1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از ساتواں انسان, ‏7 اکتوبر 2020۔

  1. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    نسب نامہ : ابراہیم بن تارخ ، بن ناحور ، بن ساروغ ، بن راغو ، بن فالغ ، بن عابر ، بن شالح ، بن ارفخشد ، بن سام ، بن نوح {ع}
    ابن عساکر نے حضرت ابراہیم {ع} کی سوانح حیات میں روایت کیا ہے کہ ان کی والدہ کا نام امیلہ تھا
    اور کلبی فرماتے ہیں ان کی والدہ کا نام بونا بنت کربتا تھا اور یہ قبیلہ بنی ارفخشد سے تھیں
    ابن عساکر نے عکرمہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابراہیم {ع} کی کنیت ابو الضیفان تھی ، جس کا مطلب ہے مہمانوں کے باپ
    جب تارخ کی عمر 75 سال کو پہنچ گئی تو ان کے ہاں حضرت ابراہیم {ع} پیدا ہوئے ، ان کے علاوہ دو اور لڑکے جن کے نام ناحور اور ہاران تھا تارخ کی اولادوں میں شامل تھے ۔ ہاران کے ہاں حضرت لوط {ع} کی پیدائش ہوئی اس طرح حضرت لوط {ع} حضرت ابراہیم {ع} کے بھتیجے ہوئے
    پہلے ابن عساکر نے حضرت ابن عباس {رض} سے روایت کیا کہ حضرت ابراہیم {ع} غوطہ دمشق میں قاسیون کی پہاڑی علاقے میں برزہ نامی بستی میں پیدا ہوئے لیکن بعد میں ابن عساکر نے فرمایا جو صحیح قول ہے کہ حضرت ابراہیم {ع} بابل شہر میں پیدا ہوئے
    بابل کو حضرت ابراہیم {ع} کی طرف اس لیے منسوب کیا گیا کہ جب آپ اپنے بھتیجے حضرت لوط {ع} کی مدد کے لیے یہاں تشریف لائے تو یہاں آپ نے نماز ادا فرمائی تھی
    اہل تواریخ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم {ع} نے حضرت سارہ {ع} سے شادی کی اور حضرت سارہ بانجھ تھیں اور کوئی اولاد ان کے ہاں نہ ہوتی تھی
    کہتے ہیں تارخ اپنے بیٹے حضرت ابراہیم {ع} اور ان کی بیوی یعنی اپنی بہو سارہ ، اور پوتے لوط بن ہاران کو لے کر کلدانیوں کی سرزمین بابل سے چلے گئے اور کنعانیوں کی سرزمین میں آباد ہوئے اور وہاں مقام حران میں اترے اور وہیں تارخ نے وفات پائی اس وقت ان کی عمر 250 سال تھی
     
  2. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت ابراہیم {ع} کی جائے پیدائش کلدانیوں کی سرزمین بابل اور اس کے آس پاس کی جگہ ہے پھر یہ کنعانیوں کی سرزمین کا اردہ کرکے چلے اور وہ بیت المقدس کے شہر ہیں وہاں یہ حضرات حران نامی جگہ میں آباد ہوئے اس وقت یہ جگہ بھی اور شام کی سرزمین بھی کلدانیوں کے زیر سایہ ہی تھیں اور یہ سات سیاروں کی پوجا پاٹ کرتے تھے ۔ جن لوگوں نے شہر دمشق کو شروع میں بنایا یا آباد کیا وہ بھی اسی دین پر تھے ۔ یہ قطب شمالی کی طرف رخ کرتے تھے اور اقوال و افعال میں کئی طرح سے سات سیاروں کی عبادت کرتے تھے
    اسی وجہ سے دمشق کے پرانے سات دروازوں میں سے ہر ایک پر ایک سیارے کی ہیکل بناکر نصب کر رکھی تھی ۔ اور ان کے پاس عید اور تہوار کی رسوم مناتے تھے
    اسی طرح حران شہر کے لوگ بھی انہی بتوں کی عبادت کرتے تھے ۔ اور اس وقت روئے زمین پر جو بھی تھے سب کافر تھے سوائے حضرت ابراہیم {ع} کے اور ان کی بیوی سارہ ان کے بھتیجے حضرت لوط {ع} کے ۔
    حضرت ابراہیم {ع} ہی وہ شخص ہیں جن کے ذریعے اللہ نے ان فتنوں اور شر کو زائل کیا اور ضلالت اور گمراہی کو مٹایا ۔ بےشک اللہ نے ان کو بچپن ہی سے سیدھی راہ دکھلا دی تھی ۔ اور اپنا رسول منتخب کر لیا تھا پھر سن رسیدگی میں ان کو اپنا دوست بنا لیا تھا
    اللہ کا فرمان ہے " اور ہم نے پہلے ہی سے ابراہیم کو اس کی صلاحیت عطا کی تھی اور ہم اس سے واقف تھے ۔ " { سورۃ الانبیاء 51 }
    سورۃ عنکبوت میں اللہ کا فرمان ہے " اور ابراہیم کو جب اس نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو ، اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو تمہارے لیے یہی بہتر ہے ( 16 ) تم اللہ کے سوا بتوں ہی کی عبادت کرتے ہو اور جھوٹ بناتے ہو، جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو وہ تمہاری روزی کے مالک نہیں سو تم اللہ ہی سے روزی مانگو اور اسی کی عبادت کرو اوراسی کا شکر کرو، اسی کے پاس لوٹائے جاؤ گے ( 17 ) اور اگر تم جھٹلاؤ تو تم سے پہلے بہت سی جماعتیں جھٹلا چکی ہیں، اور رسول کے ذمہ تو بس کھول کر پہنچا دینا ہی ہے ( 18 ) کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ کس طرح پہلی دفعہ مخلوق کو پیدا کرتا ہے پھر اسے لوٹائے گا ، بے شک یہ اللہ پر آسان ہے ۔ ( 19 ) کہہ دو ملک میں چلو پھرو پھر دیکھو کہ اس نے کس طرح مخلوق کو پہلی دفعہ پیدا کیا ، پھر اللہ آخری دفعہ بھی پیدا کرے گا ، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے ( 20 ) جسے چاہے گا عذاب دے گا اور جس پر چاہے رحم کرے گا ، اور اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ( 21 ) اور تم زمین اور آسمان میں عاجز نہیں کر سکتے ، اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی دوست اور مددگار نہیں ہے ( 22 ) اور جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں اور اس کے ملنے سے انکار کیا وہ میری رحمت سے نا امید ہو گئے ہیں اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے ( 23 ) پھر اس کی قوم کا اس کے سوا اور کوئی جواب نہ تھا کہ اسے مار ڈالو یا جلا ڈالو پھر اللہ نے اسے آگ سے نجات دی ، بے شک اس میں ان کے لیے نشانیاں ہیں جو ایماندار ہیں ( 24 ) اور کہا تم اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو لیے بیٹھے ہو تمہاری آپس کی محبت دنیا کی زندگی میں ہے ، پھر قیامت کے دن ایک دوسرے کا انکار کرے گا اور ایک دوسرے پر لعنت کرے گا ، اور تمہارا ٹھکانہ آگ ہوگا اور تمہارے لیے کوئی بھی مددگار نہ ہوگا ( 25 ) پھر اس پر لوط ایمان لایا ، اور ابراہیم نے کہا بے شک میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں ، بے شک وہ غالب حکمت والا ہے ( 26 ) اور ہم نے اسے اسحاق اور یعقوب عطا کیا اور اس کی نسل میں نبوت اور کتاب مقرر کردی اور ہم نے اسے اس کا بدلہ دنیا میں دیا ، اور وہ آخرت میں بھی البتہ نیکوں میں سے ہوگا ( 27 ) "
     
  3. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت ابراہیم {ع} کی پہلی دعوت اپنے والد کو تھی اور ان کے والد بتوں کو پوجا کرتے تھے اس وجہ سے لوگوں میں سب سے زیادہ نصحیت کے محتاج تھے
    جیسے اللہ نے سورۃ مریم میں فرمایا " اور کتاب میں ابراہیم کا ذکر کر ، بے شک وہ سچا نبی تھا ( 41 ) جب اپنے باپ سے کہا اے میرے باپ تو کیوں پوجتا ہے ایسے کو جو نہ سنتا ہے اور نہ دیکھتا ہے اور نہ تیرے کچھ کام آ سکے ( 42 ) اے میرے باپ بے شک مجھے وہ علم حاصل ہوا ہے جو تمہیں حاصل نہیں ، تو آپ میری تابعداری کریں میں آپ کو سیدھا راستہ دکھاؤں گا ( 43 ) اے میرے باپ شیطان کی عبادت نہ کر ، بے شک شیطان اللہ کا نافرمان ہے ( 44 ) اے میرے باپ بے شک مجھے خوف ہے کہ تم پر اللہ کا عذاب آئے پھر شیطان کے ساتھی ہو جاؤ ( 45 ) کہا اے ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے پھرا ہوا ہے ، البتہ اگر تو باز نہ آیا میں تجھے سنگسار کردوں گا ، اور مجھ سے ایک مدت تک دور ہو جا ( 46 ) کہا تیری سلامتی رہے ، اب میں اپنے رب سے تیری بخشش کی دعا کروں گا ، بے شک وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے ( 47 ) اور میں چھوڑتا ہوں تمہیں اور جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو اور میں اپنے رب ہی کو پکاروں گا ، امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکار کر محروم نہ رہوں گا ( 48 ) "
    یوں اللہ نے حضرت ابراہیم {ع} اور ان کے والد کے درمیان مناظرے کا ذکر فرمایا اور کیسے حضرت ابراہیم {ع} نے اپنے والد کو حق کی طرف بلایا اور ان بتوں کی برائی اور خرابی کو بیان فرمایا
    پس جب یہ رشد و ہدایت ان کے والد پر پیش کی گئی اور یہ نصحیت و خیر خواہی ہدیہ کی گئی تو والد نے بیٹے سے اس کو قبول نہ کیا اور نہ کچھ بھی فائدہ اس سے وصول کیا بلکہ الٹا بیٹے کو ڈرایا دھمکایا ۔ اور خود الگ ہونے اور جدائی بڑھانے کو کہا
    اس پر حضرت ابراہیم {ع} نے والد پر سلامتی بھیجی اور اللہ سے ان کی مغفرت کی امید اور دعا کے وعدے کے ساتھ جدا ہوگئے ۔
     
  4. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    تو حضرت ابراہیم {ع} نے اپنے والد کے لیے وعدے کے مطابق دعائیں مانگیں ۔ لیکن جب یہ ظاہر ہوگیا کہ وہ اللہ کے دشمن ہیں تو پھر حضرت ابراہیم {ع} نے بھی والد سے علیحدگی ظاہر کردی
    اللہ فرماتا ہے " اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش کی دعا کرنا ایک وعدہ کے سبب سے تھا جو وہ اس سے کر چکے تھے ، پھر جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہو گئے ، بے شک ابراہیم بڑے نرم دل تحمل والے تھے " { سورۃ التوبہ : 114 }
    سورۃ الانعام 74 میں فرمایا " اور جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کہ کیا تو بتوں کو خدا جانتا ہے ، میں تجھے اور تیری قوم کو صریح گمراہی میں دیکھتا ہوں "
    صحیح بخاری کی ایک حدیث ہے " نبی کریم {ص} نے فرمایا کہ ابراہیم {ع} اپنے والد آذر سے قیامت کے دن جب ملیں گے تو ان کے چہرے پر سیاہی اور غبار ہو گا ۔ ابراہیم {ع} کہیں گے کہ کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ میری مخالفت نہ کیجئے ۔ وہ کہیں گے کہ آج میں آپ کی مخالفت نہیں کرتا ۔ ابراہیم {ع} عرض کریں گے کہ اے رب ! تو نے وعدہ فرمایا تھا کہ مجھے قیامت کے دن رسوا نہیں کرے گا ۔ آج اس رسوائی سے بڑھ کر اور کون سی رسوائی ہو گی کہ میرے والد تیری رحمت سے سب سے زیادہ دور ہیں ۔ اللہ فرمائے گا کہ میں نے جنت کافروں پر حرام قرار دی ہے ۔ پھر کہا جائے گا کہ اے ابراہیم ! تمہارے قدموں کے نیچے کیا چیز ہے ؟ وہ دیکھیں گے تو ایک ذبح کیا ہوا جانور خون میں لتھڑا ہوا وہاں پڑا ہو گا اور پھر اس کے پاؤں پکڑ کر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔ "
    اس آیت اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم {ع} کے والد کا نام آذر تھا جبکہ نسب بیان کرنے والوں میں سے زیادہ تر حضرات جن میں ابن عباس {رض} بھی ہیں وہ اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت ابراہیم {ع} کے والد کا نام تارخ تھا اور اہل کتاب کے نزدیک بھی یہی نام تارخ تھا
    تو پھر آذر کیا ہے ؟
    ایک قول یہ ہے کہ آذر ان کے ایک بت کا نام تھا جس کی وہ عبادت کیا کرتے تھے ۔ تو اس وجہ سے یہ ان کا لقب بن گیا ۔
    ابن حریر فرماتے ہیں آذر ان کا نام ہی تھا ۔
    شاید ان کے دو نام تھے یا پھر ایک ان کا لقب تھا اور دوسرا نام ۔
    واللہ اعلم
     
  5. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    پھر سورۃ الانعام میں اللہ نے مزید فرمایا " اور ہم نے اسی طرح ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کے عجائبات دکھائے اور تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے ( 75 ) پھر جب رات نے اس پر اندھیرا کیا تو اس نے ایک ستارہ دیکھا ، کہا یہ میرا رب ہے ، پھر جب وہ غائب ہو گیا تو کہا میں غائب ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا ( 76 ) پھر جب چاند کو چمکتا ہوا دیکھا تو کہا یہ میرا رب ہے ، پھر جب وہ غائب ہو گیا تو کہا اگر مجھے میرا رب ہدایت نہ کرے گا تو میں ضرور گمراہوں میں سے ہوجاؤں گا ( 77 ) پھر جب آفتاب کو چمکتا ہوا دیکھا تو کہا کہ یہی میرا رب ہے یہ سب سے بڑا ہے ، پھر جب وہ غائب ہو گیا تو کہا اے میری قوم ! میں ان سے بیزار ہوں جنہیں تم اللہ کا شریک بناتے ہو ( 78 ) سب سے یکسو ہو کر میں نے اپنے منہ کو اسی کی طرف متوجہ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا ، اور میں شرک کرنے والوں سے نہیں ہوں ( 79 ) اور اس کی قوم نے اس سے جھگڑا کیا ، اس نے کہا کیا تم مجھ سے اللہ کے ایک ہونے میں جھگڑتے ہو اور اس نے تو میری رہنمائی کی ہے ، اور میں ان سے نہیں ڈرتا جنہیں تم شریک کرتے ہو مگر یہ کہ میرا رب ہی کچھ چاہے ، میرے رب نے اپنے علم سے سب چیزوں پر احاطہ کیا ہوا ہے ، کیا تم سوچتے نہیں ۔ ( 80 ) اور کیوں ڈروں تمہارے شریکوں سے حالانکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو اس چیز کو جس کی اللہ نے تم پر کوئی دلیل نہیں اتاری ، سو دونوں جماعتوں میں سے امن کا زیادہ مستحق کون ہے ، اگر تم کو سمجھ ہے ( 81 ) جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں شرک نہیں ملایا انہیں کے لیے امن ہے اور وہی راہ راست پر ہیں ( 82 ) اور یہ ہماری دلیل ہے جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابلہ میں دی تھی ، ہم جس کے چاہیں درجے بلند کرتے ہیں ، بے شک تیرا رب حکمت والا جاننے والا ہے ۔ ( 83 ) "
    یہ کلام و مقام اپنی قوم سے بطور مناظرہ کے تھا ۔ اور ان کو سمجھانا مقصود تھا کہ یہ چمکدار ستارے سیارے وغیرہ معبود بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ کیونکہ وہ تو خود پیدا کئے گئے ہیں اور یہ دھیرے دھیرے پروان چڑھتے ہیں ۔ اور یہ سب مخلوقات میں سے ہیں جو اللہ کی تدبیر کے ساتھ انسان کے کام میں لگے ہوئے ہیں ۔ کبھی طلوع ہوتے ہیں اور کبھی غائب ہوجاتے ہیں ۔
    جبکہ اللہ سے کوئی چیز غائب نہیں ہوتی ، نہ مخفی ہوتی ہے اور نہ ہی پوشیدہ ۔
    اللہ دائمی باقی ہے اور لازوال ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور نہ اس کے سوا کوئی اس جہاں کو پالنے والا ہے ۔
     
  6. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت ابراہیم {ع} نے پہلے تو قوم کے سامنے ستاروں سیاروں وغیرہ کی عدم صلاحیت بیان فرمائی
    ایک قول ہے کہ حضرت ابراہیم {ع} نے پہلے جس چمکدار چیز کو دیکھا وہ زہرہ ستارہ تھا پھر اس سے زیادہ روشن چیز یعنی چاند کی طرف ترقی کی پھر اس سے بھی زیادہ روشن چیز یعنی سورج کی طرف ترقی کی جو نظر آنے والے تمام اجسام فلکی میں سب سے زیادہ روشن اور چمک دمک والا تھا ۔ لیکن پھر ان کے سامنے بالکل ظاہر ہوگیا کہ یہ سب کسی ذات کی طرف سے کام میں لگے ہوئے ہیں ۔ اسی کے حکم سے چلائے جاتے ہیں اور اس کے حکم سے ان کے اوقات مقرر ہیں ۔ اور وہی ان کا کرنے والا ہے
    اللہ نے فرمایا " اور اس کی نشانیوں میں سے رات اور دن اور سورج اور چاند ہیں ، سورج کو سجدہ نہ کرو اور نہ چاند کو اور اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو " { سورۃ فصلت : 37 }
     
  7. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت ابراہیم {ع} کے بارے میں اللہ سورۃ الانعام میں فرماتا ہے " پھر جب آفتاب کو چمکتا ہوا دیکھا تو کہا کہ یہی میرا رب ہے یہ سب سے بڑا ہے ، پھر جب وہ غائب ہو گیا تو کہا اے میری قوم ! میں ان سے بیزار ہوں جنہیں تم اللہ کا شریک بناتے ہو ( 78 ) سب سے یکسو ہو کر میں نے اپنے منہ کو اسی کی طرف متوجہ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا ، اور میں شرک کرنے والوں سے نہیں ہوں ( 79 ) اور اس کی قوم نے اس سے جھگڑا کیا ، اس نے کہا کیا تم مجھ سے اللہ کے ایک ہونے میں جھگڑتے ہو اور اس نے تو میری رہنمائی کی ہے ، اور میں ان سے نہیں ڈرتا جنہیں تم شریک کرتے ہو مگر یہ کہ میرا رب ہی کچھ چاہے ، میرے رب نے اپنے علم سے سب چیزوں پر احاطہ کیا ہوا ہے، کیا تم سوچتے نہیں ۔ ( 80 ) "
    یعنی میں تمہارے ان معبودوں کی کوئی پرواہ نیہں کرتا جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو کیونکہ وہ مجھے کسی بھی چیز کا نفع نہیں دے سکتے ، نہ وہ سن سکتے ہیں اور نہ وہ عقل رکھتے ہیں بلکہ وہ خود مخلوق ہیں جیسے ستاروں سیاروں کی طرح اور انہیں ہم انسانوں کے لیے ہی پیدا کیا گیا ہے ، یا تمہارے معبود تمہارے ہاتھوں سے ہی تراشے ہوئے پتھر ہیں اور کچھ نہیں ۔
    ظاہری طور سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم {ع} کا ستاروں کے ساتھ نصحیت فرمانا یہ اہل حران کے لیے ہوگا کیونکہ وہ ہی لوگ ستاروں اور سیاروں کی پرستش کیا کرتے تھے ۔
    اور بتوں کے ساتھ نصیحت فرمانا اہل بابل کے لیے ہوگا کیونکہ بابل کے لوگ بتوں کی پرستش کیا کرتے تھے ۔
    بابل کے لوگ وہ ہیں جن سے حضرت ابراہیم {ع} نے ان کے بتوں کے بارے میں مناظرہ کیا جیسا قرآن میں ہے ۔
     
  8. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    سورۃ الانبیاء میں اللہ حضرت ابراہیم {ع} کے بارے میں مزید فرماتا ہے
    " جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ یہ کیسی مورتیں ہیں جن پر تم مجاور بنے بیٹھے ہو ( 52 ) انہوں نے کہا ہم نے اپنے باپ دادا کو انہیں کی پوجا کرتے پایا ہے ( 53 ) کہا البتہ تحقیق تم اور تمہارے باپ دادا صریح گمراہی میں رہے ہو ( 54 ) انھوں نے کہا کیا تو ہمارے پاس سچی بات لایا ہے یا تو دل لگی کرتا ہے ( 55 ) کہا بلکہ تمہارا رب تو آسمانوں اور زمین کا رب ہے جس نے انہیں بنایا ہے ، اور میں اسی بات کا قائل ہوں ۔ ( 56 ) اور اللہ کی قسم ! میں تمہارے بتوں کا علاج کروں گا جب تم پیٹھ پھیر کر جا چکو گے ( 57 ) پھر ان کے بڑے کے سوا سب کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا تاکہ اس کی طرف رجوع کریں ( 58 ) انہوں نے کہا ہمارے معبودوں کے ساتھ کس نے یہ کیا ہے ، بے شک وہ ظالموں میں سے ہے ( 59 ) انہوں نے کہا ہم نے سنا ہے کہ ایک جوان بتوں کو کچھ کہا کرتا ہے اسے ابراہیم کہتے ہیں ۔ ( 60 ) کہنے لگے اسے لوگوں کے سامنے لے آؤ تاکہ وہ دیکھیں ۔ ( 61 ) کہنے لگے اے ابراہیم کیا تو نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کیا ہے ( 62 ) کہا بلکہ ان کے اس بڑے نے یہ کیا ہے سو ان سے پوچھ لو اگر وہ بولتے ہیں ( 63 ) پھر وہ اپنے دل میں سوچ کر کہنے لگے بے شک تم ہی بے انصاف ہو ( 64 ) پھر انہوں نے سر نیچا کر کے کہا تو جانتا ہے کہ یہ بولا نہیں کرتے ( 65 ) کہا پھر کیا تم اللہ کے سوا اس چیز کی پوجا کرتے ہو جو نہ تمہیں نفع دے سکے اور نہ نقصان پہنچا سکے ( 66 ) میں تم سے اور جنہیں اللہ کے سوا پوجتے ہو بیزار ہوں ، پھر کیا تمہیں عقل نہیں ہے ( 67 ) انہوں نے کہا اگر تمہیں کچھ کرنا ہے تو اسے جلا دو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو ( 68 ) ہم نے کہا اے آگ ! ابراہیم پر سرد اور راحت ہوجا ( 69 ) اور انہوں نے اس کی برائی چاہی سو ہم نے انہیں ناکام کر دیا ( 70 ) "
    سورۃ الشعراء میں اللہ حضرت ابراہیم {ع} کے بارے میں مزید فرماتا ہے
    " جب اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تم کس کو پوجتے ہو ( 70 ) کہنے لگے ہم بتوں کو پوجتے ہیں پھر انہی کے گرد رہا کرتے ہیں ( 71 ) کہا کیا وہ تمہاری بات سنتے ہیں جب تم پکارتے ہو ( 72 ) یا تمہیں کچھ نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں ( 73 ) کہنے لگے بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا کرتے پایا ہے ( 74 ) کہا کیا تمہیں خبر ہے جنہیں تم پوجتے ہو ( 75 ) تم اور تمہارے پہلے باپ دادا جنہیں پوجتے تھے ( 76 ) سو وہ سوائے رب العالمین کے میرے دشمن ہیں ( 77 ) جس نے مجھے پیدا کیا پھر وہی مجھے راہ دکھاتا ہے ( 78 ) اور وہ جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے ( 79 ) اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے ( 80 ) اور وہ جو مجھے مارے گا پھر زندہ کرے گا ( 81 ) اور وہ جو مجھے امید ہے کہ میرے گناہ قیامت کے دن مجھے بخش دے گا ( 82 ) "
     
  9. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    سورۃ الصافات میں اللہ حضرت ابراہیم {ع} کے بارے میں مزید فرماتا ہے
    " اور بے شک اسی کے طریق پر چلنے والوں میں ابراہیم بھی تھا ( 83 ) جب کہ وہ پاک دل سے اپنے رب کی طرف رجوع ہوا ( 84 ) جب کہ اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو ( 85 ) کیا تم جھوٹے معبودوں کو اللہ کے سوا چاہتے ہو ( 86 ) پھر تمہارا پروردگارِ عالم کی نسبت کیا خیال ہے ( 87 ) پھر اس نے ایک بار ستاروں میں غور سے دیکھا ( 88 ) پھر کہا بے شک میں بیمار ہوں ( 89 ) پس وہ لوگ اس کے ہاں سے پیٹھ پھیر کر واپس پھرے ( 90 ) پس وہ چپکے سے ان کے معبودوں کے پاس گیا پھر کہا کیا تم کھاتے نہیں ( 91 ) تمہیں کیا ہوا کہ تم بولتے نہیں ( 92 ) پھر وہ بڑے زور کے ساتھ دائیں ہاتھ سے ان کے توڑنے پر پل پڑا ( 93 ) پھر وہ اس کی طرف دوڑتے ہوئے بڑھے ( 94 ) کہا کیا تم پوجتے ہو جنہیں تم خود تراشتے ہو ( 95 ) حالانکہ اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا اور جو تم بناتے ہو ( 96 ) انہوں نے کہا اس کے لیے ایک مکان بناؤ پھر اس کو آگ میں ڈال دو ( 97 ) پس انہوں نے اس سے داؤ کرنے کا ارادہ کیا سو ہم نے انہیں ذلیل کر دیا ( 98 ) "
    اللہ حضرت ابراہیم {ع} کے بارے میں خبر دے رہا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو بتوں کی عبادت سے منع فرمایا اور ان کی ذلالت و حقارت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ، یہ کیا شکلیں ہیں ؟
    جن کو تم پوجنے پر قائم ہو ؟
    کیوں ان کے سامنے ذلت اختیار کی ہوئی ہے ؟
    قوم نے جواب دیا ، ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے پایا ہے
    یعنی ان کے پاس ان بتوں کو پوجنے کی کوئی دلیل و حجت نہیں تھی سوائے اس کے کہ انہوں نے اپنے آباؤ اجداد کو ایسا کرتے دیکھا
    حضرت ابراہیم {ع} بولے تمہارے آباؤ اجداد گمراہ تھے
    سورۃ الصفات کی آیات 85 تا 87 کے بارے میں حضرت قتادہ فرماتے ہیں اس سے مراد ہے کہ تم نے غیر اللہ کی پرستش کی ہے تو جب اللہ سے ملاقات کروگے تو تمہیں پتا ہے کہ وہ تمہارے ساتھ کیا معاملہ فرمائے گا ؟
     
  10. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    اس طرح حضرت ابراہیم {ع} کے سامنے ان کی قوم نے تسلیم کرلیا کہ ان کے بت نہ کسی پکار سنے والی کی پکار سنتے ہیں اور نہ کسی چیز کا نفع یا نقصان پہنچاسکتے ہیں ۔ اور ان کو ان کے بتوں کی پرستش پر اکسانے والی چیز صرف اور صرف اپنے باپ دادا کی پیروی کرنا ہے
    قوم جن بتوں کی پرستش کرتی تھی حضرت ابراہیم {ع} کے لیے وہ باطل تھا اسی لیے انہوں نے اس سے بیزاری ظاہر کی اور ان کے عیوب و نقائص عیاں کئے اور اگر ان کی قوم ان کو کسی قسم کا نقصان پہنچانے کی اہلیت رکھتی تو نقصان پہچاتی مگر اتنی ان کی اہلیت نہیں تھی
    ان کی قوم نے کہا تم جو ہمارے بتوں کی برائیاں کر رہے ہو اور ہمارے آباؤ اجداد کو لعن طعن کر رہے ہو تو کیا یہ سب حق ہے یا تم ہمارے ساتھ محض ہنسی کھیل کر رہے ہو ؟
    پھر حضرت ابراہیم {ع} بولے تمہارا رب تو وہ ہے جو زمین و آسمان کا مالک ہے ، جس نے تم کو پیدا کیا اور میں اس پر گواہ ہوں اور جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہی حق ہے ۔ تمہارا رب اللہ ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ وہی تمہارا اور تمام چیزوں کی پرورش کرنے والا ہے ۔ وہ اکیلا عبادت کا مستحق ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں
    جب حضرت ابراہیم {ع} نے ان کے بتوں پر دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ جب تم سب اپنے تہوار کے موقع پر یہاں سے چلے جاؤ گے تو ضرور تمہارے بتوں کو جن کی تم عبادت کرتے ہو بتاؤں گا
    بعض مفسرین کا خیال ہے کہ انہوں نے یہ دھمکی دل میں کہی تھی اور قوم سے کسی نے ان کے یہ الفاظ نہیں سنے تھے مگر ابن مسعود {رض} فرماتے ہیں ان کے بعض لوگوں نے سن لی تھی
    ان کی قوم کی ایک عید گاہ تھی اور یہ اپنے تہوار کے موقع پر ہر سال وہاں جایا کرتے تھے ۔ وہ عید گاہ شہر سے باہر تھی ۔ جب وہ تہوار کا دن آیا تو حضرت ابراہیم {ع} کے والد نے انہیں چلنے کو کہا تو انہوں نے بیماری کا بہانہ کردیا تاکہ قوم کے پیچھے ان کے خداؤں کو سبق سیکھایا جاسکے اور ان بتوں کو توڑ کر جو اسی کے لائق تھے اللہ کے دین حق کی مدد کی جاسکے
    لہذا جب لوگ عید کے دن عید گاہ کی طرف نکلے تو حضرت ابراہیم {ع} شہر میں ہی ٹھہر گئے اور ان کے جانے کے بعد تیزی سے ان کے بتوں کے پاس گئے دیکھا بت بڑی عظیم شان و شوکت میں ہیں ان کے سامنے عمدہ کھانے بطور نذرانے کے رکھے ہیں ۔ انہیں دیکھ کر کہنے لگے کیا بات ہے تم کھانے کیوں نہیں کھاتے ؟ مجھ سے بات کیوں نہیں کرتے ؟ ۔ پھر جو ہتھوڑا اپنے ساتھ لائے تھے سیدھے ہاتھ سے ان بتوں کو توڑنا شروع کردیا اور ایسا توڑا کہ تمام بت ریزہ ریزہ ہوگئے سوائے ایک بت کے جو ان میں سب سے بڑا تھا
    ایک قول ہے کہ حضرت ابراہیم {ع} نے ہتھوڑا اس باقی ماندہ بڑے بت کے ہاتھ میں رکھ دیا تھا یعنی اشارہ دلاتے ہوئے کہ اس بڑے بت کو اس بات سے غیرت آئی کہ اس کی موجودگی میں چھوٹے بتوں کی کیوں پرستش کی جائے ۔
     
  11. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    پھر لوگ اپنی عید گاہ سے واپس آئے تو دیکھا ان کے خداؤں پر کیا کچھ عذاب اتر چکا ہے تو کہنے لگے ہمارے معبودوں کے ساتھ ایسا سلوک کس نے کیا ہے ؟ اور جس نے ایسا کیا ہے وہ یقینا بڑا ظالم ہوگا
    حالانکہ ان کے پاس کچھ بھی عقل و سمجھ ہوتی تو وہ سوچتے جن خداؤں کے سامنے یہ اپنے سرجھکاتے ہیں ان پر کیسے یہ آفت آسکتی ہے ، اگر ہمارے خدا حقیقی خدا ہوتے تو کم از کم خود کو تو اس ظالم سے بچالیتے ، یہ بات سوچنا ان کے لیے حق کی ایک بہت بڑی دلیل بن جاتی مگر حضرت ابراہیم {ع} کا یہ سبق بھی بےسود رہا اور وہ لوگ اپنی کم عقلی اور کم سمجھ کے باعث صرف اس بات پر قائم رہے کہ ہمارے معبودوں کے ساتھ ایسا سلوک کس نے کیا ہے ؟
    چونکہ قوم کے چند لوگوں کو علم تھا کہ حضرت ابراہیم {ع} ان کے خداؤں کا دشمن ہے اور انہوں نے ان کے خلاف ایک چال چلنے کا کہا تھا تو فیصلہ کیا گیا کہ ایک بڑے اجتماع میں حضرت ابراہیم {ع} کو بلایا جائے تاکہ جن لوگوں کو حضرت ابراہیم {ع} کی دھمکی کا علم تھا ان سے گواہی لی جائے اور اس کے بعد حضرت ابراہیم {ع} سے پوچھا جائے ۔ انہیں یقین تھا اس طرح وہ اپنے خداؤں پر نازل شدہ عذاب کا بدلہ لے کر اپنے خداؤں کی مدد کرسکیں گے
    اور یہی حضرت ابراہیم {ع} کی خواہش اور عظیم مقصد تھا کہ تمام قوم ایک جگہ جمع ہو اور ان کی بات سنجیدگی سے سنے ، اور وہ پوری قوم کے سامنے ان کے بتوں کی برائیاں اور خرابیاں بیان کریں
    جب حضرت ابراہیم {ع} کی قوم جمع ہوگئی اور مجمع کے سامنے حضرت ابراہیم {ع} پیش ہوگئے تو قوم پوچھنے لگی کیا ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ سلوک آپ نے کیا ہے ؟
    حضرت ابراہیم {ع} نے جواب دیا چونکہ تمہارا سب سے بڑا بت سلامت ہے تو تم لوگ اس سے کیوں نہیں پوچھ لیتے ؟
    حضرت ابراہیم {ع} کا اصل مقصد تھا کہ اس طرح ان کی قوم کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے گی کہ ان کے بت تو بول ہی نہیں سکتے ۔ اور وہ اس بات پر قائل ہوجائیں گے کہ یہ صرف اور صرف پتھر ہیں جیسے اور دوسرے عام پتھر ہوتے ہیں ۔
     
  12. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت ابراہیم {ع} کے اس سوال پر کہ تم لوگ اپنے بچ جانے والے خدا سے کیوں نہیں پوچھ لیتے ؟ تو قوم کو سب سے پہلے حیرت ہوئی پھر انہوں نے اپنے سر جھکا لیے مگر تھوڑی دیر میں ان کے دل میں برائی نے سر اٹھالیا اور وہ کہنے لگے تجھ کو پتا ہے ہمارے خدا بولا نہیں کرتے پھر کیوں اس قسم کا سوال پوچھنے کا کہتے ہو ؟
    پھر حضرت ابراہیم {ع} نے کھل کر حق بیان کیا اور ایک اچھا جواب اپنی قوم کو دیا جب تمہارے ساتھ تمہارے بت بھی مخلوق ہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مخلوق کسی دوسرے مخلوق کی عبادت کرے
    تم ان کی عبادت کرو یا وہ تمہاری عبادت کریں ، برابر ہے ۔ تو جان لو ایک دوسرے کی عبادت کرنا ایک دم باطل اور بےکار ہے ۔ اور عبادت تو صرف اللہ کی ہی صحیح ہے اور اللہ ہی تنہا اس کا مستحق ہے
    حضرت ابراہیم {ع} کی جواب پر لاجواب ہوکر قوم اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی کیونکہ وہ حضرت ابراہیم {ع} کے دلائل سے عاجز آچکے تھے اور ان کے پاس خود کے سچے ہونے کی دلیل بھی نہیں تھی ۔ ایسی دلیل جس سے وہ اپنی سرکشی اور بےوقوفی پر مدد لے سکیں
    تو ان کی قوم نے فیصلہ کیا ، جیسا کہ قرآن میں آیا " انہوں نے کہا اگر تمہیں کچھ کرنا ہے تو اسے جلا دو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو ( 68 ) ہم نے کہا اے آگ ! ابراہیم پر سرد اور راحت ہوجا ( 69 ) اور انہوں نے اس کی برائی چاہی سو ہم نے انہیں ناکام کر دیا ( 70 ) " { سورۃ الانبیاء }
     
  13. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    تو حضرت ابرہیم {ع} کی قوم نے انہیں زندہ آگ میں جلانے کا فیصلہ کیا اور اس کام کی تحریک یوں شروع ہوئی
    سب کافر جہاں سے ہوسکے لکڑیوں کے ڈھیر جمع کرنے لگے یہاں تک کے ایک مدت گزر گئی ۔ اتنا وقت ہوگیا کہ اگر ان میں سے کوئی عورت بیمار پڑ جاتی وہ نذر مانتی کہ اگر اس کو شفا ہوجائے تو وہ حضرت ابرہیم {ع} کو جلانے کے لیے فلاں فلاں تعداد میں لکڑیوں کا گٹھا دے گی ۔ پھر انہوں نے ایک بہت لمبا چوڑا گڑھا کھودا اور اس میں وہ تمام لکڑیاں ڈال دیں جو انہوں نے ایک طویل مدت میں اکھٹی کی تھیں ۔ پھر اس میں آگ لگا دی ۔ آگ جلنا شروع ہوئی اور بھڑکنے لگی ۔ اس آگ کے شعلے اتنے بلند ہوگئے کہ اس جیسی آگ اس وقت تک کسی نے نہیں دیکھی تھی ۔ پھر جب آگ اچھی طرح بھڑکنے لگی تو کافروں نے حضرت ابرہیم {ع} کو منجنیق کے ایک پلڑے میں رکھ دیا اس منجنیق کو بنانے والا ایک ہزن نامی شخص تھا ۔ یہ دنیا کا پہلا شخص تھا جس نے اس قسم کی چیز ایجاد کی تھی ۔ جس کی پاداش میں اللہ نے اس کو زمین میں دھنسا دیا اور وہ قیامت تک دھنستا ہی رہے گا
    واللہ اعلم
    تو پھر کافروں نے حضرت ابرہیم {ع} کو قید کرکے اور رسیوں سے باندھ کر منجنیق میں رکھ دیا ۔ پھر منجنیق کے ذریعے پوری طاقت کے ساتھ آگ میں پھینک دیا
    اس وقت حضرت ابرہیم {ع} کے الفاظ تھے " حَسْبُنَا اللّـٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ { ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے } "
     
  14. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    امام بخاری نے ابن عباس {رض} سے روایت کی ہے کہ حضرت ابرہیم {ع} کو جب آگ میں پھینکا جانے لگا تو انہوں نے یہی کہا تھا " حَسْبُنَا اللّـٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ "
    اس طرح جب محمد {ص} کو کفار قریش کی طرف سے ڈرایا گیا تو نبی پاک {ص} نے بھی یہی الفاظ ارشاد فرمائے
    قرآن کی سورۃ آل عمران میں ہے " جنہیں لوگوں نے کہا کہ مکہ والوں نے تمہارے مقابلے کے لیے سامان جمع کیا ہے سو تم ان سے ڈرو تو ان کا ایمان اور زیادہ ہوا ، اور کہا کہ ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے ( 173 ) پھر مسلمان اللہ کی نعمت اور فضل کے ساتھ لوٹ آئے انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچی اور اللہ کی مرضی کے تابع ہوئے ، اور اللہ بڑے فضل والا ہے ( 174 ) "
    حضرت ابوہریرہ {رض} سے مروی ہے کہ رسول اللہ {ص} نے فرمایا " جب حضرت ابراہیم {ع} کو آگ میں ڈالا گیا تو انہوں نے کہا اے اللہ آپ آسمان میں تنہا ہیں اور میں زمین میں تیری عبادت کرنے والا تنہا ہوں "
    بعض بزرگوں کا قول ہے جب حضرت ابراہیم {ع} ہوا میں تھے تو حضرت جبرائیل {ع} ان سے ملے اور عرض کیا آپ کو کوئی ضروت ہے ؟ ۔ جواب دیا آپ کی طرف سے کوئی ضرورت نہیں ۔
    ابن عباس {رض} اور سعید بن جبیر {رض} سے مروی ہے کہ اس وقت بارش والا فرشتہ کہہ رہا تھا کہ کب مجھے حکم ملے ؟ اور پھر میں بارش برساؤں ۔ لیکن اللہ کا حکم زیادہ تیز تھا
    قرآن میں ہے " ہم نے کہا اے آگ ! ابراہیم پر سرد اور راحت ہوجا " { سورۃ الانبیاء : 69 }
    علی ابن طالب {رض} فرماتے ہیں اس کا مطلب ہے کہ اے آگ ایسی ہوجا کہ ان کو نقصان نہ پہنچائے اور ابن عباس {رض} فرماتے ہیں اگر اللہ یہ نہ فرماتے اے آگ ابراہیم پر سلامتی والی ہوجا تو ابراہیم {ع} کو اس کی ٹھنڈک سے تکلیف پہنچتی
    کعب احبار {رض} فرماتے ہیں کہ جس روز حضرت ابراہیم {ع} کو آگ میں پھینکا گیا اس روز کوئی شخص آگ سے نفع نہ اٹھا سکا اور فرمایا اس روز آگ نے حضرت ابراہیم {ع} سے بندھی ہوئی رسی کے علاوہ کچھ نہ جلایا
    ضحاک {رح} فرماتے ہیں مروی ہے کہ حضرت جبرائیل {ع} حضرت ابراہیم {ع} کے ساتھ ساتھ تھے اور ان کی پیشانی سے پسینہ پونچھ رہے تھے اور اس پسینے کے علاوہ ان کو اور کچھ نہ لاحق ہوا
    سدی {رح} فرماتے ہیں حضرت ابراہیم {ع} کے ساتھ سایہ کرنے والا فرشتہ بھی تھا ، اور ایک میل تک سایہ اور ٹھنڈک اور سلامتی تھی اور سرسبز باغ گل گلزار بن گیا تھا ، جبکہ آس پاس آگ اپنے شعلوں اور شراروں کے ساتھ بھڑک رہی تھی ۔ اور لوگ حضرت ابراہیم {ع} کی طرف دیکھ رہے تھے لیکن کسی کو اندر آنے کی سکت نہیں تھی اور حضرت ابراہیم {ع} بھی ان کی طرف نکل کر نہیں آرہے تھے
    واللہ اعلم
     
  15. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ابوہریرہ {رض} سے مروی ہے کہ حضرت ابراہیم {ع} کے والد کے کہے کلمات میں سب سے اچھے کلمات وہ ہیں جو اس نے اپنے بیٹے کو آگ کے اندر اس حالت میں دیکھنے کے وقت کہا " نعم الرب ربک یا ابراھیم یعنی اے ابراہیم تیرا پروردگار بہترین پروردگار ہے "
    ابن عساکر {رح} حضرت عکرمہ {رض} سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم {ع} کی والدہ نے جب اپنے لخت جگر کو دیکھا تو اس نے پکارا " اے میرے بیٹے میں بھی تیرے پاس آنا چاہتی ہوں ، اللہ سے دعا کر کہ تیرے ارد گرد کی آگ کی حرارت سے مجھے نجات دے "
    تو حضرت ابراہیم {ع} نے ارشاد کیا " جی اماں "
    پھر آپ کی والدہ حضرت ابراہیم {ع} کی طرف چلیں اور آگ نے ان کو کچھ نہیں کہا ۔ پھر بیٹے کے پاس پہنچ کر بیٹے کو گلے سے لگایا اور بوسہ دیا پھر واپس لوٹ آئیں ۔
    منہال بن عمرو سے مروی ہے فرماتے ہیں مجھے خبر پہنچی ہے کہ حضرت ابراہیم {ع} وہاں میں چالیس دن یا پچاس دن ٹھہرے اور انہوں نے فرمایا کہ دنوں اور راتوں میں میں نے ان سے اچھی زندگی نہیں گزاری اور میری تمنا رہی کہ میری تمام زندگی و حیات اسی کی طرح ہوجائے ۔
    واللہ اعلم
    الغرض کفار و مشرکین نے انتقام لینا چاہا مگر رسوا و ذلیل ہوئے ، بلند ہونا چاہا مگر پست و خوار ہوئے اور غالب ہونا چاہا مگر مغلوب ہوگئے ۔
    جیسا قرآن میں اللہ نے فرمایا
    " اور انہوں نے اس کی برائی چاہی سو ہم نے انہیں ناکام کر دیا ( سورۃ الانبیاء 70 ) "
    " پس انہوں نے اس سے داؤ کرنے کا ارادہ کیا سو ہم نے انہیں ذلیل کر دیا ( سورۃ الصافات 98 ) "
    کفار و مشرکین دنیا میں بھی ذلت و رسوائی میں رہے اور آخرت میں بھی ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا ، بےشک جو ایک برا ٹھکانہ اور مقام ہے
     
  16. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    بخاری میں ہے ام شریک {رض} سے مروی ہے کہ رسول اکرم {ص} نے چھپکلی کو مارنے کا حکم فرمایا اور فرمایا کہ یہ ابراہیم {ع} پر پھونک مار رہی تھی ۔
    مسند احمد میں بھی ہے حضرت عائشہ {رض} نے خبر دی کہ رسول اکرم {ص} نے فرمایا کہ چھپکلی کو قتل کرو کیونکہ وہ ابراہیم {ع} پر آگ کو پھونکیں مار رہی تھی راوی کہتے ہیں کہ پھر عائشہ {رض} بھی ان کو مارتی تھیں
    مسند احمد میں ہے کہ ایک عورت حضرت عائشہ {رض} کے پاس گئیں تو وہاں ایک نیزہ گڑا ہوا دیکھا تو عورت نے پوچھا یہ کیسا نیزہ ہے ؟ عائشہ {رض} نے فرمایا ہم اس کے ساتھ چھپکلیوں کو مارتے ہیں پھر عائشہ {رض} نے حضور {ص} کی حدیث بیان کی کہ جب ابراہیم {ع} آگ میں ڈال دیے گئے تو تمام جاندار اس آگ کو بجھا رہے تھے سوائے چھپکلی کے یہ اس پر پھونکیں مار رہی تھی ۔
    امام نافع ، فاکہ بن مغیرہ کی لونڈی سائبہ سے بیان کرتے ہیں کہ وہ سیدہ عائشہ {رض} کے پاس گئی اور ان کے گھر میں ایک نیزہ دیکھ کر پوچھا : اے ام المومنین ! اس نیزے کو کیا کرتی ہو ؟ انہوں نے کہا : ہم اس سے چھپکلیاں مارتی ہیں ، کیونکہ نبی کریم {ص} نے فرمایا : جب ابراہیم {ع} کو آگ میں ڈالا گیا تو ہر جانور نے آگ بجھانے کی ، سوائے اس چھپکلی کے ، کہ یہ پھونک مارتی تھی ۔ آپ {ص} نے اسے مارنے کا حکم دیا ۔
    واللہ اعلم
     
  17. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    اللہ تعالی سورۃ البقرۃ میں فرماتا ہے " کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراھیم سے اس کے رب کی بابت جھگڑا کیا اس لیے کہ اللہ نے اسے سلطنت دی تھی ، جب ابراھیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اس نے کہا میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں ، کہا ابراھیم نے بے شک اللہ سورج مشرق سے لاتا ہے تو اسے مغرب سے لے آ تب وہ کافر حیران رہ گیا ، اور اللہ بے انصافوں کی سیدھی راہ نہیں دکھاتا ( 258 ) "
    اس آیت میں اللہ تعالی حضرت ابراہیم {ع} کے مناظرے کا ذکر کرہے ہیں ۔ اس سرکش بادشاہ کے ساتھ جس نے اپنی ذات کے لیے خدائی کا دعوی کردیا تھا ۔ تو حضرت ابراہیم {ع} نے اس کے دعوی اور دلیل کو باطل و زیر کر دکھایا ۔ اور اس کی جہالت اور کم عقلی کو واضح کردیا ۔ اسے چپ کی لگام لگا دی اور دلیل کے ساتھ حق کا راستہ دکھلا دیا ۔
    مفسرین کہتے ہیں وہ بادشاہ ملک بابل کا بادشاہ تھا اور اس کا نام نمرود تھا ۔ بعض لوگ نمرود کا نسب کچھ یوں بیان کرتے ہیں
    نمرود بن کنعان ، بن کوش ، بن سام ، بن نوح
    بعض لوگ جن میں مجاہد {رح} بھی شامل ہیں نمرود کا نسب کچھ یوں بیان کرتے ہیں
    عمرو ، بن فالح ، بن عابر ، بن صالح ، بن ارفخشاں ، بن سام ، بن نوح ۔
    مجاہد {رح} یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ دنیا کے بادشاہوں میں سے ایک گزرا ہے
    ایسے چار بادشاہ گزرے ہیں ، دو مومن اور دو کافر ، مومن تو ایک حضرت ذوالقرنین تھے اور دوسرے حضرت سلیمان {ع} تھے ۔ اور کافر ایک نمرود تھا اور دوسرا بخت نصر تھا
    مزید فرماتے ہیں اس نمرود بادشاہ نے اپنی سلطنت چار سو سال چلائی اور وہ بہت ہی سرکش اور ظالم شخص تھا ۔ اور دنیاوی زندگی میں خوب مگن اور اس کو ترجیح دینے والا تھا
    جب حضرت ابراہیم {ع} نے نمرود کو ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلایا تو نمرود کی جہالت ، گمراہی اور بادشاہت کے غرور نے اسے اللہ تعالی ہی کے انکار پر کھڑا کردیا ۔ اور پھر اس بات پر حضرت ابراہیم {ع} سے جھگڑنا شروع کردیا ۔ جب حضرت ابراہیم {ع} نے کہا میرا اللہ تو وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے تب نمرود نے بھی جواب میں کہا میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں ۔
     
  18. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    محمد بن اسحاق {رض} اور قتادہ {رح} فرماتے ہیں نمرود نے وہ جواب عملی طور پر یوں دیا تھا کہ دو ایسے شخص جن کے قتل کا حتمی فیصلہ کر دیا گیا تھا ۔ ان کو منگوایا اور ایک کے قتل کا حکم دے دیا اور دوسرے کو معاف کردیا اور یہ سمجھ لیا کہ اس نے بھی ایک کو زندہ کردیا اور ایک کو مار دیا ۔
    جبکہ یہ فعل حضرت ابراہیم {ع} کی بات کے مقابل اور معارض نہیں تھا اور صحیح جواب نہیں تھا بلکہ مناظرے کے مقام سے ہی خارج تھا کیونکہ اس بات کے مانع اور معارض بن ہی نہیں سکتے تھے
    نمرود کا یہ جواب بےوقوفی تھا ، اور مقصود سے منقطع تھا ۔ اس لیے کہ حضرت ابراہیم {ع} نے روزمرہ کے مشاہدات میں کسی کے مرنے کسی کے پیدا ہونے کے ساتھ دلیل دی تھی ۔ ان کا مطلب تھا یہ چیزیں بغیر کسی پیدا کرنے والے کے ہو نہیں سکتیں ۔ بلکہ ان تمام امور کا کرنے والا کوئی ضرور ہے جو ان کو پیدا بھی کرتا ہے اور انہیں طرح طرح کے کاموں میں لگاتا بھی ہے ۔ جیسے ستاروں ، سیاروں ، ہواؤں ، بادلوں اور بارشوں کو کام میں لگا رکھا ہے ۔ اور طرح طرح کے حیوانات پیدا کئے ہیں پھر ان کو مارتا بھی ہے ۔ وہ بھی بغیر ظاہری اسباب کے ، مگر جب انسان کسی کو مارتا ہے تو کسی سبب کے ذریعے مثلا تلوار وغیرہ ۔ اللہ اپنے ارادے سے سب کچھ کرتا ہے ۔
    اسی لیے حضرت ابراہیم {ع} نے فرمایا میرا رب تو وہ ہے جو زندگی بخشتا ہے اور موت طاری کرتا ہے جس کے جواب میں نمرود نے کہا میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں اور اس نے خیال کیا ان مشاہدات عالم کا کرنے والا میں ہی ہوں اور پھر مکمل سرکشی پر اتر آیا ، نمرود نے اپنے خیال میں حضرت ابراہیم {ع} کی دلیل کا توڑ پیش کیا
    اب حضرت ابراہیم {ع} نے اللہ تعالی کے وجود پر دوسری دلیل پیش فرمائی ۔ کہا یہ سورج اللہ کی طرف سے ہر روز مشرق سے نکنے پر مامور ہے وہ بھی بالکل اسی طرح جیسے اس کے خالق نے اس کو متعین کر رکھا ہے اور اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ ہر چیز کا خالق ہے ۔ اگر تیرے خیال سے تو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے تو سورج کو بھی مغرب سے نکال کر دکھا ؟ کیونکہ جو زندگی اور موت جیسی عظیم قدرت اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے تو وہ جو چاہے کر سکتا ہے اس کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ، اگر تو سچا ہے تو سورج مغرب سے نکال کر دکھا ؟ ۔
    حضرت ابراہیم {ع} کے اس سوال پر نمرود کی بےوقوفی اور جہالت عیاں ہوگئی ، اور اس کا وہ جھوٹ جسے اپنی رعایا کے سامنے بول کر خدائی کا دعوی کر رکھا تھا سب کے سامنے آگیا ۔ اس کے پاس ایسی کوئی دلیل نہ رہی جس سے وہ حضرت ابراہیم {ع} کو جواب دے سکے
     
  19. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    سعدی {رح} فرماتے ہیں نمرود اور حضرت ابراہیم {ع} کے درمیان یہ مناظرہ اسی روز ہوا تھا جس روز حضرت ابراہیم {ع} آگ سے صحیح سلامت تشریف لائے تھے ۔
    عبدالرزاق ، معمر سے روایت کرتے ہیں کہ زید بن اسلم سے مروی ہے کہ قحط سالی تھی ، لوگ نمرود کے پاس جاتے تھے اور غلہ لے آتے تھے اس دن نمرود کے پاس غلہ تھا اور لوگ وفد در وفد غلہ لینے کے لیے آرہے تھے تو حضرت ابراہیم {ع} بھی غلے کے بہانے سے نمرود کے پاس گئے ۔ اور ان دونوں کی ملاقات صرف اسی روز ہوئی تھی ۔
    اور پھر ان دونوں کے درمیان مناظرہ شروع ہوگیا ۔ نمرود نے اور لوگوں کو تو غلہ دیا لیکن حضرت ابراہیم {ع} کو کچھ بھی نہ دیا بلکہ حضرت ابراہیم {ع} اس کے پاس سے بالکل خالی واپس نکلے ۔ اور ان کے پاس غلے کی کچھ بھی مقدار موجود نہ تھی ، تو جب حضرت ابراہیم {ع} اپنے گھر کے پاس پہنچے تو مٹی کے ایک ٹیلے پر گئے اور دو تھیلے مٹی سے بھر لیے ۔ اور سوچا جب گھر والوں کے پاس جاؤنگا تو اس سے اہل خانہ کو شغل لگاؤنگا ۔ پھر جب حضرت ابراہیم [ع} گھر پہنچے اور اپنی سواری کو اتار دیا چونکہ سفر کی وجہ سے انتہائی تھک چکے تھے ، اس لئے گھر پہنچتے ہی ٹیک لگا کر سوگئے
    جب حضرت ابراہیم {ع} کی بیوی حضرت سارہ {ع} ان تھیلوں کے پاس گئیں تو دیکھا وہ دونوں تھیلے عمدہ عمدہ طعام سے بھرے ہوئے ہیں ۔ سارہ {ع} نے ان سے کھانا بنالیا ۔ حضرت ابراہیم {ع} جاگے تو دیکھا کھانا تیار ہے بولے ، یہ تمہارے ہاں کہاں سے آیا ؟
    سارہ {ع} نے عرض کیا جو آپ لائے ہیں اس سے نکالا ہے ۔
    پھر حضرت ابراہیم سمجھ گئے کہ یہ سب اللہ تعالی نے عطا فرمایا ہے
    واللہ اعلم
     
  20. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    زید بن اسلم {رح} فرماتے ہیں اللہ تعالی نے اس متکبر سرکش بادشاہ کی طرف فرشتے کو بھی بھیجا ۔ جس نے اس کو ایمان باللہ کی دعوت دی لیکن نمرود نے انکار کردیا ۔ دوسری مرتبہ پھر دعوت دی پھر انکار کردیا ۔ پھر تیسری مرتبہ بھی دعوت دی اس نے پھر ہٹ دھرمی دکھائی اور انکار کیا ، بولا تم اپنے لشکر اکٹھے کرلو میں بھی اپنا لشکر اکٹھا کرتا ہوں ۔
    جب نمرود نے سورج کے طلوع ہونے کے وقت اپنے لشکر کو اکٹھا کیا تو اللہ نے مچھروں کا ایک لشکر بھیج دیا ، اور وہ مچھروں کا لشکر سورچ کی روشنی میں دکھائی بھی نہیں دیتا تھا ۔ پھر اللہ نے مچھروں کو نمرود کے لشکر پر مسلط کردیا ۔ کہتے ہیں مچھروں نے نمرود کے لشکر کا خون تو کیا گوشت تک کھالیا یہاں تک کہ ان کی ہڈیاں نظر آنے لگیں ۔ کہتے ہیں ان مچھروں میں سے ایک مچھر نمرود کی ناک میں گھس گیا اور وہ مچھر چار سو سالوں تک نمرود کے دماغ میں رہا ۔ نمرود اس ساری مدت اپنا سر دیواروں اور پتھروں پر مارتا پھرتا تھا ۔ اور سخت عذاب میں رہا ۔ حتی کہ اللہ تعالی نے اس مچھر کے ذریعے نمرود کو نیست و نابود فرمادیا ۔
    واللہ اعلم
     
  21. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    سورۃ العنکبوت میں اللہ تعالی فرماتا ہے " پھر اس پر لوط ایمان لایا ، اور ابراہیم نے کہا بے شک میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں ، بے شک وہ غالب حکمت والا ہے ( 26 ) اور ہم نے اسے اسحاق اور یعقوب عطا کیا اور اس کی نسل میں نبوت اور کتاب مقرر کردی اور ہم نے اسے اس کا بدلہ دنیا میں دیا ، اور وہ آخرت میں بھی البتہ نیکوں میں سے ہوگا ( 27 ) "
    سورۃ الانبیاء میں اللہ تعالی فرماتا ہے " اور ہم اسے اور لوط کو بچا کراس زمین کی طرف لے آئے جس میں ہم نے جہان کے لیے برکت رکھی ہے ( 71 ) اور ہم نے اسے اسحاق بخشا اور انعام میں یعقوب دیا ، اور سب کو نیک بخت کیا ( 72 ) اور ہم نے انہیں پیشوا بنایا جو ہمارے حکم سے رہنمائی کیا کرتے تھے اور ہم نے انہیں اچھے کام کرنے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا تھا ، اور وہ ہماری ہی بندگی کیا کرتے تھے ( 73 ) "
    حضرت ابراہیم {ع} نے اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنی قوم کو خیرباد کہا اور وہاں سے ہجرت کی ۔ آپ کی بیوی سارہ {ع} بانجھ تھیں اور ان کی کوئی اولاد نہ تھی ۔ ان کے ساتھ ان کے بھتیجے لوط بن ہاران بن آزر تھے لیکن پھر اس کے بعد اللہ نے حضرت ابراہیم {ع} کو نیک اولاد عطا فرمادی ۔ اور اسی پر بس نہیں کیا بلکہ آپ کی اولاد کے لیے کتاب و نبوت مقرر فرمادی ۔ حضرت ابراہیم {ع} کے بعد جو بھی پیغمبر آیا وہ وہ آپ کی اولاد میں سے تھا ۔ جو بھی آسمانی کتاب آپ کے بعد کسی پیغمبر پر اتری وہ آپ کی اولاد میں سے تھا ۔ یہ آپ پر اللہ کا انعام اور اکرام تھا ۔ کیونکہ آپ نے اللہ کے خاطر اپنے شہروں کو چھوڑا ، اپنے اہل کو چھوڑا اپنے عزیز و اقربا کو چھوڑا ۔ پھر ایسے شہر کا رخ کیا جہاں اپنے پروردگار وحدہ و لاشریک کی عبادت میں کسی قسم کی روک توک نہ ہو ۔ جیسا اللہ نے فرمایا " " اور ہم اسے اور لوط کو بچا کراس زمین کی طرف لے آئے جس میں ہم نے جہان کے لیے برکت رکھی ہے { سورۃ الانبیاء 71 } "
     
  22. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    عوفی {رح} نے ابن عباس {رض} سے نقل کیا ہے کہ سورۃ الانبیاء کی اس آیت میں زمین سے مراد مکہ ہے ، ابن عباس {رض} آگے فرماتے ہیں کیا آپ نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا " بے شک لوگوں کے واسطے جو سب سے پہلا گھر مقرر ہوا یہی ہے جو مکہ میں برکت والا ہے اور جہان کے لوگوں کے لیے راہ نما ہے { سورۃ آل عمران 96 } "
    جبکہ کعاب احبار {رح} کا خیال ہے اس سے مراد حران شہر ہے
    واللہ اعلم
    اہل کتاب سے پہلے نقل ہوچکا ہے کہ حضرت ابراہیم {ع} اور آپ کے بھتیجے لوط {ع} ، آپ کے بھائی ناحور ، آپ کی بیوی سارہ {ع} اور آپ کی بھابھی ناحور کی بیوی ملکا یہ تمام لوگ بابل کے علاقے کو خیر باد کہہ کر حران نامی شہر میں اترے تھے اور آپ کے والد یہیں فوت ہوئے تھے ۔
    سعدی {رح} فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم {ع} اور حضرت لوط {ع} دونوں شام کی طرف رخ کر کے چلے تھے پھر راستے میں حران کے بادشاہ کی بیٹی سارہ {ع} سے ملاقات ہوگئی ، سارہ {ع} اپنی قوم کے دین پر اعتراض کیا کرتی تھیں تو حضرت ابراہیم {ع} نے ان سے شادی اس شرط پر فرمالی کہ وہ کسی اور بیوی کے ساتھ ان کو غیرت میں نہ ڈالیں گے ۔
    ابن حریر نے اسے روایت کیا ہے مگر اس روایت میں شبہ کا امکان ہے کیونکہ زیادہ مشہور یہ بات ہے کہ سارہ {ع} آپ کی چچا زاد تھیں
    بعض لوگوں کا وہم و خیال ہے کہ سارہ {ع} آپ کے بھائی ہاران کی بیٹی تھیں یعنی لوط {ع} کی بہن ، گویا آپ نے اپنی بھتیجی سے شادی فرمائی ۔ لیکن یہ بات حقیقت سے بہت دور ہے اور بغیر علم کے یہ بات کہی گئی ہے پھر اس پر جن لوگوں نے یہ کہا کہ اس وقت بھائی کی بیٹی سے نکاح جائز تھا تو بھی ان کے پاس اس کے سچ ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے
    واللہ اعلم
    اہل کتاب آگے ذکر کرتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم {ع} شام تشریف لائے تو اللہ نے ان کی طرف وحی کی اور خوشخبری دی کہ میں آپ کے بعد آپ کی آنے والی اولادوں کو زمین پر خلافت کے لئے مقرر کردوں گا ۔ تو حضرت ابراہیم {ع} نے بطور شکرانے ایک مذبح خانہ بنایا ۔ جو بیت المقدس کے مشرقی حصے میں تھا پھر کچھ عرصے بعد شام میں قحط پڑا تو آپ شام سے مصر کی طرف چلے گئے
     
  23. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    علماء مصر میں ہونے والا حضرت ابراہیم {ع} ، سارہ {ع} اور ایک بادشاہ کا واقعہ ذکر فرماتے ہیں
    اہل تواریخ کہتے ہیں مصر کا اس وقت بادشاہ یعنی فرعون ضحاک کا بھائی تھا اور اپنے ظلم و ستم میں بہت مشہور تھا ۔ اس کا نام بتایا جاتا ہے سنان بن علوان ، بن عبید ، بن عویج ، بن عملاق ، بن لاوذ ، بن سام ، بن نوح {ع}
    جبکہ سارہ {ع} کے ساتھ جس بادشاہ نے برائی کا چاہا وہ عمرو بن امرئی القیس ، بن مایلون ، بن سبا تھا اور وہ مصر کے ایک حصے کا حاکم تھا
    ابوہریرہ {رض} سے روایت ہے ، رسول اللہ{ ص} نے فرمایا ” ابراہیم {ع} نے کبھی جھوٹ نہیں بولا مگر تین بار ، ان میں دو جھوٹ اللہ کے لیے تھے ۔ ان کا یہ قول کہ میں بیمار ہوں ، اور دوسرا یہ قول کہ ان بتوں کو بڑے بت نے توڑا ہو گا ، تیسرا جھوٹ سارہ {ع} کے باب میں تھا ، اس کا قصہ یہ ہے کہ ابراہیم {ع} ایک ظالم بادشاہ کے ملک میں پہنچے ۔ ان کے ساتھ ان کی بیوی سارہ {ع} بھی تھیں ، وہ بڑی خوبصورت تھیں ، انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ یہ ظالم بادشاہ کو اگر معلوم ہو گا کہ تو میری بی بی ہے تو مجھ سے چھین لے گا ، اس لیے اگر وہ پوچھے تو یہ کہنا کہ میں اس شخص کی بہن ہوں ، اور تو اسلام کے رشتہ سے میری بہن ہے ۔ اس لیے کہ ساری دنیا میں آج میرے اور تیرے سوا کوئی مسلمان معلوم نہیں ہوتا ، جب {ع} اس ظالم کے ملک میں پہنچے تو اس کے کارندے اس کے پاس گئے اور بیان کیا کہ تیرے ملک میں ایسی عورت آئی ہے جو سوائے تیرے کسی کے لائق نہیں ہے ، اس نے سارہ {ع} کو بلا بھیجا وہ گئیں اور ابراہیم {ع} نماز کے لیے کھڑے ہوئے ۔ جب سارہ {ع} اس ظالم کے پاس پہنچیں اس نے بےاختیار اپنا ہاتھ ان کی طرف دراز کیا ، لیکن فورا اس کا ہاتھ سوکھ گیا ، وہ بولا : تو اللہ سے دعا کر میرا ہاتھ کھل جائے میں تجھے نہیں ستاؤں گا ، انہوں نے دعا کی اس مردود نے پھر ہاتھ دراز کیا ، پھر پہلے سے بڑھ کر سوکھ گیا ، اس نے دعا کے لیے کہا ، انہوں نے دعا کی پھر اس مردود نے دست درازی کی ، پھر دونوں بار سے بڑھ کر سوکھ گیا ، تب وہ بولا : تو اللہ سے دعا کر میرا ہاتھ کھل جائے ، اللہ کی قسم میں اب نہ تجھے ستاؤں گا ۔ سارہ {ع} نے پھر دعا کی اس کا ہاتھ کھل گیا ، تب اس نے اس شخص کو بلایا جو سارہ {ع} کو لے کر آیا تھا ، اور اس سے بولا : تو میرے پاس شیطاننی کو لے کر آیا تھا ، یہ آدمی نہیں ہے ، اس کو میرے ملک سے باہر نکال دے اور ہاجرہ {ع} ایک لونڈی کو حوالے کر ۔ سارہ ہاجرہ {ع} کو لے کر لوٹ آئیں ۔ جب ابراہیم {ع} نے ان کو دیکھا تو لوٹے ، اور ان سے پوچھا : کیا گزرا ؟ انہوں نے کہا : سب خیریت رہی ، اللہ تعالی نے اس بدکار کا ہاتھ مجھ سے روک دیا ، اور ایک لونڈی بھی دلوائی ۔ “
    ابوہریرہ {رض} نے کہا : اے آسمان کے پانی کے بیٹو ! یعنی اے عرب والو ! یہی ہاجرہ {ع} تمہاری ماں ہیں ۔
     
  24. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت ابراہیم {ع} کا یہ فرمانا کہ یہ میری بہن ہیں ۔ اس سے ان کی مراد تھی کہ وہ دین الہی میں بہن ہیں
    اور حضرت ابراہیم {ع} کا یہ فرمانا کہ اس وقت روئے زمین پر میرے اور تیرے علاوہ اور کوئی مومن نہیں اس سے ان کی مراد تھی کہ دو میاں بیوی میرے اور تیرے علاوہ اور کوئی نہیں ، ویسے ان کے ساتھ حضرت لوط {ع} بھی تھے جو کہ اللہ کے نبی تھے
    ہوا یوں کہ جب حضرت ابراہیم {ع} اور سارہ {ع} کا گزر اس بادشاہ کی زمین سے ہوا تو کسی نے اس بادشاہ کو مخبری کردی کہ یہاں ایک آدمی آیا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ایک ایسی عورت ہے جو لوگوں میں سب سے حسین ہے ۔ تو بادشاہ نے حضرت ابراہیم {ع} کے پاس پیغام بھیجا اور اس عورت کے بارے میں پوچھا ۔ وہ کون ہے ؟ تو آپ نے فرمایا میری بہن ہے ۔ جب حضرت ابراہیم {ع} اپنی بیوی کے پاس تشریف لائے تو کہا اے سارہ ! روئے زمین پر تیرے اور میرے سوا کوئی مومن نہیں اور یہ بادشاہ مجھ سے سوال کرتا تھا تو میں نے اس کو تیرے بارے میں کہہ دیا ہے کہ تو میری بہن ہے لہذا اب تو مجھے نہ جھٹلا دینا ۔
    بادشاہ نے سارہ {ع} کو بلوا بھیجا اور وہ اس کے پاس تشریف لے گئیں ۔ بادشاہ نے برے ارادے سے حضرت سارہ {ع} کو پکڑنا چاہا تو وہ اپنی جگہ جکڑا گیا پھر بادشاہ نے حضرت سارہ {ع} سے کہا آپ میرے لئے اللہ سے دعا کردیجئے پھر میں آپ کو کوئی تکلیف و نقصان نہیں دونگا ۔
    سارہ {ع} نے دعا کردی تو بادشاہ اس قید و جکڑ سے رہا ہوگیا ۔ لیکن اپنے وعدے کے خلاف دوبارہ بری نیت سے آگے بڑھا اور اللہ کی قدرت کہ ایک بار پھر جکڑا گیا جو پہلی بار سے بھی زیادہ سخت تھی ۔ اس نے پھر کہا آپ میرے لئے اللہ سے دعا کردیجئے پھر میں آپ کو کوئی تکلیف و نقصان نہیں دونگا ۔ سارہ {ع} نے ایک بار پھر دعا کردی ۔ وہ پھر چھوٹ گیا اب اس نے اپنے کسی خادم کو بلایا اور کہا تم میرے پاس کوئی انسان نہیں لائے بلکہ کوئی شیطان لے کر آئے ہو ۔ پھر بادشاہ نے سارہ {ع} کو ایک خادمہ کے ساتھ واپس کردیا ۔ اس خادمہ کا نام ہاجرہ تھا
    جب سارہ {ع} حضرت ابراہیم {ع} کے پاس واپس تشریف لائیں تب حضرت ابراہیم {ع} نماز میں مشغول تھے ،
    اس لئے صرف ہاتھ کے اشارے سے پوچھا کیا ہوا ؟
    سارہ {ع} نے جواب دیا اللہ نے کافر کے مکر کو رد کردیا ، اور فاجر کی برائی کو اس کے سینے میں دبا دیا
     
  25. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    کہتے ہیں جب وہ بادشاہ سارہ {ع} کے پاس بری نیت سے بڑھا تھا تو سارہ {ع} بھی وضو اور نماز میں مشغول ہوگئیں اور اللہ سے فریاد کی " اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان لائی ہوں اور اپنے شوہر کے علاوہ اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی ہے تو پھر تو مجھ پر کافر کو مسلط نہیں ہونے دینا "
    اس دعا کے بعد وہ بادشاہ زمین میں دھنسنا شروع ہوجاتا یہاں تک کہ اس کے پاؤں زمین میں دھنس جاتے اور جب وہ بادشاہ سارہ {ع} سے اپنے لیے دعا کرنے کو کہتا تو وہ کہتیں " اے اللہ ! اگر یہ مرگیا تو کہا جائے گا کہ میں نے اسے قتل کیا ہے " تو بادشاہ آزاد ہوجاتا
    راوی کہتے ہیں ایسا تین چار بار ہوا تھا اس کے بعد وہ پکار اٹھا کہ تم میرے پاس کسی شیطان کو لائے ہو ، اس کو ابراہیم کے پاس واپس لے جاؤ اور ہاجرہ بھی اس کو دے دو ۔
    بعض بزرگوں کے قول ہیں کہ سارہ {ع} جب سے ابراہیم {ع} کے پاس سے نکلیں تھیں تب سے واپس آنے تک اللہ نے دونوں کے درمیان رکاوٹیں ہٹا دی تھیں یعنی ابراہیم {ع} سارہ {ع} کو مسلسل دیکھ رہے تھے کہ اللہ نے کیسے ان کے اہل کی حفاظت فرمائی اور اللہ نے ایسا اس لئے کیا تاکہ ابراہیم {ع} کا دل اطمینان ، سکون اور پاکیزگی کے ساتھ برقرار رہے ۔ کیونکہ ابراہیم {ع} سارہ {ع} سے بےانتہا محبت کرتے تھے ، وہ ان کے دین پر تھیں ، ان کی رشتہ دار تھیں ۔ اور قدرت نے انہیں خوب حسن سے نوازا تھا ، اسی لئے کہا گیا ہے کہ حوا {ع} کے بعد سے سارہ {ع} تک کبھی کوئی عورت ان سے زیادہ حسین نہیں گزری ۔
    واللہ اعلم
     
  26. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    بعض اہل علم کا اسلامی روایات سے خیال ہے حاجرہ {ع} اس بادشاہ کی لونڈی نہیں تھیں بلکہ بیٹی تھیں اور اس نے سارہ {ع} اور حضرت ابراہیم {ع} کے کرامات دیکھ کر اپنی مرضی سے بیٹی کو ابراہیم {ع} کو سونپا ۔
    چونکہ بعد میں ہاجرہ {ع} ابراہیم{ع} کے نکاح میں آئیں اور ان کے بطن سے حضرت اسماعیل {ع} پیدا ہوئے اور ان کی نسبت حضرت محمد {ص} تک پہچتی ہے
    اسی لیے ابوہریرہ {رض} نے کہا : اے آسمان کے پانی کے بیٹو ! یعنی اے عرب والو ! یہی ہاجرہ {ع} تمہاری ماں ہیں ۔
    اس لئے یہ اہل علم ہاجرہ {ع} کو لونڈی نہیں سمجھتے اور اسے اہل کتاب کی من گھڑت روایات سمجھتے ہیں
    چونکہ غلام یا لونڈی کی نسل سے ہونا باعث ذلت سمجھا جاتا تھا اس لیے اہل کتاب نے آغاز سے ہی تضحیک و تذلیل کی خاطر پہلے عربوں کو اور پھر اسلام کے آنے کے بعد مجموعی طور پر مسلمانوں کو ہاجری کہا تھا ۔ اسی طرح رومی تذلیل کی خاطر عربوں کو " سارقیوس " کہا کرتے تھے جس سے مراد سارہ کے غلام تھی ۔
    واللہ اعلم
    پھر اس واقعہ کے بعد حضرت ابراہیم {ع} مصر کو چھوڑ کر یمن کی سرزمین میں آگئے اور پھر اسی مقدس سرزمین پر رہے ۔ جب حضرت ابراہیم مصر سے چلے تو ان کے ساتھ کافی مال مویشی اور کئی غلام تھے اور ہاجرہ {ع} بھی ان کے ہمراہ تھیں ۔
     
  27. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    پھر حضرت ابراہیم {ع} کے حکم سے حضرت لوط {ع} اپنے مال وغیرہ کے ساتھ یمن سے سرزمین غور کی طرف چلے گئے ۔ وہاں یہ سدوم شہر میں آباد ہوئے ۔ اس زمانے میں وہ شہر ام البلاد یعنی شہروں کی ماں کہلاتا تھا ۔ سدوم کے لوگ شریر ، فاجر ، فاسق اور کافر تھے ۔
    پھر اللہ نے حضرت ابراہیم {ع} کو حکم فرمایا کہ طویل نظریں پھلائیں اور شمال ، جنوب ، مشرق و مغرب کی طرف دیکھیں اور پھر خوشخبری دی کہ یہ ساری زمیں میں نے آپ اور آپ کی آنے والی اولاد کے لیے مقرر کردی ہے ۔ اور فرمایا میں آپ کی اولاد کو اتنا بڑھا دوں گا کہ وہ ریت کے ذرات جتنی ہوجائے گی
    حضرت ابراہیم {ع} کو ملنے والی اس خوشخبری میں امت محمدیہ بھی داخل ہے بلکہ حضرت ابراہیم {ع} کی تمام اولاد میں یہ زیادہ ہیں اور حضرت ابراہیم {ع} کی بشارت اس امت کے بغیر کامل نہیں ہوسکتی
    اس بات کی تائید نبی پاک {ص} کے اس فرمان سے ہوتی ہے ۔ ثوبان {رض} کہتے ہیں کہ آپ {ص} نے فرمایا " میرے لیے میرے رب نے زمین سمیٹ دی ، تو میں نے مشرق و مغرب کی ساری جگہیں دیکھ لیں ، یقینا میری امت کی حکمرانی وہاں تک پہنچ کر رہے گی جہاں تک زمین میرے لیے سمیٹی گئی "
     
  28. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    پھر سدوم کے سرکش اور ظالم لوگوں کا ایک گروہ حضرت لوط {ع} پر مسلط ہوگیا اور انہوں نے آپ کو قید کرلیا ۔ آپ کے مال پر قبضہ کیا اور آپ کے مویشی ہانک کر لے گئے ۔ جب یہ خبر حضرت ابراہیم {ع} کو ملی تو آپ تین سو اٹھارہ آدمیوں کا بھرپور لشکر لے کر ان کی طرف گئے اور لوط {ع} کو ان کی قید سے چھڑایا ۔ ان کا مال واپس حاصل کیا ۔ اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں کو زبردست شکست دی ۔ بچ کر بھاگ جانے والے سپاہیوں کا پیچھا کرتے ہوئے جن میں ان کا بادشاہ بھی تھا شمال دمشق تک پہنچ گئے ۔ اور وہاں مقام برزہ پر آپ نے اور آپ کے لشکر نے پڑاؤ کیا ۔ اسی لیے وہاں کے ایک مقام کا نام مقام ابراہیم پڑا ۔ اس کا ذکر اہل کتاب کی تورات میں ہے
    واللہ اعلم
    حضرت ابراہیم {ع} نے جس لشکر کو شکست دی وہ عیلام بادشاہ کا لشکر تھا ۔ اور یہ سدوم کا بادشاہ تھا ۔ جب عیلام کا لشکر پسپا ہو ہو کر برزہ کی پہاڑیوں تک محدود ہوگیا تو عیلام بادشاہ نے حضرت ابراہیم {ع} کو پیش کش کی کہ آپ جتنا چاہے مجھ سے مال و مویشی لے لیں اور ہمیں چھوڑ دیں ۔
    تو حضرت ابراہیم {ع} نے جواب دیا " میں نے بلند و بالا پروردگار رب العالمین کی طرف ہاتھ اٹھالیا ، اب میں تجھ سے ایک دھاگہ اور جوتے کا ایک تسمہ تک نہیں لیتا ، کہ کہیں تو کہے میں نے ابراہیم کو مالدار کردیا " ۔ واللہ اعلم
    پھر حضرت ابراہیم {ع} فتح و نصرت کے ساتھ اپنے علاقے کو لوٹے ۔ بیت المقدس کے علاقے کے بادشاہوں نے آپ کی تعظیم و تکریم کے ساتھ آپ کا خوب استقبال کیا ۔ پھر آپ اپنے علاقے میں رہے
     
  29. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت ابراہیم {ع} نے اللہ کی بارگاہ میں نیک اولاد کا سوال کیا اور اللہ نے بھی اس کی آپ کو خوشخبری عطا فرمائی ۔
    ہوا یوں کہ جب حضرت ابراہیم {ع} کو بیت المقدس کے علاقوں میں بیس سال بیت گئے تو سارہ {ع} نے حضرت ابراہیم {ع} سے عرض کیا
    " پروردگار نے تو مجھے اولاد سے محروم فرما دیا لہذا آپ میری باندی کو رکھ لیں شاید اللہ اس سے مجھے اولاد مرحمت فرمادیں "
    جب سارہ {ع} نے حضرت ابراہیم {ع} کو ہاجرہ تحفہ میں دے دیں اور ان کے ایک ہوجانے کے بعد کچھ ہی وقت میں ہاجرہ {ع} امید سے ہوگئیں ، تو اس پر لوگوں میں باتیں شروع ہوئیں کہ یہ باندی تو اپنی آقا یعنی سارہ {ع} سے زیادہ بلند و عظیم مرتبہ والی ہوگئیں ہیں ، اس سے سارہ {ع} کو فطری طور پر سخت غیرت اٹھی ۔ اور حضرت ابراہیم {ع} کو اس کا شکوہ کیا ۔ اس پر حضرت ابراہیم {ع} نے سارہ {ع} سے فرمایا " آپ اس کے ساتھ جو چاہیں کرلیں "
    جب یہ بات ہاجرہ {ع} تک پہنچی تو وہ ڈر گئیں اور وہاں سے بھاگ پڑیں ۔ اور ایک چشمے کے پاس ٹھہریں ۔ تب ایک فرشتے نے ان کے پاس آکر عرض کیا " آپ خوف نہ کیجیے اور آپ جس بچے کے ساتھ باامید ہوئیں ہیں اللہ اس سے آپ کو بہت بھلائی عطا فرمائے گا ۔ " پھر فرشتے نے ہاجرہ {ع} کو واپسی کا کہا ۔ ساتھ میں یہ خوشخبری بھی دی کہ وہ ایک لڑکے کو جنم دیں گی " اس کا نام اسماعیل رکھنا ، وہ لوگوں میں تنہا ہوگا ، اس کا ہاتھ تمام پر ہوگا ، تمام کے ہاتھ اس کے ساتھ ہونگے ، اور وہ اپنے تمام بھائیوں کے ملکوں کا مالک ہوگا "
    اس پر ہاجرہ {ع} نے اللہ تعالی کا شکر ادا کیا ۔
    واللہ اعلم
     
  30. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ہاجرہ {ع} نے جب اسماعیل {ع} کو جنم دیا اس وقت حضرت ابراہیم {ع} کی عمر اڑسٹھ سال تھی ، بعض کا کہنا ہے چھیاسی سال تھی ۔ اس کے تیرہ سال بعد سارہ {ع} کے یہاں حضرت اسحاق {ع} بھی پیدا ہوئے ۔
    سورۃ ابراھیم میں آتا ہے کہ " اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اتنی بڑی عمر میں اسماعیل اور اسحاق بخشے ، بے شک میرا رب دعاؤں کا سننے والا ہے ( 52 ) "
    اہل کتاب کہتے ہیں کہ جب ابراہیم {ع} کو اسماعیل {ع} کی خوشخبری دی گئی تھی اسی وقت اللہ تعالی نے اسحاق {ع} کی خوشخبری بھی مرحمت فرما دی تھی ۔ مزید یہ خوشخبری سن کو حضرت ابراہیم {ع} سجدے میں گر پڑے تھے ۔ اس وقت اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم {ع} پر مزید احسان کرتے ہوئے فرمایا " اسماعیل کے بارے میں میں نے تیری دعا و فریاد قبول کی ، اور اس پر مزید میں نے برکتیں نازل کیں اور اس کی اولاد کو کثیر کیا ، اور بہت ہی بابرکت بنایا ، اور آگے اس سے بارہ عظیم افراد پیدا ہونگے ، اور اس کو میں ایک عظیم جماعت کا رئیس و سردار بناؤں گا "
    واللہ اعلم
     

اس صفحے کو مشتہر کریں