1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حرکت میں برکت

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از سنی آن لاین, ‏17 اپریل 2010۔

  1. سنی آن لاین
    آف لائن

    سنی آن لاین ممبر

    شمولیت:
    ‏19 دسمبر 2009
    پیغامات:
    139
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    حرکت میں برکت
    [​IMG]30 مارچ کو رات کے نو بج رہے تھے اور کسی کو خبر ہی نہ تھی کہ کل "ایکسپوسینٹر کراچی" میں کیا ستم ڈھایاجانے والا ہے۔ سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ سڑکوں پر گاڑیاں رواں دواں تھیں۔ بازاروں میں کھوے سے کھوا اُچھل رہاتھا۔ مارکیٹوں میں ہزاروں اور لاکھوں بلکہ شاید کروڑوں کے سودے ہورہے تھے۔ میڈیا کے ہاتھ ایسی خبر آگئی جس کی جزئیات سے فوری طور پر پوری قوم کو باخبر رکھنا ضروری تھا۔ ایک پاکستانی کھلاڑی کی انڈین خاتون کھلاڑی سے نسبت طے پاگئی تھی۔ بتایا جارہاتھا کہ ان کی پہلی ملاقات کب، کیسے اور کہاں ہوئی تھی؟ ان کا شجرہ نسب کیا ہے؟ اس سے قبل وہ کتنی معاشقے کرچکے ہیں؟ نکاح کہاں ہوگا؟ ولیمے کا میلہ کہاں لگے گا؟ اس شادی کے پاکستانی اور ہندوستانی تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ دلہا اور دلہن کون سا لباس پہنیں گے؟ شلوار قمیص جچے گی یا پتلون اور بش شرٹ؟ اس شادی کے بارے میں کھلاڑیوں اور فنکاروں کے تاثرات کیا ہیں؟ پنڈت اور نجومی کیا کہتے ہیں؟ یہ رشتہ ہوگا بھی یا نہیں؟ ہوگیا تو کامیاب ہوگا یا ناکام؟
    مہنگائی کے طوفان، انتظامیہ کی زیادتیوں، ڈاکوؤں اور اغوا کاروں کے تسلط، وڈیروں کی لاقانونیت اور حکمرانوں کی شہ خرچیوں اور کرپشن کے ہاتوں ستائی ہوئی قوم کے ذہن کو بڑی مہارت سے اصل مسائل سے ہٹا کر فحاشی اور عریانیت میں اْلجھایا جارہاتھا۔ وہی کام جو نضر بن حارث کرتا تھا اور بدنام تھا، آج کا میڈیا کرتا ہے اور نیک نام ہے۔ نضر ساری تگ ودوکے باوجود ایک یادو گانے والی لونڈیوں کا انتظام کرپایاتھا۔
    چوپال میں دھماچوکڑی کرکے سو پچاس دماغوں میں غلاظت انڈیلتی تھیں۔ آج ایک دو نہیں دسیوں، بیسیوں بلکہ سیکڑوں فنکار اور گلو کار ہیں جو نجاست کی بدبو گھر گھر میں پہنچاتے ہیں۔ ان لونڈیوں کو صرف رستم اور اسفندیار اور دوسرے شاہانِ فارس کے قصے یادتھے۔ آج کی لونڈیاں خود درجنوں اسٹوریوں کا سرعنوان ہوتی ہیں۔ وہ صرف چوپالوں کی رونق بنی تھیں۔ انہوں نے ہر گھر کو رقص گاہ میں تبدیل کردیاہے۔
    بات ہو رہی تھی 30 مارچ کی شام کی جب نو بجے تک کسی کو خبر نہ تھی کہ کل ایک شیونگ ریزنگ کے تعارف کے نام پر کیا طوفان بدتمیزی اْٹھایا جانے والاہے۔ منصوبہ یہ تھا کہ ایک ہی مقام پر 2500 افراد سنت رسول منڈواکر عالمی ریکارڈ قائم کریں گے۔ اس سے قبل انڈیا میں اسی طرح کی ایک تقریب ہوچکی تھی جس میں 1800 افراد نے یہ حرکت کی تھی۔ یقیناً ان میں سے مسلمان بھی ہوں گے اور غیر مسلم بھی، مگر اب ایک اسلامی ملک کے نوجوانوں کی رنگ برنگے فنکاروں کے ہجوم میں پْر کشش انعامات کا لالچ دے کر آمادہ کیا گیا تھا کہ وہ ڈاڑھیاں منڈواکر ایک نیا ریکارڈ قائم کریں۔ شب نو بجے کے بعد یہ خبر افواہ کی طرح پھیلنا شروع ہوئی۔ دس بجے تک اس کی تصدیق ہوگئی۔ یہ خبر حساس دلوں کے لیے دھماکے سے کم نہ تھی۔ ایسے بھی تھے جن کی روتے روتے ہچکیاں بندھ گئیں۔ یارب! کیا اب یہ ملک بے ہودہ مقابلوں کے لیے رہ گیا ہے۔ دشمن کے حوصلے اتنے بڑھ گئے کہ وہ اس ملک کے باسیوں کو سنت رسول سے نفرت کے اظہار میں پہلے نمبر پر دکھانا چاہتاہے۔ دکھی دلوں نے فون پر ایک دوسرے سے رابطہ کیا۔ مشورہ ہوا کیا کیا جائے؟
    وقت کم تھا اور ہدف مشکل۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے پروگرام بہت سوچ سمجھ کر تیار کرتی ہیں۔کروڑوں کا گیم ہوتا ہے۔ حکومتی اور کاروباری ادارے ان کی پشت پر ہوتے ہیں۔ میڈیا ان کے ماتھے کے تیور دیکھ کر پالیسی بناتا ہے۔ اس کے لیے ممکن ہی نہیں ہوتا کہ وہ کوئی ایسی خبر یا اشتہار نشر کرے جس کی زد ان کمپنیوں کے مفادات پر پڑتی ہو۔ اسے کروڑوں کا بزنس ان کی جنبش لب سے حاصل ہوتا ہے۔ حضرت اقبال کے بقول اگر فرنگ کی جان پنجۂ یہود میں ہے تو میڈیا کی جان ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پنجے میں ہے۔ ٹیلی فونک مشورے میں تین باتیں طے ہوئیں۔
    ایک یہ کہ متوقع سانحہ علماء کے علم میں لایا جائے۔ اکابر علماء کا اپنا اپنا نظم اوقات ہے۔ کئی ایک اپنے علمی، تدریسی، تالیفی اور خانگی معمولات میں بے طرح مصروف ہوتے ہیں۔ "شکستہ دلوں"و کی جہاں تک رسائی ہوسکی انہوں نے اطلاع پہنچادی۔ ہر طرف سے انہیں حوصلہ افزا جواب ملا۔ کسی نے اظہارِ رنج پر اکتفا کیا، کسی نے عملی تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
    دوسرے بات یہ طے ہوئی کہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے احتجاج کیا جائے۔ ہنگامی طور پر پریس ریلیز تیار ہوئے مگر ایک "غریب جریدہ" کے سوا کوئی اسے شائع کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ ہر ایک کو اندیشہ تھا اشتہارات سے محرومی اور عالمی ساہوکاری کے زیر عتاب آنے کا سراسر "زیان" پر مشتمل اس سودے کے لیے کوئی بھی تیار نہ تھا۔ "غریب" کے پاس اللہ اور کے پسندیدہ دین اسلام کے سواہی کیا کہ اسے اس سے محرومی کا ڈر ہو۔ اس بیچارے کا حال تو یہ ہے کہ غیر اپنے بھی اسے اشتہار نہیں دیتے کہ مبادا ان کا شمار دقیانوسوں اور قدامت پسندوں میں ہونے لگے۔ قوم کے جذبات کی ترجمانی کا دعویٰ کرنے والے دسیوں روزناموں میں سے یہ واحد روزنامہ تھا جس کے صفحہ اول پر 31 مارچ کی صبح چار کالمی احتجاجی بیانات جگمگارہے تھے۔
    تیسری بات یہ طے ہوئی کہ انتظامیہ سے ملاقات کرکے انہیں مسئلے کی سنگینی سے آگاہ کیا جائے۔ چنانچہ چند دوستوں نے ڈی آئی جی سے ملاقات کرکے انہیں خاموش عوام کے جذبات سے مطلع کیا۔ اس دوران ایس ایم ایس تحریک بھی زور وشور سے جاری رہی۔
    اس تحریک کے نتیجے میں ظہر کے بعد ٹولیوں کی شکل میں نوجوان ایکسپوسینٹر کے سامنے جمع ہونا شروع ہوگئے۔ اشتہاری کمپنیوں کے کارندے اپنے انتظامات کو آخری شکل دینے میں مصروف تھے اور خوش تھے کہ بائیس سو کے قریب افراد رجسٹریشن کرواچکے ہیں۔ انہیں اپنا ہدف بہت آسان لگ رہاتھا۔ اس یادگار لمحے کی عکس بندی کے لیے انہوں نے نیوز چینلز اور اخبارات کے کیمرہ مینوں کو دعوت دے رکھی تھی۔ جب بیک وقت پچیس سو نوجوان اپنے چہروں پر جرمنی ساختہ ریزر چلا کر نئی تاریخ رقم کریں گے۔
    کیمرے سیٹ کیے جاچکے تھے اور کچھ ہی دیر میں ان کی تیز لائٹوں سے چکا چوند ہونے والی تھی کہ "اللہ اکبر" کے فلک شگاف نعروں نے کھلبلی سی مچادی۔ اشتہاری کمپنی کا منیجر حیران تھا کہ ریکارڈ تو ابھی قائم ہوا نہیں۔ یہ کون لوگ ہیں جو تاریخ ساز لمحے کی آمد سے پہلے نعرے لگارہے ہیں۔ پھر موقع تو "شیطان زندہ باد" کا ہے "سنت رسول زندہ باد" کے نعرے کی کیا تگ ہے؟ جب اس کی حواس بحال ہوئے تو اسے پتا چلا کہ یہ نعرے شیطانی تقریب کے حق میں نہیں۔ اس کے خلاف لگائے جارہے ہیں۔ ایکسپوسینٹر کے باہر سیکڑوں شیدائیوں پر مشتمل ایک ہجوم تھا جس کے ہاتھوں میں درجنوں بینر تھے اور زبانوں پر پْر جوش نعرے۔ تب ایک رپورٹر کے بقول وہ بڑبڑانے لگا: "یہ قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ان کے ایشوز دیکھو۔ بھلایہ بھی کوئی بات ہے۔ یہ جو مولوی ہیں ناں، یہ اس ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اب دیکھو ناں آج یہ ورلڈ ریکارڈ قائم ہوجاتا تو پوری دنیا کے بڑے بڑے اخبارات میں اسٹوریز چھپتیں۔ تصویریں لگتیں۔۔۔۔۔۔ وہ لوگ ان چیزوں کو بہت ویلیودیتے ہیں۔ وہ ہماری طرح بیمار ذہن کے لوگ نہیں۔ زندہ دل ہیں۔ زندگی انجوائے کرتے ہیں۔ بہت افسوس ہوا۔ کاش! آج مشرف ہوتا۔ ان مولویوں کے لیے مشرف ہی ٹھیک تھا۔"
    زندہ دلی پر اس "مرد / دل" انسان کا لیکچر جاری تھا کہ احتجاجی نعروں کی گونج تیز ہوگئی۔ "بند کرو، سنت کا استہزا بند کرو۔" "نہیں چلے گی، نہیں چلے گی، مغرب کی غلامی نہیں چلے گی!" "آقا کی سنت زندہ باد" باریش تو نعرے لگاہی رہے تھے حیرت اس بات پر تھی کہ بعض بے ریش بھی یہی نعرے لگارہے تھے۔
    اس ہجوم کو نہ کسی سیاسی لیڈر نے جمع کیا تھا نی کسی دینی جماعت نے۔ یہ سب کشتگانِ عشق تھے جو سنت نبوی کی تحقیر کی خبر سن کر جمع ہوگئے تھے۔ تعجب انگیز امر یہ تھا کہ نعتوں اور قوالیوں پر دھمال ڈالنے والے دوستوں میں سے کوئی دوست دکھائی نہیں دے رہاتھا۔ شیطانی تقریب کی انتظامیہ نے جب دیکھا کہ معاملہ کنٹرول سے باہر ہونے کو ہے تو وہ لاکھوں روپے کا سامان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ ان کے فرار نے ثابت کردیا کہ حرکت میں برکت ہے اور اخلاص کے ساتھ کی گئی جد وجہد ناکام نہیں ہوتی۔ اگر بالفرض یہ تقریب ہوبھی جاتی تو بھی اس کے انسدادی کی کوشش کرنے والے ساتھی قیامت کے دن کی مسؤلیت سے ضرور بچ جاتے اور یہ مقصد ان کے پیش نظر تھا۔ ہاتھ کی ایک دو انگلیوں پر گنے والے چند ساتھی تھے جو یہ خبر سنتے ہی متحرک ہوگئے تھے اور ان کی حرکت نے قوم کو عذاب الہی کو دعوت دینے سے بچالیاتھا۔

    مولانا اسلم شیخپوری
    بشکریہ "ضرب مومن"
     
  2. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: حرکت میں برکت

    سنی جی اس شئیرنگ کا شکریہ

    مگر کیا دین میں جبر ھے ، کیا کسی کو داڑھی رکھنے پہ مجبور کیا جا سکتا ھے؟ اور آپ کیا سمجھتے ھیں جو لوگ داڑھی منڈوانے کے لئے جمع تھے وہ سنت رسول پوری کرنے واسطے داڑھی رکھے ھوئے تھے

    ہرگز نہیں!

    اگر ایسا ہوتا تو وہ کسی کے بہکاوے میں کبھی نہ آتے
    اور ایک بات کیا محض داڑھی رکھنے سے انسان مومن ہو جاتا ھے؟
     
  3. سنی آن لاین
    آف لائن

    سنی آن لاین ممبر

    شمولیت:
    ‏19 دسمبر 2009
    پیغامات:
    139
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: حرکت میں برکت

    اظہار رائے کا شکریہ مس خوشی
    آپ کا سوال کالم نگار کو میل کردیاجائے گا۔اگرکوئی جواب آیا تو اسی مقام پر دیکھ لیجیے گا۔
    جہاں تک میرا خیال ہے دین میں جبرنہیں بہ حکم الہی"لا اکراہ فی الدین" البتہ جب کوئی دین میں داخل ہوتاہے یعنی "مسلمان" بنتاہے تو اسلام کا مطلب ہے انقیاد اور اللہ تعالی اور اس کے رسول :saw:کےاحکامات کے سامنے سرتسلیم خم کرنا۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ اے ایمان والو! اسلام میں پوری طرح داخل ہوجاو۔ عقیدہ اہل سنت والجماعت کے مطابق داڑھی رکھنا واجب ہے جس کا وجوب احادیث سے ثابت ہے۔
    جو داڑھی منڈوانے کیلیے جمع ہوئے تھے وہ "متشرع" داڑھی والے نہیں تھے بلکہ عام لوگوں کی طرح ہرچند دن کے بعد اس واجب کی بیخ کنی کرنے والے تھے۔۔
    جو داڑھی رکھنے کی تلقین کرتے ہیں ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اپنے اعمال بھی ٹھیک کرو۔ظاہر کو پیارے نبی:saw:کی صورت کے مشابہ بنانے کے بعدباطن کی بھی اصلاح کرو۔ ایک گناہ سے دوری کامطلب یہ نہیں کہ آدمی پورا بن جاتاہے! بلکہ کرنے اور نہ کرنے کے بہت سارے اورکام بھی ہیں۔
     
  4. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: حرکت میں برکت

    سنی جی شکریہ ،

    مذہبی بحث میں میں کبھی نہیں پڑتی مگر مجھے اس بات کی کبھی سمجھ نہیں‌آئی کہ ہم وہی سنت کیوں پوری کرتے ھیں‌جو لوگوں‌کو نظر‌آئے
     
  5. سنی آن لاین
    آف لائن

    سنی آن لاین ممبر

    شمولیت:
    ‏19 دسمبر 2009
    پیغامات:
    139
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: حرکت میں برکت

    اس سوال کا صحیح جواب "ہم" ہی دے سکتے ہیں۔ میں نے سنا ہے گناہ کو ظاہر کرنا اور علانیہ طور پر اللہ کی احکامات کی بغاوت کا اعلان کرنا انتہائی بری بات ہے۔
     
  6. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حرکت میں برکت

    بے شک حرکت میں‌برکت ہے
     
  7. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: حرکت میں برکت

    ماشاءاللہ ،
     
  8. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: حرکت میں برکت

    ایسا ھے تو ذرا اپنے نام کا مطلب سمجھا دیں
     
  9. سنی آن لاین
    آف لائن

    سنی آن لاین ممبر

    شمولیت:
    ‏19 دسمبر 2009
    پیغامات:
    139
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: حرکت میں برکت

    میں آپ کا مطلب نہیں سمجھ سکا۔ مزید وضاحت کیجیے۔۔۔پلیز!
     
  10. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: حرکت میں برکت

    مطلب نہ سمجھنے والی کون سی بات تھی اتنا پوچھا تھا آپ کے نام کا کیا مطلب ھے؟ یعنی ،،،،،،،،،،، سنی آن لائن ،،،،،،،،،،،،، کا
     
  11. سنی آن لاین
    آف لائن

    سنی آن لاین ممبر

    شمولیت:
    ‏19 دسمبر 2009
    پیغامات:
    139
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: حرکت میں برکت

    در اصل مطلب پوچھنے سے پہلے آپ نے کہاتھا "اگر ایسا ہے تو،،،،،"میں شش وپنچ میں رہ گیا کہ میرے نام کا تعلق کس بات سے جوڑا گیا،،،،، آپ کے سوال سے زیادہ آسان میرا "ہماری اردو-پیاری اردو" والا نام ہے۔ سنی لائن پر ہے! آن لائن آف لائن کی ضد ہے! ;)
     
  12. نایاب
    آف لائن

    نایاب ممبر

    شمولیت:
    ‏2 دسمبر 2009
    پیغامات:
    131
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    جواب: حرکت میں برکت

    السلام علیکم
    محترم جناب مولانا اسلم شیخپوری کی تحریر بواسطہ جناب سنی آن لاین نظر افروز ہوئی ۔ کاش سنی جی سنی آن لائین کی بجایے مسلم یا مومن یا مسلمان آن لاین کا نک اختیار کر لیتے تو ان کی تحریروں سے اتحاد بین المسلمین کی خوشبو بلا تخصیص سب کو مہکاتی ۔ سنی جی سے معذرت کہ یہ نک ان کی ذاتی سوچ کا عکاس ہے ۔
    پاکستانی عوام قیام پاکستان سے ہی بہت سنگین اور اہم مسائیل کا سامنا کرہی ہے ۔ محترم جناب مولانا اسلم شیخپوری کی تحریر یہ ظاہر کرتی ہے کہ انہیں شعیب و ثانیہ کی شادی کی تقریب رنج و غم میں مبتلا کر گئی ۔ وہ بہت دل جمعی سے اس شادی کی تقریبات اور میڈیا پر شادی کے نشر ہونے والے تبصروں میں مصروف تھے اور اس سے پہلے کہ وہ اس شادی کے بارے کچھ لکھتے کراچی میں شیونگ کمپنی کا اعلان انہیں مسلہ داڑھی کی جانب لے آیا ۔
    انہوں نے سب ثانوی مسائیل جیسے پانی کا مسلہ ہے،بجلی کا مسلہ ہے،تعلیم کا مسلہ ہے
    سوات اور باجوڑ کا مسلہ ہے ۔ ان سب سے صرف نظر کرتے داڑھی کی بیحرمتی پر کالم لکھا ۔
    کیونکہ انہیں علم تھا کہ یہ سب مسائل بھی تو داڑھی ہی کے ہیں
    وہ ایسے کہ سوات اور باجوڑ میں شریعت کے نفاذ کا مسلہ تو براہ راست ہے ہی داڑھی کا مسلہ ۔ رہا پانی اور بجلی کا مسلہ تو یہ بھی داڑھی سے ہی منسلک ہے کیونکہ ان دونوں محکموں کے انتظامی سربراہ بھی داڑھی والے ہیں اور وہ پانی اور بجلی کو ملک کا مسلہ ماننے کو تیار نہیں۔ تو دیکھا آپ نے کہ ہر مسلہ وطن عزیز کا داڑھی سے جُڑا ہوا ہے۔
    بیشک داڑھی رکھنا اچھی بات ھے مگر جب کے آپ میں دڑھی کا شعور ھو آپکے اردگرد کا ماحول اجازت دیتا ھو کے آپ دڑھی رکھ سکیں ۔ اور دین اسلام پر اس قدر عمل پیرا ہوں کہ اس دڑھی کا حق ادا کر سکیں کیونکہ اسلام سے داڑھی ھے داڑھی سے اسلام نہیں
    علم اور عمل تین ایک جیسے حروف سے مل کر بنے ہیں جو عقلی بنیاد پر اس بات کی دلیل ہے کہ علم عمل کے بغیر اور عمل علم کے بغیر کچھ بھی نہیں اور عمل سے پہلے علم کی ضرورت ہے. ہمارے ہاں عجیب عجیب بدعتیں جنم لے رہی ہیں.
    مسلمان یا تو مسلمان ہوتا ہے یا نہیں ہوتا.
    بس یہ حتمی بات ہے. اسی لیئے تو کتاب لاریب میں فرمان الہی ہے کہ
    ”اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ”.
    دراصل یہ فسادات ملائیت کے پیدا کردہ ہیں جسکا سارے کا سارا زور فقط عبادات پر ہےاور جو مسلمان کو یہ کہہ کہہ کر ڈرا ڈرا کر بلیک میل کرتا رہتا ہے کہ اللہ صرف منقتم قہار وجبار ہے جابر ہے اور قیامت کے روز تمہیں جہنم میں ڈال دے گا قرآن کی تلاوت،اسے حفظ کرنا،اسے خوب ہل ہل کر پڑھنا بہت اچھی بات ہے اور اللہ سبکو اسکی توفیق دے لیکن بنیادی طور پر قرآن تھیوری کی نہیں پریکٹیکل کی یعنی عمل کی کتاب ہے۔
    میں علمائے دین کا لفظ ہمیشہ بڑی احتیاط سے استعمال کرتا ہوں حالانکہ ہمارے ہاں اب ہر خطیب کو عالم دین کہا جاتا ہے۔ اس دور میں بھی اسلام کی اشاعت کا نوے فیصد سے زیادہ ذمہ ملا اور مولوی کے ہاتھ میں ہے اور ہمارے حکمت سے عاری ان ملاوں کا سارا زور لوگوں کے اعمال کی اصلاح کی بجائے صرف ان کے ظاہر سجانے پر ہوتا ہے ۔ ان کو داڑھیاں رکھوانے پر ہوتا ہے۔ اور جب کوئی نوجوان ان کی بات ماننے سے انکاری ہو تو کہتے ہیں کہ یہ سنت کا قاتل ہے ۔
    ان کو کوئی کس طرح سمجھائے کہ اسلام میں داڑھی ہے لیکن اللہ کے بندو داڑھی میں اسلام نہیں ہے کیونکہ داڑھی تو ابوجہل سمیت بہت سے کفار و مشرکین کی بھی تھی۔
    اور آپ جناب نبی پاک علیہ الصلوات و السلام کی ریش مبارک کے ساتھ زلف مبارک بھی دراز تھی ۔ سو زلف دراز رکھنا بھی سنت ٹھہری ۔
    کوئی میری اس بات کا یہ مطلب ہر گز نہ لے کہ میں داڑھی کا مخالف ہوں۔
    یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ کلام مبین کو فقط ہل ہل کر پڑھنا ہی کافی نہیں بلکہ اسے پڑھنا اور سمجھنا دونوں ضروری ہیں اور سمجھنے کے لئے تدبر کی ضرورت ہے کہ کلام برحق میں مالک موت و حیات نے تدبر پر زور دیا ہے۔“ افلا یتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفالھا (محمد 24:47)“ کیا ان لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا، یا (ان کے) دلوں پر قفل چڑھے ہوئے ہیں۔“
    قرآن کا علم کسی مخصوص جماعت اور افراد کے لیئے نہیں ہے ہر ایک فرد کا فرض ہے۔ کیسی تکلیف دہ بات ہے کہ ہم نے قرآن شناسی اور دین آگاہی ملا یا مولوی کے حوالے کر رکھی ہے کہ وہ ہمیں یہ سب بتائے۔
    قرآن مجید تو آیات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ فرمایا ہے “ كِتَابٌ اَنزَلْنَہُ اِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِہِ وَلِيَتَذَكَّرَ اُوْلُوا الْاَلْبَابِ۔ (ص 29:38 ) “ یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔“
    اقبال نے اسی لیئے تو کہا ہے کہ
    ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
    گرہ کُشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
    اپنی مرضی سے کسی چیز کی حمایت و مخالفت سراسر گمراہی ہے اس میں اگر میں بھی مبتلا ہوں تو میں اللہ سے معافی چاہتا ہوں اور وہ معاف کرنے والا غفور و رحیم ہے وگرنہ اگر معافی دنیا کے تنگ نظر و روشن خیال لوگوں کی صوابدید پر چھوڑ دی جاتی تو پتہ نہیں کیا حشر کرتے اس دنیا کا۔

    اس رحمتِ عالم ابرِ کرم کے یہ کیسے متوالے ہیں
    وہ آگ بجھانے آیا تھا - یہ آگ لگانے والے ہیں

    ہم لوگ اپنے آپ کو اسلام کا پیروکار ، اللہ کا عاجز بندہ اور عاشقِ رسول کہتے نہیں
    تھکتے ، لیکن جب عمل کی بات آتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم بس گفتار کے غازی ہیں ۔
    ایک نماز پڑھ کے اور روزہ رکھ کے یا داڑھی اور ٹوپی کا لبادہ اوڑھ کر ہم اپنے آپ کو
    سچا مسلمان سمجھتے ہیں ۔ کوئی اللہ یا رسول کے متعلق ایسی ویسی بات کر دے تو
    شلواریں چڑھا کر خنجر سونت کر اس پر پل پڑتے ہیں ۔ کیا اسلام صرف اس لیے آیا تھا کہ
    ہم لوگوں سے اللہ اور رسول کی عزت کروائیں؟
    فرض کیجیے کہ ایک شخص آپ سے کہتا ہے کہ اگر تم میرے دوست بننا چاہتے ہو تو یہ یہ
    کام کر کے آؤ پھر ہماری دوستی پکی ۔ آپ جاتے ہیں اور لوگوں سے اس شخص کی تعریفیں
    کروا کر واپس آ جاتے ہیں ۔ وہ شخص آپ سے پوچھتا ہے کہ ہاں میرے کام کیے ۔ آپ آگے سے
    کہنے لگ جاتے ہیں کہ آپ بہت اچھے ہیں ، مجھے آپ سے بہت محبت ہے ۔ وہ شخص کہتا ہے
    محبت اپنی جگہ مگر تمہیں میں نے جو کام کہے تھے وہ تم نے کیے یا نہیں؟ تو آپ کیا
    کہیں گے ۔ یہ کیسی محبت ہے کہ آپ کسی شخص کی تعریف تو کرتے رہیں اس کے روپ کی نقل کرتے رہیں مگر اس کے کہنے پر عمل نہ کریں ۔
    اللہ تعالی ہم سب کو اسوہ حسنہ کی اطاعت کی توفیق سے نوازے آمین
     
  13. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: حرکت میں برکت

    نایاب جی شکریہ

    اتنی تفصیل سے سمجھانے کا ، مفید اور خوبصورت تحریر کا بے حد شکریہ
     
  14. قراقرم
    آف لائن

    قراقرم ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مارچ 2010
    پیغامات:
    128
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: حرکت میں برکت

    محترم
    داڑھی رکھنا سنت نبوی (ص( ہے ۔
    اور اجتماعی طور پر پیارے نبی کریم ص کی سنت پر استرا پھیرنے کا مطلب ہے آپ بحیثیت مسلمان اس بات کو درخور اعتنا ہی نہیں سمجھتے کہ سنت رسول ص کا اجتماعی مذاق اڑایا جارہاہے ۔
    رہی یہ بات کہ سوات ، پانی ، بجلی ، چینی اور امریکی نکتہ چینی یہ مسائل تو ہمارے نا اہل حکمرانوں کے خانہ ساز مسائل ہیں ۔
    غلامی کی بقایا جات ہیں ۔ "کہ برصغیر کا باشندہ برطانوی گورے سے کبھی بہتر نہیں ہوسکتا"
    ہم علماء پر تو تنقید کرتے نہیں‌تھکتے لیکن کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ
    ملک میں کروڑوں کی سکالر شپ لیکر تعلیم اور اقتصاد اور سیاسیات میں پی ایچ ڈی کے ڈگری یافتہ ماہرین کی بھر مار کے باوجود اگر یہ مسائل حٌل نہیں ہوپارہے تو اس میں مولوی صاحب کا کیا قصور ہے اور نتیجہ یہ نکلتاہے کہ کہیں کوئی غلطی ہے ، یا نظام میں ، یا سوچنے کے انداز میں یا پھر عمل میں ، مولوی صاحب نے تو سپیشلائزیشن دینی مسائل کی تشریح اور اس کی تنفیذ کو آسان بنانے میں کی ہوئی ہے ۔
    وہ اقتصاد میں رائے دینے کی جرات بھی کرے گا تو آپ جیسے روشن ترین خیال کے مالک انہیں کہیں گے "" ابے جا ، ملا کی دوڑ مسجد تک " " سود کے معاملے میں علماء نے کافی پیش رفت کر بھی لی تھی نتیجہ کیا نکلا ، جج برخاست ، مولوی بدنام ، اور فرسودہ باغی نظام برقرار رہا۔
    تو براہ مہربانی سنی جی کو تنگ نظری کا طعنہ دینے سے قبل اپنے گریبان میں جھانکییے کہ ہم بھی تو ان اہل دین کی جانب تنگ نظری اور توہین آمیز سلوک کے مرتکب ہیں ، غلطی اگر ان کی ہے تو بھی غلط ہے ہماری بھی ہے تو غلط ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  15. سنی آن لاین
    آف لائن

    سنی آن لاین ممبر

    شمولیت:
    ‏19 دسمبر 2009
    پیغامات:
    139
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: حرکت میں برکت

    محترم نایاب صاحب السلام علیکم
    لمبی چوڑی رائے کا شکریہ۔
    آپ کی تضادات پرمبنی خیالات کی نشاندہی برادرم قراقرم نے کردیا۔
    "سنی"کے حوالے سے اتنا عرض کردوں کہ سچا مسلمان وہی ہے جو حقیقی سنی بھی ہو۔ جو سنت کا انکار کرے، آپ:saw: کی باتوں اور دیے ہوئے تعلیمات کو نہ مانے وہ تو مسلمان ہی نہیں! تو سنی اسلام اور مسلمانوں سے الگ چیزکا نام نہیں ہے۔ نہ اتحاد بین المسملین کے جھوٹے دعویداروں کو اس ناراض ہونا چاہیے۔
    مولانا شیخپوری باقاعدہ کالم نویس ہیں ایک ہی کالم میں تو سارے مسائل بیان نہیں کرسکتے۔البتہ جس مسئلے کو اہم سمجھیں اسی کے بارے لکھتے ہیں۔ اگر آپ باقاعدہ ان کے کالمز پڑھتے تو ہرگز آپ کو اتنی تفصیلی شکایت عرض کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ جن مسائل کاآپ نے تذکرہ کیا ہے انہوں نے شاید ایک سے زائد مرتبہ ان کےبارے لکھ چکے ہیں۔
    ایک طرف آپ داڑھی کے مسئلے کو بہانہ بناکر علماء پر برستے ہیں دوسری طرف عمل کے بھی داعی نظر آتے ہیں۔ کیا علمائے کرام نے شریعت پر عمل پیراہونے کیلیے دعوت نہیں دی ہے؟ آئین میں اسلامی قوانین تو انہی کی محنتوں کی برکت شامل ہوگئے مگر حکمرانوں نے کتنا عمل درآمد کرایا؟
    بہرحال اظہار رائے کا شکریہ
     
  16. نایاب
    آف لائن

    نایاب ممبر

    شمولیت:
    ‏2 دسمبر 2009
    پیغامات:
    131
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    جواب: حرکت میں برکت

    اسلام علیکم

    محترم
    داڑھی رکھنا سنت نبوی (ص( ہے ۔
    اور اجتماعی طور پر پیارے نبی کریم ص کی سنت پر استرا پھیرنے کا مطلب ہے آپ بحیثیت مسلمان اس بات کو درخور اعتنا ہی نہیں سمجھتے کہ سنت رسول ص کا اجتماعی مذاق اڑایا جارہاہے ۔
    رہی یہ بات کہ سوات ، پانی ، بجلی ، چینی اور امریکی نکتہ چینی یہ مسائل تو ہمارے نا اہل حکمرانوں کے خانہ ساز مسائل ہیں ۔
    غلامی کی بقایا جات ہیں ۔ "کہ برصغیر کا باشندہ برطانوی گورے سے کبھی بہتر نہیں ہوسکتا"


    میرے محترم
    بلاشک آپ نے سچ کہا ۔ لیکن ملحوظ رہے کہ صرف یہی اک سنت نہیں ہے ۔ بلکہ آپ جناب علیہ الصلوات وسلام کی پوری حیات مبارکہ ہمارے لیے اسوہ حسنہ ہے ۔
    میں بطور سوال یہاں محترمہ خوشی جی کا لکھا کوٹ کرتا ہوں ۔
    “مگر کیا دین میں جبر ھے ، کیا کسی کو داڑھی رکھنے پہ مجبور کیا جا سکتا ھے؟ اور آپ کیا سمجھتے ھیں جو لوگ داڑھی منڈوانے کے لئے جمع تھے وہ سنت رسول پوری کرنے واسطے داڑھی رکھے ھوئے تھے
    ہرگز نہیں!
    اگر ایسا ہوتا تو وہ کسی کے بہکاوے میں کبھی نہ آتے
    اور ایک بات کیا محض داڑھی رکھنے سے انسان مومن ہو جاتا ھے؟“
    جس کو اللہ توفیق دے وہ سر کٹا دیتا ہے مگر داڑھی نہیں منڈاتا ۔ اور جو داڑھی نہیں رکھتے وہ بھی باریش حضرات کا احترام کرتے ہیں ۔ اسے مسلمان تو کہا ہی نہیں جا سکتا جو داڑھی کو سنت رسول میں شامل کرتے اس کا مذاق اڑاٰے ۔ اور نا ہی سب داڑھی والے صرف مسلمان ہوتے ہیں ۔ اور جسے آپ اجتماعی مذاق کہہ رہے ہیں ۔ وہ اک شیونگ کمپنے کی جانب سے شیو کرنتے والوں کے لیے آسانی پیدا کرنے کی کوشش تھی ۔ زبردستی کسی کی داڑھی نہیں منڈواٰءی جا رہی تھی ۔اور جب منتظمین نے محسوس کر لیا کہ ان کی اس کوشش کو اہانت رسول میں بدلا جا رہا ہے تو انہوں نے اسے منسوخ کر دیا ۔ محترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی انتخاب سے جو پاکستان میں اسلام نعروں کی زد میں آیا ہے ان نعروں نے لال مسجد کو بھی لال کر دیا ۔ ہم پاکستانی عوام کے پاس جبرواستبداد کی چکی میں پستے یہی نفاز دین اسلام اور شریعت کا نعرہ ہے ۔ جو ١٩٥٨ سے شروع ہوا اور آج تک ہزاروں جانوں کا نذرانہ لیتے فرقہ واریت کی آگ بڑھکاتے مسجدوں تک دہشت کی فضا پیدا کرتے منزل تک نہیں پہنچ سکا ۔ اور محو حیرت ہوں کہ جتنے بھی معصوم سچے مسلمان اس نعرے کی بھینٹ چڑھے ان میں کویی بھی عالم و فاضل ایسی شخضصیت شامل نہیں ہے جس نے اس نعرہ کو اپنے لفظوں کی تپش سے اک آگ کی صورت دی ۔
    رہی یہ بات کہ سوات ، پانی ، بجلی ، چینی اور امریکی نکتہ چینی یہ مسائل تو ہمارے نا اہل حکمرانوں کے خانہ ساز مسائل ہیں ۔
    غلامی کی بقایا جات ہیں ۔ "کہ برصغیر کا باشندہ برطانوی گورے سے کبھی بہتر نہیں ہوسکتا"

    میرے محترم
    ہم سب ہی ان حکمرانوں میں شامل ہیں ۔ اور پاکستان کی پ کو پاکیزہ کی جگہ پیسہ سمجھ بیٹھے ہیں ۔ اور موقع ملتے ہی خود غرضی میں مبتلا ہو کر صرف اپنی جیب بھرتے ہیں ۔ اور اس گمراہی میں بلا تخصیص ہر شعبے دین و دنیا کے محترم نام بھی شامل نظر آتے ہیں ۔ جن کے نعرے معصوم عوام کی جان و املاک کو تشدد کی آگ میں جلا دیتے ہیں ۔

    ہم علماء پر تو تنقید کرتے نہیں‌تھکتے لیکن کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ
    ملک میں کروڑوں کی سکالر شپ لیکر تعلیم اور اقتصاد اور سیاسیات میں پی ایچ ڈی کے ڈگری یافتہ ماہرین کی بھر مار کے باوجود اگر یہ مسائل حٌل نہیں ہوپارہے تو اس میں مولوی صاحب کا کیا قصور ہے اور نتیجہ یہ نکلتاہے کہ کہیں کوئی غلطی ہے ، یا نظام میں ، یا سوچنے کے انداز میں یا پھر عمل میں ، مولوی صاحب نے تو سپیشلائزیشن دینی مسائل کی تشریح اور اس کی تنفیذ کو آسان بنانے میں کی ہوئی ہے ۔
    وہ اقتصاد میں رائے دینے کی جرات بھی کرے گا تو آپ جیسے روشن ترین خیال کے مالک انہیں کہیں گے "" ابے جا ، ملا کی دوڑ مسجد تک " " سود کے معاملے میں علماء نے کافی پیش رفت کر بھی لی تھی نتیجہ کیا نکلا ، جج برخاست ، مولوی بدنام ، اور فرسودہ باغی نظام برقرار رہا۔


    استحفراللہ
    محترم مولانا صاحب کا شعیب و ثانیہ کی شادی پر اتنی باریک بینی سے کیا گیا تبصرہ یہ سوال پیدا کر گیا تھا کہ مولانا موصوف شاید صرف ایسے ایشوز پر میڈیا پر بھرپور توجہ رکھتے ہیں ۔

    تو براہ مہربانی سنی جی کو تنگ نظری کا طعنہ دینے سے قبل اپنے گریبان میں جھانکییے کہ ہم بھی تو ان اہل دین کی جانب تنگ نظری اور توہین آمیز سلوک کے مرتکب ہیں ، غلطی اگر ان کی ہے تو بھی غلط ہے ہماری بھی ہے تو غلط ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    میرے محترم مجھ پر سب سے پہلے اپنے حساب و کتاب کی ذمہ داری ہے ۔ مجھے تبلیغ میں الجھے بنا جتنا ہو سکے اسلام اپنے ظاہر و باطن پر لاگو کرتے اک اچھا نہیں بلکہ عام سا مسلمان بننے کی کوشش کرنی چاہییے ۔ تو ممکن ہے کہ میرے آس پاس کے لوگ غیر اختیاری طور پر مجھ سے متاثر ہوں ۔ اگر میں نکتہ چینی مین الجھ کر دوسروں کو اپنے اپنے گریبان میں جھانکنے کا مشورہ دیتا رہون گا تو صرف اپنی راہ ہی کھوٹی کروں گا ۔



    آپ سے التجا ہے کہ درج ذیل تحریر کو ٹھنڈے دل سے پڑھتے مجھ ناقص العلم کی رہنمائی کیجیے گا ۔ کیونکہ
    آپ سب محترم ہستیوں کی گفتگو پڑھ کر مجھ ناقص العلم کا ذہن کچھ الجھ سا گیا ہے ۔
    بچپن میں کہیں کسی کتاب میں "اسوہِ حسنہ" کا لفظ پڑھا تھا کہ ہمیں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنا چاہیے ۔ ہمیں حضرت محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اخلاق اور ان کے رویے سے کیسے آگہی ہو سکتی ہے ؟۔
    نا مساعد حالات میں انہوں نے کس طرح نہ صرف اپنا اخلاق برقرار رکھا بلکہ دوسروں کو بھی انسان بنایا ۔ اک فحش و بیہودہ معاشرے میں ان کی حکمتِ عملی کیا تھی ؟
    میں حیران ہوتا ہوں کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حیاتِ طیبہ کا ایک بہت بڑا حصہ بلکہ اکثر حالات ہم سے چھپائے گئے ہیں ۔ تاریخ میں کیا لکھا ہے؟ ان کی پیدائش اور حضرت حلیمہ سعدیہ کے ہاں پرورش کے چند واقعات پھر پندرہ بیس سال کی
    خاموشی ۔ پھر پچیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہ سے نکاح اور پھر پندرہ سال کے واقعات غائب ۔ پھر چالیس سال کی عمر میں بعثت ؛ کفارِ مکہ کے کچھ مظالم اور شعبِ ابی طالب کا واقعہ ، ان تیرہ برسوں کے باقی حالات غائب ۔ اصل اسلامی تاریخ جو کتابوں میں لکھی ہے وہ ہجرت سے شروع ہوتی ہے یعنی کہ صرف دس گیارہ برس کے واقعات ۔ اور اس تاریخ میں بھی سارے غزوے اور سریے ہیں یا پھر آخر میں وفود کی آمد ہے ۔ ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی شخصیت میں کیا کیا جواہر و لعل عیاں تھے ؟
    محض صادق و امین کہنے سے بات نہیں بنتی ۔ آپ کی ہستی تو مجموعہ جمالات و کمالات ہے ۔ وہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تاجر تھے اور تاجر کو ہر طرح کے شخص سے سامنا ہوتا ہے ، وہ ہر ملک اور ہر طرح کے حالات سے گزرتا ہے ۔ ہمارے مورخین نے ان کی شخصیت پر روشنی کیوں نہیں ڈالی؟
    ہم اپنے معاشرے کو تبھی سدھار سکتے ہیں جب ہمیں معلوم ہو کہ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ان حالات میں کیا رویہ اپنایا تھا اور انہوں نے وحشی اور جنگلی لوگوں کو کس طرح انسانیت سکھائی تھی ۔ فحش عورتوں کی دعوتوں کا سدِ باب کس طرح کیا تھا اور پانی کی جگہ شراب پینے والے لوگوں کو کس طرح رام کیا تھا ۔
    حضور کے دور سے کچھ عرصہ پہلے برہنہ طواف کرنا لازم تھا ۔ مرد و عورت مادرزاد برہنہ حالت میں خانہ کعبہ کا طواف کیا کرتے ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے دور میں یہ قید ختم کر دی گئی تھی مگر پھر بھی جس کا جی چاہتا برہنہ طواف کرتا ۔
    بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا ۔ جب کسی نوجوان کا باپ مرتا تو وہ اپنے باپ کی بیویوں اور لونڈیوں کو ورثہ میں پاتا ۔ شراب خوری ، قمار بازی اور زناکاری کے علاوہ انہیں اور کوئی کام ہی نہیں تھا ۔ عرب میں بے تحاشہ انگور و کھجور کے باغات سے شراب
    بنائی جاتی تھی مگر وہ بھی ختم ہو جاتی تھی ۔ پھر شراب باہر سے درآمد کی جاتی تھی ۔
    ان تمام خرافات کے باوجود وہ ایسے بچے تھے کہ ان جیسا بچہ تاریخ میں آج تک نہیں ہوا ۔ پھر وہ جوان ہوئے تو ایسے جوان کہ ان جیسا کوئی جوان کبھی عالمِ وجود میں نہیں آیا ۔ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے حُسن اور وجیہ شخصیت (پرسنیلٹی) سے کس کو انکار ہے؟ ان کے جمال و وجاہت کے بارے میں لکھنے لگیں تو بیسیوں صفحات خرچ ہو جائیں ۔

    کون کہہ سکتا ہے کہ اس وقت کی عورتیں انہیں رجھانے (لائن مارنے) کی کوشش نہیں کرتی ہوں گی؟ ہم آج عورتوں کی سکرٹ پر اعتراض کرتے ہیں ، اس وقت تو عورتیں بازاروں میں اس سے بھی زیادہ بیہودگی دکھا دیا کرتی تھیں ۔ کیا ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ان سب سے بچ کر نہیں رہے؟
    آج ہم کہتے ہیں کہ یار زمانہ ہی ایسا ہے ، سب چلتا ہے ۔ کیا وہ ہم سے بہتر حالت میں تھے؟ ارے ان لوگوں کا تو حال ہی کوئی نہیں تھا ۔ جانوروں سے بدتر حرکات کرنے والے لوگوں میں اس عظیم انسان (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے نہ صرف اپنا بچاؤ کیا بلکہ انہیں تیر کی طرح سیدھا بھی کر دیا ۔ معجزے اپنی جگہ لیکن حضرت محمد مصطفٰی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا اصل ہتھیار ان کا اخلاق اور بہترین اعمال تھے ۔
    اللہ تعالی ہم سب پر اپنا کرم کرے اور اچھا سچا مسلمان بننے کی توفیق سے نوازے جو فرقہ واریت کی لعنت سے دور ہو آمین
     
  17. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: حرکت میں برکت

    نایاب جی ہر بات کا جواب تو دی پوائنٹ دینے کا بے حد شکریہ

    مجھے اچھا لگا کہ آپ نے ذاتیات پہ اترنے کی بجائے ہر بات کا مناسب اور ٹھنڈے دل و دماغ سے جواب دیا ، جزاک اللہ

    بلا شبہ نبی کریم:saw: کا اسوہ حسنہ ہمارے لیے ایک مشعل راہ ھے، اللہ تعالی ہم سب کو توفیق دے اس راہ پہ چلنے کی
     
  18. قراقرم
    آف لائن

    قراقرم ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مارچ 2010
    پیغامات:
    128
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: حرکت میں برکت

    نایاب جی
    یقینا آپ نایاب علم اور شخصیت کے مالک ہیں۔ آپ کو میری رائے سے کچھ اختلاف ہے مجھے خوشی ہے انسان کی فکر کو آزاد ہونا چاہیے ۔
    آپ نے جو سوالات اٹھائے ہیں کافی مفید اور بحث طلب ہیں ، لیکن اصل جواب کی طرف اشارہ آپ نے کرہی دیا ہے کہ
    "معجزے اپنی جگہ لیکن حضرت محمد مصطفٰی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا اصل ہتھیار ان کا اخلاق اور بہترین اعمال تھے ۔"
    سیرت کی کتابوں میں ایک واقعہ ملتا ہے کہ :
    حضور نبی کریم ص زمانہ جوانی میں رات کو اکثر بکریوں کو چرانے کے سلسلے میں مکہ سے باہر رہ جایا کرتے تھے ایک رات مکہ کی گلیوں میں سے گز ر رہے تھے کہ کسی گھر سے گانے کی آوازیں آنے لگیں جہاں مکہ کے جوان مل کر بزم منایا کرتے تھے ، حضور ص فرماتے ہیں میرے دل میں بھی خیال آیا کہ چلو ان سے مل لوں جب وہاں گیا تو فورا مجھ پر نیند کا غلبہ ہوا تین دن تک یہی معاملہ رہا تو میں سمجھ گیا اللہ نے میری تخلیق ان کاموں کیلئے نہیں بلکہ اس سے عظیم تر کیلئے کی ہے ۔
    اہل طائف نے پتھر مارے آپ کا جواب قابل توجہ ہے ۔
    اہل مکہ آوازیں کس رہے تھے آپ نے فرمایا ایک دن آئے گا کہ میری لائی ہوئی دعوت سب پر چھا جائے گی ۔۔۔۔۔۔
    حضور کی تجارتی خانگی جنگی سیاسی اور معاشرتی زندگی پر آپ کو بہت سارا مواد عربی میں مہیا کیا جاسکتاہے اگر چاہیں۔۔۔۔
    امید ہے میری کسی بات پر اگرآپ کو تکلیف پہنچی ہوتو معاف فرمادیں گے ۔
    اختلاف رائے رکھنے کا مقصد یہ نہیں کہ ہم دشمن بن گئے ہیں۔یہ انسان کا بنیادی حق ہے ۔
     
  19. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: حرکت میں برکت

    اللہ تعالی ہم سب کو صراط مستقیم پہ چلنے کی توفیق دے
     
  20. نایاب
    آف لائن

    نایاب ممبر

    شمولیت:
    ‏2 دسمبر 2009
    پیغامات:
    131
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    جواب: حرکت میں برکت

    میرے محترم بھاٰی
    السلام علیکم
    خوش رہیں سدا آمین

    لمبی چوڑی رائے کا شکریہ۔
    لمبی چوڑی محسوس ہوٰی اس کی معذرت اور جزاک اللہ
    میرے محترم
    علم نافع اتنی آسانی سے کہاں ملتا ہے ۔

    آپ کی تضادات پرمبنی خیالات کی نشاندہی برادرم قراقرم نے کردیا۔
    اللہ جزائے خیر سے نوازے محترم قراقرم جی کو ۔آمین
    لیکن میرا مقصود تو آپ کے سمندر علم سے چند قطرے علم حاصل کرتے اپنی تشنگی مٹانا ہے ۔

    "سنی"کے حوالے سے اتنا عرض کردوں کہ سچا مسلمان وہی جو جو حقیقی سنی بھی ہو۔ جو سنت کا انکار کرے، آپ کی باتوں اور دیے ہوئے تعلیمات کو نہ مانے وہ تو مسلمان ہی نہیں! تو سنی اسلام اور مسلمانوں سے الگ چیزکا نام نہیں ہے۔ نہ اتحاد بین المسملین کے جھوٹے دعویداروں کو اس ناراض ہونا چاہیے۔
    ماشااللہ
    بہت خوب تعریف کی ہے ۔
    کاش آپ لفظ سنی کو "صاحب قرآن و حدیث" یعنی قرآن اور نبی پاکۖ کے احکام پر عمل کرنے والا- کہتے ۔ سچے قران اور سچے رسول کی پیروی کرتے انسانون سے محبت کرتے گورے کالے عربی عجمی کی تخصیص مٹاتے صرف تقوی کا درس دینے والا ۔ وہ تقوی جو اللہ کو یاد رکھتے انسانوں کے درمیان محبت بھاٰی چارے اور انس کا مرقع ہے
    سبحبان اللہ
    آپ کی بیان کردہ تعریف نے آپ جناب نبی پاک علیہ السلام کی بعثت سے پیشتر کے سب انسانوں کو بیک جنبش قلم سچے مسلمان کی صف سے خارج کر دیا ۔ جناب ابراہیم علیہ السلام کے مسلم ہونے بارے کیا توجیہ پیش فرماٰیں گے ؟
    اہل القران ۔۔ مسلم ۔۔۔ مومن ۔۔ یہ اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ خطابات ہیں ، جو اچھے سچے انسانوں کو عطا کیے گٰے ۔
    کیا یہ نعرہ اتباع سنت “ لا حکم الا اللہ “ کے جواب میں وجود میں آیا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
    مجھے یقین ہے کہ انشااللہ آپ میرے ناقص علم میں اضافہ فرماٰیں گے ۔۔۔


    مولانا شیخپوری باقاعدہ کالم نویس ہیں ایک ہی کالم میں تو سارے مسائل بیان نہیں کرسکتے۔البتہ جس مسئلے کو اہم سمجھیں اسی کے بارے لکھتے ہیں۔ اگر آپ باقاعدہ ان کے کالمز پڑھتے تو ہرگز آپ کو اتنی تفصیلی شکایت عرض کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جن مسائل کاآپ نے تذکرہ کیا ہے انہوں نے شاید ایک سے زائد مرتبہ ان کےبارے لکھ چکے ہیں۔
    بلاشک جناب مولانا موصرف کو کردار نگاری اور آتش بیانی میں کمال حاصل ہے ۔
    ایک طرف آپ داڑھی کے مسئلے کو بہانہ بناکر علماء پر برستے ہیں دوسری طرف عمل کے بھی داعی نظر آتے ہیں۔ کیا علمائے کرام نے شریعت پر عمل پیراہونے کیلیے دعوت نہیں دی ہے؟ آئین میں اسلامی قوانین تو انہی کی محنتوں کی برکت شامل ہوگئے مگر حکمرانوں نے کتنا عمل درآمد کرایا؟
    استغفراللہ
    علماحق داد و تحسین سے بے نیاز ہوتے صرف اشاعت اسلام اور تعمیر کردار و اخلاق کرتے ہیں ۔ اور علما سو کا مقصود صرف حلوہ مانڈا ۔ اور ہر باریش عالم کے درجہ میں نہیں ہوتا ۔ جناب قاءد اعظم اور جناب علامہ اقبال بے ریش ہوتے ہوئے بہت سے باریش بزعم خود علما کو علما حق کی راہ دکھا اور سبق پڑھا گٰئے ۔

    بہرحال اظہار رائے کا شکریہ
    جزاک اللہ
    یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آپ جیسی بلند پایہ ہستی نے مجھے توجہ سے نوازا ۔ مجھے یقین ہے کہ مجھ کم علم پر توجہ جاری رکھتے میرے علم میں اضافے کا سبب بنیں گے ۔
    اللہ تعالی ہم سب کو علم نافع کو عمل صالح میں بدلنے کی توفیق سے نوازے آمین
    [/]
    انسان جو بھی مذہب اختیار کرتا ہے۔اس کی تعلیم کے زیر اثراور اسکا رہن سہن اور اس کا سماج اس کی عکاسی کرتا ہے۔اورانسان کارہن سہن اس کے رسم ورواج بھی اس کے کلچر کا حصہ بنتے ہیں ۔ کسی چیز کو اچھا یا برا سمجھنا قدروں کا نظام کہلاتا ہے۔تہذیب اگر اخلاق کی سر بلندی کا نام ہے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ کس قدر چشم کشادہ ہیں کہ فرمایا '' میں تو مکارم اخلاق ( یعنی اعلیٰ تہذیبی اقدار) کی تکمیل کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔
    اسلام کی عالمگیر تعلیم میں غیر اقوام کے مذاہب کلچر سے مکالمہ یا معاملہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔گلوبائزیشن میں ایک بین الاقوامی کلچر اور معاملہ مکالمہ نا گزیر ہے۔اور یہ اسلام کے خلاف نہیں ہے۔۔بنیادی طور پر انسان صلح جو واقع ہوا ہے۔اس میں Tolration کا جذبہ موجود ہے۔اسلام میں تو لا اکراہ فی لدین۔ہے یعنی دین کے نام پر جبر سختی کی ممانعت ہے۔ مذہبی اختلافات کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیرو کارمسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔مگرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے پیرو کاروں نے ایسے مواقع پر بھی صبر برداشت سے کام لیا ہے۔ کیونکہ قرآن کریم کی تعلیم تو یہ ہے کہ ''تم دوسروں کے جھوٹے خداؤں کو بھی برا بھلا نہ کہو وہ اس کے بدلے میں تمہارے سچے خدا کو بھی ایسا کہیں گے۔''
    ساری دنیا میں ہر لمحے کسی نہ کسی مذہب کا پرچار ہو تا رہتا ہے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ میڈیا آزادی کے اس زمانہ میں کسی مذہب کے پرچار پر پابندی لگائی جا سکے۔اسلام نے مذہبی آزاد ی ضمیر عقیدہ کی آزادی پر زور دیا ہے۔اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ ایک دوسرے کے نقظہ نظر کو دیانتداری سے سمجھنے کی کوشش کی جائے۔جس قدر اختلا فا ت شدید ہونگے اسی قدر اس معاملہ میں ِحلم ' برد باری اور متانت کی ضرورت ہوگی مگر اسلام کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اپنے عقائد کو جبراََ کسی پر ٹھونسنے کی کوشش کرے یا ایسے عقائد کے مطابق عمل پیرا ہو جو ظلم تعدی و تفرقہ کی تعلیم دیتا ہو۔
     
  21. نایاب
    آف لائن

    نایاب ممبر

    شمولیت:
    ‏2 دسمبر 2009
    پیغامات:
    131
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    جواب: حرکت میں برکت

    السلام علیکم
    محترم قراقرم جی
    کیا ذرہ کیا آفتاب
    آدم سے انسان بننے کے سفر میں ہوں ۔
    حرف چنتا ہوں لفظ بنتا ہوں اور آپ جیسی محترم ہستیوں کو بدرجہ استاد سمجھ کر الٹے سیدھے سوال کرتے اپنے علم میں اضافے کا متلاشی رہتا ہوں ۔
    نیت کی مراد سچ ہوتی ہے ۔
    تنقید و تخریب برائے تعمیر کسی بھی تعمیر کو مضبوط بناتی ہے ۔
    اختلاف برحق ہے ۔
    مٹی آگ ہوا ۔ پانی اک دوسرے کے مخالف ہوتے ہوئے بھی اک دوسرے کے مددگار
    اللہ تعالی آپ پر سدا مہربان رہتے آپ علم نافع کی تقسیم کا ذریعہ بنائے رکھے آمین
     
  22. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: حرکت میں برکت

    بہت شکریہ نایاب جی
    آپ نے ٹھیک کہا کہ اختلاف بر حق ھے ، اختلافات بات چیت اور دلائل کے ذریعے ہی ختم کئے جا سکتے ھیں نہ کہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ کے،
    اختلافات کے باوجود مہذب لوگ ایک دوسرے کے دوست ہو سکتے ھیں ، مگر جانے کیوں ہمارے ہاں اختلافات کا مطلب دشمنی ہی سمجھا جاتا ھے
     
  23. قراقرم
    آف لائن

    قراقرم ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مارچ 2010
    پیغامات:
    128
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: حرکت میں برکت

    سنی جی ‌نایاب جی خوشی جی
    آداب عرض ہیں۔
    ہماری سابقہ گفتگو سے ایک روح پرور اور دل کشا بات یہ سامنے آئی ہے کہ :
    اختلافی مسائل کا وجود ہے ۔
    اختلافی مسائل میں رائے ثانی کا احترام ناگزیر ہے ۔
    اختلافی مسائل میں کئی آراء کا بھی موجود ہونا ضروری ہے ۔
    اختلافی مسائل میں بات چیت اور گفت وشنید کا ہونا از حد ضروری ہے ۔
    اختلافی مسائل میں رائے دہی کا یہ مطلب نہیں کہ ایک فریق دوسرے کا دشمن ہوا ۔
    اختلافی مسائل کے اطراح (پیش کرنے( کا مطلب ہے علم میں اضافہ ، حق کی تلاش ، دین اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنا۔
    اسلام دوسرے مذاہب کے ساتھ مکالمہ کا ہر گز مخالف نہیں ، لیکن افسوس کہ پچھلی صدی میں مستشرقین نے جو اعتراضات ذات نبوی ص پر کئے قرآن پر کئے صحابہ کی ذات پر کئے اسلام پر کئے ان کا مدلل جواب اور اقدامی جواب کے بجائے ہمارے مناظرین نے صرف دفاعی جواب پر اکتفا کیا ، دفاعی جواب ہمیشہ کمزوری کا پہلو ساتھ لئے پھرتاہے ۔
    ہمیں ہمیشہ اقدامی جہاد بالقلم وباللسان کرتے ہوئے حضور نبی کریم ص اور قرآن اور اسلام کے محاسن از خود برضائے خود دوسروں تک پہنچانی چاہیے کیونکہ جب ہم اس طرح کریں گے تب ان کا اعتراض اعتراض برائے تصحیح افکار یا اضافہ علہم یا پھر شوق لذت از محاسن اسلام سے اسلام یا صاحب اسلام کی وجہ سے ہوگا ۔

    میرے محترم قارئین اگر ہم سب ان سب باتوں میں متفق ہیں تو اس کا مطلب ہے مسلمان ذہن اب بیدار ہوچکا ہے ۔
     
  24. قراقرم
    آف لائن

    قراقرم ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مارچ 2010
    پیغامات:
    128
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: حرکت میں برکت

    نایاب جی
    اوپر کی لڑی میں آپ نے یہ جملہ تحریر فرمایا تھا :‌
    ""کیا یہ نعرہ اتباع سنت “ لا حکم الا اللہ “ کے جواب میں وجود میں آیا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟""
    سبحان اللہ آپ کے الفاظ کے چناؤ سے لگتا ہے آپ الفاظ سے مارنے کے کافی ماہر ہیں۔
    میرے بھائی :
    نبی سے محبت کرنے والا، قرآن کو سچا ماننے والا، صحابہ کو معیار عدل ماننے والا، اسلام کو سچا اورآخری مکمل دین ماننے والا ، تمام انبیاء پر یکساں ایمان لانے والا ، تمام سابقہ شرائع و کتب سماویہ کا اقرار اور ان کا احترام کرنا والا، تمام مذاہب اسلامیہ کا احترام کرنے والا ،
    سنی جی کے نزدیک :
    سنی کہلاتا ہے ۔
    اس میں خوارج کے مقابلہ کا کیا دخل !!!!!!!۔ اس نے حقائق کو ایک لفظ کی چادر اگر پہنائی ہے تو یہ اس کا حق ہے ۔ وہ آزاد ہے ۔
    رسول پاک ص نے ارشاد فرمایا ہے :
    "ظنوا بالمؤمنین خیرا"
     

اس صفحے کو مشتہر کریں