1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

جگر مرادآبادی کا ایک واقعہ

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از واصف حسین, ‏19 جنوری 2015۔

  1. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جگر مراد آبادی مستی کے عالم میں کئی کئی مہینوں گھر سے باہر رہتے تھے۔ ایک دن جو بے قراری بڑھی تو اُن کے قدم ایک طوائف کے گھر پہنچ گئے۔ اُس کا نام روشن فاطمہ تھا۔ حسین، شوخ، چنچل، کمسن"
    حضور کی تعریف؟ " اُس نے پوچھا۔
    جگر آنکھیں جُھکائے اُس کے سامنے کھڑ ے تھے۔ شاید نگاہ بھر کے اُسے دیکھا تک نہیں تھا۔ جواب میں دو شعر پڑھ دیے۔
    سراپا آرزو ہوں، درد ہوں، داغِ تمنا ہوں
    مجھے دنیا سے کیا مطلب کہ میں آپ اپنی دنیا ہوں
    کبھی کیفِ مجسم ہوں، کبھی شوقِ سراپا ہوں
    خدا جانے کس کا درد ہوں، کس کی تمنا ہوں"​
    سبحان اللہ" طوائف کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ بے چار ے عاشق معلوم ہوتے ہیں۔
    جگر نے پھر ایک شعر پڑھ دیا۔ُ
    مجھی میں عشق کا عالم، مجھی میں عشق کی دنیا
    نثار اپنے پہ ہو جاؤں اگر سو بار پیدا ہوں"​
    حضور اس غریب خانے کو کیسے رونق بخشی؟ "
    کچھ ہمی جانتے ہیں لطف تر ے کوچے کا
    ورنہ پھرنے کو تو مخلوقِ خدا پھرتی ہے​
    اس شعر کا سُننا تھا کہ روشن فاطمہ پھڑک گئی، طوائف تھی، چہرہ شناس تھی، سُخن فہم تھی۔ بار بار اس شعر کو پڑھتی تھی اور داد دیتی تھی۔"
    میں اب تک کیوں آپ سے محروم رہی؟ کیا آپ اس شہر کے نہیں ہیں؟ ہیں تو یہاں کب سے ہیں؟ اور اب تک یہاں کیوں نہیں آئے؟
    "جگر یہ کہتے ہوئے اُس کے سامنے بیٹھ گئے۔
    نہ پوچھ دہر میں کب سے میں اس طرح خانہ خراب ہوں
    جو نہ مٹ سکا وہ طلسم ہوں، جو نہ اُٹھ سکا وہ حجاب ہوں"​
    دیکھئے میں پاگل ہو جاؤں گی۔ اللہ کے واسطے آپ اپنا نام تو بتائیے آپ ہیں کون ؟"
    دیکھا تھا کل جگر کو سرِ راہِ میکدہ
    اس درجہ پی گیا تھا کہ نشے میں چُور تھا​
    وہ پھر بھی نہیں سمجھی۔ شاید اُس نے جگر کا نام سُنا ہی نہیں تھا یا پھر وہ یہ سمجھی کہ وہ یہاں کہاں آئیں گے، کوئی اور جگر ہو گا۔اسی وقت ایک مہمان اور آ گیا۔ یہ جگر کا واقف کار تھا۔ دن کا وقت تھا اس لیے محفل گرم نہیں ہوئی تھی۔ "
    جگر صاحب مجھے کسی نے بتایا کہ آپ یہاں آئے ہیں۔"
    پھر وہ شخص روشن فاطمہ سے مخاطب ہوا۔
    "آپ واقف ہیں ان سے؟ مشہور شاعر جگر مرادابادی ہیں۔ "
    "آؤ بھئی چلیں میں نے بہت زحمت دے لی انہیں"
    جگر نے کہا۔"
    ایسے تو نہیں جانے دوں گی۔"
    روشن فاطمہ نے جگر کا ہاتھ تھام لیا۔
    "یہ طوائف کا کوٹھا ہے یہاں وہ آتا ہے جس کی جیب میں مال ہوتا ہے۔"
    جگر نے شیروانی کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور جتنے نوٹ ہاتھ میں آئے اُس کے سامنے رکھ دیے۔"
    نہیں حضور قیمت تو گاہک کی حیثیت دیکھ کر طے ہوتی ہے۔ ایسے نوٹ تو مجھے کوئی بھی جاہل سیٹھ دے سکتا ہے۔ آپ تو مجھے غزل سُنائیں۔"
    " شعر سمجھتی ہو؟ "
    "حضور پہلے سمجھتی ہوں پھر گاتی ہوں۔
    "ابھی روشن کا جملہ ختم نہیں ہوا تھا کہ جگر کی پُرسوز آواز نے دن کو قیامت کا دن بنا دیا۔
    کیا چیز تھی کیا چیز تھی ظالم کی نظر بھی
    اُف کر کے وہیں بیٹھ گیا درد جگر بھی
    کیا دیکھیں گے ہم جلوہِ محبوب کہ ہم سے
    دیکھی نہ گئی دیکھنے والے کی نظر بھی
    واعظ نہ ڈرا مجھ کو قیامت کی سحر سے
    دیکھی ہے ان آنکھوں نے قیامت کی سحر بھی
    اُس دل کے تصدق جو محبت سے بھرا ہو
    اُس درد کے صدقے جو ادھر بھی ہو اُدھر بھی
    ہے فیصلہِ عشق جو منظور تو اُٹھئیے
    اغیار بھی موجود ہیں حاضر ہے جگر بھی​
     
    ارشین بخاری، پاکستانی55 اور ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ملک بلال
    آن لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    استاد شاعروں کی بھی اپنی ہی طبع تھی۔
    واقعہ تو دلچسپ ہے ہی۔ ساتھ خوبصورت اشعار سونے پہ سہاگہ۔
    کچھ ہمی جانتے ہیں لطف تر ے کوچے کا
    ورنہ پھرنے کو تو مخلوقِ خدا پھرتی ہے
    اور
    نہ پوچھ دہر میں کب سے میں اس طرح خانہ خراب ہوں
    جو نہ مٹ سکا وہ طلسم ہوں، جو نہ اُٹھ سکا وہ حجاب ہوں"
    واہ بہت اعلیٰ
    شکریہ واصف حسین بھائی
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. ارشین بخاری
    آف لائن

    ارشین بخاری ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2011
    پیغامات:
    6,125
    موصول پسندیدگیاں:
    901
    ملک کا جھنڈا:
    بہت زبردست شئیرنگ ہے پڑھ کر مزا آ گیا شکریہ واصف جی:wink:
     
    واصف حسین نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں