1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

جنرل اختر عبدالرحمن شہید‘ افغان جنگ اور مقبوضہ کشمیر ۔۔ سید ابصار بخاری

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏18 اگست 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    جنرل اختر عبدالرحمن شہید‘ افغان جنگ اور مقبوضہ کشمیر ۔۔ سید ابصار بخاری

    جنرل اختر عبدالرحمن کو رخصت ہوئے 32 برس گزر چکے ہیں‘ لیکن افغان جنگ اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی مدد کے حوالے سے ان کی خدمات کا اعتراف آج بھی کیا جاتا ہے۔ بروس رائیڈل (Bruce Riedel) کا شمار امریکہ کے ممتاز ترین عسکری ماہرین میں ہوتا ہے۔ تقریباً 30 سال سی آئی اے سے وابستہ رہے ہیں۔Brookings Institution کے سینئر فیلو اور ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف What We Won, America's Secret War in Afghanistan 1979-89 میں واضح طور پر جنرل اختر عبدالرحمن کو جہادِ کشمیر کا آرکیٹیکٹ قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''جنرل ضیاء الحق بھارت سے قطعاً خائف نہ تھے۔ اس کے برعکس انہوں نے افغانستان میں کمیونزم کے خلاف جنگ کو ایک بہترین اور نادر موقع سمجھا کہ افغانستان کے جہادی عمل کو اگلے مرحلے میں بھارت کے خلاف بھی بروئے کار لایا جائے۔ حقیقتاً جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن، دونوں کشمیر سے متعلق اس نئی منصوبہ بندی میں شامل تھے۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن نے (اس سلسلے میں) اپنے رابطوں کو بتدریج دیگر کشمیری گروپوں بشمول جموں اینڈ کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف ) تک پھیلا دیا۔ جے کے ایل ایف کی بنیاد 1977ء میں برمنگھم میں ان کشمیریوں نے رکھی تھی، جو برطانیہ میں مقیم تھے۔ یہ گروپ خود مختار کشمیر کا حامی تھا۔ ابتدا میں یہ گروپ مدد لینے کے معاملے میں متذبذب تھا؛ تاہم 1984ء میں جنرل اختر عبدالرحمن نے اس سے بھی براہِ راست بات چیت شروع کی، جس کے نتیجہ میں 1987ء تک یہ گروپ بھی ان کوششوں میں شامل ہو گیا۔
    اب کچھ ذکر افغان جنگ کا ہو جائے۔ امریکہ اور افغان طالبان کے مابین معاہدہ طے پا چکا ہے‘ جس کی شرائط سے دنیا آگاہ ہو چکی۔ گویا ایک طرح سے امریکہ نے آخر کار یہ اعتراف کر لیا ہے کہ افغان قوم کو غلام بنانے کا اس کا خواب پورا نہیں ہوا‘ اور یہی وہ چیز تھی‘ جو شروع دن سے وہ سب عسکری ماہرین کہہ رہے تھے‘ جنہوں نے سوویت یونین کو اپنی تمام تر فوجی طاقت کے باوجود افغانستان سے ذلیل و رسوا ہو کر راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔
    افغانستان پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے اور اس کے ساتھ پاکستان کے مسلمانوں کے تہذیبی رشتے صدیوں پرانے ہیں۔ دسمبر 1979ء میں جب سوویت یونین نے افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کیں تو پاکستان نے اسی برادرانہ جذبہ کے تحت اپنے افغان بھائیوں کی جدوجہد آزادی میں ان کا بھرپور ساتھ دیا اور سوویت یونین کے خلاف ایک ایسی جنگ لڑی‘ جو جنگوں کی تاریخ میں اپنی نوعیت کی منفرد جنگ تھی‘ عسکری اصطلاح میں اس کو پراکسی وار (بالواسطہ جنگ) بھی کہتے ہیں۔ آج یہ کوئی راز نہیں کہ یہ جنگ پاکستان کی مایہ ناز خفیہ انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی نے لڑی تھی‘ جس کی کمان اس وقت جنرل اختر عبدالرحمن کے ہاتھ میں تھی۔ وہ خود آبائی طور پر پشتون افغان تھے‘ لہٰذا افغان قبائل کے مزاج اور ان کی مزاحمت کی تاریخ سے بخوبی آگاہ تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ سوویت یونین کے خلاف یہ جنگ جنرل اختر عبدالرحمن کی افغان ڈاکٹرائن کے تحت لڑی اور جیتی گئی‘ اور ڈاکٹرائن یہ تھی کہ افغان قوم آزاد طبع قوم ہے‘ اس کو غلام بنا کر نہیں رکھا جا سکتا‘ لہٰذا اس جنگ افغانستان کا نتیجہ جلد یا بدیر افغان قوم ہی کے حق میں برآمد ہونا ہے۔ پاکستان کو صرف اپنے حصہ کا کردار ادا کرنا ہے اور وہ یہ ہے کہ افغان مجاہدین کی مدد کرتے وقت ان کے قبائل کے درمیان کوئی امتیاز سلوک روا نہ رکھا جائے۔ اسی افغان ڈاکٹرائن کے تحت جنرل اختر عبدالرحمن نے تمام افغان قبائل اور تنظیموں کو روسی حملے کے خلاف متحد کیا‘ افغان قبائل کی بکھری ہوئی قوت کو مجتمع کیا اور تھوڑے ہی مدت میں اس کو ایک بہت بڑی فوجی طاقت میں تبدیل کر دیا۔
    Stephen Tanner اپنی تصنیف ''الیگزینڈر دی گریٹ سے زوال طالبان تک‘ عسکری اور تاریخی جائزہ‘‘ میں لکھتے ہیں ''جنرل اختر عبدالرحمن نے جنرل ضیاء الحق سے کہا کہ آپ بے فکر رہیں‘ سوویت یونین کے خلاف براہ راست افغان قبائل ہی لڑیں گے‘ ہم پیچھے رہ کر ان کو صرف فوجی اسلحہ اور ٹریننگ دیں گے اور یہ احتیاط بھی کی جائے گی کہ پراکسی وار کا درجہ حرارت ایک خاص سطح پر رکھا جائے‘ تاکہ سوویت یونین مشتعل ہو کر براہ راست پاکستان پر نہ چڑھ دوڑے‘‘۔ اس طرح بروس رائیڈل نے بھی اعتراف کیا کہ ''یہ پاکستان کی انٹیلی جنس تھی‘ جس نے سوویت یونین کے خلاف افغان مجاہدین کو لیڈرشپ‘ ٹریننگ اور سٹرٹیجی فراہم کی اور یہ افغان عوام اور پاکستان ہی تھا‘ جنہوں نے اس خطرناک اور عظیم جنگ کا تمام خطرہ مول لیا اور قربانیاں دی تھیں‘‘۔ جس طرح امریکہ خود افغانستان پر چڑھ دوڑنے سے پہلے یہ تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا کہ اپنی تمام تر طاقت کے باوجود افغانستان کو زیادہ عرصہ تک غلام بنا کر نہیں رکھ سکتا‘ اسی طرح اس وقت بھی‘ جب سوویت یونین نے اپنی فوجیں افغانستان میں داخل کر چکا تھا‘ وہ یہ تسلیم کرنے میں متذبذب تھا کہ افغان قوم سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑ سکتی اور اس کو شکست دے سکتی ہیں۔ اسی لیے ابتدائی طور پر امریکہ اور اس کے اتحادی یورپ نے پاکستان کو اس افغان جنگ کی مد میں مالی یا اسلحی امداد مہیا کرنے میں قطعاً کوئی دلچسپی نہ لی۔ بے یقینی کے ان گھٹا ٹوپ اندھیروں میں یہ تنہا جنرل اختر عبدالرحمن تھے جو پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ مسلسل یہ کہہ رہے تھے کہ افغان قوم سوویت یونین کے خلاف یہ جنگ لڑ سکتی ہے۔ وجہ یہ تھی کہ جنرل اختر عبدالرحمن افغان قوم کے رگ و پے میں دوڑنے والی روحِ آزادی کو سمجھتے تھے۔ دو سال کے بعد امریکہ اور یورپ نے ان کے موقف کو سمجھا اور افغان مجاہدین کو مالی اور اسلحی امداد مہیا کرنا شروع کی‘ بلکہ اس کے بعد جب جنرل اختر عبدالرحمن نے افغان مجاہدین کو سٹنگر میزائل مہیا کرنے کا مطالبہ کیا تو وہ بھی پورا کر دیا گیا۔ سٹنگر میزائل روسی فوج کے خلاف جنگ میں افغان مجاہدین کے لیے کامیابی کی کلید ثابت ہوئے۔
    جنرل اختر عبدالرحمن کی افغان ڈاکٹرائن کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ سوویت یونین کی واپسی اور معاہدہ جنیوا پر دستخط کرنے سے پہلے امریکہ اور سوویت یونین سے افغانستان میں مستحکم حکومت کے قیام کا مطالبہ منوایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ بصورتِ دیگر روسی فوجوں کے انخلا کے ساتھ ہی افغانستان میں خانہ جنگی چھڑ جائے گی‘ جس کے نتیجہ میں کسی اور بیرونی قوت کے افغانستان میں در انداز ہونے اور انتشار پھیلانے کا خطرہ رہے گا‘ جو افغانستان اور پاکستان دونوں کے مفاد میں نہیں۔ آج امریکہ اور اس کے اعلیٰ عہدیدار بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سوویت یونین کی واپسی کے بعد امریکہ نے افغانستان میں مستحکم حکومت قائم کرنے کی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ یہ ذمہ داری اگر پوری کر دی جاتی تو افغانستان میں بعد ازاں جو انتشار پیدا ہوا‘ وہ نہیں ہونا تھا۔
    جنرل اختر عبدالرحمن کی جانب سے جنیوا معاہدہ کی مخالفت کے باعث ان کو اوجڑی کیمپ کے سانحہ میں ملوث کرنے کی سازش کی گئی‘ حالانکہ اس وقت وہ آئی ایس آئی کے چیف بھی نہ تھے اور کیمپ کی سکیورٹی سے ان کا براہِ راست کوئی تعلق نہ تھا۔ آج تاریخ کا ہر طالبعلم سمجھ سکتا ہے کہ اگر افغان جنگ کی کامیابی کے بعد جنرل اختر عبدالرحمن کی ڈاکٹرائن پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جاتا تو افغانستان میں ایک ایسی مستحکم حکومت معرض وجود میں آ سکتی تھی جو نہ صرف پاکستان کی زبردست حامی ہوتی‘ بلکہ پاکستان کو اپنا محسن بھی سمجھتی اور پاکستان کو افغان بارڈر کی طرف سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہونا تھا۔ افسوس کہ 17 اگست 1988ء کو جنرل اختر عبدالرحمن کی شہادت کے بعد بھی پاکستان کی مختلف حکومتوں نے جنرل اختر عبدالرحمن کی افغان ڈاکٹرائن کے برعکس افغانستان میں امتیازی پالیسی اختیار کی‘ جس کے نتیجہ میں افغانستان میں اندرونی انتشار پھیلا اور افغانستان کی نئی ابھرنے والی لیڈرشپ پاکستان سے برگشتہ ہوئی۔ پاکستان آج بھی اگر اس پیچیدہ صورتحال سے نکل سکتا ہے تو صرف جنرل اختر عبدالرحمن کی افغان ڈاکٹرائن پر عمل پیرا ہو کر‘ یعنی اولاً‘ افغان قوم کے جذبۂ آزادی کا دل سے احترام کیا جائے ثانیاً امریکہ کی واپسی سے پہلے افغانستان میں مستحکم حکومت کا قیام یقینی بنایا جائے‘ تاکہ امریکہ کی واپسی کے بعد سوویت کی واپسی کے بعد کی تاریخ نہ دہرائی جائے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں