1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

جنگ کا میدان، یوروپ سے ایشیا کی طرف کیوں منتقل ہوا؟

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏6 اگست 2017۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    جنگ کا میدان، یوروپ سے ایشیا کی طرف کیوں منتقل ہوا؟

    بیسویں صدی کی دو عظیم جنگیں یوروپ میں لڑی گئیں جن کے شعلے افریقہ وایشیا کے دور دراز ممالک تک جا پہنچے، دونوں بڑی لڑائیاں جرمنی نے شروع کیں اور یوروپ بری طرح سے برباد ہو گیا،

    پہلی جنگ عظیم 1914ء میں شروع ہو کر 1918ء میں ختم ہوئی۔ بیس برس بعد 1939ء میں

    دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہٹلر کی ہوس ملک گیری کے باعث ہوا اور 1945ء تک اس کا سلسلہ جاری رہا جس کے نتیجہ میں نہ صرف جرمنی برباد ہو گیا بلکہ برطانیہ و فرانس کی اقتصادی برتری بھی خاک میں مل گئی،

    امریکہ اور سوویت یونین، ضرور ابھرے لیکن بعد کی جنگی تیاریوں نے دونوں سپر پاوروں کو بھی ہلا کر رکھ دیا، اس کے برعکس یوروپ میں جرمنی اور ایشیاء میں جاپان نے ترقی وتعمیر کی شاہراہ پر برق رفتاری کے ساتھ پیش رفت کرکے دنیا کے لئے ایک مثال قائم کر دی۔

    افغانستان سے طویل جنگ اور اندھا دھند جنگی اخراجات نے سوویت یونین کی حالت اور بھی خستہ کر دی، بڑے رقبہ اور کم آبادی کے باوجود وہاں گذشتہ صدی کے آخر میں غذائی قلت کا پیدا ہونا اور ایک ایک روٹی کے لئے لوگوں کا قطار میں کھڑے ہو کر باہم کشمکش سے دوچار ہونا پچھلی صدی کا ایک حیرتناک واقعہ تھا جس کے لئے دوسری جنگ عظیم کے بعد تیسری عالمی جنگ کی تیاریاں جو نیوکلیر اسلحہ سے لڑی جانا تھی سب سے زیادہ ذمہ دار ثابت ہوئیں، کیونکہ نیوکلیر ہتھیار اور خلا میں فوجی مقاصد سے پیش قدمی پر سارے وسائل جھونک دئے گئے، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سوویت یونین کی اقتصادیات برباد ہو گئی ، امریکہ ضرور اپنے سرمایہ دارانہ نظام اور دیگر ملکوں کے استحصال کی بدولت اس زوال سے کسی حد تک محفوظ رہا، یہی حال یوروپ کے دوسرے ملکوں کا بھی نظر آیا لہذا بہت سوچ سمجھ کر یہ حکمت عملی تیار کی گئی کہ جنگ کا میدان یوروپ سے ایشیا کی طرف منتقل کر دیا جائے،

    پہلے عراق۔ ایران کے درمیان آٹھ سال تک جنگ ہوئی اور اس میں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہتا رہا، یہ جنگ عراق نے امریکہ کی شہہ پر شروع کی تھی جس میں دونوں طرف کے دس لاکھ مسلمان ہلاک ہوئے، اس سے کہیں زیادہ تعداد زخمی اور اپاہج ہونے والوں کی تھی، اس تباہ کن جنگ سے کسی کو اگر فائدہ پہونچا تو وہ اسلحہ کے تاجر امریکہ اور دوسرے بڑے ممالک تھے اور کسی کو تقویت حاصل ہوئی تو وہ مسلمانوں کا ازلی دشمن اسرائیل تھا۔ اس لڑائی میں کھربوں ڈالر پھونک کر اور ایران ۔عراق کی معیشتوں کو تباہ کر کے بھی عراق کو ہوش نہیں آیا تو اس نے اپنی سرزمین کوپھر میدانِ کارزار میں تبدیل کر دیا،

    کویت پر عراق کا حملہ بھی درحقیقت امریکہ کی درپردہ منظوری سے ہوا تھا تاکہ امریکہ وبرطانیہ سمیت کثیر قومی افواج کو عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا جواز مل سکے، یہ خونخوار درندے اور بکری کے بچے کی لڑائی تھی جس نے عراق کو تباہ برباد کر کے رکھ دیا،

    اس کے بعد امریکہ وبرطانیہ کی قیادت میں افغانستان پر بھی ایک مشترکہ فوج حملہ آور ہوئی اور اس ملک پر اپنا اقتدار قائم کرنے کے بعد اس فو ج کا ایک مرتبہ پھر عراق نشانہ بننے لگا۔ اس کے برخلاف امریکہ یوروپ میں اتحاد واتفاق کی ہوائیں چلتی رہیں، امریکہ وسوویت یونین (جو اب روس بن چکا ہے) تخفیف اسلحہ کے اعلانات کر چکے ہیں۔ امریکہ کی ہر قیمت پر کوشش ہے کہ ان کے براعظموں میں امن واتحاد قائم رہے لیکن ایشیاء بالخصوص مشرق وسطیٰ جنگ کی بھٹی بنا رہے یہ وہ صورت حال جس کے مضمرات پر ایشیاء خاص طور پر ہندوستان کے عوام کو توجہ دینا چاہئے، یہاں کے جو شدت پسند لوگ رات دن پاکستان کے دانت کھٹے کر دینے اور بنگلہ دیش کو سبق سکھانے کے نعرے لگاتے رہے، انہیں جنگوں کی تباہی وبربادی کا اندازہ کر لینا چاہئے، جس نے ایک طرف لیبیا، شام اور یمن کو کھنڈر بنا دیا ، دوسری جانب سعودی عرب جیسے خودکفیل اور تیل کی دولت سے مالا مال ملک کو دیوالیہ ہونے کے کنارے تک پہونچا دیا ہے۔

    تحریر: عارف عزیز (بھوپال)

    5 اگست 2017
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں