1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

جہاد یا فساد ۔ طالبان ۔ جماعتِ اسلامی اور پاک فوج

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏12 نومبر 2013۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:

    ڈرون حملوں کے نتیجے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کیا ہوئی کہ وطن عزیز میں جذبات اور بیانات کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ پہلے تو حکومتی مذاکرات کار وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے امریکی ڈرون حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرکے اپوزیشن سمیت ملک بھر سے داد وصول کی۔ پھر عمران خان نے قومی اسمبلی کے اسی خصوصی اجلاس میں دھواں دھار خیالات کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ بہادر کی مداخلت کو مذاکرات ناکام بنانے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور حکومت سے 20 نومبر تک نیٹو سپلائی لائن بند کرنے کا مطالبہ کردیا۔
    امریکہ کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی اور ڈرون حملوں میں بے گناہوں کی تعداد سے متعلق وزیر داخلہ کے بیانات کے ساتھ ساتھ عمران خان کے جذباتی اعلانات پر تنقیدی تبصرے اور تجزیے جاری تھے کہ گذشتہ روز مولانا فضل الرحمن نے امریکی فوج کے ہاتھوں کتے کی ہلاکت کو شہادت کا درجہ دے کر ’’افتائ‘‘ کی دنیا میں نیا اضافہ کردیا۔
    رہی بات امریکہ کے خلاف نفرت کے اظہار کی تو ’’وکی لیکس‘‘ کے ریکارڈ نے مولانا فضل الرحمن کی اس نفرت کی قلعی بھی کھول دی ہے۔ عالمی استعمار کی مدد سے مولانا اگر پاکستان کے وزیراعظم بنادیئے جائیں تو یہ ان کا استحقاق ہوگا مگر امریکہ اگر مزاحمت کار کتے کو بھی مارے گا تو وہ شہید کہلائے گا۔ واہ کیا منطق ہے۔ مولانا صاحب نے امریکی مزاحمت میں مارے جانے والے کتے کو شہید قرار دے کر دراصل ہزاروں بے گناہ پاکستانیوں کے مصدقہ قاتل حکیم اللہ محسود کو شہادت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز کرنے کا اشارہ کیا ہے ’’تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے‘‘۔
    اس عدیم النظیر فتویٰ کو ابھی دو دن بھی نہیں گزرے تھے کہ مولانا مودودی مرحوم کے مسند نشین مولانا منور حسن نے اس اجمال کی تفصیل کرتے ہوئے حکیم اللہ محسود کو باقاعدہ شہید قرار دے دیا۔ اس پر سب سے پہلا اور سخت رد عمل الطاف حسین کی طرف سے آیا۔
    بات تھوڑی آگے بڑھی تو جماعت اسلامی کے امیر منور حسن نے دو قدم آگے بڑھتے ہوئے فرمایا میں نہ صرف حکیم اللہ محسود کو شہید مانتا ہوں بلکہ پاکستان کے فوجیوں کو ہلاک تصور کرتا ہوں۔ مراد یہ کہ ملکی سرحدوں کی حفاظت پر مامور افواج پاکستان کے فوجی جوان اور اعلیٰ افس جو طالبان کے ساتھ لڑائی میں گذشتہ ایک عشرے سے نبرد آزما ہیں اور اس دوران ہزاروں کی تعداد میں لقمہ اجل بن چکے ہیں وہ حرام موت مر رہے ہیں جبکہ طالبان جنگجو جو غیر ملکی سازشوں کا آلۂ کار بن کر ریاست کے خلاف بغاوت کا اعلان کرچکے ہیں وہ ’’دینی جہاد‘‘ میں مصروف ہیں اور مرنے یا مارنے والے تمام باغی عروس شہادت سے ہم آغوش ہوتے ہیں۔ یہی وہ غلط فہمی ہے جس کا آغاز خوارج سے ہوا اور ہمارے زمانے میں اس کا نیا ظہور طالبان کی صورت میں ہوچکا ہے۔
    حقیقت یہ ہے کہ یہ بیان ہماری قومی سیاسی و مذہبی قیادت کے ذہنی انتشار اور فکری مفلسی کا عکاس ہے۔
    جنرل حمید گل جنہیں طالبان کا بانی اور بڑا حمائتی تصور کیا جاتا ہے وہ جماعت کے حلقوں میں بڑے احترام سے دیکھے جاتے ہیں انہوں نے راولپنڈی میں ریٹائرڈ فوجی قیادت کا ہنگامی اجلاس بھی بلوالیا ہے۔ جنرل حمید گل نے واضح الفاظ میں امیر جماعت اسلامی کے بیان کو نامناسب بلکہ قومی تقاضوں کے منافی قرار دیا ہے۔ یقینا جماعت اسلامی اپنے امیر کے بچگانہ جذباتی پن سے متفق نہیں ہوگی اور ان کے بیان کو ان کا ذاتی نقطہ نظر قرار دے گی مگر سوال یہ ہے کہ جو شخص ہزاروں فوجیوں کی ہلاکت سمیت پاکستان کی سالمیت کے درپے رہا اگر انکے نزدیک وہ شہید ہے اور فوجی جوان جو جان کی بازی لگاکر ان غیر ملکی آلہ کاروں کی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں وہ حرام موت مررہے ہیں تو پھر افواج پاکستان کے فرائض اور ذمہ داریوں کا تعین از سرِ نو ہونا چاہئے۔
    منور حسن اگر آئین پاکستان کو مانتے ہیں تو انہیں یہ بھی واضح کرنا چاہئے کہ پھر ملک دشمنی کس جرم کا نام ہے؟ اگر ان کے ہاں طالبان پاکستان میں سب کچھ درست کررہے ہیں تو انہیں اسی جرأت رندانہ سے کام لیتے ہوئے جماعت اسلامی کو طالبان میں ضم کردینا چاہئے۔ بصورت دیگر جماعت کے دانشوروں اور بہی خواہوں کو فیصلہ کرنا چاہئے کہ جماعت کی قیادت کسی معتدل اور صائب فکر رکھنے والے شخص کے سپرد کریں۔
    ’’چو کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی‘‘ کے مصداق اگر اسلامی انقلاب کی دعویدار جماعت کا مرکزی امیر پوری قوم، اس کے اداروں اور اصحاب دانش و بینش کی اجتماعی سوچ کے خلاف اپنے موقف پر ڈٹ جائے تو اس میں اور طالبان کے کسی جنونی کارکن میں کیا فرق باقی رہے گا؟ کل طالبان کے موجودہ قائد مولوی فضل اللہ کو کچھ ہوجاتا ہے تو ظاہر ہے وہ بھی منور حسن اور ان جیسے دیگر خاموش مذہبی قائدین کے ہاں شہید کہلاے گا اس لئے ایسے لوگوں سے یہ فتویٰ بھی لینا ضروری ہے کہ فضل اللہ نے اپنے اگلے ہدف کا اعلان کرتے ہوئے جنرل کیانی اور پشاور کے کور کمانڈر سمیت دیگر سیاسی قائدین کی ہلاکت کا جو اعلان کیا ہے یہ بھی کیا اس کے ’’جہاد‘‘ کی درست سمت ہے؟ اگر بے قصور عوام پر خودکش حملے اور ملکی معیشت کی تباہ حالی طالبان کا جہاد ہے؟ تو منور حسن اور فضل الرحمن قوم کو بتائیں کہ فتنہ اور فساد کی تعریف پھر کیا ہوگی؟ دراصل سیاسی راہنمائوں کے جھوٹے دعوئوں کی طرح مذہبی سیاستدان بھی منافقت سے سمجھوتا کرچکے ہیں۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    پاکستانی عوام کی سادگی اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایسے ایسے لیڈر چنے ہیں کہ جنہیں پاکستانیوں کو سکھ دینا یا سکھی دیکھنا اچھا نہیں لگتا ۔کوئی انہیں دکھ دینے کے لئے امریکہ کا غلام ہے کوئی بھارت کا تو کوئی سعودیہ کا ۔
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں