1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حضرت واٍصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از خانمجان, ‏4 فروری 2011۔

  1. خانمجان
    آف لائن

    خانمجان ممبر

    شمولیت:
    ‏4 فروری 2011
    پیغامات:
    7
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت واٍصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ

    حضرت وا صف علی واصف 15 جنوری 1929ءکو پیدا ہو ئے ۔ جا ئے پیدائش تحصیل شاہ پور ہے جو کہ ضلع خوشاب کی ایک تحصیل ہے مگر اس وقت شاہ پور ضلع ہوا کر تا تھا اور خوشاب ایک تحصیل۔ آپ کے والد ماجد کا اسمِ گرامی ملک محمد عارف صاحب تھا جن کا تعلق وہاں کے قدیم اورمعزز اعوان قبیلے سے تھا ۔اعوان قوم کی ایک ممتاز شاخ کنڈان سے ان کا تعلق تھا ۔ مستند تواریخ کے حوالے سے یہ بات ثابت ہے کہ اعوان قوم کا سلسلہ نصب حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔خوشاب میں کنڈان خاندان کے فرد اکٹھے رہتے تھے۔اس جگہ کو محلہ کنڈانوالہ کہتے ہیں۔ 1729ء میں اس قبیلے کے ایک فرد محمد جمال نے یہا ں رہا ئش اختیار کی۔ ان کی ساتویں پشت سے قبلہ واصف صا حب پیدا ہو ئے ۔ محمد جما ل تک واصف صاحب کا شجر ہ نسب اس طر ح بنتا ہے ۔ واصف علی واصف ولد محمد عار ف ولد محمد اشرف ولد غو ث محمد ولد خیر محمد ولد گھیبہ خا ن ولد نو ر محمد ولدمحمد جما ل اعوان ۔
    ابتدا ئی تعلیم خو شاب میں حا صل کی ۔یکم جو ن 1942ءکو گو رنمنٹ ہا ئی سکو ل خوشاب سے مڈل کا امتحان پا س کیا ۔ اس کے بعد آپ اپنے نا نا کے پا س جھنگ چلے آئے ۔ وہ ایک ممتاز ما ہرتعلیم تھے اور جوانی میں قا ئد اعظم کے زیر نگرا نی امر تسر میں مسلم لیگ کے لیے کا م کر چکے تھے ۔ آپ کے والد صاحب نے فیصلہ کیا کہ بقیہ تعلیم آپ کوجھنگ میں دلوائی جائے ۔ جھنگ میں دوران تعلیم آپ کے جو ہر خو ب کھلے اور ایک شا ند ار تعلیمی کیرئیر کا آغاز ہو ا۔ آپ فرمایا کر تے تھے کہ ” طا لب علمی کے زمانے میں مقا بلے کی ایسی دُھن سمائی ہو ئی تھی کہ ہم فرسٹ آنا اپنا حق سمجھتے تھے۔“ میڑک یکم نومبر1944ءکو گو رنمنٹ ہا ئی سکو ل جھنگ سے کی ۔ اس وقت بو رڈ کی بجا ئے امتحان پنجا ب یو نیورسٹی لیا کرتی تھی ۔ آپ نے رول نمبر 26476 کے تحت امتحان دیا اور فسٹ ڈویژن حا صل کی ۔ اس کے بعد ایف اے2 جنو ری 1948ءکو گورنمنٹ انٹر میڈیٹ کا لج جھنگ سے پاس کیا ۔ پنجاب یونیورسٹی کے اس امتحان میں رول نمبر 7809کے تحت فسٹ ڈویژن حا صل کی ۔ اس کے بعد بی اے19 دسمبر 1949 ءکو گورنمنٹ کا لج جھنگ سے پاس کیا۔ رو ل نمبر1137کے تحت ۔ اس مر تبہ بھی فسٹ ڈویژن حاصل کی ۔ یہ وہ زما نہ تھا جب سیکنڈڈویژن تو دور کی بات تھی، بی اے پاس کرنا بھی بڑ ی با ت سمجھی جا تی تھی ۔
    آپ نہا یت خوب صو رت تھے دراز قد تھے اور ایک مضبو ط جسم کے ما لک تھے۔ دوسری گیمیں بھی کھیلتے تھے مگر سکو ل اور کا لج میں با قا عد گی سے ہا کی کھیلا کر تے تھے ۔ ہا کی کے بہت اچھے کھلا ڑی تھے ۔49-1948ءکو آپ کو ہا کی میں حسن کارکردگی پر ” کلر“ دیا گیا ۔ اس کے علاوہ کا لج کی مختلف سر گر میو ں میں بڑ ھ چڑ ھ کر حصہ لیتے تھے ۔ اسی کا لج کی انہی گو نا ں گو ں سر گر میو ں کی وجہ سے1949ءمیں آپ کو ” ایو ارڈ آف آنر“ دیا گیا۔27 ستمبر1954ءکو آپ کو ویسٹ پا کستا ن پولیس ٹریننگ کا اعزازی سر ٹیفکیٹ جا ری کیا گیا جس میں ان کی ٹر یننگ اور خدما ت کو سراہا گیا ہے۔
    اس کے بعد پنجا ب یو نیو رسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ اس دور ان آپ گورنمنٹ کالج لا ہو ر میں پڑ ھتے تھے اور ہا سٹل میں رہا کرتے تھے ۔ کا لج میگزین جس کا نا م ”راوی “ تھا اس میں آپ نے کئی مضامین بھی لکھے تھے جن میں انگریزی میں لکھے گئے دو مضامین اب تک محفوظ ہیں۔ایک مضمو ن ہا سٹل کی نا گفتہ بہ حا لت پر اور دوسرا فائنل ائیر کلا س کی الوادعی پا رٹی کے مو قع پر لکھا گیا۔ اس دور کے آپ کے کلاس فیلو آج بھی مختلف شعبہ ہا ئی حیا ت میں مصر وف ِعمل ہیں ۔
    3جون 1954 ءکے پنجا ب گزٹ کے مطا بق آپ نے سول سروس کا امتحان پا س کیا۔ رول نمبر139کے تحت ۔ آپ نے مختلف مضا مین میں اچھے نمبر حاصل کئے ‘خاص طو ر پر جنرل اردو پیپر میں100 میں سے61 نمبر حا صل کئے۔ میرٹ اچھا تھا مگر طبیعت کی انفرا دیت اور درویشی کے میلان کی وجہ سے سروس جا ئن نہ کی ، اس کی بجا ئے تدریس کے شعبے میں دلچسپی لینے لگے ۔ کچھ ہی عر صہ بعد آپ نے ریگل چو ک لا ہو ر میں واقع ایک پنجا بی کا لج میں پرائیوٹ کلا سو ں کو پڑ ھا نا شر و ع کیا ۔ مگر بعد میں پرا نی انار کلی کے پاس نابھہ روڑ پر ” لا ہو ر انگلش کا لج “ کے نا م سے اپنا تدریسی شعبہ قائم کیا۔ یہ 1962ءکی با ت ہے۔ آپ کے والد ملک محمد عارف صا حب کا تعلق بھی تد ریس کے شعبے سے رہا تھا۔ آپ کے والد صا حب محکمہ تعلیم سے فا رغ ہو کر لا ہو ر میں قیا م پذیر ہو گئے تھے ۔ سنت نگر میں انہو ں نے پہلی رہا ئش گا ہ میں آکے قیا م کیا۔ ملک صا حب درویش طبیعت کے مالک تھے اور صو م و صلوٰ ة کے پابند تھے۔ ظہر کی نما ز کے بعد قرآن مجید کی تلا وت ‘تفسیر حقانی کا مطالعہ اور مثنو ی مو لا نا روم ؒ کاورد ان کی زند گی کا معمو ل تھا ۔ صا حب ِ نسبت بزرگ تھے۔ تونسہ شریف کے چشتی خا نوادہ سے با قا عدہ منسو ب تھے۔ حضرت خوا جہ غلا م فر ید ؒ سے بہت عقید ت و محبت رکھتے تھے۔ واصف صا حب کے بچپن ہی سے فقر کا سلسلہ چل نکلا۔ جہا ں کہیں کسی بزرگ کا پتہ چلتا اس سے ضر ور ملتے۔ بزرگان ِ دین کے مزارات پر حا ضر ی کاسلسلہ با قا عدگی سے چلتا رہا۔ اس سلسلے میں پا کستا ن کے مختلف علا قو ں کے علاوہ ہند وستان کا سفر بھی کیا اور مزارا ت پر حا ضر ی دیتے رہے۔ ایک روز آپ سے کسی نے سوال کیاکہ بچپن میں آپ پر اس طر ح کے کیا اثرات تھے تو آپ نے فر مایا کہ بچپن میں جب بھی اذان سنتا تو مجھ پر ایک کپکپی طار ی ہو جا یا کرتی تھی۔ دین و دنیا کے علو م پر وسیع مطا لعہ کے مالک تھے۔یہا ں ایک نہا یت اہم نکتہ نو ٹ کر نا چا ہیے کہ آپ نے یہ سب کچھ ان دنو ں میں کیا جب کہ اپنے کا لج میں شب و روز انتہا ئی جا نفشانی سے طالب علمو ں کو انگریزی پڑ ھایا کر تے تھے ۔ رات گئے تک بھی کلا س لگتی تھی اور پھر نماز ِ فجر کے بعد بھی پڑھا تے تھے ۔ کا لج کے قر یب ہی پرا نی انار کلی کے مو ڑ پر ایک مسجد تھی ‘ تہجد کی نمازوہا ں پہ با قا عد گی سے ادا کر تے تھے۔ پھر آپ کے کلام کے مسودّہ پر نظر ڈا لیں تو انسان حیران رہ جا تا ہے کیو نکہ اکثر ہر غزل یا نظم کے سا تھ وقت تحر یر اور تا ریخ ڈا لی ہوئی ہو تی تھی اور یہ کلا م صبح دو بجے سے چار بجے کے درمیان لکھا ہو ا ہے ۔کالج میں باقا عد گی سے لنگر چلتا تھا اور خا ص بات یہ تھی کہ طا لب علمو ں کے علا و ہ ہر آنے والے کو چا ئے پیش کی جا تی اور آپ ؒ اکثر ان کے سا تھ چائے نو شی میں شر یک ہو جا یا کرتے ۔ کا لج میں زند گی کے مختلف شعبو ں سے تعلق رکھنے والے اصحاب کی آمدورفت رہتی۔ ان میں ادیب ‘ شعراء‘ بیو روکریٹ ‘ وکیل ‘ ملنگ ‘ فقرا ء‘ درویش اور طا لب علموں کا ایک جم غفیر شا مل تھا ۔ اپنے اپنے ذوق اور طلب کے متعلق سب سےر ہوا کرتے تھے۔ اسی دوران آپ سنت نگر والے مکا ن سے اپنی نئی رہا ئش گا ہ میں شفٹ ہو چکے تھے ۔ یہ رہائش گا ہ ملتا ن روڈ کے مغرب میں واقع رہا ئشی علا قہ گلشن راوی میں تھی ۔ آپ کی شادی دیر سے ہوئی تھی۔ اس کی وجہ صاف ظاہر تھی ۔ افتادطبع کے علا وہ طبیعت پر درویشی اور جذب کا رنگ غا لب تھا۔کثر ت ذکر سے ہر وقت چہرہ دمکتارہتا تھا۔ اس صو ر ت میں تزویج یا اس طرح کے دوسر ے معاملات زند گی کی طرف کب خیال جا تا ہے۔ اپنے خیر خواہو ں اور والدین کے پے درپے اصرار کی وجہ سے شادی پر رضا مندہو گئے ۔ 24اکتوبر1970ءمطابق 22شعبان1390ھ بروز ہفتہ 8 بجے شام آپ ؒ کی سہرا بند ی کی گئی ۔ اور پھر بارات جوہر آباد کے لیے اگلے روز روانہ ہو گئی ۔سب سے پہلے آپ کے ہا ں ایک بیٹے کی ولا دت ہو ئی ‘ نا م کاشف محمود رکھا گیا۔اس کے بعد تین صا حبزادیا ں ہیں ۔ جن کی عمروں میں سال ڈیڑھ سال کا فر ق ہے۔ طبیعت میں ایک خا ص وصف یہ تھا کہ ازخود کم لکھتے یا بو لتے تھے جب کوئی سوال آپ کے سامنے پیش کیا جا تا تو اس کے مطابق گو یا ہو ا کر تے تھے ایک شخص نے ازراہ مذاق کہا کہ آپ شاعری نہیں کرسکتے ، یہ مشکل کام ہے ۔ اس رات آپ نے تین سو اشعار لکھے ۔اس کے علا وہ مختلف اخبا رو ں اورجرائد میں آپ کا کلا م چھپا کر تا تھا ۔چند اصحا ب کے اصرار پر یہ کلام جمع کیا گیا اور عارف نو شا ہی سے کتا بت کر ائی گئی تو آپ کی پہلی تصنیف منظرِ عام پر آئی ۔یہ 1978 ء کی بات ہے ۔ مجمو عہ کلام کا نا م ” شب چرا غ “ رکھا گیا۔ اس میں آپ کے کا لج کے زما نے کی ایک نہایت پر شکو ہ اور جلال و جمال سے مر قع فو ٹو گراف بھی تھی ۔ اس کی تقر یب رو نما ئی میں آپ کے بہت سے عقید ت مند اور اہل علم حضرات شا مل ہو ئے اس کے بعد رشد و ارشاد کا ایک لا متنا ہی سلسلہ چل نکلا ۔ یہ دور انتہا ئی مصر وفیت اور محنت کا دور تھا ۔ جب لو گو ں کی تعداد بڑھنا شر و ع ہو گئی تو گفتگو نے ” محفل “ کا رو پ اختیا ر کر لیا ۔ مختلف مقا مات پر محفل جمنے لگی تھی ۔ شر وع شروع میں محفل کی با قا عد ہ شکل لا ہو ر کے مشہو ر اور مصر وف مقام ” لکشمی چو ک “ میں بننی شروع ہوئی ۔ اس کے بعد قذافی سٹیڈیم میں واقع فزیکل ٹریننگ کے ادارے میں محترم نیا زی صا حب مرحو م کے ہاں محفلو ں کا ایک طو یل سلسلہ شروع ہو ا ۔ یہا ں پر ایک ہزار راتیں آپ ؒ نے خطاب کیا ۔مختلف موضوعات پر لو گ سوالات کیاکر تے اور آپ ان کے جواب دیا کرتے۔ بعد میں یہ سلسلہ آپ کی قیام گاہ پر شر وع ہو ا۔ 1984 ءمیں آپ کو ایم اے او کا لج لاہور کی ” مجلس اقبال “ کی ایک پر وگرام میں مد عو کیا گیا اور ایک محفل وہا ں بھی جمی ۔ چید ہ چید ہ اہل علم اور اہل ِ قلم اصحاب نے آپ ؒ سے مختلف سوالات کئے ۔ اس کی ر وداد روزنامہ نو ائے وقت میں شائع ہو ئی تو قا رئیں کی اکثریت نے اصرار کیاکہ واصف صا حب کی تحر یر کا کوئی باقاعدہ سلسلہ ہو ناچا ہیے ۔ تب آپ نے نو ائے وقت کے لیے کا لم لکھناشر و ع کیا ۔ پہلا کا لم ” محبت “ کے عنوان سے شائع ہوا ۔ ندرت کلا م اور تا یثر کا یہ عالم تھا کہ لو گوں نے دھڑا دھڑآپ سے را بطہ کرنا شروع کر دیا اور اپنے دینی ‘ دنیا وی اور روحا نی مسا ئل کے حل کے لیے آپ کو مستجا ب پا یا ۔ 1986ء میں آپ کے عقیدت مند و ں نے آپ کے فرمودات کو جمع کیااور اس طر ح آپ کی پہلی نثر ی تصنیف شائع ہو ئی ۔ اس تصنیف یعنی ” کر ن کرن سورج “ کو جمع کر نے میں محتر م اکرام چغتائی ‘ اورریا ض احمد صا حب کی کو ششیں شامل تھیں ۔بعد کی تصانیف کی اشاعت میں محترم اکرام چغتا ئی اور اعجا ز الحق صاحب کا بڑا ہا تھ تھا ۔ آپ کے مضامین کا مجموعہ ” دل دریا سمند ر “ کے نا م سے 1987 ءمیں شا ئع ہو ا۔” قطرہ قطرہ قلزم “ 1989ء میں شائع ہوئی ۔ اس کے بعد ” کر ن کر ن سورج“ کا انگر یزی تر جمہThe Beaming Soul کے نام سے شا ئع ہو ا۔ 1994ءمیں مضامین کی کتاب ” حر ف حر ف حقیقت “ ‘ پنجا بی کلا م ” بھر ے بھڑولے “ اور اردو کلا م ” شب راز “ 1995ءمیں فر مو دا ت پر مبنی کتاب ” بات سے بات “ اور 1996 ء میں آ پ کی محفلو ں کے سوالا ت اور جوابات پر مبنی کتا ب ” گفتگو “ شائع ہوئی ۔
    جناب حضرت واصف علی واصف کاایک فرمان ہے کہ ” عظیم لو گ بھی مر تے ہیں مگر موت ان کی عظمت میں اضافہ کر تی ہے۔ “ یو ں تو آپ نے 18 جنو ری 1993 ء بمطابق 24رجب 1415 ھ کی سہ پہر کواس دارفانی سے آنکھیں مو ند لی تھیں مگر آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان کے علم و عرفا ن کانو ر ہر سو پھیلتا ہی جا رہا اور پھیلتا ہی جا ئے گا۔ ےہاں تک کہ ان کا اصل مقصد تخلیق پورا ہو جا ئے گایعنی ” اسلا م کی نشا ہ ِ ثا نیہ ۔“
    ا س با رے میں آ پ کا فر مان ہے کہ اس صدی کے ختم ہو نے سے قبل ہی دنیا اسلام کا وہ جلو ہ دیکھ لے گی جس کا صدیو ں سے انتظار ہے ۔
     
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت واٍصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ

    خانمجان جی شکریہ
    حضرت واصف رحمت اللہ علیہ کے بارے میں آگاہ کرنے بہت شکریہ،میانی صاحب میں ان کے در اقدس پر حاضری کا شرف ہوا بہت ہی روحانی سکون میسر ہوا تھا اللہ کریم ان کے درجات بلند فرمائیں ۔
     
  3. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت واٍصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ

    خانمجان بہت شکریہ ایک خوبصورت شخصیت کے بارے میں خوبصورت معلومات فراہم کرنے کے لیے۔
     
  4. عفت
    آف لائن

    عفت ممبر

    شمولیت:
    ‏21 فروری 2011
    پیغامات:
    1,514
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت واٍصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ

    ماشاءاللہ۔ مجھے بھی واصف علی واصف کی کتابیں بہت پسند ہیں ان کے بارے میں کافی معلومات ملیں یہ آرٹیکل پڑھ کر سارا نہیں پڑھا ابھی اپنے پاس محفوظ کر لیا ہے
    شکریہ خانمجان
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت واٍصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ

    السلام علیکم۔
    ایک عظیم انسان کے حالات زندگی سے آگہی دینے پر شکریہ ۔ جزاک اللہ خیرا

    والسلام
     
  6. عفت
    آف لائن

    عفت ممبر

    شمولیت:
    ‏21 فروری 2011
    پیغامات:
    1,514
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت واٍصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ

    کیا واصف علی واصف صاحب کا کچھ کلام یا تحریریں مل سکتی ہیں پڑھنے کے لیے۔۔۔۔۔؟
     
  7. خانمجان
    آف لائن

    خانمجان ممبر

    شمولیت:
    ‏4 فروری 2011
    پیغامات:
    7
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:

اس صفحے کو مشتہر کریں