1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حضرت بہاؤالدین ذکریاؒ۔۔

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از احتشام محمود صدیقی, ‏4 جنوری 2014۔

  1. احتشام محمود صدیقی
    آف لائن

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2011
    پیغامات:
    4,538
    موصول پسندیدگیاں:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت بہاؤالدین ذکریاؒ۔۔
    [​IMG]
    شمالی مغربی ہندوستان میں اپنے زمانے کے سلسلۂ سہروردیہ کے اہم صوفی تھے۔اس سلسلے کا آغاز بغداد میںہوا تھا۔حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ اور حضرت بابا فریدالدین گنجشکر آپ کے ہم عصر تھے۔آپ کا سلسلۂ نسب قریشی اسدی ہاشمی تھا۔
    آپ کے دادا شیخ کمال الدین علی شاہ سن ۲۰۰ ھ ۔۔میں مکہ سے خوارزم اور پھر ملتان کے نزدیک کوٹ کروڑ تشریف لائے۔ ان کے والد شیخ وجیہہ الدین نے مولانا حسام الدین ترمذی کی صاحب زادی بی بی فاطمہ سے شادی کی۔بعض روایات میں ہے کہ ان کی والدہ حضرت بابا فرید الدین گنجشکر کی والدہ کی بہن تھیں۔آپ پیدائشی ولی تھے۔کہا جاتا ہے کہ ان کے والد قرآن پڑھتے توآپ دودھ پینا چھوڑ کر قرآن پاک کی تلاوت پوری توجہ اور احترام سے سننے لگتے۔
    آپ۵۶۶ھ۔ میں کوٹ کروڑ میں بروز جمعہ بتاریخ ۲۷۔۔ رمضان المبارک تولد ہوئے۔ بعضوںکا خیال ہے کہ آپ کی پیدائش۵۸۷ھ (۱۱۹۲ء) کو ہوئی،یعنی اسی سال جس سال حضرت معین الدین چشتیؒ اجمیر میںوارد ہوئے۔انھوں نے نا صرف سات سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا بلکہ سات قسم کے لحن میںقرأت پر بھی عبور حاصل کیا۔
    والد کی وفات کے بعدآپ خراسان چلے گئے اور دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ باطنی تہذیب پر سات برس تک مشغول رہے۔انھوںنے تکمیل تعلیم بخار ا میں کی۔اور اپنی پاکیزہ عادات ۔۔و اطوار کی وجہ سے فرشتہ کے عرف سے مشہور ہو گئے۔ یہاں سے مکہ مدینہ کا سفر اختیار کیا جہاں اس زمانے کے جید محدث شیخ کمال الدین یمنی سے علمِ حدیث میں سند حاصل کی۔مدینہ سے آپ یروشلم، پھر بغداد گئے اور شیخ شہاب الدین سہروردی کے حلقۂ طریقت میں شامل ہو گئے۔ اور صرف 17 دن کی قلیل مدت میں تصوف کے اسرار و رموز میںدرک حاصل کر کے خرقۂ خلافت پایا۔دوسرے شاگرد آپ سے حسد کرنے لگے تو شیخ شہاب الدین نے فرمایا کہ بہاؤالدین سوکھی لکڑ ی کی طرح ہے جو جلد آگ پکڑتی ہے جب کہ تم گیلی لکڑیوں کی طرح ہو جنھیں آگ پکڑنے میں دیر لگتی ہے۔
    خرقہ ٔخلافت عطا ہونے سے قبل حضرت بہاؤالدین نے خواب دیکھا کہ ایک روشنیوںکا گھر ہے جس میںحضورﷺ شیخ شہاب الدین عمر سہروردی کے ساتھ تشریف فرما ہیں۔وہاں ایک رسی بندھی ہے جس پر بہت سے خرقے لٹک رہے ہیں۔حضورﷺ نے ایک خاص خرقے کی طرف اشارہ کر کے حضرت شہاب الدین سے فرمایا کہ ’’اے عمر! یہ خرقہ بہاؤالدین کو پہنا دو۔ حضرت بہاؤالدین نے حضورﷺ کے پیر مبارک کو چھوا اور خرقہ لے کر پہن لیا۔
    جب صبح آنکھ کھلی تو انھیں شیخ شہاب الدین نے طلب فرمایا۔حضرت بہاؤالدین کو ہو بہو خواب کے منظر کا عکس نظر آیا۔ شیخ نے آپ کو ایک خرقہ عطا فرمایا اور کہا کہ یہ خرقے حضورﷺ کے ہیں جنھیں میں حضور ﷺ کی اجازت سے ہی کسی کو دے سکتا ہوں،جیسا کہ تم نے پچھلی رات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
    شیخ شہاب الدین نے آپؒ کو واپس ملتان جا کر سلسلہ رشد و ہدایت شروع کرنے کا حکم دیا۔آپ کے ساتھ حضرت جلال الدین تبریزی بھی تھے جنھیں بنگال جانے کا حکم دیا گیا۔ چنانچہ دونوں حضرات جب نیشاپور پہنچے تو شیخ جلال الدین تبریزیؒ حضرت فرید الدین عطار ؒسے ملے۔ واپسی پر حضرت بہاؤالدین ؒنے نے پوچھا کہ ان درویشوںمیںسے سب سے اچھا کس کو پایا۔ تو انھوںنے جواب دیا بلا شبہ عطار بہترین ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ایک مشکل سفر کے بعد آپ ملتان پہنچے اور وہاں ایک حلقہ درس قائم کیا ۔وہاںکے شیوخ نے دودھ سے لبا لب پیالہ ان کی خدمت میں بھجوایا۔ شیخ نے اس میں گلاب کا پھول رکھ کر واپس کر دیا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ اگرچہ تم سب موجود ہو لیکن میری حیثیت تم میںپھول کی مانند ہو گی۔ تمام لوگ آپ کی ذہانت، دور رسی اور خوش اخلاقی سے بہت متاثر ہوئے۔چنانچہ آپ عبادت و ریاضت میںمصروف ہو گئے اور حق کی تعلیم دینے لگے۔آپ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی اور بڑی تعداد میں تاجر حضرات عراق اور خراسان سے آپ کی خدمت میںحاضر ہونے لگے۔آپ نے ایک وسیع خانقاہ تعمیر کرائی جہاں غلے کے ڈھیر لگے تھے۔ لیکن یہاں معروف مذہبی علما ، تاجراور طبقۂ شرفا کے لوگ ہی قیام پذیر ہو تے تھے۔عام آدمی کا یہاں گزر مشکل تھا۔
    شہاب الدین محمد غوری کے ہاتھوںپرتھوی راج کی شکست کے بعد دہلی میں قطب الدین ایبک بحیثیت نائب حکومت کرتا تھاجبکہ ناصر الدین قباچہ ملتان کا گورنر تھا۔ ایبک کی وفات کے بعد التمش دہلی کا حکمران بنا جو کہ ایک خدا ترس، نیک، متقی، سخی انسان تھا اور حضرت بختیار کاکی ؒ کا مرید تھا۔ لیکن قباچہ نے اس سے بغاوت کی اور خود کو ملتان کا حاکم قرار دیا۔ ملتان کے قاضی مولانا شرف الدین اصفہانی اور شیخ بہاؤ الدینؒ اس سے خوش نہ تھے۔انھوںنے التمش کو اس کی اطلاع دی۔ لیکن التمش کو لکھے گئے دو

    خطوط قباچہ کے جاسوسوںنے پکڑ لئے۔ قباچہ نے قاضی صاحب کو فوراً قتل کرا دیا شیخ بہاؤالدین کو اپنے محل میں طلب فرمایا اور خط کے متعلق استفسار کیا۔شیخ نے انتہائی جر أت سے جواب دیا کہ انھوںنے خط خدائی حکم کے بموجب ارسال کیا تھا۔ آپ کا جواب سن کر قباچہ کانپنے لگا اور آپ کو جانے کا حکم دیا۔
    حضرت بہاؤالدین نے ملتان میں شادی کی ۔ آپ کے سات بیٹے تھے۔ آپ کو اپنے بیٹے شیخ صدر الدین عارف کے صاحبزادے رکن الدین ابو الفتح سے محبت تھی جو کہ بہت بڑے صوفی تھے۔
    آپ کی وفات کا واقعہ بہت عجیب ہے۔ ایک دن ایک مرید نے ایک خط آپ کے صاحبزادے شیخ صدر الدین کو دیا کہ اسے اپنے والد کو دے دیں۔شیخ صدر الدین نے جب خط پر لکھا پتا دیکھا تو ان کا رنگ زرد پڑ گیا۔ انھوںنے وہ خط شیخ بہاؤالدین کو دیا جسے پڑھ کر آپ بآوازِ بلند رونے لگے۔ اسی رات آپ کا انتقال ہو گیا۔
    آپ نے اپنی زندگی ہی میں اپنے خرچ پر اپنا مزار تعمیر کرایا۔ مزار کے دو درجے ہیں۔ نیچے والا حصہ روایتی چوکور طرز کا ہے جبکہ اوپر والا حصہ ہشت پہلو ہے۔
    آپ کے خلفا میں حضرت صد ر الدین عارف، حضرت سید جلال الدین سرخپوش بخاری، حضرت شیخ حسن افغان، حضرت سید عثمان مروندی عرف لال شہباز قلندر، حضرت شیخ فخر الدین ابراہم عراقی اور سید حسین معروف ہیں۔


    اردو ڈائجسٹ
     
    ملک بلال اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ
    حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمۃاللہ علیہ کے بارے میں ایک عمدہ ایمان افروز اور معلوماتی مراسلہ شیئر کرنے کے لیے شکریہ @احتشام محمود صدیقی جی
    خوش رہیں
    بہت جئیں
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں