1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حسب نسب اور تقوی

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از بےباک, ‏25 اپریل 2009۔

  1. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    نسلی امتیاز کیا ہے ؟

    بہت سے لوگ اپنی ذات اور برادری سے باہر شادی کرنا پسند نہیں کرتے جس کی بنیادی وجہ وہی تصورات ہیں۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ حساس کردار سادات ادا کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت کی وجہ سے آپ کی اولاد ، مسلمانوں کے لئے قابل صد احترام ہے۔ بعض سید حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ وہ عام مسلمانوں سے بہتر ہیں اور ان کے ساتھ شادی بیاہ کا تعلق اپنے عالی نسب میں اختلاط پیدا کرنے کے مساوی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی بیٹیاں بوڑھی ہوجاتی ہیں لیکن سید کا رشتہ نہ ملنے کے باعث ان کی شادیاں نہیں ہوپاتیں۔ جہاں تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل بیت اطہار کی سیرت طیبہ کا ہم نے مطالعہ کیا ہے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ طرز عمل تمام مسلمانوں کے امام اور اپنے جد امجد ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات، ارشادات اور عمل کے خلاف ہے۔ جو شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے معمولی سی واقفیت بھی رکھتا ہے ، وہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ آپ نے اپنی چار میں سے تین صاحبزادیوں کا نکاح غیر سید حضرات میں کیا۔ آپ کی بڑی صاحبزادی سیدۃ زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ سے ہوا جو بنو امیہ کے چشم و چراغ تھے۔ اسی طرح سیدۃ رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہما کا نکاح یکے بعد دیگرے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کیا گیا جو آپ کے خاندان سے باہر بنو امیہ ہی سے تعلق رکھتے تھے۔
    آپ نے اپنی حیات طیبہ میں اپنی چچا زاد بہن ضباعہ بنت زبیر بن عبد المطلب رضی اللہ عنہا کا نکاح سیدنا مقداد بن اسود سے اور پھوپھی زاد بہن زینب بنت جحش کا نکاح سیدنا زید بن حارثہ (رضی اللہ عنہم) سے فرمایا۔ حضرت مقداد رضی اللہ عنہ حضر موت کے رہنے والے نوجوان تھے جو مکہ میں پلے بڑھے تھے۔ اسی طرح حضرت زید رضی اللہ عنہ ایک آزاد کردہ غلام تھے۔ اس کے بعد انہی زید کے بیٹے اسامہ رضی اللہ عنہما کا نکاح قریش کی عالی نسب خاتون فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے کردیا۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب نسب پر فخر و غرور کے ان تمام بتوں کو پاش پاش کردیا جو لوگوں نے اپنی طرف سے قائم کر لئے تھے۔ آپ کی پیروی میں آپ کے صحابہ میں یہی رجحان پھیلتا چلا گیا اور حسب و نسب سے ہٹ کر شادیاں ہونے لگیں۔ حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بھتیجی ہند بنت ولید بن عتبہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ایک آزاد کردہ غلام سالم رضی اللہ عنہ سے کردیا۔ یہ وہی سالم ہیں جن کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے کہ اگر سالم زندہ ہوتے تو میں انہیں خلافت کے لئے اپنا جانشین نامزد کردیتا۔ حسب و نسب کے غرور کو توڑنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے افراد نے بھی پوری طرح حصہ لیا۔ چنانچہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنی صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کیا جو کہ سید نہ تھے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پوتے عبداللہ بن عمرو بن عثمان سے ہو جو کہ سادات کے دائرے میں داخل نہیں۔ آپ کی دوسری صاحبزادی سکینہ رضی اللہ عنہا کی شادی مصعب بن زبیراور ان کی شہادت کے بعد عبداللہ بن عثمان بن عبداللہ بن حکیم بن حزام سے ہوئی۔ یہ دونوں حضرات بھی سید نہ تھے۔ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی متعدد پوتیوں کا نکاح غیر سادات میں ہوا جن میں سیدتنا زینب، ام کلثوم، فاطمہ، ملیکہ، ام قاسم شامل ہیں۔ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) ان مقدس ہستیوں کے طرز عمل سے یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں نکاح کے وقت کسی حسب نسب اور ذات برادری کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اسلام میں فضیلت کا معیار صرف اور صرف تقویٰ ہے۔ اگر کوئی ان ہستیوں کے طرز عمل کے خلاف نسلی غرور میں مبتلا ہے تو وہ اس بنیاد ہی کو ڈھا رہا ہے جو اس کے اپنے آباؤ اجداد قائم کرکے گئے۔
    اگر انبیاء اور صالحین کی اولاد ہونا شرف کا باعث ہے تو پھر تمام انسان ہی اللہ تعالیٰ کے کم ازکم تین نبیوں آدم، شیث اور نوح علیہم الصلوۃ والسلام کی اولاد ہیں۔ اسی طرح اگر کسی برے شخص کی اولاد ہونا معاذ اللہ عار اور ذلت کا باعث ہے تو پھر سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی ولادت باسعادت بھی ایک بت فروش ہی کے گھر ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہ تو کسی کو اپنے آباؤ اجداد کے نیک اعمال کے سبب جنت میں داخل کیا جائے گا اور نہ ہی ان کے برے اعمال کے سبب اسے کوئی سزا یا ذلت دی جائے گی۔ ہر کسی کے عزت و مرتبہ اور درجات میں ترقی اس کی اپنی کاوشوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والے تقویٰ کے سبب ہوگا۔ افسوس اس بات پر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے بالکل برعکس ہم نے اپنی کاوشوں کو چھوڑ کر اپنے آباؤ اجداد کے کارناموں ہی پر فخر کرنا شروع کردیا ہے۔ شادی بیاہ سے ہٹ کر ذات پات اور خاندان کا غرور ہمیں دوسرے معاملات میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان کے طرز عمل کے بالکل برعکس حکومتوں کو نسل پرستی کا شکار بنایا گیا۔ خلفائے راشدین میں حضرات ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم نے اپنی اولاد کو حکومت میں کوئی عہدہ نہ دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخلص ساتھیوں کی کمی کا مسئلہ درپیش تھا جس کی وجہ سے آپ نے اپنے بیٹوں کو ساتھ رکھا۔ آپ کی شہادت کے بعد عام مسلمانوں نے اتفاق رائے سے آپ کے صاحبزادے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا دیا لیکن وہ بھی چھ ماہ کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبردار ہو گئے۔
    جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بعض وقتی مسائل کے پیش نظر اگرچہ اپنے بیٹے یزید کے لئے وصیت کی تھی لیکن آپ نے بھی حکومت کو ہمیشہ اپنے خاندان میں رکھنے پر کبھی اصرار نہیں کیا تھا۔ بعد میں عبدالملک بن مروان کے دور سے صحیح معنوں میں ملوکیت کا آغاز ہوااور امت مسلمہ نسلی بادشاہت کا شکار ہوگئی۔ اس کے بعد یہ سلسلہ بنو عباس اور دیگر بادشاہتوں کی صورت میں چلتا رہا۔
    ہمارے ہاں نام نہاد جمہوریتوں میں بھی یہی رجحان ہے کہ چند ہی خاندان میدان سیاست کے شہسوار بنے ہوئے ہیں جہاں باپ کے بعد بیٹا ہی اپنے حلقے کا بے تاج بادشاہ بننے کی کوشش کرتا ہے۔ سول اور ملٹری بیوروکریسی میں بھی یہی رجحان پایا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے کے علاوہ مغربی معاشروں میں بھی یہ امتیاز کافی حد تک پایا جاتا ہے اگرچہ اب اس میں کمی کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہمارے اخلاقی انحطاط کے باعث بہت سے دینی حلقوں میں بھی نسل پرستی کا رواج داخل ہوچکا ہے۔ ایک پیر کے وفات پانے کے بعد اس کے لائق ترین مرید کو حلقہ ارادت کا سربراہ بنانے کی بجائے بیٹے ہی کو سجادہ نشین کے طور پر چنا جاتا ہے۔ ایک مدرسے کے مہتمم کے انتقال کے بعد ، اس کے کسی لائق ترین شاگرد کی بجائے اس کا بیٹا ہی مدرسے کے امور کو سنبھالتا ہے۔
    یہی رجحان اب دینی جماعتوں میں داخل ہوچکا ہے اور اکثر جماعتوں کے قائدین اپنی زندگیوں ہی میں اپنے بیٹوں کو بطور خاص اپنی خالی ہونے والی مسند کے لئے تیار کرتے ہیں۔ لوگوں میں بطور خاص اپنی اولاد کی محبت و عقیدت پیدا کی جاتی ہے۔ انہیں خاص طور پر اسٹیج پر لاکر پروجیکشن دی جاتی ہے۔ ان سے زیادہ صلاحیتوں کے حامل افراد کو دبایا جاتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے اگر جماعت کے لئے ساری ساری عمر کی قربانی دینے والوں کو بھی قربانی کا بکرا بنانا پڑے تو اس میں کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی۔ اس نسل پرستی کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو جماعت سے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اگر آپ ملک کی بڑی دینی جماعتوں کے اندرونی اختلافات اور جھگڑوں کا جائزہ لیں تو ان اختلافات کی بنیادی وجہ اسی نسل پرستی کو پائیں گے۔ اس اصول سے استثنا شاید صرف ایک یا دو جماعتوں ہی کو حاصل ہو۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کار خیر میں وہ جماعتیں بھی شریک ہیں جن کی پوری جدوجہد ہی آمریت اور نسل پرستی کے خلاف آواز اٹھانے پر مبنی تھی۔ اگر کوئی ان سب چیزوں کو اسلام اور مساوات کے خلاف سمجھتا ہے تو اسے کھل کر ان چیزوں کے بارے میں آواز اٹھانا چاہئے تاکہ ہم نسل پرستی کی اس وبا سے محفوظ رہ سکیں۔ اگر غلطی سے ہم خود اس میں مبتلا ہوں تو توبہ کرکے اپنی اصلاح کریں ،
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔ محترم بھائی بےباک صاحب۔
    ماشاءاللہ ۔ آپ نے بہت ہی خوب تحریر ارسال فرمائی ہے۔ جزاک اللہ ۔

    بلاشبہ شرفِ انسانیت میں سب برابر ہیں۔ شرف مسلمانی میں سب برابر ہیں۔

    لیکن ۔۔

    میں صرف اتنا عرض کرنے کی جسارت کروں گا کہ فضیلت کے بہت سے معیارات و وجوہات ہیں۔ جن میں سے فضیلت کا ایک معیار تقویٰ بھی ہے۔ لیکن تقوی پر ہی حصر وارد کردینا کسی طور مناسب نہیں۔

    عام سادہ سی مثال عرض کرتا ہوں کہ ایک ہائی سکول میں اگر چند سو بچے زیر تعلیم ہیں تو وہ اس سکول کے طالبعلم ہونے کے ناطے تو سب برابر ہوگئے ۔ لیکن کلاس 7 والے بچے ، کلاس 6 والے بچوں سے سنئیر ہوگئے ، گویا ایک درجہء فضیلت پا گئے، بعینہ کلاس 8 والے ، کلاس 7 والے سے سنئیر، 9 والے کلاس 8 سے آگے اور کلاس 10 والے بچے کلاس 9 سے سنئیر۔
    اب ایک کلاس میں‌سب بچے بطور اس کلاس کے طالبعلم تو برابر ہیں‌۔ لیکن سب بچے ایک برابر نہیں ہوتے۔ کچھ بچے ہمیشہ پوزیشن ہولڈر ہوتے ہیں۔ ذہانت میں درجہء فضیلت ، کچھ بچے اچھے مقرر ہوتےہیں۔ کچھ اچھے نعت خوان ہوگئے، کچھ اچھے کھلاڑی ہوگئے، گویا ہر کوئی ، دوسرے سے ممتاز و منفرد ہوجاتا ہے۔ پھر کوئی سائنس پڑھ جاتا ہے ، کوئی ڈاکٹر کوئی انجنئیر تو کوئی پائلٹ اور کوئی استاد یا ریسرچ سکالر بن جاتا ہے۔ سب ایک دوسرے سے مختلف الفضائل ہوگئے۔

    قرآن و سنت میں بےشمار فضائل اسکے علاوہ بھی موجود ہیں۔ علم ، حکمت، نسل، قرابت ، قربانی، خلوص سب معیاراتِ فضیلت ہیں۔ صاحبانِ علم سے یہ معیارات کسی طور بھی مخفی نہیں ہیں۔ قرآن حکیم تو اندھے اور بینا کو برابر نہیں مانتا، علم والے اور بے علم کو برابر نہیں‌مانتا ۔ علمائے حق کو بنی اسرائیل کے انبیا کے برابر فضیلت عطا کر دی گئی ۔ حسنِ اخلاق رکھنے والے مسلمان کو دیگر مسلمانوں پر فضیلت دے دی گئی ۔ ایمان پر استقامت رکھنے والے کو دیگر مسلمان پر فضیلت دے دی گئی ۔ نبادات و جمادات میں بھی فضیلتیں ہیں۔ مقامِ ابراھیم کے پتھر پر نشانِ قدم اسے دنیا کے دیگر پتھروں سے فضیلت دے دیتے ہیں۔ حجرِ اسود پتھر ہونے کے باوجود دنیا کے دیگر پتھروں سے فضیلت پا سکتا ہے۔ مکہ شہر فضیلت پاتا ہے، مدینہ پاک فضیلت پاتا ہے۔ حدیث پاک " خیر القرونِ قرنی" نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کو دیگر زمانوں پر فضیلت عطا فرما دی ۔

    بعینہ انبیائے کرام علیھم السلام کے فضائل کسی سے مخفی نہیں، امت میں پھر اہل بیت اطہار کا رضوان اللہ عنھم کا مقام " الا المودۃ فی القربی" کہہ کر منفرد کیا گیا۔ حضرات اصحابِ کرام رضوان اللہ عنھم کے فضائل قرآن حکیم میں‌جا بجا ہیں۔ اب کوئی عام امتی ساری زندگی تقوی طہارت کی جتنی اعلی منازل طے کر لے ، صحابی کے مرتبہء فضیلت کو چھو بھی نہیں سکتا۔ اولیائے کرام کے لیے خوف و غم سے نجات کی خوشخبری بھی ان کی فضیلت بن گئی ۔ پھر ان سے نسبت رکھنے والے بھی فضیلتیں پاتے چلے گئے۔ قرآن مجید کی سورۃ الکہف میں تو کتے کو بھی اصحابِ کہف جیسے اولیائے کرام سے نسبت ہونے کی وجہ سے ایسی فضیلت عطا ہوئی کہ اس کتے کا ذکر قرآن کا حصہ بن گیا۔ اب اس کتے کا ذکر بھی قرآن کی تلاوت میں پڑھیں تو ہمیں نیکیاں‌، فضیلتیں اور درجے ملتے ہیں۔

    الغرض ، فضائل و امتیازات کے دیگر معیارات موجود ہیں ۔ جن کی طرف بھی توجہ دی جانی چاہیے۔

    والسلام علیکم۔
     
  3. نیلو
    آف لائن

    نیلو ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2009
    پیغامات:
    1,399
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    سلام عرض ہے ۔ جناب بےباک صاحب۔
    آپ نے معاشرتی برائی کی طرف خوب توجہ دلائی ہے۔ درست فرمایا کہ ذات پات ، برادری ، کی تقسیم ایک بہت بڑی معاشرتی برائی ہے ۔ اللہ ہمیں‌ معاشرتی وحدت و مساوات عطا فرمائے۔

    لیکن آپ نے مذہبی حوالے سے جو بات کی ہے ان میں سےبعض امور سے میرا اختلاف ہے۔ اور میرا خیال ہے وہ مواد موضوع کی ضرورت بھی نہ تھا۔

    بہرحال تحریر کے لیے شکریہ ۔ :happy:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں