1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

جھوٹ کا چلن ۔۔۔۔ طارق حبیب

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏21 اکتوبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    جھوٹ کا چلن ۔۔۔۔ طارق حبیب

    اکیسویں صدی کے اوائل کا ذکر ہے، کراچی لائنز ایریا سے تعلق رکھنے والے افتخار عباس کو اپریل 2002ء میں ہونے والے عوامی ریفرنڈم کے خلاف طلبہ فورمز پر آواز اٹھانے کے باعث متعدد بار تنبیہ موصول ہوچکی تھی۔ نہ ماننے پر ایک روز اسے گرفتار کر لیا گیا بعد میں صوبائی حکومت و پولیس کے کچھ افراد نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں سامنے رکھے گئے شواہد کی روشنی میں اسے دہشت گرد قرار دیا گیا۔ مکینیکل انجینئرنگ کے اس طالب علم کو جب 11 سال بعد 2013ء میں سپریم کورٹ نے بے گناہ قرار دے کر رہا کیا تو اس کی دنیا اجڑ چکی تھی۔ باپ اس کی بے گناہی ثابت کرنے کی کوششوں میں اپنا مقدمہ لے کر اللہ کے حضور پہنچ چکا تھا۔ اہل علاقہ نے ''دہشت گرد‘‘ کی ماں اور بہنوں سے ناصرف لاتعلقی اختیار کر لی تھی بلکہ ان کا جینا بھی دوبھر کر دیا تھا۔ افتخار عباس کی ماں کو آبائی گھر چھوڑ کر جوان بیٹیوں کے ساتھ ایک ٹین کی چھت والے دو کمرے کے گھر میں شفٹ ہونا پڑ گیا تھا۔ گزر اوقات کے لیے اس کی ماں موم بتیاں بنا کر بیچتی تھی۔ اکلوتے بھائی کو دہشت گرد قرار دیے جانے کی وجہ سے دو بہنوں کی منگنیاں بھی ٹوٹ گئی تھیں۔ اس سٹوری پر کام کرتے ہوئے جب میری افتخار سے ملاقات ہوئی تو وہ جس شدید مایوسی و یاسیت کا شکار تھا اس سے مجھے خدشہ ہوا کہ وہ خودکشی نہ کر لے۔ آج افتخار کہاں اور کس حال میں کچھ علم نہیں مگر وہ ساری شخصیات‘ جنہوں نے پریس کانفرنس میں افتخار کو دہشت گرد ثابت کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رہنے دی تھی‘ آج بھی ان کا جاہ و جلال اسی طرح باقی ہے۔
    افتخار تو خیر بے گناہی کی عدالتی سند لے کر واپس گھر زندہ لوٹ آیا تھا مگر قصور کے مدثر کو نہ تو اپنا جرم معلوم کرنے کا موقع ملا اور نہ صفائی دینے کے لیے عدالت میسر آئی۔ یہ واقعہ ہے 25 فروری 2017ء کا‘ جب قصور میں سات سالہ فاطمہ کو اغوا کیا گیا بعد میں زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ قصور کے عوام اس واقعے کے خلاف سڑکوں پر آ گئے۔ عوامی دبائو کی وجہ سے پولیس نے اسی رات دیر گئے ایک مبینہ ملزم(مدثر) کو مقابلے میں پار کیا اور اس کی لاش لا کر مظاہرین کے سامنے رکھ دی کہ ہم نے مجرم کو مقابلے میں مار دیا ہے۔پھرکچھ ہی عرصہ گزراتھا کہ اسی شہر میں زینب نامی بچی کو بھی فاطمہ کے سے انداز میں زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ ملک گیر عوامی احتجاج کے بعد جب زینب کے قاتل عمران کو گرفتار کیا گیا تو اس نے 8 بچیوں کے ساتھ زیادتی اور زینب و فاطمہ سمیت 5 کو قتل کرنے کا اعتراف کر لیا۔ وہی فاطمہ جس کے قتل کے الزام میں پولیس مدثر نامی نوجوان کو مقابلے میں پار کر چکی تھی۔ عمران علی کو تو پھانسی ہوگئی مگر مدثر کی بے گناہی ثابت ہوسکی اور نہ اس کے مجرموں کی گرفت ہو سکی، کسی نے سوال نہیں اٹھایا کہ اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹ کیوں بولا گیا‘ ایک بے گناہ جعلی مقابلے کی بھینٹ چڑھ گیا اور کاربارِ حیات اسی طرح چلتا رہا۔
    افتخار اور مدثر کے واقعات ذہن میں اس وقت آئے جب پتا چلا کہ وقار الحسن نہ صرف بے گناہ ہے بلکہ اس پر لگائے گئے تمام الزامات بھی جھوٹ ثابت ہو چکے ہیں۔ اداروں کی نااہلی کے باعث جب موٹروے پر ایک سانحے نے جنم لیا تو حکومت کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ سانحہ رونما ہونے کے بعد متعلقہ اداروں کی کوشش ملزمان کو گرفتار کرنے کے بجائے عوامی دبائو کم کرنے پر مرکوز ہو گئی۔ پورے ملک میں نااہلی کا جو غوغا بلند ہوا تھا‘ اس کے تدارک کے لیے ملزمان کی گرفتاری سے قبل ہی اعلیٰ سطحی پریس کانفرنس کر دی گئی جس میں بتایا گیا کہ اس سانحے کے مرکزی ملزم عابد ملہی اور اس کا ساتھی وقار الحسن ہیں۔ وقار الحسن کے بارے میں یہاں تک کہا گیا کہ وہ حال ہی میں ضمانت پر رہا ہوا ہے اور اس پر کئی مقدمات قائم ہیں۔ یہ الزامات اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے افراد کی جانب سے لگائے جا رہے تھے۔ وقار الحسن نے جب میڈیا پر اپنے حوالے سے اربابِ اختیار کی پریس کانفرنس دیکھی تو خود ہی پولیس کے پاس پہنچ گیا۔ اسے اپنی بے گناہی کا یقین تھا‘ وہی ہوا۔ ڈی این اے ٹیسٹ ہوا، تحقیقات ہوئیں اور ثابت ہوا کہ وقار الحسن اس واقعے میں ملوث نہیں ہے‘ شرمندگی سے بچنے کے لیے اب یہ کہا گیا کہ وقار الحسن کے نام پر رجسٹرڈ سم مرکزی ملزم کے استعمال میں تھی۔ قصہ مختصر جب حقائق سامنے آئے تو پتا چلا کہ وقار الحسن پر تمام الزامات من گھڑت اور بے بنیاد تھے‘ جو اپنی نااہلی چھپانے کے لیے اس بے گناہ پر عائد کیے گئے تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ وقار الحسن کا مرکزی ملزم سے تعلق ہونا تو دور کی بات‘ یہ اُسے جانتا تک نہ تھا اور نہ کبھی اسے ملا تھا۔ آج وقار الحسن ایک اچھوت کی زندگی گزار رہا ہے۔ اہل علاقہ اس سے کترانے لگ گئے ہیں، خاندان کے افراد بھی نظریں چرا رہے ہیں۔ وقار تو بے گناہی کی سرکاری سند کے ساتھ واپس آ گیا ہے مگر اس کو مجرم بنا کر پیش کرنے والے ملزمان سے پوچھ گچھ کرنے والا کوئی نہیں۔ اس کی زندگی میں زہر گھولنے والے آج بھی اپنے عہدوں پر براجمان ہیں۔
    پھر جب اس سانحے کا مرکزی ملزم گرفتار ہوا تو ایک بار پھر سرکاری سطح پر شور ہوا کہ پولیس نے دن رات کی محنت کے بعد ملزم کو گرفتار کیا ہے۔ ''دن رات کی محنت‘‘ کے الفاظ پولیس کی پریس ریلیز میں بھی موجود تھے اور 'دن رات کی محنت‘ تین اعلیٰ افسران کے کھاتے میں ڈالی گئی تھی۔ خیر اگلے ہی روز عابد ملہی کے والد نے ملزم کی جانب سے خود گرفتاری دینے کا انکشاف کرتے ہوئے پولیس کی دن رات محنت کا بھی بھانڈہ پھوڑ دیا۔ پنجاب پولیس کی بدقسمتی کہ یہ انکشاف تب ہوا جب پولیس عابد ملہی کی گرفتاری پر انعام لینے کی تگ و دو میں لگی ہوئی تھی۔
    اب صورتحال یہ ہے کہ پنجاب پولیس حقیقت سامنے آنے کے باوجود مسلسل عابد ملہی کی گرفتاری کو اپنی کامیابی قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ ماہرِ نفسیات کہتے ہیں کہ مسلسل جھوٹ بولنے والے اپنے جھوٹ کے سچ ہونے کے گمان میں مبتلا ہو جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کسی بھی سطح پر جھوٹ کے جھوٹ ثابت ہو جانے کے بعد بھی شرمندگی یا پشیمانی کی کوئی رمق نظر نہیں آتی۔
    جھوٹ بھی سچ کی طرح بولنا آتا ہے اسے
    کوئی لکنت بھی کہیں پر نہیں آنے دیتا
    یہ صرف تین نوجوانوں کا معاملہ نہیں، مدثر جیسے درجنوں نوجوان اس بانجھ نظام کی بلی چڑھا دیے گئے، سینکڑوں افتخاروں اور وقاروں کا مستقبل اربابِ اختیار کی کم ظرفی کی نذر ہوگیا۔ جھوٹ کا یہ چلن نئے پاکستان میں بھی عام ہے۔ کسی بھی ملک میں قانون اور آئین کی صرف موجودگی کافی نہیں ہوتی بلکہ ان پر عملدرآمد سے ہی ریاست کی مضبوطی اور حکمرانوں کی معاملات پر گرفت کو جانچا جاتا ہے۔ جھوٹ کے ذریعے آئین و قانون کی بالادستی ثابت نہیں کی جا سکتی‘ بالآخر حقیقت سامنے آ ہی جاتی ہے‘ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اربابِ اختیار جھوٹ یا مصلحت سے کام لینے کے بجائے سچ بولنے کی روایت کو فروغ دیں۔ قتیل شفائی کہتے ہیں ؎
    سکوت چھایا ہے انسانیت کی قدروں پر
    یہی ہے موقعِ اظہار، آئو سچ بولیں
    تمام شہر میں اب ایک بھی نہیں منصور
    کہیں گے کیا رسن و دار، آئو سچ بولیں
    چھپانے سے کہیں چھپتے ہیں داغ چہروں کے
    نظر ہے آئینہ بردار آئو سچ بولیں

     

اس صفحے کو مشتہر کریں