1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حبِ نبیﷺ ، صحابہ کرامؓ قابل تقلید نمونہ

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏23 مئی 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:

    حبِ نبیﷺ ، صحابہ کرامؓ قابل تقلید نمونہ

    رسول اکرم کو اگرکسی موقع پر رنج ہوتا تو صحابہ کرامؓ کو بھی رنج ہوتا، آپ کو خوشی ہوتی تو تمام صحابہ ؓ اس میں شریک ہوتے
    تمام صحابۂ کرام کو رسول اکرم سے جو محبت تھی تاریخ انسانیت میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ بلاشبہ ایک مرید اپنے پیر سے، ایک شاگرد اپنے استاد سے، ایک ملازم اپنے آقا سے محبت کرتا ہے، عقیدت کی نگاہوں سے انہیں دیکھتا ہے، ان کے اوامر و نواہی کی اتباع و فرمانبرداری کرتا ہے مگر آپ پر ایمان لانے والوں کا حال ہی کچھ اور تھا۔ ان کا معاملہ صرف اتباع و فرمانبرداری تک نہیں تھا بلکہ اپنی جان تک نچھاور کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔ہر صحابی کی خواہش ہوتی تھی کہ میرے سرکار کو کسی طرح کی کوئی تکلیف نہ پہنچے، آپ کو اگر سو جانیں بھی دے دی جاتیں وہ یکے بعد دیگرے رسول اللہ کی حفاظت کے لئے قربان کردیتے اور ان کو اپنی قسمت پر ناز ہوتا کہ میں نے اپنی جان و مال رسول اللہ کی محبت اور دین کے لئے قربان کیا ہے جو دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے بڑھ کر ہے۔ شاگرد اور مرید کو اپنی جان پیاری ہوتی ہے۔ ان میں ادب و احترام کا جذبہ اس وقت تک ہوتا ہے جب تک کہ ان کے مفاد سے نہ ٹکرائے لیکن اگر کوئی ایسا موقع آجائے جہاں مرید اور شاگرد کے مفاد کو نقصان پہنچے تو استاذ اور پیر کا ادب و احترام، ان کی محبت یکلخت دل سے نکل جاتی ہے، مصیبت کی گھڑیوں میں نظریں بچا کر آہستہ آہستہ اپنے مخدومین سے علیحدگی اختیار کر لی جاتی ہے گویا عام طور پر دنیا کی تمام محبتیں اورعشاق کی محبت اور عشق کا تعلق راحت، قلبی میلان کے وقت سے ہے۔ جہاں تکالیف اور مشقتوں کا سلسلہ شروع ہوا، محبتیں دم توڑ دیتی ہیں۔ صحابۂ کرامؓ میں سانس کے آخری لمحے تک رسول اللہ کی محبت اس طرح پائی جاتی تھی کہ آخری وقت بھی اس بات پر راضی نہ ہوتے کہ ان کی جان کی خلاصی ہوجائے اور اس کے عوض آپ کے قدم مبارک میں کوئی کانٹا بھی چبھ جائے۔
    4ھ میں دھوکے سے حضرت زید بن دثنہ ؓ کوچند ساتھیوں کے ساتھ کفار مکہ نے گرفتار کرلیا تھا۔ صفوان بن امیہ نے جس کا باپ امیہ بن خلف بدر میں مارا گیا تھا، حضرت زید کو اپنے باپ کے عوض میں قتل کرنے کے لئے خریدا کہ انہیں قتل کر کے دل کو یہ کہتے ہوئے تسلی دی جاسکے کہ میرے باپ کو اگر مسلمانوں نے قتل کیا ہے تو میں نے بھی اپنے باپ کی جان کے بدلے ایک مسلمان کی جان لی ہے۔ بہرحال صفوان بن امیہ نے حضرت زید بن دثنہؓ کو خرید کر بلا کسی تاخیر کے اپنے غلام نسطاس کے ساتھ حرم سے باہر تنعیم میں قتل کرنے کے لئے بھیج دیا اور قتل کا تماشا دیکھنے کے لئے قریش کی ایک جماعت تنعیم میں جمع ہوگئی، جن میں ابوسفیان بھی تھا۔جب حضرت زیدؓ کو قتل کے لئے سامنے لایا گیا تو ابوسفیان نے ان سے مخاطب کرتے ہوئے کہا: اے زید! میں تم کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم اس کو پسند کروگے کہ تم کو چھوڑ دے اور محمد () کو تمہارے بدلے میں قتل کردیںاور تم اپنے گھر آرام سے رہو۔حضرت زیدؓنے جھنجھلاتے ہوئے فرمایا:
    ’’اللہ کی قسم !مجھے یہ بھی گوارا نہیں کہ حضور اقدسجہاں ہیں وہیں آپکے مبارک پیر میں ایک کانٹا بھی چبھے اورمیں اپنے گھر میں بیٹھا رہوں۔ ‘‘
    یہ جواب سن کر ابوسفیان نے کہا: خدا کی قسم میںنے کسی کو کسی کا اس درجہ محب، مخلص اور دوست و جان نثار نہیں دیکھا، جتنا محمد (صل) کے ساتھی ان کے جان نثار اور چاہنے والے ہیں۔ قریش نے سیدنا زید ابن دثنہؓ کے دوسرے ساتھی حضرت خبیب بن عدیؓ کو پھانسی دیتے وقت تختہ دار پر چڑھایا تو یہی سوال ان سے بھی کیا گیا: کیا تم گوارا کرو گے کہ محمد ()تمہاری جگہ تختہ دار پر ہوں؟ وہ بولے:
    ’’ربِ عظیم کی قسم! مجھے یہ بھی گوارا نہیں میری جگہ رسول کے قدم مبارک میں کوئی کانٹا بھی لگے اور میری جان کی حفاظت کے بدلے آپ کو اتنی بھی تکلیف پہنچے جتنی تکلیف ایک کانٹا چبھنے میں کسی کو ہوتی ہے۔‘‘ (البدایہ و النہایہ)۔
    قریش یہ جواب سن کر دنگ رہ گئے۔
    حضرت زید بن دثنہؓ اور حضرت خبیب ؓ کے اس جواب میں کتنا عشق رسول ہے، کیا اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے؟اُن کے جان جانے کا وقت ہے، وہ کفار اور دشمنوں کے نرغے میں ہے، ایسے وقت ہر ایک کو فکر ہوتی ہے کہ کسی طرح جان بچ جائے، اس کے لئے جو کچھ بھی بولنا یا کرنا پڑے، اس کے لئے دل راضی ہوجاتا ہے، خواہ حقیقت نہ ہو پھر بھی زبان سے بظاہر ایسے جملے نکالنے میں حرج نہیں سمجھا جاتا لیکن صحابۂ کرام میں محبت رسول کا جو نشہ تھا وہ زندگی کی آخری سانس تک باقی رہا۔دنیا کی کوئی طاقت اسے نہ نکال سکی۔ ان دونوں حضرات نے زبان سے ظاہری طور پر بھی کوئی ایسا جملہ کہنا ہرگز گوارا نہیں کیا جو ادبِ رسول کے خلاف تھا یا جو حقیقی عشق کے لئے مناسب نہیں تھا۔یہی وجہ ہے کہ حضرت بلالؓ کو اسلام قبول کرنے کے پاداش میں ٹھیک دوپہر کے وقت جب دھوپ تیز ہوجاتی اور پتھر آگ کی طرح تپنے لگتے غلاموں کو حکم دیا جاتاکہ بلال کو تپتے ہوئے پتھروں پر لٹا کر سینہ پر ایک بھاری پتھر رکھ دیا جائے تاکہ جنبش نہ کرسکیں اور پھر کہا جاتا کہ تو اسی طرح مر جائے گا، اگر نجات چاہتا ہے تو محمد() کا انکار کر اور لات و عزیٰ کی پرستش کر لیکن سیدنابلالؓ کی زبان سے اس وقت بھی احد احد (اللہ ایک ہے اللہ ایک ہے) نکلتا تھا۔بعض صحابہ کرام کو آگ کے انگارے پر لٹاکر تکلیف دی جاتی تھی جس سے وہ بیہوش ہوجاتے لیکن جب بھی ہوش آتا تو زبان پر اللہ اور اللہ کے رسول کا مبارک نام ہی ہوتا تھا۔حضرت خباب بن ارت ؓ، حضرت صہیب ؓ، حضرت عمار ؓ، حضرت سمیہ ؓ اور ان جیسے درجنوں صحابہ و صحابیات تھیں کہ ایمان قبول کرنے کے سبب مختلف اذیت ناک سزائیں دی گئیں اور قریش مکہ نے ایمان سے پھیرنا چاہا مگر اذیت اور تکلیف دیتے دیتے یہ لوگ تھک گئے، رسول اکرم کی محبت ان کے دل و دماغ سے نہ نکال سکے۔ کیا ہمارے اندر بھی اس طرح کی کوئی محبت ہے؟ اگر اس سطح کی نہ بھی ہو تو کیا اس سے کم درجہ کی کہ ہزار مصائب کا طوفان آجائے پھر بھی رسول اللہ کی سنت اور طریقہ کار ہم ترک نہ کریں۔ ایک مسلمان کے زبان سے کلمہ پڑھنے کامطلب یہ ہونا چاہیے کہ دنیا میں جتنے بھی طریقے اور منہج رائج ہیں چاہے ان میں دلچسپی کا سامان ہی کیوں نہ ہو، ان سے بڑھ کر حضور کا طریقہ اور سنت ہے، اسی میں کامیابی اور عزت سمجھی جائے۔ آج مسلمان شادی بیاہ، لین دین اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں یورپ اور دشمنان دین کے اصول و ضوابط اور ان کے طریقہ کار کو اپنانا پسند کرتا ہے، تو پھر غیبی مدد اور رحمتوں کا نزول کس طرح ہو؟
    صحابہ کرام ؓکے جان نثارانہ جذبات کا ظہور سب سے زیادہ غزوئہ احد میں ہوا۔صحیح مسلم میں حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ جب قریش کا آپپر ہجوم ہوا تو ارشاد فرمایا: کون ہے جو ان کو مجھ سے ہٹائے اور جنت میں میرا رفیق بنے۔ قبیلہ انصار کے 7 افراد اس وقت آپ کے پاس موجو دتھے، ساتوں انصاری باری باری لڑ کر شہید ہوگئے زیاد بن سکن ؓ کو یہ شرف حاصل ہوا کہ جب یہ زخم کھاکر گرے تو نبی اکرمنے فرمایا: ان کو میرے قریب لائو۔ لوگوں نے ان کو آپ کے قریب کردیا، توانہوں نے اپنا رخسار آپ کے قدم مبارک پر رکھ دیا اور اسی حالت میں جان اللہ کے حوالے کردی۔ ان کی قسمت اور سعادت کا کیا کہنا جن کی روح رسول اللہ کے مبارک قدم پر پرواز کی ہو۔جنت ان کے استقبال کیلئے انتظار کر رہی تھی، یہ محبت اور تڑپ جس کو حاصل ہوگئی وہ شحص دنیا و آخرت میںکامیاب ہوگیا۔
    جنگ احد کے دن دشمنوں کے حملے میں چہرئہ انور میں زرہ کی 2 کڑیاں چبھ گئی تھیں جن کو ابوعبیدہ بن الجراحؓ نے اپنے دانتوں سے پکڑ کر کھینچا جس سے اُن کے دانت شہید ہوگئے۔ اس دن آپ کے جسم مبارک پر چونکہ2 آہنی زرہوں کا بوجھ تھا، اس لئے آنحضرت ایک گڑھے میں گر گئے۔حضرت علیؓ نے آپ کا ہاتھ پکڑا اور حضرت طلحہ ؓ نے کمر تھام کر سہارا دیا، تب آپ کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا:
    ’’جو شخص زمین پر چلتے پھرتے زندہ شہید کو دیکھنا چاہے وہ طلحہ کو دیکھ لے۔‘‘
    یعنی شہادت کا درجہ ان کو حاصل ہوگیا۔
    ایک موقع پر جب رسول اللہ ایک ٹیلے پر چڑھنا چاہ رہے تھے مگر نقاہت کی وجہ سے نہیں چڑھ سکے تو فوری حضرت طلحہ ؓ نیچے بیٹھ گئے، آپ ان پر پیر رکھ کر اوپر چڑھے۔ حضرت زبیر ؓ کے بیان کے مطابق آپ کی زبان مبارک پر یہ الفاظ جاری تھے: اوجب طلحۃ ۔’’طلحہ نے اپنے لئے جنت واجب کرلی۔‘‘
    یہی سیدنا طلحہ ؓ ہیں جن کا ہاتھ رسول اللہ کو کفار کے تیروں سے بچانے میں شل ہوگیا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ35 یا39 زخم ان کو احد کے دن لگے تھے۔جس موقع پر ہر طرف سے کفار آپ پر ٹوٹ پڑے تھے، حضرت طلحہ ؓ آپ کیلئے سپر بن گئے تھے۔ جب آپ نظر اٹھاکر دیکھنا چاہتے توسیدنا طلحہ ؓ عرض کرتے: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ نظرنہ اٹھائیں، کہیں دشمنوں کی کوئی تیر نہ آلگے، میرا سینہ آپ کے مبارک سینے کے لئے سپر ہے۔‘‘ (سیرۃ المصطفیٰ)۔
    اس موقع پر حضرت ابودجانہؓ نے اپنی پشت کو رسول اللہ کے لئے ڈھال بنا دیا تھا۔ان کی پشت پر تیروں کی بارش ہوتی رہی مگر اس اندیشے سے کہ کہیں آپ کو کوئی تیر نہ لگ جائے، حس و حرکت نہیں کرتے تھے، عین حملہ کے وقت جبکہ زرہ کے 2حلقے آپ کے مبارک سر پر چہرۂ انور میں گھس گئے تھے، ان کے نکالنے سے خون بہنے لگا، اس وقت سیدنا ابوسعید خدری ؓ کے والد محترم حضرت مالک بن سنان دوڑے دوڑے آئے اور خون چوسنے لگے، مکمل خون لبوں سے چوس کرنگل گئے۔ آپ نے فرمایا: ’’ جس خون میں میرا خون شامل ہوگیا اس کو جہنم کی آگ نہیں چھو سکتی، مزید فرمایا: جو جنت کے باشندوں کو دیکھنا چاہے ان کو دیکھ لے۔‘‘ (سیرۃ حلبیہ)۔
    رسول اکرم کو اگر کسی موقع پر رنج ہوتا تو محبت کی وجہ سے صحابہ کرام ؓ کو بھی رنج ہوتا، آپ کو خوشی ہوتی تو تمام صحابہ ؓ اس میں شریک ہوتے۔ایک موقع پر آپ نے ایک مہینے کے لئے کسی بات پر ناراض ہو کر ازواج مطہرات سے علیحدگی اختیار کرلی تو تمام صحابہ کرامؓ نے مسجد میں آکر گریہ و زاری شروع کردی۔رسول اللہکی صحابہ کرام ؓہر وقت زیارت کرتے رہتے ،اس کے باوجود ان کا دل نہیں بھرتا۔ وہ چاہتے تھے کہ ہمیشہ چہرۂ انور پر نگاہ پڑتی رہے، اس سے ان کو بے حدسکون ملتا تھا اور اس سے انہیں جو روحانی تازگی ملتی تھی اس کا بیان الفاظ میں سمٹنا مشکل ہے۔یہی وجہ ہے کہ اگر آپ تھوڑی دیر کے لئے مجلس سے اوجھل ہوجاتے تو صحابہ کرام ؓ بے چین ہوجایا کرتے تھے، اور جتنا جلد ہوسکے دیکھنے کے لئے تڑپتے تھے۔ نمازوں میں بہت سے صحابہ پہلی صف میں بائیں جانب اس لئے بیٹھتے تھے تاکہ سلام پھیرتے وقت سب سے پہلے ان کی نظر حضور کے چہرہ انور پر پڑے، جتنی دیر نماز میں لگتی ہے اتنی دیر بھی حضور کے رخ زیبا سے نظرکا ہٹنا ان پر گراں گزرتا تھا۔
    مفتی تنظیم عالم قاسمی​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں