1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حسن بن صباح کی روحانی اولاد

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏1 مارچ 2017۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    حسن بن صباح کی روحانی اولاد

    [​IMG]
    کہا جاتا ہے کہ بدلتے ہوئے حالات اور وقت کے ساتھ جو انسان، قوم اور ملک اپنے آپ کو بدلنا نہیں سیکھتا، گردش ایام اس کو سنگین خطرات میں مبتلا کر دیتی ہے اور ان خطرات سے بچ کر نکلنا ناممکن ہوتا ہے۔ روشن مستقبل کے خواب تعبیر کو پہنچنے سے پہلے ہی ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔ مستقبل کو بدلنے یا روشن مستقبل کے خواب آنکھوں میں بسانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ حال میں خود کو بدلنے کا ہنر آتا ہو، اور حال میں خود کو بدلنے کا ہنر ماضی کے بدل جانے کی کسی نہ کسی حد تک ضمانت دیتا ہے۔

    نئی دستاویزات، نئی تشریحات اور نئے علوم و فنون کسی نہ کسی حد تک گزرے ہوئے مناظر کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ حکمران بھی اپنی ضرورت کے مطابق کسی نئے نظریے کو ماضی کا عنوان بناتے رہتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ حکمرانوں کی سب سے خوفناک طاقت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماضی کو تبدیل کر دیں۔ اب اگر موجودہ حالات کو مدنظر رکھا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جو ہم دہشت گردی، انتہا پسندی اور عدم برداشت کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ ہم نے اپنے ماضی کو تبدیل کر دیا ہو۔

    آئیڈیالوجی کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والے ملک کو ہم نے روشن خیالی کے نرغے میں ڈال دیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں برسوں سے انتہا پسندی کی جو باضابطہ ترویج کی جاتی ہے اس کا پاکستان کی تحریک کے تناظر میں تو کوئی جواز نظر نہیں آتا اور نہ ہی پاکستان کی تحریک کے تناظر میں آئیڈیالوجی سے مراد انتہاپسندی اور دہشت گردی ہے۔ مگر آج دہشت گردی تو پاکستان میں عام سی بات معلوم ہوتی ہے، اور دہشت گرد جب چاہتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں اپنی سفاکیت کے نشان چھوڑ جاتے ہیں۔

    یہ سوال تو بحث طلب رہے گا کہ پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟
    مگر یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ دہشت گردی نے پاکستان کے تاریخی سفر کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
    گزشتہ دس برسوں کی اگر بات کی جائے تو 2006ء سے اب تک کم و بیش 1952 دہشت گردی کے چھوٹے، بڑے واقعات ہر سال پاکستان میں ہوتے ہیں، جن میں 2495 لوگ ہر سال شہید ہوتے ہیں اور 3967 لوگ ہر سال زخمی ہوتے ہیں۔
    ہر واقعے کے بعد سننے کو یہی ملتا ہے کہ دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا، خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے گا، کسی صورت دہشت گردی کو برداشت نہیں کیا جائے گا،
    مگر ان بیانات کے بعد حکمران گھوڑے بیچ کر سو جاتے ہیں اور اگلے واقعہ کا انتظار کرتے ہیں۔ پاکستانیوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب کب لیا جائے گا؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔

    اب ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ دہشت گرد ہیں کون؟
    دہشت گردوں کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کا لیبل لگا ہوتا ہے، مگر دین فطرت تو امن کا دین ہے، دین فطرت تو کسی قسم کی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا درس نہیں دیتا تو پھر یہ کون سے درجے کے مسلمان ہیں اور یہ کس دین کا پرچار کر رہے ہیں؟
    اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ جب کوئی نوجوان دہشت گرد زخمی حالت میں پکڑا جاتا ہے تو ہوش میں آنے کے بعد وہ سوال کرتا ہے کہ وہ جنت کہاں ہے جس کا مجھ سے وعدہ کیا گیا تھا، جس کے لیے میں نے اپنے جان کی بازی لگائی۔

    جہاں تک میری ناقص عقل کام کرتی ہے، یہ دہشت گرد جنت اور حوروں کے متلاشی حسن بن صباح کی روحانی اولاد ہیں، جنہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ خودکش حملے کے بعد تم سیدھے جنت میں جاؤ گے، وہاں حوریں تمھارے انتظار میں ہیں۔ حسن بن صباح نظام الملک امام غزالی اور عمر خیام کا ہم عصر تھا لیکن بعد میں گمراہ ہو کر دہشت گرد اور یہودی پیروکار بنا، اس نے اپنی ایک جنت بنا رکھی تھی، وہ نوجوانوں کو جنت کا لالچ دے کر انہیں جان لیوا کاموں پر آمادہ کرتا تھا، حشیش کے نشے میں نوجوانوں کو اس جنت اور اس میں موجود دوشیزاؤں کی ایک جھلک دکھائی جاتی تھی، جنت اور دوزخ سے ناواقف نوجوان ان کی جستجو میں جان کی بازی لگا دیا کرتے تھے۔

    موجودہ دور میں حسن بن صباح کی جنت تو موجود نہیں مگر اس کی روحانی اولادیں موجود ہیں، جو ان نوجوانوں کی برین واشنگ کرتے ہیں، انہیں جنت اور حوروں کا لالچ دے کر جان لیوا کاموں پر آمادہ کرتے ہیں اور حوروں کی یہ جستجو یہاں پورے کے پورے گھر اجاڑ دیتی ہے، ماں باپ سے ان کے بڑھاپے کے سہارے چھن جاتے ہیں، بھائیوں سے ان کے بازو چھن جاتے ہیں، بہنوں سے ان کے سروں کی چادریں چھن جاتی ہیں اور کئی سہاگنیں جوانی میں ہی بیوہ ہوجاتی ہیں۔ حسن بن صباح کی روحانی اولاد کی اس جستجو نے لوگوں کی زندگیاں جہنم بنا دی ہیں۔

    حوروں کے یہ متلاشی حوروں کو پانے کے لیے حرام موت بھی مرتے ہیں اور مسلمانوں اور اسلام کی بدنامی کا باعث بھی بنتے ہیں، حقیقت میں ان کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، یہ لوگ صرف مسلمانوں کی تباہی کے لیے یہودی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور اسلام کے خلاف یہودیوں کی یہ سازش صدیوں سے چلی آرہی ہے. ہمارے اپنے کچھ لوگ ہیں، پیسہ جن کی کمزوری ہے اور وہ دوسری قوتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں، یہ کالی بھیڑیں ہماری صفوں میں موجود ہیں جو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ انہیں پہچاننے کی ضرورت ہے، ارباب اقتدار بہت کچھ جاننے کے باوجود بھی مصلحت سے کام لے رہے ہیں جو ملک کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ اقوام عالم میں پاکستان کا سربلند کرنے کے لیے انھیں قرار واقعی سزا دی جائے۔

    تحریر: علی حسنین نقوی
    25/02/2017
     
    Last edited by a moderator: ‏1 مارچ 2017
    پاکستانی55 اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    احادیث نبویہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق خوارج دہشت گرد امت کے اکثر ادوار میں ظاہر ہوں گے اوراسلام دشمن دجالی طاقتوں کے حمایت یافتہ اور انہی کے مددگار ہوں گے۔
     
    کنعان، ھارون رشید اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں