1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

جمعہ کے فضائل و مسائل

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏9 نومبر 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    سنن نسائي
    كتاب الجمعة
    کتاب: جمعہ کے فضائل و مسائل

    45- بَابُ: ذِكْرِ السَّاعَةِ الَّتِي يُسْتَجَابُ فِيهَا الدُّعَاءُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ
    باب: جمعہ کے دن کی قبولیت دعا کی گھڑی کا بیان۔
    باب سے متعلقہ تمام احادیث دیکھیں
    حدیث نمبر: 1431

    اخبرنا قتيبة، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حدثنا بكر يعني ابن مضر، ‏‏‏‏‏‏عن ابن الهاد، ‏‏‏‏‏‏عن محمد بن إبراهيم، ‏‏‏‏‏‏عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، ‏‏‏‏‏‏عن ابي هريرة، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ اتيت الطور فوجدت ثم كعبا، ‏‏‏‏‏‏فمكثت انا وهو يوما احدثه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ويحدثني عن التوراة، ‏‏‏‏‏‏فقلت له:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ "خير يوم طلعت فيه الشمس يوم الجمعة، ‏‏‏‏‏‏فيه خلق آدم وفيه اهبط،‏‏‏‏ وفيه تيب عليه،‏‏‏‏ وفيه قبض،‏‏‏‏ وفيه تقوم الساعة، ‏‏‏‏‏‏ما على الارض من دابة إلا وهي تصبح يوم الجمعة مصيخة حتى تطلع الشمس شفقا من الساعة إلا ابن آدم، ‏‏‏‏‏‏وفيه ساعة لا يصادفها مؤمن وهو في الصلاة يسال الله فيها شيئا إلا اعطاه إياه"،‏‏‏‏ فقال كعب:‏‏‏‏ ذلك يوم في كل سنة،‏‏‏‏ فقلت:‏‏‏‏ بل هي في كل جمعة، ‏‏‏‏‏‏فقرا كعب التوراة، ‏‏‏‏‏‏ثم قال:‏‏‏‏ صدق رسول الله صلى الله عليه وسلم هو في كل جمعة.

    ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں طور پہاڑی پر آیا تو وہاں مجھے کعب (کعب احبار) رضی اللہ عنہ ملے تو میں اور وہ دونوں ایک دن تک ساتھ رہے، میں ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بیان کرتا تھا، اور وہ مجھ سے تورات کی باتیں بیان کرتے تھے، میں نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”بہترین دن جس میں سورج نکلا جمعہ کا دن ہے، اسی میں آدم پیدا کئے گئے، اسی میں (دنیا میں) اتارے گئے، اسی میں ان کی توبہ قبول کی گئی، اسی میں ان کی روح نکالی گئی، اور اسی دن قیامت قائم ہو گی، زمین پر رہنے والی کوئی مخلوق ایسی نہیں ہے جو جمعہ کے دن قیامت کے ڈر سے صبح کو سورج نکلنے تک کان نہ لگائے رہے، سوائے ابن آدم کے، اور اس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ کسی مومن کو یہ گھڑی مل جائے اور نماز کی حالت میں ہو اور وہ اللہ سے اس ساعت میں کچھ مانگے تو وہ اسے ضرور دے گا“، کعب نے کہا: یہ ہر سال میں ایک دن ہے، میں نے کہا: نہیں، بلکہ یہ گھڑی ہر جمعہ میں ہوتی ہے، تو کعب نے تورات پڑھ کر دیکھا تو کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے، یہ ہر جمعہ میں ہے۔ پھر میں (وہاں سے) نکلا، تو میری ملاقات بصرہ بن ابی بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے ہوئی، تو انہوں نے پوچھا: آپ کہاں سے آ رہے ہیں؟ میں نے کہا: طور سے، انہوں نے کہا: کاش کہ میں آپ سے وہاں جانے سے پہلے ملا ہوتا، تو آپ وہاں نہ جاتے، میں نے ان سے کہا: کیوں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، آپ فرما رہے تھے: ”سواریاں استعمال نہ کی جائیں یعنی سفر نہ کیا جائے مگر تین مسجدوں کی طرف: ایک مسجد الحرام کی طرف، دوسری میری مسجد یعنی مسجد نبوی کی طرف، اور تیسری مسجد بیت المقدس ۱؎ کی طرف۔ پھر میں عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ملا تو میں نے کہا: کاش آپ نے مجھے دیکھا ہوتا، میں طور گیا تو میری ملاقات کعب سے ہوئی، پھر میں اور وہ دونوں پورے دن ساتھ رہے، میں ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بیان کرتا تھا، اور وہ مجھ سے تورات کی باتیں بیان کرتے تھے، میں نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنوں میں بہترین دن جمعہ کا دن ہے جس میں سورج نکلا، اسی میں آدم پیدا کئے گئے، اسی میں دنیا میں اتارے گئے، اسی میں ان کی توبہ قبول ہوئی، اسی میں ان کی روح نکالی گئی، اور اسی میں قیامت قائم ہو گی، زمین پر کوئی ایسی مخلوق نہیں ہے جو قیامت کے ڈر سے جمعہ کے دن صبح سے سورج نکلنے تک کان نہ لگائے رہے سوائے ابن آدم کے، اور اس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ جس مسلمان کو وہ گھڑی نماز کی حالت میں مل جائے، اور وہ اللہ سے کچھ مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو وہ چیز ضرور دے گا، اس پر کعب نے کہا: ایسا دن ہر سال میں ایک ہے، تو عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا: کعب نے غلط کہا، میں نے کہا: پھر کعب نے (تورات) پڑھی اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے، وہ ہر جمعہ میں ہے، تو عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا: کعب نے سچ کہا، پھر انہوں نے کہا: میں اس گھڑی کو جانتا ہوں، تو میں نے کہا: اے بھائی! مجھے وہ گھڑی بتا دیں، انہوں نے کہا: وہ گھڑی جمعہ کے دن سورج ڈوبنے سے پہلے کی آخری گھڑی ہے، تو میں نے کہا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہیں سنا کہ آپ نے فرمایا: ”جو مومن اس گھڑی کو پائے اور وہ نماز میں ہو“ جبکہ اس گھڑی میں کوئی نماز نہیں ہے، تو انہوں نے کہا: کیا آپ نے نہیں سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جو شخص نماز پڑھے پھر بیٹھ کر دوسری نماز کا انتظار کرتا رہے، تو وہ نماز ہی میں ہوتا ہے“، میں نے کہا: کیوں نہیں سنا ہے؟ اس پر انہوں نے کہا: تو وہ اسی طرح ہے۔

    تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۲۰۷ (۱۰۴۶) مختصراً، سنن الترمذی/الصلاة ۲۳۷ (الجمعة ۲) (۴۹۱) مختصراً، موطا امام مالک/الجمعة ۷ (۱۶)، (تحفة الأشراف: ۱۵۰۰۰)، مسند احمد ۲/۴۷۶، ۵۰۴، ۵/۴۵۱، ۴۵۳، وقولہ: ’’فیہ ساعة لایصادفھا۔۔۔ الخ عند الشیخین والترمذی من طریق الأعرج عنہ، أنظر رقم: ۱۴۳۲ (صحیح)

    وضاحت: ۱؎: لہٰذا ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد کے لیے ثواب کی نیت سے سفر جائز نہیں ہے، ایسے ہی مقام کی زیارت کے لیے ثواب کی نیت سے جانا خواہ وہ کوئی قبر ہو یا شہر درست نہیں۔

    قال الشيخ الألباني: صحيح
     
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    سنن ترمذي
    كتاب الجمعة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
    کتاب: جمعہ کے احکام و مسائل

    24- باب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ قَبْلَ الْجُمُعَةِ وَبَعْدَهَا
    باب: جمعہ سے پہلے اور اس کے بعد کی سنتوں کا بیان۔
    باب سے متعلقہ تمام احادیث دیکھیں
    حدیث نمبر: 523


    حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " من كان منكم مصليا بعد الجمعة فليصل اربعا ". قال ابو عيسى:‏‏‏‏ هذا حديث حسن صحيح. حدثنا الحسن بن علي، ‏‏‏‏‏‏حدثنا علي بن المديني، ‏‏‏‏‏‏عن سفيان بن عيينة، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ كنا نعد سهيل بن ابي صالح ثبتا في الحديث. والعمل على هذا عند بعض اهل العلم. وروي عن عبد الله بن مسعود، ‏‏‏‏‏‏انه كان يصلي قبل الجمعة اربعا وبعدها اربعا. وقد روي عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، ‏‏‏‏‏‏انه امر ان يصلى بعد الجمعة ركعتين، ‏‏‏‏‏‏ثم اربعا. وذهب سفيان الثوري، ‏‏‏‏‏‏وابن المبارك إلى قول ابن مسعود. وقال إسحاق:‏‏‏‏ إن صلى في المسجد يوم الجمعة صلى اربعا، ‏‏‏‏‏‏وإن صلى في بيته صلى ركعتين، ‏‏‏‏‏‏واحتج بان النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي بعد الجمعة ركعتين في بيته، ‏‏‏‏‏‏وحديث النبي صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " من كان منكم مصليا بعد الجمعة فليصل اربعا ". قال ابو عيسى:‏‏‏‏ وابن عمر هو الذي روى عن النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏انه كان " يصلي بعد الجمعة ركعتين في بيته " وابن عمر بعد النبي صلى الله عليه وسلم صلى في المسجد بعد الجمعة ركعتين، ‏‏‏‏‏‏وصلى بعد الركعتين اربعا. حدثنا بذلك ابن ابي عمر، ‏‏‏‏‏‏حدثنا سفيان بن عيينة، ‏‏‏‏‏‏عن ابن جريج، ‏‏‏‏‏‏عن عطاء، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ رايت ابن عمر صلى بعد الجمعة ركعتين ثم صلى بعد ذلك اربعا. حدثنا سعيد بن عبد الرحمن المخزومي، ‏‏‏‏‏‏حدثنا سفيان بن عيينة، ‏‏‏‏‏‏عن عمرو بن دينار، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ ما رايت احدا انص للحديث من الزهري، ‏‏‏‏‏‏وما رايت احدا الدنانير والدراهم اهون عليه منه، ‏‏‏‏‏‏إن كانت الدنانير والدراهم عنده بمنزلة البعر. قال ابو عيسى:‏‏‏‏ سمعت ابن ابي عمر، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ سمعت سفيان بن عيينة، ‏‏‏‏‏‏يقول:‏‏‏‏ كان عمرو بن دينار اسن من الزهري.
    ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو تم میں سے جمعہ کے بعد نماز پڑھے تو چاہیئے کہ چار رکعت پڑھے“۔
    امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۳- نیز عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے بھی مروی ہے کہ وہ جمعہ سے پہلے چار رکعتیں اور اس کے بعد بھی چار رکعتیں پڑھتے تھے، ۴- اور علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے بھی مروی ہے کہ انہوں نے حکم دیا کہ جمعہ کے بعد پہلے دو پھر چار رکعتیں پڑھی جائیں، ۵- سفیان ثوری اور ابن مبارک بھی ابن مسعود کے قول کی طرف گئے ہیں، ۶- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: جمعہ کے دن اگر مسجد میں پڑھے تو چار رکعتیں اور اگر اپنے گھر میں پڑھے تو دو رکعتیں پڑھے، ان کی دلیل یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے بعد دو رکعتیں اپنے گھر میں پڑھتے تھے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی (یہ بھی) حدیث ہے کہ تم میں سے جو کوئی جمعہ کے بعد نماز پڑھے تو چار رکعتیں پڑھے، ۷- ابن عمر رضی الله عنہما ہی ہیں جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ جمعہ کے بعد دو رکعتیں اپنے گھر میں پڑھتے تھے۔ اور ابن عمر رضی الله عنہما نے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسجد میں جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھیں اور دو رکعتوں کے بعد چار رکعتیں پڑھیں۔ عطا سے روایت کی ہے کہ میں نے ابن عمر رضی الله عنہما کو دیکھا کہ انہوں نے جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھیں۔ اس کے بعد چار رکعتیں پڑھیں۔

    تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجمعة ۱۸ (۸۸۱)، سنن ابی داود/ الصلاة ۴۴ (۱۱۳۱)، سنن النسائی/الجمعة ۴۲ (۱۴۲۷)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۹۵ (۱۱۳۲)، (تحفة الأشراف: ۱۲۶۶۷)، (وکذا: ۱۲۶۶۴) (صحیح)

    قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1132)
     

اس صفحے کو مشتہر کریں