1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

توبہ

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از نادیا عنبر, ‏12 مئی 2018۔

  1. نادیا عنبر
    آف لائن

    نادیا عنبر ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2018
    پیغامات:
    10
    موصول پسندیدگیاں:
    10
    ملک کا جھنڈا:
    توبتہ النصوح
    ۔۔۔۔

    توبتہ النصوح ڈپٹی نذیر احمد کا شہرہ آفاق اصلاحی ناول ہے۔نذیر احمد ایک مذہبی پس منظر رکھتے تھے لہذا انکے تمام ناول مقصدیت کے تحت لکھے گئےان کا اسلوب ہر ناول میں ایک جیسا ہے ۔ ان کی ہر ہر سطر سے وعظ کا عنصر چھلکتا ہے۔ اکثر مقامات پر لمبی تقریریں ناول میں بور ریت پیدا کرتی دکھائی دیتی ہیں ۔لیکن چونکہ ان کا مقصد اصلا حی ہے لہذا یہ خامی قابل قبول ہے۔

    ایم اردو کے طالب علم ہونے کے باعث ہم نے بھی اپنے زمانہ ۔طالب علمی میں اس ناول کو باریک بینی سے پڑ ھا ۔ لیکن مرے اس مضمون کا ڈپٹی نذیر احمد کے ناول سے کوئی تعلق نہین ہے اور نہ ہی یہ مضمون ڈپٹی نذیر کے ناول کی پیروڈی ہے نہ ناول پر تنقید مقصد ہے بلکہ یہ مضمون اسلامی تعلیمات توبہ اور استغفار سے متعلق ہے نام کی یکسانیت کی وجہ سے یہ تمہید باندھی گئی۔

    توبتہ النصوح سے مراد حتمی توبہ ہے ایسی توبہ جس کے بعد گناہ کی طرف واپس لوٹنا ناممکن ہو ۔انسان خطا کا پُتلا ہے ۔ اپنے ماضی پر نظر دوڑائیے ۔ ہم بے شمار گناہ کر کے بھول چکے ہیں ۔ کچھ ایسے ہیں جو یاد ہیں جن پر کبھی کبھی اشک ۔ ندامت بہا لیتے ہیں ۔کچھ ایسے ہیں جو وقت کی خاک میں مل کر خاک ہوۓ ۔جن کے نام و نشاں بھی مٹ گئے لیکن وہ کراماً کاتبین کے رجسٹر میں درج ہیں یہ گناہ ہمارے ساتھ اعمال کی گھٹری میں بندھ کر قبر میں جائیں گے ۔ ان گناہوں پر زبانی تو ہم استغفار کر لیتے ہیں لیکن عملی طور پر ان سے تائب نہیں ہوتے ۔ یہ مثال دور ۔ حاضر کے حاجیوں پر خوب صادق آتی ہے ۔ بیت اللہ کی حاضری قسمت والوں کا نصیب بنتی ہے ۔گڑ گڑا کر اپنے گناہوں کے معافی مانگنے کے بعد کاش کہ ان گناہوں سے اجتناب بھی لازم ہو ۔ اگر یہ حاجی خود کو تبدیل کر کے اپنی اصلاح کر لیں تو شاید ہمارا آدھا معاشرہ سدھر جاۓ لیکن پھر وہی لذت ۔ گناہ ۔

    جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
    پر طبعیت ادھر نہیں آتی

    (غالب)
    یہ زندگی جس کا آج ہم حصہ ہیں عنقریب اس کی ڈور ہمارے ہا تھوں سے چھوٹنے والی ہے
    ۔ زندگی جو بے بندگی ہو ۔شرمندگی بن جایا کرتی ہے ۔
    دائرہ اسلام میں داخل ہو نے والے ہر مسلمان کا پہلا فرض نماز ہے ۔

    موذن دن میں پانچ دفعہ اللہ کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور ہم میں سے اکثریت سنی ان سنی کر دیتی ہے ۔جو قدم اٹھاتے ہیں ان میں سے خشوع وخضوع اور نماز کا فیض بھی ہر کسی کے حصے میں نہیں آتا ۔ ایسا کیوں ہے ؟
    ہماری عبادات ہمیں وہ نور کیوں نہیں دے پاتی ۔جو ملنا چاہئیے۔
    نماز بے حیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے تو پھر ہم رک کیوں نہیں پا تے ۔کیونکہ کمی ہماری نماز میں ہے ۔کہیں حرام کا لقمہ پیٹ میں ہے تو کہیں دھیان دنیا میں ۔
    کہیں نظر بے حیا ہے تو کہیں حقوق العباد سے غفلت ہے ۔ میر ا مال میرا نہیں مرے رب کا دیا ہے ۔اسکے بندوں کا اس میں حق ہے مگر میں تو اسے اپنا مال سمجھتا ہوں ۔اسکو اپنے اوپر خرچ کر تا ہوں ۔کسی کی ضرورت سے مری برانڈنگ زیادہ اہم ہے ۔جس ملک میں لوگ بھوک سے مجبور ہو کے خو کشی کریں ۔ لڑکیاں پیٹ کی آگ بجھا نے کے لیے عزتیں نیلام کریں ۔وہاں میں ہزاروں روپے ایک وقت کی ہو ٹلنگ پہ خرچ کرتا ہوں ۔اور پھر مجھے دعوی ہے کہ میں مسلمان ہوں ۔ اپنےرسول کا امتی ہوں -سب سے بہترین صدقہ بھوکے کو روٹی کھلانا ہے ۔
    جہنم میں جب مجرموں سے پو چھا جاۓ گا کہ تمہیں کیا چیز جہنم میں لائی ؟
    تو
    وہ کہیں گے !
    ہم نماز نہیں پڑ ھتے تھے !
    ہم مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے!
    ہم شغل کرتے تھے شغل کر نے والوں کے ساتھ !
    اور ہم آخرت کو جھٹلاتے تھے ! (سورہ مدثر )
    شغل کر نا یعنی وقت کا ضیاع ۔ بے کار کاموں میں رات دن کرنا ۔ایسا کام جس میں دین و دنیا کا کوئی فائدہ نہ ہو ۔اس میں لگے رہنا ۔ یہ سمجھنا زندگی میری ہے جو چاہے کروں ۔نہیں ۔
    یہ زندگی میرے پاس میرے رب کی امانت ہے ۔میں اپنی مرضی کا مالک نہیں ہوں ۔مجھے ہر قدم پہ اس کا حکم بجا لانا ہے ۔نہ تو میری مرضی ہے نہ میرا اختیار ۔
    میں بندہ ہوں۔ بندگی میرا شعار ہو نا چاہئے۔
    یہ اس وقت ہو گا جب میری آخرت پر نظر ہو گی ۔آخرت پر یقین مجھے برے رستے سے روکے گا ۔
    اور یہ ہی مری اخروی نجات کا باعث بنے گا ۔
    یہ زندگی اس زندگی کی کامیابی بن جاۓ گی۔

    اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔ انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہے۔ "دین میں جبر نہیں"
    اس کا مطلب گناہوں کی آزادی نہیں ہے بلکہ دائرہ اسلام میں دخول کی آزادی ہے یعنی دل کی قبولیت اسلام کی پہلی شرط ہے۔ پھر جب مسلمان بن گۓ تو اب ہر معاملے میں اطاعت لازمی ہے پہلا حکم نماز کا ہے ۔پانچ وقت مقررہ اوقات میں نماز کی ادائیگی ہر مسلمان پر فرض ہے۔ "نماز بے حیائی اور بُری باتوں سے روکتی ہے ۔ آج مسلمان تنزلی کا شکار اپنی کر داری خصوصیات کی کمی کی وجہ سے ہیں ۔ جو نماز نمازی کو جھوٹ ، غیبت ، طعنہ زنی ،مکر ،دھوکہ دہی اور دیگر اخلاقی برائیوں سے نہیں ' روکتی وہ نماز کے اصل ثمرات سے عاری ہے۔ نماز پنچگانہ جاۓ نماز سے جڑ نے کا نام نہیں بلکہ اللہ سے جڑ نے کا نام ہے ۔ مری نماز اگر مجھے بے پردگی سے نہیں بچاتی تو کمی تو پھر مری نماز میں ہے ۔ وہ ستر جو نماز میں مجھے چھپاتا ہے وہ مری ذات کا حصہ کیوں نہیں بن پایا ۔ مرا سر کیوں سر ِ محفل ننگا ہے ؟اللہ کے حضور مجھے بدن چھپا کے حاضر ہونے کا حکم ہے کیو نکہ میں مسلمان عورت ہوں لہذا یہ چادر مرے لباس کا حصہ ہے ۔ نماز بے حیائی سے ڈھال نہیں بن رہی تو کمی نماز پڑ ھنے والی کی نماز میں ہے ۔ نماز اگر کسی کو زنا سے نہیں بچا رہی تو ایسے مسلمان کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ کہ وہ کیا صرف رکوع و سجود کی مشقت کما رہا ہے یا کوئی روحانی فیض بھی اس کی ذات کا حصہ بن رہا ہے !
    نماز تو وہ جو جوڑ دے مجھے مرے رب سے ۔
    قبر میں ساتھ رہے ۔ مجھے بچاۓ اندھیرے سے ۔
    پل صراط پر نوُر بنے ۔
    آج مسلمان کی نماز روح سے خالی ہے ۔ ستر فی صد مسلمان نماز ہی نہیں پڑ ھتے ۔ جو پڑھتے ہیں وہ بھی بس خالی دل خالی ہاتھ لئیے ہی اٹھتے ہیں ۔
    ایسی نماز کے لیے ہی اقبال نے کہا تھا


    جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی، تو زمیں سے آنے لگی صدا
    ‎تیرا دل تو ہے صنم آشنا ،تجھے کیا ملےگا نماز میں
    (اقبال )

    ہر انسان کی فطرت میں برائی کا عنصر اس شدت سے پا یا جاتا ہے کہ وہ حیوانی جبلت سے لڑ تا تو ہے اور اس پر قابو پانے کے کوشیش بھی کر تا ہے لیکن اکثر ناکام ہو جاتا ہے ۔یہ جنگ انسان کے جذبات اس کے حالات اس کی خوہشات کے درمیان جاری رہتی ہے اس کی دو " سرے " ہیں ۔ایک سرے پر بھوک اور دوسرے سرے پر جنس ہیں ۔ مسلہ صرف انسان کے پیٹ کی بھوک کانہیں ہے بلکہ جنس کا بھی ہے یہ کشمکش انسان کی حیوانی سطح پر مراجعت کا باعث بنتی ہے ۔یوں انسان انسانی سطح سے حیوانی سطح پر مرا جعت کر تا ہے ۔ یہ ہی انسان کا اصل امتحان ہے کہ وہ خود کو انسانی سطح پر قائم رکھے اور یہ ہی اس کی کامیابی ہے جس کے لیے اس کو دنیا میں مبعوث کیا گیا ۔

    سبت کے دن کا واقعہ ان انسانو ں کی روداد ہے جو کہ اپنی فطری جبلت پر قابو نہ پا سکے اور ہفتہ کے دن مچھلیاں پکڑتے تھے ۔ وہ مچھلیاں پکڑ نے کے لئیے نئے نئے طریقے ڈھونڈتے ۔ ایک فرد نے جس کا نام الیاسف تھا جو کہ اس قبیلے کا عقلمند ترین انسان تھا اس نے دریا سے ایک نالی بنائی ۔ ہفتے والے دن مچھلیاں بڑی تعداد میں آتیں اور نالی بھر جاتی تو وہ نالی کے دریا سے جوڑ والی جگہ پر ناکہ لگاد یتا اور ساری مچھلیاں پکڑ لیتا ۔ اس نے خدا سے مکر کیا ۔ خدا نے اس سے مکر کیا اور "بے شک اللہ سب سے بہتریں مکر کر نے والا ہے ۔"اس قریے کے تمام انسان ایک ایک کر کے بندر بن گئے ۔الیاسف نے تہیہ کیا تھا کہ وہ بندر نہیں بنے گا آخر تک آدمی کی جون میں رہے گا ۔ انسان پیدا ہوا ہے انسان مرے گا لیکن اسے اپنی خواہشات جن میں جنس ،بھوک ،لالچ ،خوف ، ہم جنسوں سے لاتعلقی ، وغیرہ شامل ہیں پر قابو نہیں رہا ایک ایک کر کے وہ سب کا شکار ہوا اور آخر کار بندر بن گیا ۔ یہ ہی انسان کے لئیے اصل کشمکش ہے کہ سارے زندگی خیر وشر کے درمیان معلق رہتا ہے لیکن ان برائیوں سے بچنا اور خود کو دین ۔بر حق کے تابع رکھنا اس کا کمال ہے ۔اصل کامیابی ہے ۔

    مذہب ۔اسلام انسان کی دنیاوی زندگی کو اخُروی زندگی پر تر جیح دینے کا خواستگار ہے ۔

    اور یہ ہی ہمارا مقصود ۔زندگی بھی ہے ۔کہ ہم اپنے دن کو نیکیوں سے بھر کر اخروی سفر کے لئیے زاد۔راہ ہمراہ لے جائیں وہ سفر جو ہمیں تنہا طے کر نا ہے ۔ وہ سفر جو بہت کھٹن ہے ۔قبر کی اندھیری کالی رات سے میدان ۔محشر تک ۔
    نادیہ عنبر لودھی
    اسلام آباد
    پاکستان
     
    آصف احمد بھٹی، زنیرہ عقیل اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    تو بہ کے صحیح ہونے کی شرائط چار ہیں:

    (۱) محض خدا کی رضا کے لیے توبہ کرے۔ جس میں مخلوق کا خوف شامل ہو، نہ لوگوں کی مدح کا حصول ہو۔

    (۲) گناہوں پر ندامت ہو۔

    (۳) ظاہری وباطنی گناہوں سے اجتناب کرے۔

    (۴) پختہ عہد اور عزم کرے کہ آئندہ کوئی گناہ نہ ہو اور ندامت کے ساتھ اللہ سے مغفرت طلب کرے۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. نادیا عنبر
    آف لائن

    نادیا عنبر ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2018
    پیغامات:
    10
    موصول پسندیدگیاں:
    10
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ
     
  4. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ ۔ عمدہ مضمون ہے ۔ التوابین کا مقام اور ان کی فضیلت تو قرآن میں جا بجا ہے ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں