1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حضرت ام ِ حبیبہ بنت ِ ابو سفیان

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از نذر حافی, ‏9 مئی 2013۔

  1. نذر حافی
    آف لائن

    نذر حافی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 جولائی 2012
    پیغامات:
    403
    موصول پسندیدگیاں:
    321
    ملک کا جھنڈا:
    از۔۔۔ شمس جیلانی
    ہم گزشتہ مضمون میں حضرت صفیہ (رض)بنت ِ حیی کے وصال تک پہونچے تھے اب آگے بڑھتے ہیں ۔ حضرت ام ِ حبیبہ (رض) دسویں خاتون ہیں جن کو ام المونین بننے کا شرف حاصل ہوا اور ساتھ ہی وہ تیسری خاتون بھی، جن کو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے بذریعہ الہام ام المونین (رض) بننے کی بشارت دی۔ان کا اصل نام رملہ بنت ِ ابو سفیان تھا اور کنیت اُم ِ حبیبہ تھی۔ وجہ کنیت ان کی وہ صاحبزادی تھیں جن کا نام حبیبہ(رض) تھااور جو ان کے پہلے شوہر عبید اللہ بن جحش سے تھیں۔ جو کہ ایک زمانے میں حق کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ ہم بارہا لکھ چکے ہیں کہ ہر دور میں ایک گروہ مکہ معظمہ میں ایسا موجود رہا کہ جو بت پرستی سے متنفر تھا، انہیں میں سے یہ چار دوستوں کا ٹولہ تھا جن کے نام ورقہ بن نوفل ، زید بن عمرو بن نفیل، عثمان بن حویرث اور عبید اللہ بن جحش تھے۔ ان میں سے حضرت ورقہ بن نوفل نے عیسائیت اختیار کرلی اور انجیل کے بہت بڑے عالم بن گئے اور حضور (رض) پر پہلی وحی کے نزول کے موقعہ پر موجود تھے اور انہوں نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ جو آپ کے پاس پیغام ِ حق لایا ہے یہ وہی فرشتہ ہے جو تمام نبیوں (ع)کے پاس آتا رہا ہے اور ایک وقت آئے گا کہ آپ کی قوم آپ کی دشمن ہو جائے گی، اگر اس وقت تک میں زندہ رہا تو آپ کی مدد کرونگا؟ اس کے بعد دو روایتیں ملتی ہیں ایک تو یہ کہ وہ شام کی طرف چلے گئے پھر ان کی کوئی خبر نہ ملی، دوسری یہ کہ ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ اللہ کو پیارے ہو گئے؟واللہ عالم۔ مگر ان کے سلسلہ میں حضور (ص) کا یہ ارشاد گرامی ملتا ہے کہ میں نے معراج کے موقعہ پر ان کو جنت میں دیکھا ہے۔
    اور دوسرے ساتھی ز ید بن عمرو نے نہ نصرانیت قبول کی نہ کوئی دوسرا مذہب وہ ملحد ہی رہے ۔جبکہ تیسرے ساتھی عثمان بن حویرث نے عیسائیت قبول کرلی شام چلے گئے ،شاہ روم تک رسائی حاصل کی ، پوپ بنے اور وہیں مرے اور دفن ہو ئے۔ چوتھےعبید اللہ بن جحش تھے ۔ جنہوں نے اسلام قبول کرلیا جبکہ ان کی شادی حضرت رملہ بنت ابو سفیان کے ساتھ ہوئی تھی انہوں نے بھی اسلام قبول کرلیا اور دونوں ابو سفیان کے مظالم سے گھبرا کر حبشہ ہجرت کر گئے ،وہاں ان سے دوبچے پیدا ہوئے ایک کانام حبیبہ تھا جوکہ وجہ کنیت بنیں۔ جبکہ صاحبزدے کانام عبد اللہ تھا صاحبزادی کا ذکر تو ہے کہ انہوں نے حضور (ص)کے زیر ِ سایہ پرورش پائی مگر صاحبزادے کی زیادہ تفصیل تاریخ میں نہیں ملتی۔ وہاں جا کر ان کے شوہر عبید اللہ بن جحش نصرانیت سے مرعوب ہو گئے اور نصرانیت قبول کر لی؟ وہ ان پر بھی زور دیتے رہے کہ وہ بھی نصرانیت قبول کر لیں! اسی دوران انہوں نے ایک خواب دیکھا کہ ان کو کوئی ام المونین کہہ کر پکار رہا ہے ،اور ان کے شوہر کاچہرہ مسخ ہو گیا ہے، انہوں نے اس کی تعبیر سمجھ لی اور ان کے پا ئے استقامت مین لغزش نہیں آئی ؟ نتیجہ یہ نکلا کہ گھریلیوں تلخیوں کو وہ شراب پی کر بھلانے کی کوشش میں ہروقت نشے میں دہت رہ کر بھلانے میں لگے، رہے حتی ٰ کہ وہیں مر کر جان دی۔ اب ان پر یہ دوسرا بڑا امتحان آپڑا لیکن انہوں (رض) نے ہمت نہیں ہاری اور صرف تین دن تک ان کا سوگ منا کر ،اپنے معمولاتِ زندگی میں یہ فرما کر شامل ہو گئیں کہ مردے کی عدت میرے آقا نے چار مہینے بتائی ہے ،مگر سوگ صرف تین دن کا بتایا ہے؟
    اُدھر ان کے والد غزوہ احزاب میں جس کو عرف عام میں غزوہ خندق کہا جاتا ہے ،دس ہزار فوج لا کر بھی مدینہ کو اپنی خواہش کے مطابق تاراج نہ کر سکے اور ذلت سے بھاگنے پر مجبور ہوگئے جبکہ بعد میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر کے مسلمانوں کو یقین دہانی کرادی کہ کفار آئندہ کبھی تم پر چڑھائی کر کے نہیں آسکیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ ان کایہ عزم اس خط و کتابت سے ظاہر ہے جو کہ انہوں نے حضور (ص) کے نام تحریر کیا۔ جو درجِ ذیل ہے۔
    ً ابو سفیان کی جانب سے محمد (ص) بن عبد اللہ کے نام
    میں اپنے معبودوں لات، مناة، عزّہ، اساف، نائلہ اور حبل کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میں ایک لشکر جرار لیکر یہاں پہونچا تھا تاکہ تمہیں نیست اور نابود کردوں اور جب تک تمہاری جڑ نہ کاٹ دوں واپس نہ جا ؤں، تم ہمارے مقابلہ سے پہلو تہی اختیار کر رہے ہو، اور یہ خندق کھود کر ایک ایسی راہ اختیار کی جوکہ عربوں کا طریقہ جنگ نہیں ہے، یہ کیسا طریقہ ایجاد کیا ہے؟ عرب تو تیروں کے سائے اور تلوا ر کی جھنکار میں میدان ِ جنگ میں اترنے کے عادی ہیں ۔ یقینا ً تم نے ہماری تلوار سے ڈرکر یہ راہ اختیار کی ہے۔ یاد رکھو آج تمہارے ساتھ ویسا ہی سلوک ہو گا جو احد میں ہوا تھا ً
    اس کے جواب میں جو خط حضور (ص) نے اسے لکھا وہ درجہ ذیل ہے۔
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہ
    محمد (ص) کی جانب سے ابو سفیان کے نام خط۔
    تمہارا خط ملا حالات سے آگا ہی ہو ئی، تم ہمیشہ سے گھمنڈ ، فخر، تکبر اور نخوت میں مبتلا ہو اور یہ جو تم نے لکھا ہے کہ میں ایک بہت بڑا لشکر لیکر آیا ہوں اور اس وقت تک واپس نہیں جا ؤگے جب تک ہمیں نست اور نابود نہ کردو سنو! مجھے امید ہے میرا رب تیرے ارادوں کو پامال کر دے گا۔ اور انجام ہمارے حق میں بہتر ہوگا،اے ناسمجھ ،یاد رکھنا کہ عنقریب ایک دن ایسا آئے گا کہ میں تیرے معبود انِ باطل !لات، مناة، عزّیٰ اساف ،نائلہ اور حبل کو تہس نہس کردونگاان کا نام اور نشان بھی صفحہ ہستی پر نہیں رہے گا ً
    جب سے مسلمان مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ میں اقامت پذیر ہو ئے تھے حبشہ سے مسلمانوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا ۔وہاں سے ایک صحابی تشریف لائے تو انہوں نے حضور (ص) کی توجہ حضرت رملہ (رض) کی طرف دلاتے ہوئے ان کی حا لتِ زار بیان کی اور فرمایا کہ عرب سردار کی بیٹی سخت تنگی میں ہے۔رسول (ص) اللہ نے حبشہ کے شاہ نجاشی کی طرف عمرو (رض) بن امیہ الضمری کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا اور شاہ کو لکھا کہ اگر ام حبیبہ (رض) پسند کریں تو میرا عقد ان کے ساتھ کر کے انہیں یہاں بھیجدیا جائے۔ نجاشی کو جب یہ پیغام ملا تو انہوں نے اپنی باندی ابراہہ کو بھیجا تاکہ مرضی معلوم کرے۔ اس نے جب یہ پیغام پہونچایا تو وہ اس خواب کی وجہ سے ذہنی طور پر پہلے ہی سے تیار تھیں ۔ انہوں نے بلا تاخیر قبول فرمالیا ؟ جب جواب اثبات میں ملا تو اس نے پھر پیغام کا دوسرا حصہ سنایا کہ آپ اپنے میں سے کسی کواپنا وکیل مقرر فرمادیں۔ تو انہوں نے اپنے قریبی رشتہ دار حضرت سعید (رض) بن عاص کو اپنا وکیل مقرر فرمادیا۔ چونکہ تنگ دستی تھی لہذا اپنے کچھ چاندی کے زیورات اتار کر اس کو عنایت فرمائے۔ نجاشی نے اسی روز شام کو تمام مسلمانوں کو ان کے سردار حضرت جعفر (رض٩ بن ابی طالب کے ساتھ بلوا بھیجا اور انکا عقد چار سو درہم کے عیوض حضور (ص) کے ساتھ کردیا ۔ اور سب حاضریں کو شاہی ضیافت سے بھی نوازا۔ جب ان کو مہر کی رقم وہی لونڈی دینے آئی تو حضرت ام ِ حبیبہ (رض) نے پچاس درہم اس کو یہ کہہ کر عنایت فرما ئے کہ میرے پاس اس وقت اس کے سوا اور کچھ نہ تھا جو کہ میں تجھے دیتی لہذا یہ اور قبول کر لے ، مگر اس نے ایک تھیلی پیش کی جس میں وہ زیورات اور شاہی خوشبو جات تھیں جو انہیں بیگمات نے نجاشی کے حکم پر بھیجی تھیں۔
    جب اسکی خبر ابوسفیان کو پہونچی تو وہ تڑپ اٹھا اور اس کو انتہائی ذلت کا احساس ہوا کے اب میں ہم چشموں کو کیا منہ دکھا ؤنگا؟ جبکہ یہ ہی رشتہ اس کے بیٹے معاویہ کو شام کی با دشاہت تک لے گیا۔ (باقی آئندہ
    بشکریہ عالمی اخبار
     
    مناپہلوان، پاکستانی55 اور تانیہ نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں