1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

توہم پرستی کی حقیقت

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏2 فروری 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    توہم پرستی اور بد شگونی جیسے عقائد کے حامل افراد کچھ چیزوں، واقعات یا علامات کو اپنے لیے مبارک گردانتے ہیں اور کچھ کو نقصان دہ یا منحوس۔ توہم پرست لوگ منفی خیالات کا شکار ہو کر اپنی خوشیاں اور سکون خراب کرلیتے ہیں اور بہت جلد مایوس ہوجاتے ہیں۔کہنے کو تو ہم سائنسی دور میں رہتے ہیں جہاں ہر واقعہ اور نظریے کے دلائل اور حقائق تلاش کیے جاتے ہیں مگر اس کے باوجود دنیا کی ترقی یافتہ قوموں میں بھی توہم پرستی عام ہے۔
    اسپین میں منگل کے دن مہینے کی 13 تاریخ ہو تو اسے قومی طور پر بدقسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ چائنہ میں 8 کا ہندسہ مبارک اور 4 کا ہندسہ منحوس خیال کیا جاتا ہے حتیٰ کہ کچھ لوگ عمارت کی چوتھی منزل تعمیر نہیں کرتے ۔انہیں لگتا ہے کہ ہر سال خوش قسمتی گھر کے اگلے دروازے سے داخل ہوتی ہے اس لیے وہ صفائی کرکے گھر کی نحوستوں کو کچرے کے ساتھ پچھلے دروازے سے باہر پھینک آتے ہیں۔ آئرلینڈ میں دلہنیں اپنے لباس یا زیورات میں چھوٹی گھنٹی ضرور استعمال کرتی ہیں جسے خوش قِسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ روس میں خالی بالٹی کہیں لے جانے کو برا شگون سمجھا جاتا ہے۔
    فن لینڈ کے لوگ یقین رکھتے ہیں کہ اگر مکڑی کو مارا جائے تو اگلے دن بارش ہوگی۔ پرتگال کے لوگ سمجھتے ہیں کہ الٹا چلنے سے برائی ہمارا رستہ سیکھ لیتی ہے۔ مصر میں خالی قینچی چلانے کو برا سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس سے ہوا میں موجود بد روحیں کٹ جاتی ہیں جس کے باعث ان کو غصہ آجاتا ہے۔ سوئٹزر لینڈ اور نیدر لینڈ کے لوگ شادی کے بعد گھر کے باہر پائن یعنی صنوبر کا درخت لگاتے ہیں کہ یہ ان کے ازدواجی تعلقات میں مضبوطی ڈالے گا۔ برطانیہ میں چیونٹیوں کی آمد برے موسم اور ان کا قطار میں چلنا بارش ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اور اگر گائے یا بیل کسی کھیت میں گھس جائیں تو اس کا یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ کوئی مرنے والا ہے۔ مغرب میں سفید مرغی نظر آنا رحمت کی علامت جبکہ سیاہ مرغی کو شیطان کی روح گمان کیا جاتا ہے۔ ترکوں کا خیال ہے کہ اگر آپ دو ہم نام لوگوں کے درمیان کھڑے ہیں تو جو مراد چاہیں وہ پوری ہوگی۔
    مسلمانوں میں توہم پرستی کی وجوہات
    اگرچہ اسلام ہمیشہ تحقیق اور غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اور اس میں توہم پرستی یا بدشگونی کی قطعا گنجائش نہیں مگر اس کے باوجود مسلمانوں کی کثیر تعداد اس مرض کا شکار ہے۔ مسلمانوں میں توہم پرستی کی وجہ ایک تو کم علمی اور دینی احکام سے ناواقفیت ہے اور دوسری بڑی وجہ برصغیر میں ہندوو ¿ں کے ساتھ رہنا ہے جن میں توہم پرستی حد درجہ عام ہے جیسا کہ نومولود کو نظر بد سے بچانے کے لیے پیشانی پر کاجل کا ٹیکا یا نشان لگانا، شام کے وقت صفائی سے گریز کرنا کہ اس سے دولت کم ہوگی، مرد کی دائیں اور عورت کی بائیں آنکھ پھڑکنے کو اچھی خبر کی آمد سے مشروط کرنا، ٹانگیں ہلانے سے دولت کا جانا، پیاز یا چھری سرہانے رکھنے سے برے خوابوں سے نجات ملنا، اس کے علاوہ کالی بلّی کا راستہ کاٹنا، شیشہ ٹوٹنا، دودھ کا ابل کر برتن سے باہر گر جانا وغیرہ کو برے واقعے کی علامت سمجھنا ہندو معاشرے کے عام عقائد ہیں۔
    غیر شرعی کام جو توہم پرستی میں شامل ہیں
    ہمارے بزرگوں نے بہت سی غیر منطقی باتیں ہمارے ذہنوں میں انڈیل دی ہیں جس طرح ان کے بڑے ٹوک کر انہیں ذہن نشین کرواتے رہے جو توہم پرستی کے سوا کچھ بھی نہیں۔توہم پرستی پر مبنی بے شمار باتیں آپ نے اپنے گرد و نواح میں سنی ہوں گی مثلا،”منڈیر پر کوا بیٹھا تو مہمان آنے والے ہیں، چھینک آئی تو کوئی یاد کررہا ہے، فلاں پتھر اور ہندسہ مبارک ہے اور فلاں منحوس، بدھ کا دن اور ماہ صفر مصیبتیں لاتے ہیں، دائیں ہاتھ میں خارش ہے تو دولت آئے گی بائیں میں ہے تو جائے گی، جھاڑو کھڑا کرنا یا بعد از عصر جھاڑو دینا نحوست ہے، ٹوٹے تارے کو دیکھ کر یا پلک کا بال گرنے پر جو دعا مانگو وہ قبول ہوگی، رخصتی پر لڑکی کو قرآن کے نیچے سے گزارنا اور سفر سے پہلے امام ضامن پہننا“ آپ کی حفاظت کرتے ہیں۔ ”مغرب کے بعد گھر کی ساری بتیاں جلا دو ورنہ بد روحیں آجائیں گی، جائے نماز کا کونا الٹادو ورنہ شیطان نماز پڑھنے لگ جائے گا، خالی قینچی چلانے سے قطع تعلقی ہوجائے گی، نمک غلطی سے بھی زمین پر گر گیا تو روز قیامت پلکوں سے اٹھانا پڑے گا، کسی پر پے درپے آزمائشیںآنے کو “منحوس قرار دے دیا جاتا ہے۔
    اسی طرح کانچ کا ٹوٹنا، بلی یا کتے کا رونا نحوست اور بے برکتی کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ اور تو اور کچھ لوگ تو انگلی پر تل کو کام چوری اور ہتھیلی میں تل کو تونگری سے تعبیر کرتے ہیں اور گھر میں منی پلانٹ جتنا بڑھے وہاں اتنی دولت آئے گی۔ کچھ لوگ قرآن سے فال نکالتے ہیں جس کی شریعت میں کوئی اساس نہیں، اس کے علاوہ طوطے سے فال نکلوانا ، کاہن یا نجومی کے پاس جانا، ستاروں کے زندگی پر اثرات کا یقین رکھنا، ہاتھوں کی لکیریں دکھا کر قسمت کا حال جاننا، تعویز لٹکانا، تعویز جلا کر اسے جوتے مارنا اور یقین رکھنا کہ ہر جمعرات کو روحیں گھر والوں سے ملنے آتی ہیں۔ یہ سب توہمات اور جہالت کے سوا کچھ نہیں۔
    میڈیا کا توہمات کی ترویج میں کردار
    میڈیا کے نشر کردہ بہت سے پروگرامز اور سیریل توہمات کو سچ ہوتا دکھا کر لوگوں کے اذہان میں ایسے بے معنی خیالات کو پختہ کرتے ہیں۔ ڈرامہ سیریل ”منکر“ میں مٹھائی کا گرنا اور شادی کے دن زیور(ٹیکا) کا گم ہونا بد شگونی اخذ کیا جاتا ہے جو بعد میں درست ثابت ہوجاتی ہے، ایک اور ڈرامہ سیریل ”آدھی گواہی“میں دلہن کے لباس کا استری سے جل جانا بدشگونی کہلاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی چیز کسی بھی وقت ٹوٹ سکتی ہے، گم ہوسکتی ہے، گر سکتی ہے، خراب ہوسکتی ہے کیونکہ یہ سب ہونا عام عمل ہے بلکہ ایسا جیسے کسی بھی انسان کا کسی بھی وقت مرجانا۔
    اس کے علاوہ اخبارات ، میگزین اور دیگر رسائل میں ”آپ کے ستارے کیا کہتے ہیں“یا ”آج کا دن کیسا گزرے گا“جیسی خرافات دیکھنے کو ملتی ہیں جسے تعلیم یافتہ طبقہ بھی بڑے تیقن اور دِلچسپی سے پڑھتا ہے۔ جب کہ اسلام آپ کو ایسا کچھ پوچھنے کے لیے نجومی کے پاس جانے کی اجازت ہی نہیں دیتا۔آپ کبھی کچھ وقت نکال کر سرچ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ ان آسٹرولوجیکل سائنز کا اصل یونانی عقائد ہیں جو سینکڑوں خیالی فلسفوں پر مبنی ہے (جسے متھالوجی بھی کہا جاتا ہے) جس کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔
    توہمات اور بدشگونی سے متعلق شرعی احکام
    قبل از اسلام بھی لوگ توہم پرستی کا شکار تھے۔ عرب کے لوگ بیٹی کی پیدائش کو منحوس سمجھتے، گھروں میں دروازے کے بجائے پچھلی دیوار توڑ کر گھر میں داخل ہونے کو باعثِ برکت سمجھتے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بیٹے حضرت ابراہیم رضی علیہ وسلم کی وفات کے دن سورج گرہن تھا۔ کچھ لوگوں نے آپ رضی اللہ کی وفات کی وجہ سورج گرہن کو سمجھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا خیال کرنے سے منع فرما دیا۔
    دیکھا جائے تو توہمات پر یقین رکھنا ہی تقدیر پر یقین کا رد ہے۔ کوئی دن، پتھر، بشر، چرند پرند یا ستارے وغیرہ انسان کے نفع و نقصان کے خَالِق نہیں ہوسکتے سوائے اللہ کے۔

    ارشاد باری تعالیٰ ہے”اگر تجھے کوئی فائدہ پہنچے تو وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور جو نقصان پہنچے وہ تیری ہی (شامت اعمال) کی بدولت ہے“۔(سورة النساء آیت 79)

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو شخص کسی چیز سے بد فعالی پکڑ کر اپنے کام سے پیچھے ہٹ گیا تو اس نے شرک کیا“۔ (مسند احمد : 7047۔ حدیث حسن)

    حضرت ابو ہریرہ رض سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کوئی بیماری متعدی نہیں اور نہ بد شگونی کی کچھ اصل ہے، اور نہ الو میں نحوست ہے اور نہ صفر کی نحوست کی کوئی بنیاد ہے۔(صحیح بخاری،5757)

    عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بد شگونی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے ۔( آپ نے تین مرتبہ فرمایا) اور ہم میں سے ہر ایک کو (کوئی نا کوئی وہم) ہو جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ توکل کی برکت سے اسے دور کر دیتا ہے“۔ (سنن ابو داو ¿د 3910)

    اسی طرح تعویز کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے تعویز لٹکایا بلاشبہ اس نے شرک کیا“ (مسند احمد)

    جہاں تک دم یا جھاڑ پھونک کی بات ہے تو مسنون دعاوں سے دم کرنا جائز ہے بشرطیکہ شرکیہ کلام نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”دم (جھاڑ پھونک ) میں کوئی حرج نہیں جبکہ اس میں شرکیہ کلمات نہ ہوں“۔(صحیح مسلم2200)

    کچھ لوگ توہمات پر دلیل کرتے ہیں کہ اگر یہ جہالت ہے تو پھر فلاں کام بد شگونی سے خراب کیوں ہوگیا تو جواب یہ ہے کہ انسان جیسا گمان رکھتا ہے اس کے ساتھ پھر ویسا ہی ہونے لگتا ہے۔ جیسا کہ
    حدیث قدسی ہے کہ ”میں اپنے بندے کے گمان پر پورا اترتا ہوں“ ( صحیح مسلم)

    جو شخص توہم پستی اور بدگمانی جیسے برے خیالات سے احتراز کرے اس کے لیے نیک اجر ہے۔

    حدیث میں آتا ہے کہ”میری امت کے 70ہزار لوگ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے ۔یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کرواتے، بد شگونی نہیں لیتے اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں“۔(صحیح بخاری: 6472)

    ایسے میں کسی بھی طرح سے توہم پرستی سے بچنا چاہیے۔ یہ ایک طرح سے شرک اور اللہ پر بھروسہ نہ کرنے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان برائیوں سے محفوظ رکھے اور بے اثرات سے بھی بچا کر رکھے۔ آمین
     
    نعیم اور کنعان .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم

    ویسے کچھ بھی ہو اس میں بہت سی باتوں میں اثر ہے اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔

    والسلام
     
    زنیرہ عقیل اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    توہم پرستی اور ہمارا معاشرہ

    آج دنیا نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ چاند پر پہنچنے کی مثال بھی پرانی ہو چکی ہے۔ تعلیم سے کاروبار اور معاشرتی رکھ رکھاؤ تک بہت ساری چیزوں میں انقلابی تبدیلی آ چکی ہے، لیکن سوچ آج بھی بہت سے لوگوں کی وہ ہی پرانی ہے۔ آج بھی بہت سے لوگ وہم میں مبتلا رہتے ہیں اور جاہلانہ، من گھڑت باتوں پر اس طرح یقین کرتے ہیں جیسے وہ باتیں حقیقت پر مبنی ہوں۔

    ان جاہلانہ اعتقادات کو ملاحظہ کر کے ان پر یقین کامل رکھنے والے افراد کی عقل پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے،

    مثلاً بلی اگر میاؤں میاؤں کر رہی ہے تو وہ رو رہی ہے یا کالی بلی راستہ کاٹ دے تو کہتے ہیں کہ کچھ غلط ہونے والا ہے۔

    بہت سے گھروں میں لڑکیوں کو کالے کپڑے پہننے نہیں دیتے کہ نصیب خراب ہو جائے گا

    اور اگر کسی کی شادی ہو رہی ہو تو اُس دلہا یا دلہن کے پاس کسی بیوہ یا کسی طلاق یافتہ کو جانے نہیں دیتے، آخر کیوں؟

    یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایسا نہیں کہ یہ اعتقادات صرف پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں ہی رائج ہوں بلکہ بہت سے دوسرے ممالک کے لوگ بھی توہم پرستی میں مبتلا ہیں۔

    بعض معاشروں میں صدیوں سےنمک کا گرنابدقسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ 3500 قبل مسیح قدیم سمیری قوم میں جب کسی کے ہاتھ سے نمک گر جاتا تو بدشگونی خیال کیا جاتا کہ اس عمل نے شیطانی قوتوں کو اُکسا دیا ہے اور وہ انسان کے بائیں جانب حملہ آور ہوں گی کیونکہ بایاں بازو کم زور خیال کیا جاتا۔ اب اس سے پہلے کہ شیاطین حملہ آور ہوں، انہیں روکنے کے لئے وہ شخص ازالے کے طور پر اپنے دائیں ہاتھ سے گرے ہوئے نمک کی چٹکی بھر کر اپنے بائیں کاندھے پر چھڑکتا تھا۔ یاد رہے کہ یہ رسم مصریوں میں بھی عام تھی۔

    اکثر گھروں کے داخلی دروازوں پر گھوڑے کی نعل لگی نظر آتی ہے۔ اسے لگانے والے اس وہم میں مبتلا ہیں کہ اس سے اُن کا گھر شیطانی بلاؤں سے محفوظ رہے گا۔ نعل لگانے کی وجہ کسی کو نہیں معلوم لیکن لوگ سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے اور ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اس پر عمل کر رہے ہیں۔

    تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس توہم پرستی کی ابتداء یونان سے ہوئی۔ یہ دراصل یونانیوں کے دو عقائد کا مجموعہ ہے۔ ایک عقیدے کے مطابق لوہے میں شیطانی قوتوں کو بھگانے کی صلاحیت ہوتی ہے اوردوسرے عقیدے کے تحت اگر لوہے کو نئے چاند کی شکل دی جائے تو گھر میں خوش حالی آتی ہے اور قسمت جاگ جاتی ہے۔

    مرچیں اور لیموں لٹکانے سے بلائیں دور رہتی ہیں، یہ توہم پرستی زیادہ تر ہندوؤں میں پائی جاتی ہے۔

    آئینہ ٹوٹے تو سات سال تک قسمت روٹھی رہتی ہے پرانے وقتوں میں آئینہ نایاب ہوا کرتا تھا، اس اعتقاد کو مارکیٹ میں کیوں لایا گیا، اس کی بہت مزیدار وجہ ہے۔ درحقیقت جب یہ باتیں سامنے آئیں تو اُس دور میں بازاروں میں آسانی سے شیشہ دستیاب نہیں ہوتا تھا، اور پرانے طریقے سے تیار کردہ آئینے غیر معیاری ہوتے تھے جو آسانی سے ٹوٹ جاتے تھے۔ حفاظت کے پیشِ نظر یہ بات مشہور کر دی گئی کہ آئینہ توڑنے والے کی قسمت اُس سے سات سال تک روٹھی رہتی ہے۔ جس کے بعد لوگوں نے شیشے کی احتیاط پہلے سے بھی زیادہ شروع کر دی، لیکن کمال دیکھئے کہ آج بھی لوگ اس بات پر یقین کرتے ہیں۔

    ٹوٹا تارہ اور آرزوؤں کا پورا ہونا برصغیر پاک و ہند میں ایک اور مشہور توہم پرستی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ٹوٹا تارا دیکھ کر اگر کسی چیز کی آرزو کی جائے تو وہ جلد پوری ہو جاتی ہے۔

    ایک اور مزیدار بات جو ہم اکثر سنتے ہیں کہ ہاتھوں میں کھجلی دولت مندی کی نشانی ہے۔ اس توہم پرستی کی ابتداء برطانیہ کےعلاقے
    Saxons سے ہوئی۔ جہاں کے لوگ یہ محسوس کرتے تھے کہ اگر کسی کے ہاتھ میں کھجلی ہو تو اسے چاندی کی مدد سے کھجانے سے جلد راحت ملتی ہے۔ اُس زمانے میں چاندی قیمتی دھات سمجھی جاتی تھی، لیکن رفتہ رفتہ اس تصور نے توہم پرستی کا روپ دھار لیا، پھر کہا جانے لگا کہ اگر کسی کے دائیں ہاتھ میں کھجلی ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ عنقریب وہ بہت دولت مند بننے والا ہے۔

    نیک اور بدشگونی کی اصطلاح پاکستان اور بھارت میں عام ہیں۔ بہت سے افراد خود سے کسی چیز کو اپنے لئے خوش قسمتی سے جوڑ کر اس پر پختہ یقین کرتے ہیں۔ لیکن توہم پرستی صرف عام لوگوں تک محدود نہیں، بلکہ معروف شخصیات بھی اس کا شکار نظر آتی ہیں۔ نامی گرامی افراد اس فہرست میں شامل ہیں، جن میں بعض نام پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ یہ بھی توہم پرست ہو سکتے ہیں۔ مثلاً


    • اداکار سلمان خان دائیں ہاتھ میں جھولتے بریسلٹ کو اپنے لیے خوش قسمتی اور اپنا محافظ سمجھتے ہیں۔ فلم کی شوٹنگ کے دوران بھی اپنی کلائی سے نہیں اتارتے۔
    • ریتھک روشن اپنے دائیں ہاتھ کےاضافی انگوٹھے کو اپنے لئے خوش قسمتی کا نشان مانتے ہیں۔ حالاںکہ ان کی یکے بعد دیگرے فلمیں فلاپ ہوئیں اور بیوی سے علیحدگی کے بعد گھریلو زندگی بھی پریشانیوں میں گھری دکھائی دیتی ہے۔
    • ریتھک کی طرح ان کے والد راکیش روشن بھی توہم پرستی میں بُری طرح مبتلا ہیں، انہیں یہ خبط ہو گیا ہے کہ ان کی کامیابی کا راز انگریزی کے حرف ’k‘ میں چھپا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اکثر فلموں کے نام ’k‘ سے شروع ہوتے ہیں۔ مثلاً کوئلہ، کرن ارجن، کوئی مل گیا اور کرش وغیرہ۔
    • بولی وڈ کے مسٹر پرفیکشنسٹ عامر خان دسمبر کے مہینے کو اپنے لئے خوش قسمت مانتے ہیں۔ انہوں نے گجنی اور تھری ایڈیٹس کو دسمبر میں ریلیز کرنے پر زور دیا تھا، اس کے بعد ان کی چند فلمیں مثلاً تلاش، دھوم تھری اور پی کے بھی دسمبر میں ریلیز ہوئی تھیں۔
    • بپاشا باسو ہر ہفتے لیموں اور مرچیں خرید کر اپنی گاڑی کے اوپر ڈالتی ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ اس سے ان کے اوپر چھائے بدقسمتی کے بادل چھٹ جاتے ہیں۔
    • سنجے دت علم الاعداد پر یقین رکھتے ہوئے 9 نمبر کو اپنے لئے خوش قسمتی کی علامت سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سنجے دت نے اپنی تمام گاڑیوں کے لئے موٹر وہیکل رجسٹریشن ڈپارٹمنٹ سے 4545 کا عدد حاصل کر رکھا ہے۔
    • سچن ٹنڈولکر اپنی صلاحیت سے زیادہ اس خوش قسمت پیڈ پر یقین رکھتے تھے جو ان کے بھائی نے انہیں تحفے میں دیا تھا، اور ہر میچ میں بلے بازی سے پہلے اسے اپنی بائیں ٹانگ پر پہننا نہیں بھولتے تھے۔
    • گالف کے عالمی چمپئین ٹائیگر ودڈ اتوار کے دن سرخ رنگ نہیں پہنتے۔ ان کے خیال میں ایسا کرنا اُن کے حق میں اچھا نہیں ہو گا۔
    • امریکی ڈیزائنر جونز اپنی ماں کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے اپنا پرس کبھی فرش پر نہیں رکھتی، اس کی ماں نے کہا تھا کہ اگر وہ ایسا کرے گی تو دولت کی دیوی ان سے روٹھ جائے گی۔
    یہ ساری باتیں ان لوگوں کی ہیں جو مذہب سے کوسوں دور ہیں، لیکن ستم بالائے ستم ہمارے پاکستان میں بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس بیماری میں مبتلا ہو چکی ہے، جن میں خواتین کی تعداد ذیادہ ہے۔ وجہ اس جہالت کی صرف ایک ہے اور وہ ہے دین سے دوری،اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور ایسا مکمل دین ہے جس کی گواہی خالق کائنات نے خود دی ہے۔ ہمارے مذہب میں اس طرح کی توہم پرستی کی کوئی گنجائش نہیں اور ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین رکھنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ جو کرتے ہیں وہ ہمارے حق میں بہتر ہوتا ہے۔

    ’’بے شک اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے‘‘۔


    بلاگر، شکیلہ سبحان شیخ،
    ایکسپریس نیوز، جمعرات 12 مئ 2016
    شکیلہ سبحان شیخ کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے کے بعد مقامی روزنامہ اخبار سے منسلک ہیں اور ساتھ ساتھ اسکول آف جرنلزم کراچی سے بھی وابستہ ہیں۔ پڑھنے، لکھنے کے علاوہ فارغ اوقات میں انٹرنیٹ سرفنگ کرنا پسند ہے۔

    نوٹ: بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
     
    زنیرہ عقیل، نعیم اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    دلچسپ معلومات ہیں
    حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے پوچھا کہ "انسانی اختیار اور تقدیر" میں کیا فرق ہے
    آپ نے فرمایا ۔ ایک ٹانگ اٹھاؤ اور دوسری پر کھڑے ہوجاؤ
    آدمی ایک ٹانگ پر کھڑا ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرمایا ۔۔۔ اب دوسری بھی اٹھاؤ
    آدمی بولا ۔۔ دوسری نہیں اٹھا سکتا ۔ گرجاؤں گا۔
    فرمایا یہ تقدیر ہے۔۔۔ یعنی کسی بھی نتیجہ خیز عمل کے پیچھے 50 فیصد انسانی سوچ، محنت و کاوش ہے۔ اور بقیہ 50 فیصد تقدیر اسے منزل مقصود تک پہنچاتی ہے۔
    شاید یہی وجہ ہے توہمات جب انسانی لاشعور میں پختہ ہوجاتے ہیں تو انسانی عزم و ارادہ اسی لاشعور قوت سے پیدا ہوتا ہے اور عزم و ارادہ ہی انسان کے عمل کی بنیاد بنتا ہے۔ توہم پرستی سے جنم لینے والی سوچ سے جو عزم بنے گا اور اسی کے مطابق عمل ہوگا تو نتیجہ بھی ویسا ہی نکلے گا۔
     
    کنعان اور زنیرہ عقیل .نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ماشاء اللہ کافی معلومات حاصل ہوئی آپ کے پوسٹ سے
    بہت بہت شکریہ
     
    نعیم اور کنعان .نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    درست فرمایا آپ نے
    بہت بہت شکریہ
     
    نعیم اور کنعان .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں