1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

جلال الدین اکبر

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏9 جون 2013۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    ترک بادشاہ بابر کا بیٹا ہمایوں جب فرید خان ( شیر شاہ سوری ) سے شکست کھا کراپنے بھائیوں کے پاس لاہور پہنچا کچھ دن وہاں رہا اسی دوران اس کا ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام جلال الدین اکبر رکھا گی کچھ دن بعد اُسے خبر ملی کے شیر شاہ سوری کی فوج اُسے تلاش کرتی ہوئی لاہور کی طرف آ رہی ہے تو وہ تو سندھ ایران فرار ہوا اور وہاں سے وآپس کابل جا پہنچا ، اُس کے بعد اس کے بیٹے کی پر ورش کی ذمے داری اس کے بھائییوں پر آ پڑی ۔ اکبر کے چچا نے اسے رکھ تو لیا لیکن اس کی تعلیم و تربیت کی طرف کوئی توجہ نہیں ۔ ہمایوں نے جب دوبارہ تخت حاصل کیا تو اکبر کی پرورش کے لئے بیرم خان کو استاد مقرر کیا جس نے اسے جنگ کے سارے داؤ سکھا دئے اور وہ بہت جلد تیر اندازی اور تلوار بازی میں ماہر ہو گیا۔ ایک دن بیرم خان نے ایک درخت پر ایک سیب لٹکا دیا اور جب وہ ہوا سے خوب ہلنے لگا تو اکبر کو نشانہ لگانے کا حکم دیا۔ نشانہ خطا ہو گیا تو استاد نے کہا : تیر کا نشانہ لیتے ہوئے ہوا کی سمت اور رفتار کا بھی خیال رکھنا چاہیے اور نشانہ لیتے ہوئے ہدف کے علاوہ اور کہیں توجہ نہیں ہونی چاہئیے، دوسری مرتبہ نشانہ صحیح لگا۔
    ایک بار بیرم خان اکبر کو جنگل میں لے گیا وہاں اس نے ایک جنگلی بھینسا کو غصہ دلا کر اکبر کی طرف بھیج دیا۔ بھینسا جیسے ہی اکبر پر حملہ آور ہوا اکبر نے اس کی آنکھ کا نشانہ لے کر تیر چلایا جو صحیح بیٹھا اور جانور گر کر تڑپنے لگا۔ بیرم خان نے اکبر کو شاباشی دیتے ہوئے کہا : یہ تمہارا آخری امتحان تھا۔ جھولتے ہوئے سیب پر نشانہ لگاتے ہوئے تمہارے دل میں دشمن کا خوف نہیں تھا۔ میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ خوف کی حالت میں تم گھبرا تو نہیں جاتے اور صحیح نشانہ لے سکتے ہو یا نہیں۔
    اکبر تیرہ سال کی عمر میں تخت نشین ہوا اور پچاس سال تک ہندوستان پر حکومت کی ۔

    نوٹ : - ہم لوگ ظہیر الدین بابر اور اُس کی نسل کے باقی بادشاہوں کو مغل بادشاہ کہتے ہیں ، جو کہ غلط ہے ، تاریخ بتاتی ہے کہ ظہر الدین بابر نسلا برلاس ترک تھا ۔
     
    احتشام محمود صدیقی، ملک بلال اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    زبردست تاریخی معلومات ہیں۔

    نوٹ : - ہم لوگ ظہیر الدین بابر اور اُس کی نسل کے باقی بادشاہوں کو مغل بادشاہ کہتے ہیں ، جو کہ غلط ہے ، تاریخ بتاتی ہے کہ ظہر الدین بابر نسلا برلاس ترک تھا۔

    یہ بات نئی ہے میرے لیے۔،
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    مگر یہ حقیقت ہے ، کئی سال پہلے جب میں نے ظہیر الدین بابر کی تاریخ پڑھی تھی تو میں بھی حیران ہوا تھا ، بابر کا باپ عمر شیخ مرزا فرغانہ (ترکستان) کا حاکم تھا ۔ بابر باپ کی طرف سے تیمور اور ماں کی طرف سے چنگیز خان کی نسل سے تھا۔ عمرشیخ مرزا کبوتر بازی کا بہت شوقین تھا ، ایک روز اپنے کبوتر خانے کے بالا خانے سے گر کر مر گیا تھا ، اور یوں ظہیر الدین بابر 12 سال کی عمر میں اپنی باپ کی چھوڑی ہوئی چھوٹی سی ریاست کا حکمران بنا تھا ، اشکنانیوں نے اُسے اور باقی تمام چھوٹی چھوٹی ترک و تاجک ریاستوں پر قبضہ کر لیا ، بابر نے اپنی جان بخشی کے لیے اپنی بہن کی شادی اشکنانی بادشاہ سے کر دی تھی ، کئی برس تک ادھر اُدھر بھٹکنے کے بعد بابر صرف سو دو سو فوجیوں کے ساتھ کابل پر حملہ آور ہوا ، کابل کے حکمران نے بغیر لڑے حکومت نوجوان بابر کے حوالے کر دی ، بابر نے باقاعدہ پہلی حکومت کابل میں قائم کی تھی ، کچھ عرصہ بابر کابل میں رہ کر فوجی تیاری کرتا رہا اس کے بعد 1525 یا 1526 ء میں بابر نے ہندوستان پر حملہ کیا اُس وقت ہندوستان پر ابراھیم لودھی کی حکومت تھی ، پانی پت کی لڑائی ظہیر الدین بابر اور ابراھیم لودھی کے درمیان لڑی گئی تھی ، اس جنگ میں پنجاب کے ہندو راجاؤں نے ابراھیم لودھی کا ساتھ دیا تھا اور پہلے پہل اُن ہندو راجاؤں اور خصوصا راجا رانا سنگھا ( کچھ مورخین نے لکھا ہے کہ خود راجا سنگھا نے ہی بابر کو ہندوستان پر حملہ کرنے کے لیے اُکسایا تھا ) نے بابر کو مغل ( لٹیرا ) کہا تھا ، بابر کے بعد اُس کی اولاد میں کسی نے بھی اپنے لیے مغل کا لفظ استعمال نہیں کیا ، بلکہ یہ لوگ اپنے آپ کو مرزا یا بیگ کہتے تھے ، بیگ ترک زبان میں بادشاہ کی قریبی مصاحب کو کہتے ہیں ، 1757 کی پہلی جنگ کے بعد سے ہی انگریزوں کے ایجنٹ مقامی سرداروں اور چھوٹے چھوٹے راجاؤں نے ایک بار پھر انہیں مغل کہنا شروع کر دیا تھا ، اور یہ لفظ مقامی لوگوں کو بغاوت کے لیے اپنے ساتھ ملانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا ، بعد مین تو یہ لفظ ہی مستعمل ہو گیا بلکہ اج اگر کسی کو کہا جائے کہ ظہیر الدین بابر برلاس ترک تھا تو وہ حیران ہو جاتا ہے ۔
    تزک بابری ظہیر الدین بابر کا دیوان ہے اور جو کہ فارسی اور تاجک زبان میں ہے اور آج بھی تاجکستان کی یونیورسٹیز کے نصاب میں شامل ہے ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں