1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از UrduLover, ‏16 مارچ 2018۔

  1. UrduLover
    آف لائن

    UrduLover ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مئی 2015
    پیغامات:
    812
    موصول پسندیدگیاں:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    فرقہ بندی کے تصورات کو ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھا ، آپؒ اتحاد بین المسلمین کے لئے عمر بھر کوشاں رہے

    شیخ العرب العجم حضرت شیخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کا شمار برصغیر پاک وہند میں ہی نہیں پورے عالمِ اسلام کے مقتدر اولیاءاللہ میں ہوتا ہے۔ آپ کی ذات گرامی بلند منزلت علماءو مشائخ کا مرجع تھی۔ عالی نسبت بزرگ تھے اور اللہ نے بے پناہ مقبولیت اور محبوبیت عطا فرمائی تھی۔ بچپن ہی میں آپ کو سید احمد شہیدکی آغوش میں دیا گیا جنہوں نے آپ کو بیعت تبرک سے نوازا۔ بچپن میںہی قرآن پاک حفظ کرنے کا شوق پورا کر لیا۔ ظاہری علوم کے ساتھ ساتھ باطنی علوم کا شوق پیدا ہوا تو دہلی میں مولانا نصیر الدین نقشبندی کے ہاتھ پر 18 سال کی عمر میں بیعت کر کے سلوک کی منزلیں طے کیں۔ طریقہ نقشبندیہ حاصل کیا اور خرقہ حاصل کرنے کی اجازت لی۔ اِس کے بعد مولانا محمد قلندر بخش محدث جلال آبادی اور عبدالرحیم نانوتوی سے مشکوہ شریف اور حصن حصین کا درس لیا۔ یہ دونوں علماءکرام مفتی الہیٰ بخش کے شاگردوں میں سے تھے۔ ایک خواب میں اشارہ پا کر حضرت میاں جی نور محمد سے بیعت ہوئے۔ اُ ن سے بھی خلافت حاصل کی تو معرفت کے دروازے کھل گئے اور اپنے پیر و مرشد کے ارشاد پر سلسلہ کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہو گئے۔ جب کافی عرصہ تک فیوض و برکات سے استفادہ کر چکے تو ایک دن اُستاد محترم نے سوال کیا تسخیر چاہتے ہو یا کیمیا؟ اس سوال کا جواب دینا کوئی آسان کام نہ تھا چنانچہ روتے ہوئے عرض کیا"محض محبوبِ حقیقی کی خواہش ہے دنیا کی کوئی چیز نہیں چاہئیے"۔ میاں جی اِس جواب سے بے حد خوش ہوئے اور اُن کے لئے خصوصی دعا فرمائی۔ اور اِس کے تھوڑا ہی عرصہ بعد 1249ھ میں میاں جی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ جن مقتدر اور جیّد علمائے کرام نے آپ کی بیعت کی اُن میں یہ مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا عبدالرحمن کاندھلوی، مولانا محمد حسن پانی پتی، مولانا محمد یعقوب نانوتوی، حافظ محمد یوسف، مولانا حکیم ضیاءالدین رامپوری اور مولانا فیض الحصر نمایاں ہیں۔ آپ اکثر اوقات یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔اے خدا ایں بندہ را رسوا مکن۔گربدم ہم سرمن پیدا مکن۔ آپ علوم ظاہر و باطن کے جامع تھے اور آپ نے تمام سلاسل میں میاں جیو شاہ نور محمد جھمیھانوی سے خلافت حاصل کی تھی۔ ۔ 1274ھ میں حاجی شیخ امداد اللہ نے سہارن پور، مظفر نگر اور آس پاس کی آبادیوں کے علماءکرام اور دوسرے آزادی پسند مسلمانوں کی ایک جماعت تیار کی ۔ انگریزوں نے ضلع مظفر نگر کے ایک قصبہ شاملی میں حریت پسندوں سے مقابلہ کیاجس میں حافظ محمد ضامن نے شہادت پائی۔ جب انگریزوں کو ہر طرف سے کامیابی حاصل ہونے لگی تو اُنہوں نے مخالفین کی گرفتاریاں شروع کر دیں۔ اِس طرح اللہ تعالیٰ کی زمین اپنی وسعتوں کے باوجود علماءکرام اور دوسرے آزادی پسندمسلمانوں پر تنگ ہونی شروع ہو گئی۔ بعض روپوش ہو گئے اور بعض نے ہجرت اختیار کر لی۔ شیخ امداد اللہ مکیؒ ہجرت کر کے 1276ھ میں مکہ معظمہ پہنچے اور محلہ حارت الباب میں سکونت اختیار کر لی۔ شروع میں آپؒ کو بہت سی تکالیف اُٹھانا پڑیں جو اکثر اوقات اللہ کے بندوں کے امتحان کے لئے ہوتی ہیں۔ آپ نے تمام تکالیف صبر و تحمل سے برداشت کیں اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد حالات اُن کے حق میں ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دل میں آپ کی محبت فرما دی اور بڑے بڑے علمائے کرام اور مشائخ نے آپ سے استفادہ کرنا شروع کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تربیت اور طریقے میں ایسی برکت عطا فرمائی کہ اس کے انوار ہرسو پھیل گئے۔ طریقہ چشتیہ صابریہ کی تجدید فرمائی اور اس میں بڑے بڑے مقتدر علما اور فضلا شامل ہوئے۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒنے 84 سال کی عمر میں 12 جمادی الثانی 1317ھ بمطابق 1899ءمیں وفات پائی اور مکہ معظمہ میں جنت المعلیٰ کے عظیم قبرستان میں مدرسہ صولتیہ کے بانی مولانا رحمت اللہ کیرانوی کے پہلو میں مدفون ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دل و دماغ میں بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا۔ انیسویں صدی کی تحریکوں کے منبع و مخرج تھے۔ آزادی وطن کی تیسری اہم تحریک میں خود آپ نے اور آپ کے مریدوں نے جو کارہائے نمایاں انجام دئیے وہ ہندوستان کی تاریخ میں سنہری الفاظ میںلکھنے کے قابل ہیں۔ آزادی وطن کے جذبے نے آپ کے قلب و جگر کو گرمایا۔ اُن کے رفقاءنے انگریزی حکومت کے خاتمے کے لئے بہت سے مصائب کا سامنا کیا تھا۔ آپ اپنے مرشد اول سید نصیر الدین چراغ دہلوی کے ہمرا ہ جہاد میں شامل ہونا چاہتے تھے۔ مگر اپنے والد ماجد کی بیماری اور پھر وفات کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے۔ آپ وسیع القلب تھے اور تعصب اور تشدد سے سخت نفرت کرتے تھے۔ مثنوی مولانا روم سے حد درجہ کا لگاﺅ تھا۔ حرمین شریفین میں اس کا درس دیتے تھے۔ اورمریدوں کو مثنوی پڑھنے کی تلقین فرماتے تھے۔ حضرت پیرسید مہر علی شاہ گولڑوی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ آپ نہ صرف احیاءتصوف بلکہ عقائد باطلہ کی تردید میں بھی سرگرم عمل رہے۔ علوم ظاہری سے فارغ ہو کر جب حرمین شریفین گئے اور وہاں کچھ عرصہ تک قیام فرمایا۔ ایک دن حاجی امداد اللہ مکی نے نہایت اصرار او ر تاکید سے ہندوستان جانے کا مشورہ دیا اور فرمایا کہ "ہندوستان میں عنقریب ایک فتنہ نمودار ہو گا۔ آپ ضرور اپنے وطن واپس چلے جائیں اور بالفرض آپ خاموش بھی ہندوستان میں بیٹھے رہے تو وہ فتنہ ترقی نہ کر سکے گا اور ملک میں سکون رہے گا"۔حضرت پیر صاحب آپ کے اس کشف کو فتنہ قادیانی سے تعبیر فرمایا کرتے تھے۔ اور فرمایا کرتے تھے کہ حضور نے خواب میں اُن کو اس فتنہ کی مخالفت کا حکم دیا تھا۔ چنانچہ پیر سید مہر علی شاہ نے اپنی زبان اور قلم دونوں سے قادیانیوں کے عقائد باطلہ کی پرزور تردید فرمائی۔ حاجی صاحب کی تصانیف محبتِ الہیٰ، معرفت اور تصوف سے بھرپور ہیں جن میں سے قابلِ ذکر یہ ہیں۔ ضیاءالقلوب، ارشادِ مرشد،تحفتہ العشاق، جہاد ِاکبر، غذائے روح اور دردناک غم۔ حضرت کی یہ تالیفات کلیات امدادیہ کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ نے صابریہ سلسلہ کو عروج کی انتہائی منزل تک پہنچایا۔ آپ کے فیوض و برکات ہندوستان تک ہی محدود نہ تھے بلکہ عالم اسلام کو بھی منور کر دیا۔ شیخ العرب و العجم حضرت شیخ امداد اللہ مہاجر مکی ؒاُن اولیائے عارفین میں سے تھے جن کی تعریف و توصیف میں سب زبانیں متفق ہیں۔ آپ کو علمائے کرام کا ہر طبقہ عقیدت و محبت سے دیکھتا ہے او رہر زمانے میں ہر خیال و مسلک کے عالم سے فیوض روحانی کا سکہ منوا لیا تھا۔ آپ نے مسلمانوں میں فرقہ بندی کے تصورات کو ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھا اور اتحاد بین المسلمین کے لئے عمر بھر کوشاں رہے۔ آپ نے اُمت محمدی کو محبت، باہمی اُلفت اور یگانگت کا درس دیا۔ کروڑوں بندگانِ خدا نے آپ سے مشیتِ الہیٰ اور حب نبوی کی نعمت بے بہا اور دولت لازوال پائی۔
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں