1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حضرت بابا بلھے شاہ رحمت اللہ علیہ

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از ھارون رشید, ‏12 اکتوبر 2011۔

  1. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]

    حضرت بابا بلھے شاہ مغلیہ سلطنت کے عالمگیری عہد کی روح کے خلاف رد عمل کا نمایاں ترین مظہر ہیں۔ آپ کا تعلق صوفیاء کے قادریہ مکتبہ فکر سے تھا۔ آپ کی ذہنی نشوونما میں قادریہ کے علاوہ شطاریہ فکر نے بھی نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ اسی لئے آپ کی شاعری کے باغیانہ فکر کی بعض بنیادی خصوصیات شطاریوں سے مستعار ہیں۔ ایک بزرگ شیخ عنایت اللہ قصوری، محمد علی رضا شطاری کے مرید تھے۔ صوفیانہ مسائل پر گہری نظر رکھتے تھے اور قادریہ سلسلے سے بھی بیعت تھے اس لئے آپ کی ذات میں یہ دونوں سلسلے مل کر ایک نئی ترکیب کا موجب بنے۔ بلھے شاہ انہی شاہ عنایت کے مرید تھے۔ بلھے شاہ کا اصل نام عبد اللہ شاہ تھا۔ 1680ء میں مغلیہ راج کے عروج میں اوچ گیلانیاں میں پیدا ہو ئے۔ کچھ عرصہ یہاں رہنے کے بعد قصور کے قریب پانڈو میں منتقل ہو گئے۔

    ابتدائی تعلیم یہیں حاصل کی۔ قرآن ناظرہ کے علاوہ گلستان بوستان بھی پڑھی اور منطق ، نحو، معانی، کنز قدوری ،شرح وقایہ ، سبقاء اور بحراطبواة بھی پڑھا۔ شطاریہ خیالات سے بھی مستفید ہوئے۔ مرشد کی حیثیت سے شاہ عنایت کے ساتھ آپ کا جنون آمیز رشتہ آپ کی مابعد الطبیعات سے پیدا ہوا تھا۔ وہ آپ کے وحدت الو جودی تھے، اس لئے ہر شے کو مظہر خدا جانتے تھے۔ مرشد کے لئے انسان کامل کا درجہ رکھتے تھے۔ مصلحت اندیشی اور مطابقت پذیری کبھی بھی ان کی ذات کا حصہ نہ بن سکی۔ ظاہر پسندی پر تنقید و طنز ہمہ وقت آپ کی شاعری کا پسندیدہ جزو رہی۔ آپ کی شاعری میں شرع اور عشق ہمیشہ متصادم نظر آتے ہیں اور آپ کی ہمدردیاں ہمیشہ عشق کے ساتھ ہوتی ہیں۔ آپ کے کام میں عشق ایک ایسی زبردست قوت بن کر سامنے آتا ہے جس کے آگے شرع بند نہیں باندھ سکتی ۔

    اپنی شاعری میں آپ مذہبی ضابطوں پر ہی تنقید نہیں کرتے بلکہ ترکِ دنیا کی مذمت بھی کرتے ہیں اور محض علم کے جمع کرنے کو وبالِ جان قرار دیتے ہیں۔ علم کی مخالفت اصل میں” علم بغیر عمل“ کی مخالفت ہے۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ بلھے شاہ کی شاعری عالمگیری عقیدہ پرستی کے خلاف رد عمل ہے۔ آپ کی زندگی کا بیشتر حصہ چونکہ لاقانونیت، خانہ جنگی، انتشار اور افغان طالع آزماؤں کی وحشیانہ مہموں میں بسر ہوا تھا، اس لئے اس کا گہرا اثر آپ کے افکار پر بھی پڑا۔ آپ کی شاعری میں صلح کل، انسان دوستی، اور عالم گیر محبت کا جو درس ملتا ہے ،وہ اسی معروضی صورت حال کے خلاف رد عمل ہے۔بلھے شاہ کا انتقال 1757ء میں قصور میں ہوا اور یہیں دفن ہوئے۔ آپ کے مزار پر آج تک عقیدت مند ہر سال آپ کی صوفیانہ شاعری کی عظمت کے گن گا کر آپ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
     
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت بابا بلھے شاہ رحمت اللہ علیہ

    معروف پنجابی صوفی شاعر بلھے شاہ کا عرس بھادوں کے مہینے میں منایا جاتا ہے مگر اس برس رمضان المبارک کی وجہ سے درگاہ کے منتظمین نے اس کو اسوج کے مہینے میں منتقل کردیا اور جمعرات کو مزار پر چادر پوشی سے عرس کی تین روزہ تقریبات شروع ہوگئیں۔

    مسلمانوں نے تو بابا بلھے شاہ پر بہت لکھا ہے مگر ہندو اور سکھ ادیبوں نے بھی اُن کی شخصیت اور شاعری پر کم کتابیں اور مضامین نہیں لکھے ہیں۔ گرونانک کے حوالے سے ایک مذہبی تقریب میں شرکت کے لیے لاہور آئے ہوئے ایک سکھ یاتری پرکاش سنگھ نے بتایا کہ مشرقی پنجاب میں بابا بلھے شاہ پر گرومکھی اور ہندی میں اب بھی کتابیں شائع ہوتی ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ بھارتی پنجاب کے گھروں میں بابا بلھے شاہ کا کلام عام سُنائی دیتاہے۔

    واضح رہے کہ 2007ء میں بھارت سے ایک 61 رکنی وفد بھارتی راجیہ سبھا کی آں جہانی رکن نرملا دیش پانڈے کی قیادت میں بابا بلھے شاہ کے عرس کی تقریبات میں شرکت کے لیے آیا تھا اور یہ لوگ اپنے ہمراہ دربار حضرت نظام الدین اولیا اور امیر خسرو کی طرف سے چادریں لائے تھے جو اظہارِ عقیدت کے طور پر بابا بلھے شاہ کے مزار پر چڑھائی گئی تھیں۔

    پنجابی کے ایک معروف ادیب آصف خان نے ہندووں اور سکھوں کی بابا بلھے شاہ کی عقیدت کے حوالے سے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ قصور کے نواح میں جہاں بلھے شاہ مقیم تھے مسلمانوں کے قتل کا بدلہ لینے کےلیے اپنے علاقے سے گزرنے والے ایک سکھ مسافر کو جب مسلمانوں نے قتل کردیا تو بلھے شاہ اس پر سخت ناراض ہوئے اور بے قصور سکھ کے قتل کی پُرزور انداز میں مذمت کی۔ آصف خاں کے بقول بلھے شاہ کٹر مذہبی رجحان کے مالک مسلمانوں، ہندووں اور سکھوں کو ان دشمنیوں کا سبب سمجھتے تھے یہی وجہ تھی کہ اُن کے خلاف مولویوں نے کفر کے فتوے دے رکھے تھے اور روایات کے مطابق 1757ء میں جب بابا بلھے شاہ کا انتقال ہوا تو مولویوں نے اُن کا جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا تھا۔

    آصف خان کہتے ہیں کہ مولویوں کی نفرت کے باوجود آج ڈھائی سو برس بعد بھی بابا بلھے شاہ کے مزار پر رونق اس شاعر کے سچے جذبوں کی غمازی کرتی ہے۔

    قصور میں بلھے شاہ کے مزار پر اُن کے سوانحی کے بارے میں جوکتابچہ تقسیم کیا جاتا ہے اُس کے مطابق وہ 1680ء میں بہاولپور کے قریب اوچ شریف میں پیدا ہوئے جو اُن کے دور میں اوچ گیلانیاں کہلاتا تھا اور سندھ کا حصہ باور کیا جاتا تھا۔ چھوٹی عمر میں بلھے شاہ کے والد کا انتقال ہوگیا تو وہ قصور منتقل ہوگئے۔ ابتدائی تعلیم وہی مکمل کی اور شاہ عنایت قادری کے مرید ہوئے۔

    بلھے شاہ کے دور میں پنجاب میں سیاسی عدم استحکام تھا اور ہر طرف افراتفری اور نفسا نفسی تھی جس نے بلھے شاہ کے سچے جذبوں کو اُجاگر کیا اور وہ ایک بے مثال شاعر کے طور پر اُبھرے۔ اُن کی پذیرائی ہر دور میں ہوتی رہی ہے۔ صوبہ پنجاب کے لوک فن کار دو صدیوں سےاُن کا کلام گا رہے ہیں۔

    عابدہ پروین نے بلھے شاہ کی کافیاں بڑے خوبصورت انداز میں گائی ہیں۔ استاد نصرت فتح علی خاں قوالی کے انداز میں بلھے شاہ کا کلام پیش کرکے داد حاصل کرتے رہے جب کہ موسیقی کے جدید انداز کو جن گروپوں نے اپنایا وہ بھی بلھے شاہ کا کلام گاتے ہیں۔ ان میں میوزک گروپ جنون اور بھارتی فن کار ربی نمایاں ہیں۔ جنون نے بابا کی مشہور کافی ’بلھیا، کیہ جاناں میں کون‘ کو جدید انداز میں گا کر خوب داد وصول کی۔ حال ہی میں بننے والی فلم خدا کے لیے میں بھی بلھے شاہ کا کلام سائیں ظہور کی آواز میں شامل ہے اور معروف تھیٹر گروپ اجوکا بلھا کے نام سے اپنا معروف ڈرامہ پاکستان اور بھارت میں پیش کرکے اس صوفی شاعر کو خراجِ عقیدت پیش کرچکا ہے۔
     
  3. معید
    آف لائن

    معید ممبر

    شمولیت:
    ‏9 اکتوبر 2011
    پیغامات:
    10
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت بابا بلھے شاہ رحمت اللہ علیہ

    really great topic i love it
     
  4. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت بابا بلھے شاہ رحمت اللہ علیہ

    شکریہ ہارون بھائی ۔۔۔بہت اچھا مضمون شئیر کیا ہے
     
  5. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت بابا بلھے شاہ رحمت اللہ علیہ

    ہارون بھائی اس شیئرنگ کا شکریہ :flor:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں