1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حضرت شاہ حسین عرف مادھو لال حسین کی زندگی کے چند اوراق

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از محمد قیصر حسین عظیمی, ‏16 مئی 2019۔

  1. محمد قیصر حسین عظیمی
    آف لائن

    محمد قیصر حسین عظیمی ممبر

    شمولیت:
    ‏15 مئی 2019
    پیغامات:
    7
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    ملک کا جھنڈا:
    شاہ حسین فقیرالمعروف مادھو لال حسینؒ ایک صوفی بزرگ اور پنجابی شاعر تھے جو فقیرِ لاہور کے نام سے بھی معروف ہیں۔
    شاہ حسینؒ لاہوری 945ھ بمطابق1539ء میں ٹکسالی دروازے لاہور میں پیدا ہوئے۔آپ کے والدِ گرامی کا اسمِ گرامی شیخ عثمان تھاجو کپڑا بننے کے پیشے سے منسلک تھے۔ آپؒ کے داد ا کا نام کلجس رائے ہندو تھا جو فیروز شاہ تغلق کے دور میں دائرہِ اسلام میں داخل ہونے کی سعادت سے بہرہ مند ہوئے تھے۔
    شاہ حسین ؒ دنیائے تصوف کے فرقۂ ملامتیہ سے تعلق رکھنے والے صاحبِ کرامت صوفی بزرگ اور شاعر تھے۔ آپؒ اُس عہد کے نمائندہ ہیں جب شہنشاہ اکبر بادشاہ مسندِ اقتدار پر براجمان تھا۔ شاہ حسین ؒ پنجابی زبان وادب میں’’کافی‘‘کی صنف کے موجد ہیں۔آپ ؒ پنجابی زبان کے اوّلین شاعر تھے جنہوں نے ہجروفراق کی کیفیات کے اظہار کیلئے عورت کی پُرتاثیر زبان استعمال کی۔ شاہ حسین ؒ نے بے مثل پنجابی شاعری کی‘ اُن کی شاعری میں عشقِ حقیقی کا اظہار ہوتا ہے
    بچپن میں شاہ حسینؒ کے والد آپ کو ٹیکسالی گیٹ کی بڑی مسجد میں حافظ أبوبکر کے پاس حفظ قرآن پاک کے لئے چھوڑ آئے۔ شاہ حسینؒ نے دس برس کی عمر تک سات پارے حفظ کر لئے اسی دروان ایک صوفی درویش حضرت بہلول حافظ ابو بکر کی مسجد میں تشریف لائے۔ حضرت بہلول ضلع جھنگ کے قصبہ لالیاں کے قریب دریائے چناب کے کنارے ایک گائوں بہلول کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے حافظ ابو بکر سے شاہ حسینؒ کے متعلق دریافت کیا۔ شاہ حسینؒ حضرت بہلول کے روبرو پیش ہوئے تو حضرت بہلول نے شاہ حسینؒ کو خوب پیار کیا اور دریائے راوی سے وضو کے لئے پانی لانے کے لئے کہا۔ شاہ حسینؒ فوراً دریا سے پانی لے کر واپس مڑے تو دریا کے کنارے ایک سبز پوش نورانی صورت بزرگ کو دیکھا جنہوںنے شاہ حسینؒ کو فرمایا کہ بیٹا تھوڑا سا پانی میرے ہاتھ پر ڈال دو شاہ حسینؒ نے پانی بزرگ کے ہاتھ پر ڈال دیا۔ بزرگ نے وہ پانی شاہ حسینؒ کے منہ میں ڈال دیا ۔پانی حلق سے اترنا تھا کہ شاہ حسینؒ کی دنیا بدل گئی۔ پھر سبز پوش بزرگ نے خضرکے نام سے اپنا تعارف کروایا اور ہدایت کی کہ پیرومرشد کے پاس جائو اور میرا سلام پیش کرنا۔ شاہ حسینؒ پانی لے کر حضرت بہلول کے پاس پہنچے اور تمام واقعہ گوش گذار کیا۔ حضرت بہلول نے وضو کیا ور بارگاہ خدا وندی میں خصوصی دعا فرمائی۔ حضرت بہلول نے حافظ ابوبکر سے دریافت کیا کہ یہاں تراویح کی نماز کون کراتا ہے؟ حافظ ابو بکر نے کہا کہ میں کراتا ہوں۔ حضرت بہلول نے فرمایا کہ اس مرتبہ شاہ حسینؒ تراویح کی نماز کی امامت کریں گے۔ شروع رمضان میں شاہ حسینؒ نے امامت فرمائی آپ کو چھ سپارے یاد تھے جب وہ سنا چکے تو حضرت بہلول کی خدمت میں عرض کیا جی حضرت جو قرآن مجھے یاد تھا وہ سنا چکا ہوں۔جواب میں حضرت بہلول نے شاہ حسینؒ کو دریائے راوی سے دوبارہ پانی لانے کیلئے کہا۔ حضرت بہلول نے اس پانی سے وضو کیا اور شاہ حسینؒ کے حق میں دعا فرمائی ‘ اس کے بعد انہوں نے 27 رمضان تک سارا قرآن پڑھ کر مکمل کر لیا۔ سب لوگ حیران رہ گئے کہ اس بچے کو صرف کچھ پارے یاد تھے‘ مکمل قرآن پاک کیسے یاد ہو گیا۔ رمضان المبارک کے بعد حضرت بہلول شاہ حسینؒ کو لے کر دربار حضرت داتا گنج بخشؒ لے گئے اور فرمایا کہ بیٹا یہ تیرے بھی مرشد ہیں اور میرے بھی مرشد ہیں۔ اب تم ان کی خدمت میں حاضر رہنا حضرت بہلول شاہ حسینؒ کو داتا علی ہجویریؒ کے سپرد کرنے کے بعد پنڈی بھٹیاں کی طرف روانہ ہوگئے۔ حضرت شاہ حسینؒ نے عبادت و ریاضت کا ایسا لبادہ اوڑھ لیا کہ دنیا و مافیہاکی خبر نہ رہی۔ ہر رات دریائے راوی میں کھڑے ہوکر پورا قرآن پڑھتے ۔صبح دربار حضرت علی ہجویریؒ پر حاضر ہوکر تلاوت کلام پاک میں مشغول رہتے اور روزانہ روزہ بھی رکھتے۔ؒؒ آپ انتہائی درویش صفت بزرگ اور باکمال صوفی شاعر ہیں۔ آپ نے کافی کی صنف کو موسیقی کے سروں کے ساتھ متعارف کرایا۔
    مادھولال حسینؒ کی عشقِ حقیقی میں ڈوبی ہوئی آواز ایک درویش صفت اور مست الست انسان کی آواز ہے جو آج سے تقریبا ساڑھے چار سو سال قبل خطہ پنجاب میں گونجی اور پھر دیکھتے دیکھتے پاک وہند میں پھیل گئی۔ شاہ حسینؒ پنجاب کے ان سرکردہ صوفیاء میں سے ہیں جنہوں نے برصغیرمیں خدا کی وحدانیت کا پیغام گھر گھر پہنچایا۔ مادھولال حسینؒ کا عشق اپنی نوعیت کا عجیب فلسفہ ہے۔ایک روز قرآن کی تفسیر پڑھتے ہوئے وہ اس آیت پر پہنچے جس کا ترجمہ یہ ہے ’’دنیا ایک کھیل کود کے سوا کچھ نہیں‘‘ اس آیت کا شاہ حسینؒ پر ایسا اثر ہوا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر لال کپڑے پہن، داڑھی مونچھ منڈوا کر گانا بجانا شروع کر دیا اور فقیروں کے ملامتیہ فرقے میں شامل ہو گئے اور زندگی کے بقیہ ستائیس برس جذب و سکر کی حالت میں گزارے
    اسی دور میں شاہ حسینؒ کو ایک برہمن ہندو لڑکے مادھو لال سے عشق ہو گیا‘ اسی عشق کی وجہ سے لوگ شاہ حسینؒ کو شاہ حسینؒ کی بجائے مادھو لال حسینؒ کہنے لگے۔مادھو نے بھی سر تسلیم خم کیا اور باقی تمام عمر شاہ حسینؒ کی مریدی میں گزار دی۔
    شہرِ اولیاء لاہور میں برس ہا برس تک درویشانہ رقص و سرورکی محفلیں آباد کرنے کے بعد 1008ھ میں حضرت شاہ حسینؒ کا وصال ہوگیا، آپ کو شاہدرہ میں سپرد خاک کیا گیا۔ آپ کی پیشگوئی کے مطابق دریائے راوی میں تیرہ سال بعد سیلاب کا ذکر کیا گیا تھا۔ پیش گوئی کے مطابق قبر کی شکستہ حالی کے باعث آپ کا مدفن بابو پورہ موجودہ باغبانپورہ منتقل کیا جانا تھا۔ چنانچہ حضرت مادھو لال حسینؒ نے مرشد کا جسد خاکی وصیت کے مطابق یہاں سے منتقل کر دیا۔اس طرح حضرت شاہ حسینؒ کا مزار مبارک صدیوں سے باغبان پورہ لاہور شہر میں فیوض و برکات کا سرچشمہ ہے۔ جہاں ہرسال مارچ کے آخری ہفتے میں میلہ لگتا ہے جوکہ میلہ چراغاں کے نام سے ساری دنیا میں مشہور ہے۔ ٭
    مادھولال، ۔شاہ حسین ؒ کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد تقریباً اڑتالیس سال تک زندہ رہے۔ اور جب مادھولال نے بھی اس دنیا سے رختِ سفر باندھا تو انہیں شاہ حسین ؒ کے برابر میں ایک مقبرے میں دفنا دیا گیا۔ یہ مزار آج تک عقیدت مندوں کی بہت بڑی تعداد کا مرجع ہے کہ یہاں جدا نہ ہو سکنے والے دو ایسے عاشقوں کی قبریں ہیں جو مرنے کے بعد بھی عین اسی طرح ایک ہیں جیسے اپنی زندگی میں تھے۔

    مائے نی میں کہنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال
    دھواں دھکھے مرے مرشد والا جاں پھولاں تاں لال
    سولاں مار دیوانی کیتی برہوں پیا ساڈے لال
    دکھاں دی روٹی، سولاں دا سالن، آہیں دا بالن بال
    جنگل بیلے پھرے ڈھونڈیندی اجے نہ پائھو لال

    کہے حسین فقیر نمانا شوہ ملے تاں تھیواں نہال
     

اس صفحے کو مشتہر کریں