1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حبیب جالب

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏15 اکتوبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حبیب جالب کی فلمی شاعری بعض نغمات بہت مقبول ہوئے, ''رزقا'' اور ''امن'' یاد گار فلمیں
    upload_2019-10-15_3-1-52.jpeg
    عبدالحفیظ ظفر
    حبیب جالب کو عوامی شاعر کہا جاتا ہے اور کچھ لوگ انہیں ’’شاعرِ انقلاب‘‘ کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔ انہوں نے عمر بھر انسانی حقوق اور سچی جمہوریت کے لیے جدوجہد کی۔ ایک جہدِ مسلسل تھی جو ان کی موت تک جاری رہی۔ انہوں نے قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ ان کی مزاحمتی شاعری نے ان گنت لوگوں کو متاثر کیا۔ وہ سیاسی کارکن بھی تھے اور شعلہ بیاں مقرر کے طور پر بھی جانے جاتے تھے۔ ان کے شعری مجموعوں میں ’’سرِ مقتل، ذکر بہتے خون کا، گنبدِ بیدار، اس شہرِ خرابی میں، گوشے میں قفس کے، حرفِ حق، حرفِ سرِ دار، اور عہدِ ستم‘‘ شامل ہیں۔ حبیب جالب نے فلمی شاعری بھی کی اور کمال کی بات یہ ہے کہ اس میدان میں بھی انہوں نے منفرد مقام بنایا۔ اگرچہ منیر نیازی نے بھی کچھ خوبصورت فلمی گیت لکھے لیکن فلمی شاعری نے انہیں اتنی شہرت نہیں دی جتنی حبیب جالب کو۔ حبیب جالب نے بھی اگرچہ بہت زیادہ فلموں کے گیت نہیں لکھے لیکن جتنے گیت بھی لکھے شاندار لکھے اور ان گیتوں میں ان کا رنگ سب نغمہ نگاروں سے جدا ہے۔ جالب نے جس زمانے میں فلمی شاعری کی اس وقت قتیل شفائی، سیف الدین سیف، تنویر نقوی، فیاض ہاشمی، مسرور انور اور کلیم عثمانی کا طوطی بولتا تھا۔ حبیب جالب نے فلمی شاعری کو نیا انداز دیا اور سب کو چونکا کے رکھ دیا۔ ان کی خوش بختی یہ تھی کہ انہیں ریاض شاہد جیسا سکرین رائٹر، ہدایت کار اور مکالمہ نگار مل گیا۔ دونوں ترقی پسند نظریات رکھتے تھے اور دونوں نے کمال کی فلمیں بنائیں۔ ان کے ساتھ خلیل قیصر بھی تھے جو خود ایک بڑے ہدایت کار تھے۔ 1964ء میں ’’خاموش رہو‘‘ ریلیز ہوئی جس کے مکالمے ریاض شاہد نے تحریر کیے اور گیت حبیب جالب نے لکھے۔ اس کا ایک گیت بہت مشہور ہوا۔ ’’میں نے تو پریت نبھائی‘‘۔ اس کے بعد فلم ’’شام ڈھلے‘‘ میں ان کا لکھا ہوا گیت سلیم رضا نے گایا جو بہت مشہور ہوا۔ اس کے بول تھے ’’بھول جاؤ گے تم، کر کے وعدہ صنم۔‘‘ 1966ء میں حبیب جالب نے منور رشید کی فلم ’’کون کسی کا‘‘ کے نغمات لکھے جن سے انہیں بہت شہرت ملی۔ خاص طور پر نسیم بیگم اور مسعود رانا کا گایا ہوا یہ دو گانا بہت پسند کیا گیا ’’دے گا نہ کوئی سہارا، ان بے درد فضاؤں میں، سو جا غم کی چھاؤں میں‘‘۔ منظور اشرف کی خوبصورت موسیقی نے اس فلم کے گیتوں کی مقبولیت میں بہت اضافہ کیا اور فلم بھی سپرہٹ ہو گئی۔ فلم کے چھ گانوں میں ایک گانا فیاض ہاشمی نے لکھا اور باقی پانچ گانے حبیب جالب نے تحریر کیے۔ اس فلم کے دیگر گانوں میں ’’دل دل سے ٹکرا گیا اور چپکے سے وار کیا‘‘ بھی بہت ہٹ ہوئے۔ 1969ء میں ریاض شاہد کی معرکۃ الآرا فلم ’’زرقا‘‘ ریلیز ہوئی۔ اس میں حبیب جالب کے علاوہ خواجہ پرویز اور ریاض شاہد نے بھی گیت لکھے۔ یہ فلم فلسطین کی تحریک آزادی پر بنائی گئی۔ اس کے سارے کردار فرضی تھے لیکن فلم کے فنکاروں نے اس میں حقیقت کا رنگ بھر دیا۔ اس فلم میں مہدی حسن نے حبیب جالب کا لکھا ہوا جو گیت گایا وہ مہدی حسن کی فلمی گائیکی کا سب سے بڑا گیت ہے۔ نابغۂ روزگار موسیقار رشید عطرے نے اس گیت کو ایسی موسیقی دی جس کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے۔ اس نغمے کے بول تھے ’’یازرقا، توکہ ناواقفِ آدابِ غلامی ہے ابھی، رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے۔‘‘ ’’زرقا‘‘ پاکستان کی پہلی فلم تھی جس نے کراچی میں ڈائمنڈ جوبلی کی۔ مذکورہ بالا گیت کے حوالے سے حبیب جالب ’’جالب بیتی‘‘ میں کہتے ہیں ’’ریاض شاہد میرا بہت اچھا دوست تھا اور بہت ذہین بھی تھا۔ لیکن اس کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ بہت کنجوس تھا۔ جب اس نے فلم ’’زرقا‘‘ میں میرا گیت ’’رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘‘ شامل کیا تو میرے ساتھ وعدہ کیا کہ اگر یہ گیت ہٹ ہو گیا تو وہ مجھے 5000 روپے انعام دے گا۔ لیکن یہ گانا ہٹ نہیں بلکہ سپر ہٹ ہو گیا، لیکن اب ریاض شاہد مجھے 5000 روپے دینے میں لیت و لعل سے کام لینے لگا، لیکن آخر میں نے پیسے لے ہی لیے۔‘‘ 1971ء میں ’’یہ امن‘‘ ریلیز ہوئی جو ریاض شاہد نے کشمیر کی آزادی پر بنائی۔ یہ فلم سنسر بورڈ کی قینچی کی زد میں آ گئی۔ خاصی کانٹ چھانٹ کے باوجود اس فلم کو عوام نے پسند کیا۔ اس فلم کے تمام گانے حبیب جالب نے لکھے۔ شاہکار گیت ’’ظلم رہے اور امن بھی ہو‘‘ آج بھی پہلے دن کی طرح مقبول ہے۔ ایک مصرع ہی ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب یقینا نفی میں ہے۔ اس فلم کے گیت نشو، سنگیتا اور جمیل پر پکچرائز کیے گئے۔ فلم کے دوسرے گیتوں کو بھی شائقین نے بہت سراہا۔ خاص طور پر یہ کورس ’’جب تک چند لٹیرے میرے وطن کو گھیرے ہیں، اپنی جنگ رہے گی۔‘‘ اے حمید نے اس فلم کی موسیقی دی جو انتہائی متاثر کن تھی۔ 1972ء میں ہدایت کار رضا میر کی فلم ’’ناگ منی‘‘ ریلیز ہوئی۔ اس کے نغمات بھی بڑے مشہور ہوئے۔ اس میں حبیب جالب کا لکھا ہوا یہ گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے۔ میرا ایمان محبت ہے، محبت کی قسم اور پھر اسی گیت میں وہ لکھتے ہیں مسکرا جانِ بہاراں کہ سویرا ہو گا ختم صدیوں سے رواجوں کا اندھیرا ہو گا اس گیت میں انہوں نے ایک رجائیت پسند انقلابی کا پیغام دیا ہے۔ویسے تو ہر سچا انقلابی رجائیت پسند ہوتا ہے۔ ’’ناگ منی‘‘ کے لکھے ہوئے دیگر نغمات بھی ہٹ ہوئے۔ 1972ء میں ریاض شاہد کے انتقال کے بعد حبیب جالب اور ریاض شاہد کی جوڑی ٹوٹ گئی۔ ذیل میں ہم اپنے قارئین کی خدمت میں حبیب جالب کے فلمی گیتوں کا ذکر کر رہے ہیں جن میں سے بیشتر کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ میں نے تو پریت نبھائی… خاموش رہو۔ بھول جاؤ گے تم … شام ڈھلے۔ دے گا نہ کوئی سہارا…کون کسی کا۔ اس شہرِ خرابی میں… موسیقار۔ شوقِ آوارگی… جوکر۔ رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے…زرقا۔ ظلم رہے اور امن بھی ہو… یہ امن۔ یہ اعجاز ہے حسنِ آوارگی کا… سماج۔ میرا ایمان محبت ہے… ناگ منی۔ دل سے دل ٹکرا گیا… کون کسی کا۔ جالب صاحب نے فلمی گیت بھی غیر روایتی انداز میں لکھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں اور نظموں کی طرح ان کے فلمی نغمات کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
     

    منسلک کردہ فائلیں:

اس صفحے کو مشتہر کریں