1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

جی ایس ٹی میں اضافہ واپس نہیں ہو گا: اسحق ڈار‘ موبائل فون صارفین پر ٹیکس میں اضافہ ۔

'خبریں' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏23 جون 2013۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جی ایس ٹی میں اضافہ واپس نہیں ہو گا: اسحق ڈار‘ موبائل فون صارفین پر ٹیکس میں اضافہ‘ لنڈے کے کپڑوں پر کم ہو گیا
    اسلام آباد (نمائندہ خصوصی + نوائے وقت نیوز + ایجنسیاں) وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ حکومت نے سینٹ کی متفقہ طور پر منظور کی گئی 113 میں سے 21 تجاویز کو بجٹ میں شامل کرلیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رواں برس آئی ایم ایف کو 3 ارب ڈالر کا قرص واپس کرنا ہے، ایک بار پھر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑیگا۔ قسطیں ادا نہ کیں تو پاکستان نادہندہ ہوجائیگا، عوام کے مفاد کیخلاف آئی ایم ایف کی کوئی شرط نہیں مانیں گے۔ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام جاری رہیگا، کھاد کی فراہمی کیلئے 30 ارب روپے کی سبسڈی دی جائیگی۔ مائیکرو فنانس سکیموں میں خواتین کا حصہ 50 فیصد ہوگا۔ قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یکم جولائی سے موبائل فون صارفین سے 10 کی بجائے 15 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس وصول کیا جائیگا جو یکم جولائی سے لاگو ہو گا۔ ابتر معاشی صورتحال کے پیش نظر جی ایس ٹی میں کیا گیا ایک فیصد اضافہ واپس نہیں لیا جاسکتا، مستقبل میں وسائل اجازت دیں گے تو کمی کرسکتے ہیں۔ مزید نوٹ چھاپ کر غریبوں پر بوجھ نہیں ڈالیں گے۔ دودھ، ڈیری مصنوعات، سٹیشنری آئٹمز، سائیکلوں پر زیرو ڈیوٹی برقرار رہے گی، یہ اشیاءمہنگی نہیں ہونی چاہئیں۔ حج آپریٹرز پر ٹیکس 2500 سے بڑھا کر 3500 روپے کردیا۔ لنڈا بازار کے کپڑوں پر جی ایس ٹی 17 سے کم کر کے 5 فیصد کردیا گیا ہے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پرانے کپڑوں پر بجٹ میں نہیں بلکہ ایف بی آر نے ایس آر او جاری کر کے جی ایس ٹی 17 فیصد کر دیا تھا اب یہ ٹیکس 5 کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔ انہوں نے ایٹمی اثاثوں کو مشترکہ میراث اور قومی اتحاد کی علامت قرار دیتے ہوئے انکی حفاظت کے غیرمعمولی اور جامع اقدامات کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ کسی بھی شخص یا گروہ میں یہ طاقت نہیں کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے قریب بھی انکے ناپاک ہاتھ پہنچ سکیں۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کیلئے تربیت یافتہ جدید اسلحہ سے لیس 25000 سکیورٹی فورسز کے جوان تعینات ہےں۔ ایٹمی پروگرام کی ترقی اور ترویج کیلئے قوم مکمل یکسو اور متحد ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا ایٹمی اثاثے قوم نے بڑی مشقت محنت اور بے شمار قربانیوں کے عوض حاصل کئے ہیں، قومی سلامتی ایسا معاملہ ہے جس میں ہمیں اپنے جذبات پر قابو رکھنے کی شدید ضرورت ہے۔ قومی سلامتی کا موضوع ہماری موت و حیات کا مسئلہ ہے نہایت ضروری ہے کہ ہم رضاکارانہ طور پر کچھ حدود ”ریڈ لائنز“ کا تعین کریں جن کی خلاف ورزی کسی بھی حالت میں نہ کی جائے۔ ہمارے اس حساس پروگرام پر شبہات کا اظہار کرنا اور ایسے خدشات کو بیان کرنا جو ہمارے دشمن ہمارے خلاف استعمال کر سکیں حکمت اور دانش کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں حفاظتی انتظامات کو بیان کرنے پر مجبور ہوئے جو ان اثاثوں کی حفاظت کیلئے تیار کئے گئے ہیں۔ بحیثیت کابینہ اور کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کے رکن جو اس ملک میں اس ضمن میں پالیسی سازی کا اعلیٰ ترین ادارہ ہے کی بریفنگ کے بعد یہ تفصیلات قوی اسمبلی کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ پاکستان کا حساس اثاثوںکا پروگرام نہایت ہی ذمہ دارانہ بنیادوں پر تشکیل دیا گیا ہے، یہ بین الاقوامی طور پر مستند تحفظ اور حفاظت کے معیارات پر پورا اترتا ہے۔ 1999ءسے ایک متحدہ قومی کمانڈ اتھارٹی کے ماتحت ایٹمی پروگرام کر دیا گیا ہے جس کے سربراہ وزیر اعظم ہیں ایک سپیشل پروجیکٹ ڈویژن ”ایس پی ڈی“ انفرادی پروگراموں کے درمیان رابطے کا کردار ادا کرتا ہے، انہیں ایک واحد قومی پروگرام میں یکجا کرتاہے مزید ایک سٹرٹیجک فورس کمانڈ اس پروگرام کی حفاظت کی ذمہ داری پر مامور ہے سخت ریگولیٹری انتظامیہ رجیم اس پروگرام سے وابستہ تمام سرگرمیوں کے متعلق قانونی ذمہ داریاں نافذ کرتی ہے جو ایٹمی تحفظ اور حفاظت سے متعلق ہیں جس کیلئے ایکسپورٹ کنٹرول رجیم کو قانونی تحفظ دیا گیا ہے اور یہ عالمی میعار سے متابقت رکھتی ہے خصوصاً وہ معیارات جو نیوکیلئر سپلائز گروپ ، میزائلز ٹیکنالوجی کنٹرول رجیم اور آسٹریلیا گروپ جیسے اداروں نے مرتب کئے ہیں کی پاکستان پاسداری کر رہا ہے ایٹمی اثاثوں کے تحفظ اور حفاظت کے جامع نظام کے بنیادی نقاط یہ ہیں کہ 25 ہزار جوان جو ایک اعلیٰ تربیت یافتہ اور جدید اسلحہ سے لیس ہیں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت پر مامور ہیں ان کیلئے سپیشل رسپانس فورس، سپیشل اسکواڈ فورس اور فائلی تنصیبات کی حفاظت کیلئے ماہرین کی فورس کسی بھی اطلاع کی فوری فراہمی کیلئے متحرک انٹیلی جنس ٹیمیں موجود ہیں جدید ترین ساز و سامان سے لیس ہیں فوری جواب کیلئے زمینی و ہوائی سطح پر متحرک نظام موجود ہے حفاظتی تربیت کیلئے ایس پی ڈی ٹریننگ اکیڈمی کام کر رہی ہے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کیلئے ہم ہر وقت چوکس ہیں اور ہم پر غفلت کا کوئی لمحہ نہیں گزرتا ہم ایسے حالات و واقعات کی تیاری کرتے رہتے ہیں جن کا سوچنا بھی مشکل ہے اور ہمارا خطرات کی نشاندہی کرنے کا نظام مستقل بنیادوں پر بلند ترین سطح پر رہتا ہے جو ہر وقت ہمارے زیر غور اور زیر تجزیہ رہتا ہے۔ ایٹمی پروگرام کی ترقی اور ترویج کیلئے ہماری قوم مکمل یکسو اور متحد ہے یہ پروگرام کسی فرد کسی سیاسی جماعت کسی نظریہ یا کسی اسٹیبلشمنٹ سے وابستہ نہیں ہے یہ تو ہماری مشترکہ میراث ہے اور ہمارا متفقہ قومی فیصلہ ہے کہ کسی بھی حالت میں اور کسی بھی چیلنج کی موجودگی میں ہم اس سے اپنی وابستگی اور اس کی حفاظت اور سلامتی کیلئے جو بھی ضرورتیں ہوں گی ان سے کبھی پہلو تہی نہیں کریں گے ایٹمی اثاثے مشترکہ میراث اور ایسی قومی اتحاد کی علامت کو کیوں کر ہم شہبات خدشات اور اندیشوں کا موضوع بنانا چاہیں گے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مجھے پورا یقین ہے کہ یہ نظام اور تفصیلات ملک کے لوگوں کیلئے نہ صرف اطمینان کا باعث ہو ں گی بلکہ اس پروگرام کے تحفظ اور حفاظت سے متعلق ان کا اعتمادبڑھے گا اس موقع پر میں دوسرے لوگوں کو بھی واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان بین الاقوامی برادری کاا یک نہایت ذمہ دار رکن ہے جو مکمل طور پر اس بات کا پابند ہے کہ اس کے حساس اثاثے حفاظت و تحفظ کے اعلیٰ ترین میعارات پر پورا اتریں اور کسی بھی شخص یا گروہ کو یہ طاقت حاصل نہیں ہو گی کہ ان کا ناپاک ہاتھ اس پروگرام کے قریب بھی پہنچ سکے۔ ترقیاتی اخراجات کو 540 ارب روپے تک بڑھا دیا گیا ہے۔ پنجاب اسمبلی اور خیبر پی کے کی جانب سے مزدور کی کم از کم اجرت کو 10 ہزار تک لایا گیا ہے۔ کھاد کی سبسڈی کو تین گنا بڑھا کر 30 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ روزگار کی فراہمی کے لئے پرائیویٹ کے ساتھ پبلک سیکٹر کو بھی کردار ادا کرنا ہوگا۔ ارکان اسمبلی کی تمام سفارشات کو بجٹ میں شامل کر لیا گیا۔ وفاق میں کم سے کم تنخواہ 8 ہزار سے بڑھا کر 10 ہزار کر دی ہے۔ ذرائع آمدورفت کے لئے 73 ارب روپے مختص کئے گئے، شاہراہیں ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہےں انکم سپورٹ پروگرام میں توسیع دی جا رہی ہے۔ انکم ٹیکس سپورٹ پروگرام کو 75 ارب روپے تک بڑھایا جا رہا ہے۔ پروگرام کے تحت ماہانہ وظیفہ 1000 سے 1200 کر دیا گیا ہے۔ اس میں مختلف پروگرامز رکھے گئے ہیں۔ انکم سپورٹ پروگرام کے لئے 40 ارب سے بڑھا کر 75 ارب رکھے گئے ہیں، انکم ٹیکس سپورٹ پروگرام کو جاری رکھا جائے گا بجٹ میں تجویز کردہ اقدامات سے کسان کو بھی فائدہ ہوگا۔ آئی ایم ایف کا وفد آرٹیکل 4 کے تحت مشاورت کے لئے پاکستان آیا ہے۔ پاکستان پر 14 ہزار 5 سو ارب روپے کا قرض واجب الادا ہے۔ قرض کی واپسی کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ 503 ارب روپے کا گردشی قرضہ بھی ورثے میں ملا ہے پچھلے قرضوں کے 3 ارب ڈالر آئی ایم ایف کو واپس کرنے ہوں گے۔ گذشتہ حکومت نے آئی ایم ایف سے 14 ہزار 500 بلین ڈالر قرضہ لیا۔ 60 دن میں گردشی قرضہ ختم کرنے کا وعدہ پورا کریں گے۔ آئی ایم ایف کی ٹیم مشاورت کے لئے آئی ہے بہت سے منصوبوں کے ذریعے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ کفایت شعاری پر مبنی بجٹ پیش کیا ہے۔ حاجیوں پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا صرف حج آپریٹرز اور ٹورز آپریٹرز پر ٹیکس لگایا گیا ہے۔ پچھلے قرضوں کے 3 ارب ڈالر آئی ایم ایف کو واپس کرنے ہوں گے۔ نئے انکم ٹیکس سلیپس کا مقصد کم آمدنی والے افراد پر بوجھ کم کرنا ہے۔ انکم ٹیکس کی تمام سلیپس کو ایڈجسٹ کیا گیا ہے گردشی قرضے کے لئے بقایا رقم میں ادا کی جائے گی۔ 503 ارب کے گردشی قرضے کی وجہ سے 1700 میگاواٹ بجلی کی قلت ہے بینکس کے کھاتوں تک رسائی صرف ایف بی آر کے چیئرمین اور ممبرز کو ہو گی۔ قومی سلامتی کے اداروں کے سوا کوئی بھی ادارہ سیکرٹ فنڈ استعمال نہیں کر سکے گا۔ خیبر پی کے علاقوں مالاکنڈ سے کوہستان اور ڈیرہ اسماعیل خان کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ پہلے یہ سہولت بلوچستان، فاٹا اور گلگت بلتستان کے طلباءکے لئے تھی ۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے فیس کی ادائیگی میں اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب کو بھی شامل کرلیا۔ بازار میں ان اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہونا چاہئے۔ موبائل فون میں بینس لوڈ کرانے والے عوام پر ٹیکس کا لوڈ مزید بڑھانے کی تیاری کر لی گئی ہے۔ موبائل فون میں ایک سو روپے کا بیلنس لوڈ کرانے پر ساڑھے 65 روپے استعمال ہو سکیں گے۔ بجٹ میں یکم جولائی سے موبائل کالز پر ودہولڈنگ ٹیکس دس کی بجائے 15 فیصد کرنے کی تجویز ہے جبکہ 19.5 فیصد فیڈرل ایکسئز ڈیوٹی پہلے سے ہی لگی ہوئی ہے اس طرح 100 روپے کے موبائل کارڈ پر اس وقت 29.50 روپے ٹیکس لیا جا رہا ہے اور حکومت نئے مالی سال سے 34.50 روپے ٹیکس لینے کی تیاری کر رہی ہے۔ حکومت نے فنانس بل سے متعلقہ سینٹ کی 21 ترامیم کی منظوری دیتے ہوئے فنانس بل میں مجوزہ ترامیم کے مسودے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرا دیئے ہیں،​
    ( جاری ہے )
     
  2. لاجواب
    آف لائن

    لاجواب ممبر

    شمولیت:
    ‏21 فروری 2011
    پیغامات:
    301
    موصول پسندیدگیاں:
    111
    ملک کا جھنڈا:
    ٹیکس میں اضافہ ۔​
     
  3. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    ( بقیہ )
    وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ملک میں کفایت شعاری کے کلچر کو فروغ دے کر معیشت کو درست خطوط پر استوار کرے گی، شفافیت، گڈ گورننس اور بہتر مالیاتی نظم و نسق کے ذریعے ملک کو تمام مسائل سے نجات دلائینگے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ سینٹ کی طرف سے بھجوائی گئی 112 تجاویز کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ سینٹ کی بعض سفارشات گڈ گورننس اور شفافیت سے متعلقہ ہیں، ہماری حکومت ملک میں کرپشن کے خاتمے اور گڈ گورننس کو یقینی بنانے کیلئے بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ سینٹ کی فنانس بل سے متعلقہ 21 سفارشات کو فنانس بل میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس حوالے سے فنانس بل میں ترامیم قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرا دی گئی ہیں، کسی بھی حکومت نے تاریخ میں پہلی مرتبہ سینٹ کی فنانس بل سے متعلقہ تمام سفارشات کو منظور کیا ہے۔ وزیراعظم ہاﺅس اور وزیراعظم سیکرٹریٹ کے اخراجات میں 44 فیصد کٹوتی کی گئی ہے۔ مائیکرو فنانس اور چھوٹے قرضوں میں یہ شرط لازمی رکھی گئی ہے کہ ان میں 50 فیصد خواتین کو قرض دینا لازمی ہو گا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ہی ماضی میں ان کیلئے گرین چینل کا آغاز کیا تھا اب بھی ہم ان کیلئے جامع پالیسی تیار کرینگے ایوان کا ہر رکن اس سلسلے میں تجویز دے سکتا ہے ہم اس کا خیر مقدم کرینگے۔ دوسری جانب حکومت نے بجٹ میں کم تنخواہ دار طیقے پر ٹیکسوں کے اضافی بوجھ کی خبر کا نوٹس لیتے ہوئے تنخواہوں سے متعلق نئے ٹیکس سلیبز میں نظرثانی کر دی ہے، اب 25 لاکھ روپے تک سالانہ آمدنی والے تنخواہ دار طبقے سے گذشتہ مالی سال کی شرح سے ہی انکم ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ حکومت نے نئے 2013-14ءکے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے سلیب 6 سے بڑھا کر 11 کرنے کا اعلان کیا تھا۔ نئے سلیبز میں انکم ٹیکس کی زیادہ سے زیادہ شرح 30 فیصد کر دی گئی تھی، 6 لاکھ روپے سے 17 لاکھ روپے سالانہ آمدنی والے طبقے پر انکم ٹیکس بڑھایا گیا تھا جبکہ 18 سے 19 لاکھ روپے سالانہ کی آمدنی پر انکم ٹیکس مستحکم رکھا گیا تھا۔ نئے بجٹ میں 20 لاکھ روپے سے 55 لاکھ روپے سالانہ آمدنی والے طبقے پر ٹیکسوں کی شرح میں کمی کر دی گئی تھی۔ وزارت خزانہ ذرائع کے مطابق نئے نظرثانی شدہ ٹیکس سلیب کے مطباق 25 لاکھ روپے سالانہ آمدنی والے طبقے سے اضافی انکم ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا۔ 5 لاکھ روپے سالانہ آمدنی والے کو 5 ہزار روپے، 6 لاکھ والے کو 10 ہزار، 7 لاکھ والے کو 15 ہزار، 8 لاکھ والے کو 22 ہزار 500 اور 9 لاکھ سالانہ آمدنی والے کو 32 ہزار 500 روپے سالانہ انکم ٹیکس دینا ہو گا۔ ٹیکسوں کے نئے سلیب سے سب سے زیادہ کارپوریٹ سیکٹر اور بھاری تنخواہیں دینے والا طبقہ متاثر ہو گا۔​
     
  4. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ وقائع نگار خصوصی) قومی اسمبلی نے 11 ہزار 651 ارب روپے سے زائد کے لازمی اخراجات، اطلاعات، دفاع، خارجہ امور سمیت متعدد وزارتوں اور ڈویژنوں کے 77مطالبات زر کی منظوری دیدی ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے جمع کرائی گئی وزارت داخلہ، ریلوے، خزانہ، پانی و بجلی، پٹرولیم و قدرتی وسائل، کابینہ ڈویژن سمیت کئی وزارتوں کے 74 مطالبات زر پر کٹوتی کی متعدد تحاریک آج پیش کی جائیں گی، حکومت کی طرف سے آئندہ مالی سال کیلئے مختلف وزارتوں اور ڈویژنوں کے کل 151 مطالبات زر پیش کئے گئے جن میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے وزارت مواصلات، وزارت دفاع، ائرپورٹ سکیورٹی فورس، موسمیات، سروے آف پاکستان، وفاقی حکومت کے کینٹ گیریژن تعلیمی اداروں، دفاعی خدمات، شعبہ دفاعی پیداوار، شعبہ تعلیم و تربیت، اعلیٰ تعلیمی کمشن، منصوبہ بندی و ترقی، شعبہ امور خارجہ، ہاﺅسنگ اینڈ ورکس ڈویژن، سول ورکس، اسٹیٹ آفسز، فیڈرل لاجز، شعبہ ترقی و انسانی وسائل، شعبہ انسانی حقوق، شعبہ اطلاعات و نشریات، نظامت اشاعت، پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ، بیرون ملک انفارمیشن سروسز، شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مواصلات، شعبہ بین الصوبائی رابطہ، شعبہ امور کشمیر و گلگت بلتستان، گلگت بلتستان کے اخراجات، شعبہ قانون و انصاف، ضلعی نظام عدل اور اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری کے دیگر اخراجات، قومی احتساب بیورو، قومی اسمبلی، سینٹ، شعبہ قومی تحفظ خوراک و تحقیق، شعبہ قومی اہم آہنگی، شعبہ نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈی نیشن، شعبہ قومی ورثہ و یکجہتی، اوورسیز پاکستانیز ڈویژن، شعبہ پارلیمانی امور، شعبہ بندرگاہیں و جہاز رانی، پوسٹل سروسز ڈویژن، پاکستان پوسٹ آفس ڈیپارٹمنٹ، شعبہ مذہبی امور، سائنٹیفک و ٹیکنالوجیکل ریسرچ ڈویژن، ریاستیں و سرحدی علاقہ جات، سابق حکمرانوں کے استقراری الاﺅنسز پر مشتمل مطالبات زر ایوان میں پیش کئے جن کی قومی اسمبلی نے منظوری دیدی۔ ان کے خلاف کٹوتی کی کوئی تحریک نہیں آئی۔ اپوزیشن کی مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے لازمی اخراجات کے بارے میں بحث میں حصہ لیا۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے ارکان کی طرف سے اٹھائے گئے نکات کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ پاکستان کو آئندہ مالی سال میں غیرملکی قرضوں کی ادائیگی کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑیگا۔ پاکستان ڈالر نہیں چھاپ سکتا، ملک کی عزت اس میں ہے کہ قرض کی اقساط وقت پر ادا کی جائیں۔کابینہ کو ڈیفالٹ کئے جانے کا مشورہ نہیں دے سکتا۔ آئین کے آرٹیکل 82 کے تحت 30 جون 2014ءکو ختم ہونیوالے مالی سال کیلئے لازمی اخراجات کی تفصیل قومی اسمبلی میں پیش کردی گئی۔ اخراجات میں صدر کا عملہ‘ خانہ داری اور الا¶نسز کی مد میں 68 کروڑ 96 لاکھ 12ہزار روپے‘ پیرانہ سالی کے الا¶نس و پنشن کی مد میں 3 ارب 59 کروڑ روپے‘ ریلویز کیلئے 12 ارب 58 کروڑ 96 لاکھ روپے‘ بیرونی قرضہ جات کی واپسی کیلئے 366.7 ارب روپے کے اخراجات ظاہر کئے گئے ہیں۔ پی پی پی کے رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ نے کہا کہ ہمیں حکومت ملی تو ملک ڈیفالٹ کی سطح پر تھا۔ قرضوں پر پوائنٹ سکورنگ نہیں کرنا چاہئے۔ پاکستان کو دہشت گردی کے مسائل کا سامنا ہے۔آفات بھی آئیں جن کی وجہ سے ادائیگی کا توازن متاثر ہوا۔ حکومتی پارٹی کو بلند بانگ دعوے کرنے کا شوق ہے۔ قرض اتارو اور ملک سنوارو کی سکیم شروع کی اسکا نتیجہ سب کے سامنے ہے، صرف 0.6 فیصد قرضہ کم ہوا تھا۔ ٹیکس لینا صرف وفاق کا نہیں صوبوں کا کام بھی ہے۔ صوبوں پر بھی اعتماد کیا جائے۔ تحریک انصاف کے شفقت محمود نے کہا کہ ریونیو میں اضافہ کیا جائے۔ آئی ایم ایف کے پاس قرضہ لینے کیلئے جانا ہے یا نہیں جانا اس بارے میں بتایا جائے۔ ریلویز کو سرکاری اور نجی شراکت کی ضرورت ہے۔ ڈاکخانہ کے محکمہ میں اصلاحات کرنا ہوں گی۔ اعجاز جھکرانی نے کہا کہ لازمی اخراجات دینا تو پڑتے ہیں۔ صدر نے سارے اختیارات اسمبلی کو دیدیئے۔ وزیراعظم اسمبلی میں آ کر بیٹھتے تھے۔ قومی اسمبلی کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا۔ وزیراعظم ایک دن بھی اسمبلی میں نہیں آئے۔ مولانا قمر الدین نے کہا کہ ان کا حلقہ طویل علاقہ ہے، لوگ بدامنی کی وجہ سے پریشان ہیں۔ صوبائی حکومت کو ہدایت کی جائے کہ امن و امان کو بہتر بنایا جائے۔ عمران ظفر لغاری نے کہا کہ پوسٹل سروسز میں رقم بڑھائی گئی ہے، اس سے ادارے میں کیا بہتری آئے گی۔ الیکشن کمشن کی فنڈنگ بڑھائی ہے۔ کیا حکومت کا ایک سال کے بعد دوبارہ الیکشن کرانے کا ارادہ تو نہیں؟ شیخ صلاح الدین نے کہا کہ پنشن کے نظام میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ شیر اکبر خان نے کہا کہ موجودہ حکومت بھی آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہتی ہے جبکہ یہ نعرہ لگایا گیا تھا کہ قرض اتارو اور ملک سنوارو اب یہ نعرہ کب دوبارہ لگایا جائے گا۔ کرپشن کے انسداد کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ محمد مزمل قریشی نے کہا کہ ٹرینوں کی تاخیر سے بڑے مسائل کا پیدا ہوتے ہیں۔ کارگو ٹرین فوری چلائی جائے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ کراچی سرکلر ریلوے کے چلانے کے حوالے سے پروگرام بنایا جائے۔ میر منور تالپور نے کہا کہ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ چین تک ریلوے جانا ہے اور دوسری طرف اخراجات میں کمی کی گئی ہے۔ شیخ رشید نے کہا نیپرا کا احتساب کرنے والا کوئی نہیں۔ ریلوے کے پاس لاکھوں ایکڑ زمین ہے۔ اس کو فروخت کریں‘ حکومت کو فوری 5 بلین ڈالر چاہئیں۔ میں نے کہا تھا کہ یہ ضرور آئی ایم ایف کے پاس جائیں گے۔ عوام کو گنے کے بیلنے میں نہ دیا جائے۔ غلام سرور خان نے کہا کہ ریلویز تنزلی کی طرف جا رہا ہے۔ 515 انجن تھے‘ اس وقت ایک سو سے بھی کم چل رہے ہیں۔ مزید رقم رکھی جائے۔ ملک میں کرپشن کا سب سے بڑا گڑھ این ایچ اے ہے۔ سہیل منصور نے کہا کہ ملک پر قرضوں کا بوجھ ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کو اسمبلی یا کمیٹی میں لایا جائے۔ وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ چارج اخراجات کو گلابی بک میں ڈالنے کے لئے آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی۔ ریلوے کی رقم جو لازمی اخراجات میں ہے اس کا تعلق قرضہ سے ہے۔ تاہم اب یہ قرضہ کم ہو رہا ہے۔ ریلوے کو ٹھیک کرنے کے لئے 31 بلین روپے رکھے گئے ہیں۔ سوئٹزر لینڈ میں مکانوں پر بات ہو رہی ہے۔اس معاملہ کو سنجیدہ انداز میں لینا ہو گا۔ پاکستان میں پیسے آ سکتے ہیں تو ضرور لانا چاہئے‘ تاہم اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ قرضے جی ڈی پی کے 63.5 فیصد ہیں۔ پارلیمنٹ نے قانون سازی کی تھی۔ قرضوں کے بوجھ میں آئندہ سال اڑھائی فیصد کمی لائی جائے گی۔ 5 لاکھ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا ہدف ہے‘ اس سے ریونیو پورا کرنے میں مدد ملے گی
     

اس صفحے کو مشتہر کریں