوں‌پر موسیقی کی محفلیں منتعقد کرنے کا شوقین ہے کی تقلید میں اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ اسکی بے بنیاد باتوں پر بجائے تحقیق کے اکڑ اور انا پرستی کے گہرے کھڈے میں گرتے جا رہے ہیں۔

    وسیم کی پوسٹ کی گئی اس وڈیو میں ذرا طاہر القادری کے بے وقوفانہ نظریہ کو تو ملاحظہ کیجئےجسکو کو اللہ کے سامنے حاضر ہونے اور dsp، dc اور کسی گورنمنٹ کے آفیسر کے سامنے حاضر ہونے میں کوئی فرق نہیں دکھائی دیتا؟

    جسکو پائیچے اونچے کرنے والوں کی موٹی موٹی پنڈلیاں تو بڑی پسند آئیں، مگر اسے شائید کپڑوں کو ٹخنوں سے اوپر کرنے کی حدیث تک کا علم نہیں؟
    استغراللہ العظیم

    اور جسکی تقلید میں‌آپ اسقدر اندھے ہوئے جا رہے ہیں کہ نماز کے طریقوں پر صحیح علم فراہم کرنے کی بجائے ایک مرتبہ پھر ادھر اُدھر کی ہانک رہے ہیں؟

    یہ بدعتیوں کا طرہ امتیاز رہا ہے، کہ جب ان کے بے وقوفانہ روش پر ان سے دین میں سے کوئی حوالہ مانگو، تو فوراً دوسروں پر وہابیت کا الزام تھوپ دیتے ہیں۔

    یہاں‌بات ہو رہی ہے، نماز کے طریقوں کی، اور آپ کے ذھن پر کچھ اور بھوت سوار ہے۔ اگر آپ کو صحیح بات کا علم نہیں ہے تو جا کر ذرا اپنے ناچنے گانے اور موسیقی کے دلدادہ مولوی طاہر القادری سے کیوں نہیں پوچھ لیتے۔ جبکہ اسکی وڈیو وغیرہ تو بڑے شوق سے دکھاتے پھرتے ہیں
    ۔
    [/quote:1b64e62t]
    کھلیں گے۔ خارجی، وہابی، گستاخی سوچ کے حاملین رفتہ رفتہ کھلیں گے۔ اپنے نقابوں سے باہر نکلیں گے۔
    خارجی فتنے کے علمبرداروں‌کا پول کھلے گا ۔
    رواداری، محبت، برداشت کے نعروں کا پردہ چاک ہوگا۔ انشاءاللہ العزیز
    ابھی تو صرف ایک گستاخِ‌علی رضی اللہ عنہ مولانا صاحب کی بات ہوئی ہے تو اتنے سیخ پا ہوگئے ۔
    اسکے بعد یزید پلید کے مقلد ڈاکٹر صاحب کے بارے میں بہت کچھ باقی ہے۔

    والسلام
     
  21. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    Re: نماز میں ٹانگیں پھیلانا ، بے ادبی ہے


    ماشاءاللہ،
    بہت خاص مولویوں والا طریقہ پکڑا ہے آپ نے
    مولانا، یہ طریقہ اب پرانا ہو چلا کہ جب اپنے خلاف بات سنو توخارجی، وہابی کے فتوے لگانا شروع کر دو
    ورنہ بریلویت پہلے ہی بدعتوں کی وجہ سے بہت بدنام ہے، آپ ایک اور تمغہء حسن کارکردگی بن کر تشریف لائے۔
    جسکو گستاخَ علی رضی اللہ تعالٰٰی عنہ کا جھوٹا خطاب دے رہے ہیں، ناچنے گانے والے مولوی انکی پیر کی خاک کے برابر بھی نہیں۔
    خیر، رواداری، محبت اور برداشت خارجیوں اور علماء کی شان میں گستاخی اور غیبت و بہتان بڑھ چڑھ کر کرنے والے بدعتی لوگوں اور بغیر تصدیق کے ضعیف احادیث کو چلا چلا کر کہنے والوں کو کبھی راس آ بھی نہیں سکتی۔ ورنہ انکی دال کیسے گلے :hasna:
    گویا چور بھی کہے چور چور ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟


    :dilphool:
     
  22. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    پھر وہی اتہام اور الزام ۔ ۔ ۔ اسے کہتے ہیں مرغی کی وہی ایک ٹانگ ۔ ۔ ۔ یا پھر شاید یہ محاورہ بھی مناسب فٹ ہوتا ہے
    کھسیانی بلی کھمبا نوچے
    یہ الزام تراشیاں اور بدگویاں چھوڑ دینے سے آپ ہی کا بھلا ہوگا جو گستاخ ہے وہ تو گناہ گار ہے ہی آپ کیوں دوسروں پر بہتان کے گناہ گار بنتے ہیں۔ یہ میرا مخلصانہ مشورہ ہے آگے آپ کی مرضی۔ فرض کریں کہ ڈاکٹر اسرار نے گستاخی نہیں کی تو پھر آپ سزاوار ہوں گے یا نہیں؟
     
  23. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    Re: نماز میں ٹانگیں پھیلانا ، بے ادبی ہے

    درست فرمایا۔ علم بغیر ادبِ و تعظیم انسان کو سوائے تکبر کے اور کچھ نہیں‌سکھاتا ۔ معلم الملائکہ بھی اپنے علم کے تکبر میں‌ بارگاہ الہیہ سے مردود کردیا گیا تھا۔
    امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شاگرد امام شافعی رحمہ اللہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا
    "اے محمد بن ادریس الشافعی ! اگر کچھ حاصل کرنا ہے تو اپنے علم کو نمک کی مقدار کے برابر رکھو اور جبکہ ادب و تعظیم کو آٹے جتنا رکھو۔ اگر علم و ادب میں یہ توازن ہوگا تو ایسا علم نفع بخش ہوگا۔ "
    (شعرانی، انوار القدسیہ ، صفحہ 43)
    اب ذرا خود سوچیے کہ ایسا "علم" جو ادب و تعظیمِ علی رضی اللہ عنہ اور ادبِ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم ہی بھلا دے اور انکے بارے میں انسان غریب روایات کو بیان کرتے ہوئے ایسے الفاظ اپنی طرف سے بولنا شروع کردے جس سے معاذاللہ انکی گھٹی میں شراب پڑی ہونے کا امیج عامۃ المسلمین کے ذہنوں‌میں راسخ ہونا شروع ہوجائے ۔ ایسا علم سوائے تکبر کے اور کیا ہے ؟
    جبھی تو آپ ایسے عالمِ بےادب کی اندھی تقلید کا پرچم اٹھائے باقی دنیا کو انکے پیروں کی خاک بناتے پھرتے ہیں۔

    اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل، کمالات اور خصائص عالیہ کی بات کی جائے تو آپ کو ایسی احادیث یاد آجائیں کہ جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ رب العزت کے حضور اپنی شانِ بندگی کے لائق عاجزی و انکساری کا اظہار کیا ہو۔ اور آپ بجائے آقائے کائنات کے کمالات بیان کرنے کے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عاجزانہ کلمات کو دہرانہ شروع کردیں۔

    اور جہاں بات آئے اپنے محبوب و ممدوح مولانا کی۔ تو وہاں انکی شان میں یوں قلابے ملانے شروع کردیں کہ دیگر لوگوں کو انکے پاؤں کی خاک برابر بنا دیں۔
    واہ کیا معیارِ عقیدت ہے اور کیا معیارِ ایمان ہے۔ استغفراللہ العظیم

    یہ بھی درست فرمایا۔ کیونکہ یہی سب کچھ میں‌ پچھلے کئی ماہ سے کہہ رہا ہوں کہ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کو ایک غریب الروایت حدیث کے بل بوتے پر یوں‌ چلا چلا کر کیو ٹی وی پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معاذ اللہ گھٹی میں‌شراب پڑی ہونے والا کہنے کی ایسی کیا ضرورت پیش آ گئی تھی ؟ کونسی خدمتِ دین کر ڈالی انہوں نے یہ زبان درازی کرکے ؟ ایسا مقرر اور خطیب جسے اپنے جملوں پر ہی کنٹرول نہیں ، اس سے ایسی اندھی عقیدت چہ معنی دارد؟ اور اگر کسی نے ازراہِ اصلاح تحقیق کی بنا پر بات کردی کہ بھئی تقریباً 30 روایات ایسی ہیں کہ جن میں‌حضرت علی رضی اللہ عنہ کا شراب پینے کا واقعہ منسوب نہیں تو اس پر اپنی کی گئی غلطی، اور اس پر معافی مانگنے کے باوجود پھر حوالہ جات اور دلائل دینے شروع کردیے جائیں۔

    والسلام :soch:
     
  24. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    نعیم بھائی
    اب غصہ تھوک بھی دیں۔ یہ الزام تراشیاں اور بدگویاں چھوڑ دینے سے آپ ہی کا بھلا ہوگا جو گستاخ ہے وہ تو گناہ گار ہے ہی آپ کیوں دوسروں پر بہتان کے گناہ گار بنتے ہیں۔ یہ میرا مخلصانہ مشورہ ہے آگے آپ کی مرضی۔ فرض کریں کہ ڈاکٹر اسرار نے گستاخی نہیں کی تو پھر آپ سزاوار ہوں گے یا نہیں؟
     
  25. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    Re: نماز میں ٹانگیں پھیلانا ، بے ادبی ہے

    درست فرمایا۔ علم بغیر ادبِ و تعظیم انسان کو سوائے تکبر کے اور کچھ نہیں‌سکھاتا ۔ معلم الملائکہ بھی اپنے علم کے تکبر میں‌ بارگاہ الہیہ سے مردود کردیا گیا تھا۔
    امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شاگرد امام شافعی رحمہ اللہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا
    "اے محمد بن ادریس الشافعی ! اگر کچھ حاصل کرنا ہے تو اپنے علم کو نمک کی مقدار کے برابر رکھو اور جبکہ ادب و تعظیم کو آٹے جتنا رکھو۔ اگر علم و ادب میں یہ توازن ہوگا تو ایسا علم نفع بخش ہوگا۔ "
    (شعرانی، انوار القدسیہ ، صفحہ 43)
    اب ذرا خود سوچیے کہ ایسا "علم" جو ادب و تعظیمِ علی رضی اللہ عنہ اور ادبِ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم ہی بھلا دے اور انکے بارے میں انسان غریب روایات کو بیان کرتے ہوئے ایسے الفاظ اپنی طرف سے بولنا شروع کردے جس سے معاذاللہ انکی گھٹی میں شراب پڑی ہونے کا امیج عامۃ المسلمین کے ذہنوں‌میں راسخ ہونا شروع ہوجائے ۔ ایسا علم سوائے تکبر کے اور کیا ہے ؟
    جبھی تو آپ ایسے عالمِ بےادب کی اندھی تقلید کا پرچم اٹھائے باقی دنیا کو انکے پیروں کی خاک بناتے پھرتے ہیں۔

    اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل، کمالات اور خصائص عالیہ کی بات کی جائے تو آپ کو ایسی احادیث یاد آجائیں کہ جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ رب العزت کے حضور اپنی شانِ بندگی کے لائق عاجزی و انکساری کا اظہار کیا ہو۔ اور آپ بجائے آقائے کائنات کے کمالات بیان کرنے کے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عاجزانہ کلمات کو دہرانہ شروع کردیں۔

    اور جہاں بات آئے اپنے محبوب و ممدوح مولانا کی۔ تو وہاں انکی شان میں یوں قلابے ملانے شروع کردیں کہ دیگر لوگوں کو انکے پاؤں کی خاک برابر بنا دیں۔
    واہ کیا معیارِ عقیدت ہے اور کیا معیارِ ایمان ہے۔ استغفراللہ العظیم

    یہ بھی درست فرمایا۔ کیونکہ یہی سب کچھ میں‌ پچھلے کئی ماہ سے کہہ رہا ہوں کہ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کو ایک غریب الروایت حدیث کے بل بوتے پر یوں‌ چلا چلا کر کیو ٹی وی پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معاذ اللہ گھٹی میں‌شراب پڑی ہونے والا کہنے کی ایسی کیا ضرورت پیش آ گئی تھی ؟ کونسی خدمتِ دین کر ڈالی انہوں نے یہ زبان درازی کرکے ؟ ایسا مقرر اور خطیب جسے اپنے جملوں پر ہی کنٹرول نہیں ، اس سے ایسی اندھی عقیدت چہ معنی دارد؟ اور اگر کسی نے ازراہِ اصلاح تحقیق کی بنا پر بات کردی کہ بھئی تقریباً 30 روایات ایسی ہیں کہ جن میں‌حضرت علی رضی اللہ عنہ کا شراب پینے کا واقعہ منسوب نہیں تو اس پر اپنی کی گئی غلطی، اور اس پر معافی مانگنے کے باوجود پھر حوالہ جات اور دلائل دینے شروع کردیے جائیں۔

    والسلام :soch:[/quote:3i4os1d5]



    نعیم صاحب، آپ ذرا یہ ثابت کریں کہ یہ جو آپ نے شور مچایا ہوا ہے، کہ ڈاکٹر اسرار نے یہ کہاں کہا ہے کہ حضرت علی :rda: کی گھٹی میں‌شراب پڑی ہوئی ہے؟ اس الزام تراشی کے جرم میں اللہ تعالٰی ہی آپکو پوچھ سکتا ہے۔ بندہ آپکی الزام تراشی کو بند نہیں‌کر سکتا اور وہ بھی ایک انتہائی گھٹیا طریقے سے۔

    آپ کیوں بار بار بات کا بتنگڑ بنا کر جھوٹ بول رہے ہیں اور وہ بات کہہ رہے کہ جو اس عالم نے کہی بھی نہیں؟ یہ جملہ آپ نے اپنی طرف سے گھڑا اور وہ بھی ایک عالم کی بے عزتی کے لیئے؟ باوجود اسکے،کہ انہوں‌نے اسکی وضاحت بھی کی، اور اس حدیث کے متعدد ثبوت بھی فراہم کیئے گئے۔ اور آپ یہ کہیں کہ یہ حدیث جھوٹی ہے تو پھر سوال یہ ہے، کہ اتنے بڑے بڑے مفسریں بقول آپکے جھوٹی حدیث کو اپنی تفاسیر میں استعمال کرتے رہے ہیں؟ اور گویا آپ ایک نہیں‌کئی بڑے بڑے علماء کے اوپر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    اور یہ جملہ اگر ڈاکٹر اسرار نے نہیں‌بولا، جو کہ واقعی نہیں‌بولا، اگر بولا تو کوئی ثبوت پیش کرے، تو پھر جانتے ہیں‌کہ آپ نے خود بول کر نہ صرف علماء پر کیچڑ اچھالا بلکہ خود ہی حضرت علی :rda: کے بارے میں‌وہ گھڑ دیا، جو نہیں‌تھا اور الزام دے دیا ایک عالم پر

    ابھی دوبارہ اس وڈیو کو دیکھیں اور اس جملے کو ثابت کریں

    اور اب وہ 30 روایات بھی یہاں فراہم کریں۔ کیونکہ شراب پینے کا واقعہ اور لوگوں‌سے متعلق بھی ہوسکتا ہے اس سے انکار نہیں

    آپ نے اسی طرح بڑھا چڑھا کر اس بات کو بہت اچھالا اور اپنے طرف سے وہ باتیں‌بنائیں‌جو ڈاکٹر اسرار نے کہیں‌بھی نہیں۔

    ایک مرتبہ پھر آپ کے لیئے یہ پوسٹ کر رہا ہوں ایک بار نہیں‌کئی بار پڑھیئے گا، کہ کیا ڈاکٹر صاحب کے ساتھ یہ تمام مفسرین بھی غلطی پر تھے؟
    [​IMG]
    اور دوسرا، یہ بھی ثابت کریں کہ 28 تفاسیر میں یہ حدیث کیسے استعمال ہوئی اور دوسرے علماء‌کرام نے اسے کیسے صحیح کہا؟



    اللہ تعالٰی حد سے بڑھنے والوں‌کو پسند نہیں‌کرتا اور جھوٹی الزام تراشی اور بہتان بازی کی بیماریوں‌میں مبتلا لوگوں کو سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے عذابِ الٰہی کا


    ۔
     
  26. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی تقریر کا کلپ اور اس کا متن ۔​

    [youtube:1d8x7ms8]http://www.youtube.com/watch?v=9lSIkWRjkLQ[/youtube:1d8x7ms8]​

    (ڈاکٹر صاحب قرآن مجید کی آیت کا ترجمہ بیان فرماتے ہوئے کہتے ہیں) " اے نبی (ص) آپ سے یہ شراب اور جوئے کے متعلق پوچھتے ہیں۔ بتادیجئے کہ ان دونوں میں گناہ ہے لیکن کچھ لوگوں کے لیے فائدے بھی ہیں۔ شراب ٹانک بھی ہے۔ چستی پیدا کرتی ہے ۔ تھوڑی پی جائے تو اسکے اندر فوائد ہیں ۔(پوائنٹ 1)
    لیکن اثمھما اکبر من نفھما۔ انکا گناہ کا پہلو جو ہے انکے نفع اور فائدہ کے پہلو سے زیادہ ہے۔ بس اتنا کہہ کے چھوڑ دیا ۔ تو بہت سے لوگوں نے تو اسی وقت شراب ترک کر دی۔ اشارہ پا گئے۔ (پوائنٹ نمبر 2۔)
    لیکن ظاہر بات ہے اس پر کہ جن کی گھٹی میں شراب پڑی ہوئی تھی صرف اتنی بات پر تو چھوڑنے والے نہیں تھے لہذا شراب چلتی رہی۔ (پوائنٹ 3)
    اب اسکے بعد یہ حکم آرہا ہے کہ نماز کے قریب مت جاؤ تو جو شئے نماز سے محروم کردے اس سے زیادہ خبیث شئے اور کونسی ہوگی ۔ اشارے کی حد تک بات آگے آ گئی۔ اس کے پس منظر میں ایک واقعہ بیان ہوتا ہے۔۔۔۔"
    (یہ بیک گراؤنڈ بنا چکنے کے بعد ڈاکٹر اسرار صاحب وہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ شراب پی کر امامت کرواتے ہیں اور قرآنی آیات غلط ملط کردیتے ہیں (معاذاللہ)

    پوائنٹ 1۔ ڈاکٹر صاحب تبلیغِ دین کے منبر پر تشریف فرما ہوکر شراب کے فوائد بیان فرما رہے ہیں کہ کم مقدار میں پینے کے کتنے فائدے ہیں۔ ٹانک کا کام دیتی ہے۔ جسم میں چستی پیدا کرتی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ آجکل مغربی کلچر سے متاثر نسلِ نو کو شراب کے فائدے بتا کر کس حکمت و دانش سے انہیں شراب سے روکا جارہا ہے۔ کیا یہی حکمتِ دعوت و تبلیغ ہوتی ہے ؟

    پوائنٹ نمبر 2۔ ڈاکٹر اسرار صاحب واضح فرما رہے ہیں کہ بہت سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تو اسی اشارے سے منشائے الہی سمجھ گئے کہ اللہ تعالی شراب کو ناپسند فرماتے ہیں اور اس میں گناہ زیادہ ہے لہذا بہت سارے لوگوں نے تو شراب اسی وقت ترک کردی ۔ لیکن آگے جن کا واقعہ بیان کیا گیا ہے یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ و دیگر صحابہ کرام ۔۔۔ معاذاللہ ، وہ اس قرآنی آیت میں منشائے الہی کے اس اشارہ کو نہ سمجھ سکے۔ اور اگلے پوائنٹ‌میں اسکی وجہ بھی بیان فرماتے ہیں۔

    پوائنٹ نمبر 3۔ ڈاکٹر صاحب واضح کررہے ہیں بہت سے لوگوں نے قرآنی آیت سے منشائے الہی سے اشارہ پاکر شراب ترک کر دی ۔ لیکن جن کی گھٹی میں شراب پڑی ہوئی تھی ۔ اور گھٹی وہ لقمہ ہوتا ہے جو انسان پیدا ہونے کے بعد پہلی بار منہ میں ڈالتا ہے۔ یعنی محاورتاً فرمایا کہ جن لوگوں کو بچپن سے ہی شراب کی عادت تھی وہ لوگ اتنی آسانی سے کہاں چھوڑنے والے تھے۔ گویا ڈاکٹر صاحب بتا رہے ہیں کہ آگے جن کا واقعہ وہ بیان فرما رہے ہیں وہ انہی گھٹی میں شراب پڑی ہونے والے لوگوں میں سے تھے۔ جبھی تو نہ انہیں (معاذاللہ) قرآنی آیت میں منشائے الہی کے اشارے کی سمجھ آئی اور نہ ہی انہوں نے شراب ترک کی۔ اور پھر آگے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب شراب پی کر نماز پڑھانے کا واقعہ جو عظیم محدث امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کے بقول خارجیوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب کررکھا تھا۔۔۔ وہ بیان فرماتے ہیں۔

    مذکورہ واقعہ کے غریب الروایت ہونے اور اسکے اہم راوی عطا بن ثائب کے کمزور حافظے کے باعث آئمہء حدیث کے نزدیک ناقابلِ اعتبار ہونے کی تفصیلات و حوالہ جات سے قبل ضروری ہے کہ ہم عظیم خلیفہء راشد، دامادِ رسول (ص) اور بابِ شہرِ علمِ نبوت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شخصیت پر ایک نظر ڈال کر اپنے ضمیرِ ایمان سے پوچھیں کہ کیا واقعی حضرت علی رض ایسے صحابہ کرام میں سے ہوسکتےہیں کہ جن کے لیے " گھٹی میں شراب پڑی ہونے" جیسے الفاظ بولنے ضروری ہوجائیں اور کیا وہ واقعی ایسے صحابی ہیں کہ جنہیں قرآنی آیت کی روشنی میں منشائے الہی کی سمجھ ہی نہ آسکے۔

    قرآن مجید میں حضرت علی سمیت جملہ اہلبیت اطہار کے ہر طرح کے رجس و گناہ سے دوری اور کامل پاکیزگی کا اعلان


    سب سے پہلے تو یہی بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ قرآن مجید میں حرمت شراب سے متعلق مذکورہ آیت سورۃ النسا کی آیت نمبر 43 کے اترنے سے کئی برس پہلے غزوہ احزاب رونما ہوا اور اسی سے متعلق سورۃ احزاب کی آیت 33 میں اللہ تعالی نے حضرت علی سمیت جملہ اہلبیت اطہار کے ہر طرح کے رجس و گناہ سے دوری اور کامل پاکیزگی کا اعلان واضح فرما دیا تھا

    إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًاO
    اللہ کا ارادہ یہی ہے کہ اے اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہوں (رجس) کا میل کچیل دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دےo

    اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی روایت کردہ صحیح مسلم اور جامع ترمذی کی مشہور حدیث پاک کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رض، حضرت سیدہ فاطمۃ الزاہرا رضی اللہ عنھما اور امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنھما چاروں کو اپنی چادر تلے لے کر فرمایا " اللھم ھولاء اہل بیتی، فاذھب عنھم الرجس وطھرھم تطھیرا" اے اللہ ۔ یہ میرے اہلِ بیت ہیں ۔ ان سے ہر آلودگی و رجس دور کردے اور انہیں بالکل پاک و صاف کردے۔
    (صحیح مسلم، فضائل الصحابہ، جلد 4، صفحہ 1883، الرقم 2424)
    جامع ترمذی، جامع ترمذی، ابواب التفسیر، جلد 5، صفحہ 351، رقم 3205)


    یعنی اللہ تعالی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سمیت جملہ اہلِ بیت رضی اللہ عنھم سے ہر طرح کا رجس و آلودگی دور کرنے اور انہیں کمال درجے کی طہارت و پاکیزگی عطا فرمانے کا اعلان تو برسوں پہلے قرآن مجید میں فرما دیا ہو۔ بارگاہِ الہی سے یہ پاکیزگی و طہارت حاصل کرچکنے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کئی برسوں بعد حرمتِ شراب والے واقعے میں ملوث کیا جانا کیا براہِ‌راست اعلانِ الہیہ کی نفی نہیں‌بن جاتا ؟ اور اعلانِ الہی بھی قرآنی آیت کی صورت میں ہے ۔۔ گویا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس واقعہ میں منسوب کرنا کیا درحقیقت قرآنِ مجید کی آیتِ تطھیر کا اور پھر صحیح مسلم و جامع ترمذی کی حدیث صحیح کا انکار نہیں بن جاتا ؟

    آئیے بابِ شہرِ علم نبوت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قرآن فہمی کے متعلق بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور آئمہ حدیث کی رائے پوچھ لیں۔

    امام سیوطی اور امام ابو نعیم نے اپنی اپنی کتب میں حضرت عبداللہ ابن مسعود کا قول روایت کیا ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالی نے سات حروف (سات قرات) پر نازل فرمایا ہے اور ہر ہر حرف کا ایک ظاہر (حکم) ہے اور ایک باطن (اشارہء ہدایت) ہے " وان علی ابن ابی طالب، عندہ الظاہر و الباطن" اور سیدنا علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہم میں سے وہ صحابی ہیں کہ جنہیں‌قرآن مجید کے ہر ہر حرف کے ظاہر کا بھی علم تھا اور ہر ہر حرف کے باطن کا بھی علم تھا۔

    (ابو نعیم، حلیۃ الاولیا، جلد 1، صفحہ 65)
    (امام سیوطی، الایقان فی علوم القرآن، جلد2، صفحہ 493، رقم 6370)


    اس لیے کیا بہتر نہیں کہ ہم اپنے محبوب علماء و مشائخ کا عقیدت مند بن کر انکی اندھی تقلید کرنے کی بجائے خود بھی قرآن و حدیث پر براہ راست کچھ غور و فکر کر لیں کہ شاید ہمیں سیدھی راہ سمجھ آسکے ؟

    مناقبِ علی رضی اللہ عنہ پر چند احادیث​


    حضرت علی رض کم سنی میں پہلے ایمان لانے والے ہیں​


    عَنْ أَبِيْ حَمْزَةَ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ : سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ يَقُوْلُ : أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِيٌّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
    وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
    ’’ایک انصاری شخص ابو حمزہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘

    الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علی، 5 / 642، الحديث رقم : 3735،
    و الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 406، الحديث رقم : 12151،
    والہيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 102.


    سوچنے کی بات ہے کہ آجکل کے ایم بی بی ایس ڈاکٹر مولانا صاحب (جو علمِ حدیث سیکھنے کے لیے شاید کسی دینی علوم کی درسگاہ میں باقاعدہ نہیں گئے) کے بقول کیا ( معاذاللہ) اس قدر بچپن کی عمر میں‌ ایمان لا کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت سے شراب پینا ہی سیکھا تھا ؟ کیا ایسا بولنا اور سوچنا براہ راست حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ " ویزکیھم" (القرآن) اور تربیت پر اعتراض نہیں بن جاتا ؟؟؟ (استغفراللہ العظیم)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    حضرت علی رض، حضور نبی اکرم ص سے ہیں اور ہر مومن کے ولی ہیں​


    عن عمران بن حصين رضي الله عنه، قال، قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ما تريدون مِن علي؟ ما تريدون مِن علي؟ ما تريدون مِن علي؟ إنّ علياً مِني و أنا منه، و هو ولي کل مؤمن من بعدي.

    عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو؟ تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو؟ تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو؟‘‘ پھر فرمایا : ’’بیشک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مؤمن کا ولی ہے‘‘۔

    1. ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 78، ابواب المناقب، رقم : 3712
    2. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي اللہ عنہ : 77، 92، رقم : 65، 86
    3. نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 132، رقم : 8484


    یعنی جس علی رض کو حضور اکرم :saw: اپنی ذات کا جزو قرار دیں تو اس علی :rda: پر "گھٹی میں شراب پڑی ہو" جیسا شرابی قرار دینا کیا براہ راست تربیتِ نبوی اور بصیرتِ نبوی :saw: پر اعتراض نہیں بن جاتا ؟

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    محبتِ علی (رض) علامتِ ایمان، بغضِ علی رض ، علامتِ منافقت​


    عَنْ زِرٍّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : وَالَّذِيْ فَلَقَ الْحَبَّۃَ وَ بَرَہَ النَّسْمَاَ اِنَّہُ لَعَھْدُ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اِلَيَّ اَنْ لَا يُحِبَّنِيْ اِلاَّ مُؤْمِنٌ وَّ لَا يُبْغِضَنِيْ اِلَّا مُنَافِقٌ. رَوَاہُ مُسْلِمٌ.’’

    حضرت زر بن حبیش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو پھاڑا (اور اس سے اناج اور نباتات اگائے) اور جس نے جانداروں کو پیدا کیا، حضور نبی امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مجھ سے عہد ہے کہ مجھ (علی رض) سے صرف مومن ہی محبت کرے گا اور صرف منافق ہی مجھ (علی رض) سے بغض رکھے گا۔
    اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

    مسلم في الصحيح، کتاب الايمان، باب الدليل علي ان حب الانصار و علي من الايمان، 1 / 86، الحديث رقم : 78،
    و ابن حبان في الصحيح، 15 / 367، الحديث رقم : 6924،
    والنسائي في السنن الکبري، 5 / 47، الحديث رقم : 8153،
    وابن ابي شيبۃ في المصنف، 6 / 365، الحديث رقم : 32064،


    اگر انسان مومن کے درجے پر فائز ہو کر واقعی حضرت علی :rda: سے اس درجہ کی محبت حاصل کرلے تو کیا پھر ایسی ہستی کے لیے " گھٹی میں شراب پڑی ہو" جیسے الفاظ استعمال کرے گا ؟

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    علی (رض) ہر مومن کا ولی ہے
    علی (رض) کا دوست اللہ کا دوست
    علی (رض) کا دشمن اللہ کا دشمن

    (دعائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم )​

    عَنْ زَيْدِ بْنِ ارْقَمَ رضی اللہ عنہ قَالَ : لَمَّا رَجَعَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم مِنْ حَجَّۃِ الْوِدَاعِ وَ نَزَلَ غَدِيْرَ خُمٍّ، امَرَ بِدَوْحَاتٍ، فَقُمْنَ، فَقَالَ : کَانِّي قَدْ دُعِيْتُ فَاجَبْتُ، اِنِّيْ قَدْ تَرَکْتُ فِيْکُمُ الثَّقَلَيْنِ، احَدُھُمَا اکْبَرُ مِنَ الْآخَرِ : کِتَابُ اﷲِ تَعَالٰی، وَعِتْرَتِيْ، فَانْظُرُوْا کَيْفَ تُخْلِفُوْنِيْ فِيْھمَا، فَاِنَّھُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّی يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ. ثُمَّ قَالَ : إِنَّ اﷲَ عزوجل مَوْلَايَ وَ انَا مَوْلَی کَلِّ مُؤْمِنٍ. ثُمَّ اخَذَ بِيَدِ عَلِيٍَّ، فَقَالَ : مَْن کُنْتُ مَوْلَاہُ فَھَذَا وَلِيُہُ، اللّٰھُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاہُ.
    رَوَاہُ الْحَاکِمُ. وَ قَالَ ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ. (البخاری و المسلم)

    ’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس تشریف لائے اور غدیر خم پر قیام فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائبان لگانے کا حکم دیا، وہ لگا دیئے گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’مجھے لگتا ہے کہ عنقریب مجھے (وصال کا) بلاوا آنے کو ہے، جسے میں قبول کر لوں گا۔ تحقیق میں تمہارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، جو ایک دوسرے سے بڑھ کر اہمیت کی حامل ہیں : ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت (آل پاک)۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میرے بعد تم ان دونوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہو اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گی، یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے سامنے آئیں گی۔‘‘ پھر فرمایا : ’’بے شک اللہ میرا مولا ہے اور میں ہر مومن کا مولا ہوں۔‘‘ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا یہ ولی ہے،
    اے اللہ! جو اِسے (علی کو) دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے اُس سے تو بھی عداوت رکھ۔‘‘
    اس حدیث کو امام حاکم رحمۃ اللہ نے روایت کیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم رحمھما اللہ ، کی شرائط پر صحیح ہے۔‘‘

    الحاکم فی المستدرک، 3 / 109، الحديث رقم : 4576،
    والنسائی فی السنن الکبریٰ، 5 / 45، 130، الحديث رقم : 8148، 8464،
    والطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 166، الحديث رقم : 4969.


    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    غریب و ناقابلِ اعتبار روایت اور خارجی فتنہ کی حقیقت​


    امام ترمذی (رح) کی روایت کردہ حدیث پاک جسے خود انہوں نے بھی " غریب " کہہ کر اپنی براءت کا اعلان کردیا۔ اور جس کے راوی عطاء بن صائب کے ضعفِ حافظہ و شدید واہمہ پر سارے آئمہ حدیث اجماعاً متفق ہیں۔ اور جس روایت کو غلط طور پر حضرت علی رض کے شراب پینے اور نماز پڑھانے کا پراپیگنڈہ کرنا گستاخانِ اہلبیت اطہار اور دشمنانِ علی کی سازش قرار دی گیا

    حوالہ جات کے لیے دیکھیے
    امام حاکم المستدرک، جلد 2،صفحہ 336، الرقم 3199
    امام طبری کی تفسیر طبری : جلد 5، صفحہ 95
    علامہ شوکانی (اہلحدیث مکتبہ فکر) نیل الاوطار، جلد 9، صفحہ 57
    علامہ شمس الحق عظیم آبادی، کتاب عون المعبود، جلد 3، صفحہ 365
    علامہ شبیر احمد عثمانی، فتح الملھم، جلد 1، صفحہ 239


    احادیث و تفاسیر کہ جن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا شراب نہ پینا اور امامت نہ کروانا ثابت ہوتا ہے۔​


    تفسیر طبری۔ جلد 2 ، صفحہ 362،
    الحاکم المستدرک، جلد 4، صفحہ 158، رقم، 7219
    الحاکم المستدرک، جلد4، صفحہ 159، رقم، 7221

    امام ابوداؤد اپنی سنن ابی داؤد ،کتاب الاشربہ، جلد 3، صفحہ 325، رقم 3670،
    اور
    امام حاکم المستدرک، جلد 4، صفحہ 159، حدیث نمبر 7224، پر بڑی ایمان افروز روایت لائے ہیں۔ فرماتے ہیں

    "حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے شراب کی حرمت پر پہلی آیت کے اترنے پر دعا کی "اللھم بیّن لنا فی الخمر" اے اللہ ! ہم پر شراب کے بارے میں مزید واضح فرما دے۔ تو پھر آیت اتری " لاتقربو الصلوۃ وانتم سکری" کہ جب تم نشہ کی حالت میں ہوتو نماز کے قریب مت جاؤ۔ حضرت عمرفاروق نے پھر دعا کی یا اللہ اور واضح فرما تو پھر قطعی حکمِ حرمت نازل ہوگیا۔"

    سبحان اللہ۔ اگر کسی اہلِ ایمان کو قرآن مجید کی آیت کا شانِ نزول بیان کرنا ہی مقصود ہو تو یہ روایت بھی پڑھی جاسکتی ہے کہ جس سے سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی بارگاہِ الہی میں قرب و قدر و منزلت بھی واضح ہوجائے اور مولانا صاحب کا تفسیرِ قرآن کا شوق بھی پورا ہوجائے۔ لیکن لگتا ہے کہ انہیں تفسیر سے زیادہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معاذاللہ شرابی ثابت کرنے کی زیادہ فکر تھی جو اتنی ایمان افروز اور صحیح احادیث چھوڑ کر ایک ضعیف، ناقابل اعتبار اور خارجیوں کی طرف سے اچھالی گئی روایت کو بیان کرڈالا۔

    تفسیر ابنِ کثیر، جلد 1 ، صفحہ 501، حضرت سفیان ثوری ، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت جریر اور امام مجاہد (رض) کے حوالے سے بیان کیا کہ کسی اور شخص نے امامت کروائی ۔
    امام احمد بن حنبل المسند، جلد 2، صفحہ 351
    حضرت ابو ہریرہ رض سے روایت کرتے ہیں جس میں حضرت علی رض کا نام تک نہیں ہے۔
    امام بزار، المسند، جلد 2، صفحہ 211، رقم 598،
    الہیثمی ، مجمع الزوائد، جلد 5، صفحہ 51
    ابنِ حجر عسقلانی، الاصابۃ فی التمیز الصحابۃ، جلد 5، صفحہ 224
    امام طبری، کتاب، تخریج الاحادیث والآثار، جلد 1، صفحہ 131،
    تفسیر ابن ابی حاتم الرازی، جلد2، صفحہ 388
    تفسیر ابن ابی حاتم الرازی، جلد3 صفحہ 958۔

    انہوں نے حضرت شعبہ اور حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنھما سے روایت نقل کی جس میں حضرت علی رض کا ذکر بھی نہیں۔
    امام ابوالحسن الواحدی النیشاپوری، اسباب النزول، صفحہ 112، 113 ۔
    حضرت علی رض کا ذکر بھی نہیں۔
    امام بغوی، تفسیر بغوی، جلد1، صفحہ 431
    فرماتے ہیں کہ "اکثر آئمہ کا اتفاق و اجماع " کہہ کر اپنا مذہب مختار اور اعتماد بیان کرتے ہوئے فرماتے وہ وہ روایت لاتے ہیں جس میں حضرت علی رض کے علاوہ کسی کے شراب پینے اور امامت کروانے کا ذکر ہے۔
    امام قرطبی، تفسیر قرطبی ، جلد 5، صفحہ 200،
    پہلا شانِ نزول فرماتے ہیں کہ کچھ لوگوں‌کے شراب پینے پر آیت اتری۔
    دوسرا شانِ نزول سیدنا عمر فاروق رض کی دعا والا بیان کیا۔
    تیسرا شانِ نزول میں بھی " کسی شخص " کی امامت کا ذکر کیا
    امام فخرالدین الرازی : تفسیر الرازی، تفسیرالکبیر،جلد 10، صفحہ 107
    پہلے شانِ نزول میں حضرت علی رض کے علاوہ کسی شخص کی امامت کی روایت کی
    دوسرے شانِ نزول میں حضرت عمر فاروق رض کی دعا والی روایت نقل کی
    تیسرے شانِ نزول میں حضرت عبداللہ بن عباس رض سے روایت کی اور حضرت علی کا ذکر تک نہیں
    امام ابوحیان اندلسی، البحر المحیط، جلد3، صفحہ 254
    فرماتے ہیں کہ عندالجمور علما، محکم روایت حضرت عمر رض کی دعا والی ہے۔
    قاضی بیضاوی، تفسیر البیضاوی، جلد 1، صفحہ 347
    زمخشری، الکشاف، جلد 1، صفحہ 513،
    قاضی ثناءاللہ پانی پتی، تفسیر المظہری، جلد2، صفحہ 398

    (واضح رہے کہ بعض کتب میں تین تین، چار چار، یا پانچ پانچ روایات بھی وارد ہوئی ہیں جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اس واقعے سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوتا )

    مندرجہ بالا کتبِ احادیث و تفاسیر کو بنظرِ ایمان کھنگالنے سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ اس آیت کے شانِ‌ نزول کے حوالے سے شراب پینے یا امامت کروانے والے واقعے میں حضرت علی رض قطعاً شامل نہ تھے بلکہ عطا بن سائب نامی ضعیف حافظے اور وہم کے شکار ایک راوی کے بیان کو پکڑ کر، دشمنانِ علی اور دشمنانِ اہلبیت خارجیوں نے اس میں سازش کے تحت حضرت علی رض کا نام شامل کردیا تھا۔ جسے ۔۔۔۔

    آج کم و بیش 14 سو سال بعد ڈاکٹر اسرار صاحب کو اس ناقابل اعتبار روایت اور بقول امام حاکم خارجیوں کی طرف سے اچھالی گئی روایت کو بنیاد بنا کر دامادِ رسول اور بابائے سید الشباب اہل الجنۃ سیدنا امام حسن و حسین رضوان اللہ عنھما کو "گھٹی میں شراب پڑے ہونے" والا جیسا (معاذاللہ) شرابی بیان کر کے آخر کس "خدمتِ اسلام" کا شوق چڑھ گیا ۔
    انا للہ وانا الیہ راجعون


    یہ سوال کہ ایسی روایت کئی مفسرین کرام نے اپنی اپنی تفاسیر میں روایت کیوں کی ۔ اسکا جواب عابد عنائت بھائی بھی کہیں دے چکے ہیں اور ایک اظہر من الشمس حقیقت ہے کہ مفسرین کا ارتکاز آیت کی تفسیر کی طرف ہوتا ہے اور اس ضمن میں وہ اپنے علم کے مطابق روایات کا حوالہ نقل کردیتے ہیں۔ فنِ حدیث کی روشنی میں ان روایات پر جرح و تعدیل اور فنی بحث کرنا محدثین کا شعبہ ہوتا ہے۔ ہر شعبے کی اپنی سپیشلٹی اور تخصص ہوتا ہے۔ اور مفسرین بالعموم فنِ حدیث کی باریکیوں کا کام اس فن کے ماہرین یعنی آئمہء حدیث اور آئمہ جرح و تعدیل پر چھوڑ دیتے ہیں۔

    اور ویسے بھی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک عالمِ ربانی وہی ہوتا ہے جسے اپنے سامعین، ناظرین و حاضرین کی ذہنی و فکری سطح کا بخوبی ادراک ہو اور وہ اپنے سامعین کی ذہنی سطح کے مطابق حکمت و دانائی سے گفتگو کرے۔ اس طرح کے ایک پیچیدہ علمی و فنی مسئلہ کو ٹی وی پر یوں لاکھوں لوگوں اور عامۃ المسلمین تک بیان کردینا سراسر خلافِ حکمت و دانائی ہے۔

    اب بھی وقت ہے ۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں توبہ کر لی جائے تو وہ یقیناً بخشنے والا غفورالرحیم ہے۔ لیکن اگر اپنی غلطی یا بغضِ علی رض پر اصرار اور اسکی تائید میں دلائل دیتے جانا کوئی معذرت نامہ نہیں ہوسکتا۔ بقول آبی بھائی یہ معذرت ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی کے سر پر ہتھوڑا دے ماریں ، سر پھاڑ دیں ، بعد میں‌کہہ دیں "سوری آپ کو جو درد ہوا یا خون نکلا، اس پر معذرت۔ لیکن ہتھوڑا مار کر آپکا سر پھاڑنے کا میرا عمل بالکل درست تھا کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آگے دلائل دینا شروع کردیں" ۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں معافی مانگنے والے اپنی صفائیاں نہیں دیتے۔

    اللہ تعالی ہم سب کو وہ ہدایت عطا فرمائے جو اس نے اپنے انعام یافتہ بندوں کو عطا کی تھی ۔ اور ایسی بات سے بچائے جس سے غضب الہی بھڑک اٹھے۔ کیونکہ آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے ۔ یا اللہ اسکا دوست بن جو علی رض کا دوست ہے۔ اور اسکا دشمن بن جو علی رض کا دشمن ہو۔

    (الحاکم فی المستدرک، 3 / 109، الحديث رقم : 4576،
    والنسائی فی السنن الکبریٰ، 5 / 45، 130، الحديث رقم : 8148، 8464،
    والطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 166، الحديث رقم : 4969.
    )

    آئیے۔ اپنے محبوب علمائے کرام کی عقیدت میں غرق ہوکر انکی اندھی تقلید کی بجائے خود بھی قرآن مجید اور احادیث مبارکہ سے فضیلتِ مولا علی اور شانِ اہلبیت اطہار اور عظمتِ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ تاکہ ہمیں ایمان کی سچی اور پاکیزہ روشنی نصیب ہوسکے۔ آمین

    آخرت میں اللہ تعالی کے غضب سے ڈرانے والے احباب کے لیے میں " جزاھم اللہ" کہہ کر شکریہ ادا کرتا ہوں‌کہ جنہوں نے مجھے فکرِ آخرت کی طرف راغب کیا۔ لیکن میرا ضمیرِ ایمان اس پر مطمئن ہے کہ میں نے قرانی حکم "الا الموءدۃ فی القربی" کے تحت ، دامادِ رسول (ص) ، گلشنِ اہلبیت کے مہکتے پھول، خلیفہء راشد اور بابائے حسنین کریمین (رض) سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی شان و فضیلت کا علو ہی بیان کیا ہے۔ اور یہی حق سمجھتا ہوں۔
    حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں‌تنقیص نہیں کی اور نہ ہی اس پر اصرار کیا ہے۔

    اللہ تعالی دلوں کے بھید خوب جاننے والا علیم و بصیر ہے۔ کہ کون عظیم صحابیء رسول صلی اللہ علیہ وسلم یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شان و تعظیم میں محنت کرتا ہے اور کون اس عظیم صحابی رسول علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کی شان میں کمی و تنقیص کرنے کے لیے کتابیں کھنگالتا اور اپنے ممدوح مولانا کی تائید و دفاع میں دین رات ایک کئے ہوئے ہیں۔
    (ادب سے بےبہرہ لوگ ایمان کی اس حلاوت کو شاید کبھی بھی نہ سمجھ پائیں )

    والسلام علیکم
     
  27. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ڈاکٹر صاحب نے یہ بات قرآن مجید کی آئیت کی روشنی میں‌بیان کی ہے اور آج کی سائینس اس بات کی تصدیق بھی کرتی ہے کہ شراب یا الکحل میں‌کچھ فائدے بھی موجود ہیں ۔ آپکو تو شائید خبر بھی نہ ہو کہ آجکل کی دوائیوں میں‌بھی الکحل کی ملاوٹ ہوتی ہے خاص طور پر وہ دوائیاں جن کی وجہ سے انسان حالت سکون یا نیند میں چلا جاتا ہے۔ اب جس چیز نے بارے میں قرآن میں اللہ نے فرمایا ہے اسکےفائیدے بھی ہیں مگر اسکے نقصانات زیادہ ہیں تو پھرپوچھنے والا یہ سوال کر سکتا ہے وہ کون کون سے فائدے ہیں‌ اور کون کون سے نقصانات ہیں۔ اور ڈاکٹر صاحب نے یہ بات قرآنی آئیت کی تشریح‌میں‌بالکل ٹھیک فرمائی تاکہ لوگوں کو شراب کے فائدے بھی معلوم ہوسکیں۔

    تو ڈاکٹر اسرار نےتو یہاں‌سچ بات کو ظاہر کیا ہے۔ وہ ہمیشہ موقع کی تلاش میں‌رہتے ہیں کہ کس طرح کسی کی بات کا بتنگڑ بنایا جائے۔


    اور یہ بات بھی بہت مشہور ہے اور محاوراۃً بولی بھی جاتی ہے کہ "شراب عربوں‌کی گھُٹی میں‌پڑی ہوئی تھی"۔ زمانہ ء جاہلیت میں اکثر لوگ شراب کے رسیا اور نشے کے عادی تھے۔اور ڈاکٹر صاحب نے یہ بات اسی حوالے سے کہی، نہ کی کسی صحابی :rda: پر الزام تراشی کی، بلکہ اسکا سیدھا سا مطلب ہی یہی ہے کہ قطعی حکم آنے تک کچھ لوگ پھر بھی شراب پیتے تھے اور ایسوں میں حضرت علی بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ اس لیے ڈاکٹر اسرار صاحب نے جو کہا درست کہا۔
    یہ اوپر آپ کا بدگمانی اور بہتان بازی کرنے کا طریقہ صاف عیاں ہے کہ اصل میں‌یہ مطلب نہیں‌تھا، مگر آپ نے "گویا" کا سہارا لے کر ان پر کیچڑ اچھال ہی دیا۔ اور اپنی ذھنی پسماندگی کا کھلا ثبوت فراہم کردیا۔ حالانکہ اس وڈیو کو دیکھنے والے بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ گھٹی والا اشارہ عرب معاشرے کی طرف تھا اور یہ واقعہ اسوقت کا ہے، جب حرمتِ شراب کا قطعی حُکم موجود نہیں‌تھا۔

    بے وقوفی کی حد دیکھئے، کہ جب شراب کی حرمت آئی ہی نہیں تھی اور شراب کو حرام قرار ہی نہیں دیا گیا تھا، تو اسوقت اگر کوئی پیتا بھی تھا، تو گناہ میں شُمار نہیں کیا جاتا تھا۔ بلکہ اسے نہ اچھا سمجھا جاتا تھا، نہ بُرا۔ تو جس چیزپر اسوقت گناہ کا احتمال ہی نہ تھا، تو گناہ یا ناپاکی کا فتویٰ کسطرح صادر کیا جاسکتا تھا۔۔۔۔۔۔لہذا ثابت ہوا کہ اس وقت شراب پاکیزہ تھی

    حضرت علی :rda: کی شان میں جتنے بھی حوالہ جات دیئے گئے ان سے انکار ممکن نہیں البتہ ڈاکٹر اسرار احمد کی بیان کردہ حدیث کو اگر اتنے مفسریں اکرام تفساسیر میں‌لکھ سکتے ہیں اور دیگر علماء اسکو صحیح گردانتے ہیں تو اسکا صاف مطلب یہ ہوا کہ بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جن کے نزدیک اس حدیث کی حیثیت درست ہے۔ اور وہ بھی جن کے نزدیک نہیں۔


    میں‌اب اسکے بعد آپ سے مزید بحث نہیں‌کروں‌گا، کیونکہ یہ معاملہ پہلے ہی بہت زیرِ بحث رہ چُکا ہے اور میرے نزدیک بہرحال ڈاکٹر اسرار کے وضاحتی بیان کے بعد یہ بات واضح ہے کہ انہوں‌نے کسی بھی صحابی :rda: پر انگلی نہیں‌اٹھائی۔

    اور دوسرے یہ لڑی بھی اس موضوع کی نہیں اور اس موضوع پر دوسری لڑیوں‌میں بہت بات ہو چُکی۔البتہ ڈاکٹر اسرار احمد کے خلاف زبانی درازی پر میں ہمیشہ گرفت کیا کروں گا۔

    والسلام و علیکم


     
  28. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
  29. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
  30. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بہت خوب مبازر بھائی
    جزاک اللہِ خیراً و کثیراً
     

اس صفحے کو مشتہر کریں