1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حاجب کی کمان ( قصہ وفائے عہد )

Discussion in 'اردو ادب' started by آصف احمد بھٹی, May 30, 2013.

  1. آصف احمد بھٹی
    Offline

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص Staff Member

    Joined:
    Mar 27, 2011
    Messages:
    40,593
    Likes Received:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    حاجب کی کمان

    اہل عرب میں ایک مدت تک حاجب کی کمان ضرب المثل کی طرح مشہور رہی اور اسے احترام کے ساتھ یاد کیا جاتا رہا ۔ اسلام کی آ مد سے پہلے ایک مر تبہ یثرب کے علاقے میں زبر دست قحط پڑا ۔ قبیلہ بنی تمیم کا سردار حاجب بن زراہ ایک محترم ، باوقار باحیثئت اور بہادر شخص تھا حالات جب نا قابل برداشت ہو گئے اور لوگ بھوک سے مرنے لگے تو حاجب بن زراہ کی قبیلے کے بزرگ اور قابل ذکر لوگ اُ س کے پاس آئے اور مشکل حالات کا کوئی حل نکالنے کا کہا ۔ بہت سوچ بچار اور مشوروں کے بعد حاجب بن زراہ نے اپنی قبیلے کے ساتھ ایران جانے کا فیصلہ کیا ، اور پورا قبیلہ ہجرت کر کے جب ایران پہنچا تو حسب دستور قبیلے کے زعماء نے کسرائے عجم کے دربار میں حاضری دی اور شہنشاہ ایران سے اس کے ملک میں بسنے کی اجازت مانگی ، شہنشاہ نے اتنی کثیر تعداد میں لوگوں کا اپنے وطن سے ہجرت سے متعلق سوال کیا تو حاجب بن زراہ نے اپنے ملک کے حالات بتائے اور کہا کہ ہمیں اپنے شہر کی کسی کونے میں پڑا رہنے دیجئے ، شہنشاہ نے کہا تم لوگ لوٹ مار کے عادی ہو ہنگامہ پر وری تمہاری سرشت میں ہے اس لئے مجھے ڈر ہے کہ تم لوگ ہمارے عوام کو ستاؤ گے، ا گرتمہیں یہاں بسنے کی اجازت دے بھی دی جائے تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ تم ہمارے عوام کو ضرر نہیں پہنچاؤ گے ، اس پر حاجب بن زراہ آگے بڑھے اور کہا کہ حضور میں اس کی ضمانت دیتا ہوں کہ میری قوم سے ایسی کوئی گستاخی نہیں ہوگی ، شہنشاہ نے کہا ، مانا کہ تم ان کے ضامن ہو لیکن خود تمہارا ضامن کون ہے؟ اگر تم لوگ لوٹ مار کر کے سب بھاگ گئے تو ہم کیا کریں گے اس کے جواب میں حاجب بن زراہ نے نہایت جوش اور متانت کے ساتھ آگے بڑھ کر اپنی کمان بادشاہ کے سامنے رکھ دی اور کہا ، میری یہ کمان ضامن ہے ۔ یہ دیکھتے ہی دربار میں ایک قہقہہ گونجا اور درباری یہ سوچنے لگے کہ عجیب احمق انسان ہے ، اس وحشی اور بادیہ نشین شخص کو یہ بھی پتہ نہیں کہ اس معمولی سی کمان کی کیا قیمت ہو گی اور وہ بھی ہمارے شہنشاہ کی نظروں میں ، لیکن حاجب بن زراہ کی راستبازی سچائی اور سادگی شہنشاہ ایران کے دل پر اثر کر گئی اور اس نے درباریوں کو جھڑک دیا اورڈانٹتے ہوئے کہا ۔ اس کا لحاظ نہ کرو کہ اس کمان کی قیمت تمہارے دل میں کیا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ خود پیش کرنے والے کے دل میں اور اس کی قوم کی نظروں میں اس کی کتنی قد و منزلت ہے۔۔ خدا کی قسم اگر اس کے دل میں ذرا بھی کھوٹ ہوتا تو یہ اس کمان کو پیش نہ کرتا ۔ پھر حاجب بن زراہ سے کہا ۔ میں تمہاری کمان کو ضمانت کے طور پر قبول کرتا ہوں اور تمہیں اور تمہاری قوم کو اس شہر میں رہنے کی اجازت دیتا ہوں ۔
    اس واقعے کے کچھ ہی عرصے بعد عرب میں اسلام کی روشنی پھیل گئی اور قبائل عرب نے اللہ کے حضور میں اپنے سر جھکا دئے حاجب بن زراہ ایران ہی میں دنیا سے رخصت ہو گیا ۔ ایک روز اس کا بیٹا عطار بن حاجب دربار کسریٰ میں پہنچا اور کہا کہ ہم لوگ اب اپنے وطن واپس جانا چاہتے ہیں لہٰذا میرے والد کی کمان مجھے واپس دے دی جائے ۔ بادشاہ نے فوراً کمان منگوا کر اسے واپس کی اور ایک قیمتی خلعت سے اسے سر فراز کیا ۔ اس طرح قبیلہ بنی تمیم دریائے عجم سے معاملت ختم کر کے عرب واپس آئے اور بار گاہ نبوت میں حاضر ہوئے۔ عطار ابن حاجب جناب رسول اللہ کےہاتھ پربیعت کرکے ایمان لائےاوربادشاہ کی دی ہوئی خلعت حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نذرانےکےطورپرپیش کی ، مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لینے سے انکار کردیا ۔ تب اس نے اس وہ خلعت چار ہزار دینار میں ایک یہودی کے ہاتھ بیچ دی لیکن اپنے والد کی کمان کو اپنی خاندانی فضیلت کی یادگار سمجھتے ہوئے نہایت ہی عزت اور قدر و منزلت کے ساتھ رکھا جو ایک مدت تک حضرت عطارؓ کے خاندان میں باقی رہی جس کا ذکر اس واقعے کے تین سو سال بعد کی ایک تحریر میں ملتا ہے جب علامہ ابن قتیبہ لکھتے ہیں کہ انکے زمانے میں بھی وہ کمان جعفر بن عمیر بن عطارد بن حاجب کی اولاد کے پاس محفوظ تھی ۔

    ( ماخوذ )
     

Share This Page