1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تنہائی کی راہ پر ۔۔۔۔۔ کنور محمد دلشاد

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏7 جون 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    تنہائی کی راہ پر ۔۔۔۔۔ کنور محمد دلشاد

    چینی کی قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کرنے والے شوگر انکوائری کمیشن کے سربراہ واجد ضیا نے انکوائری نتائج میں واضح طور پر کہا ہے کہ چینی برآمد کرنے اور سبسڈی کی اجازت دینے سے متعلق دو وفاقی وزرا کے الگ الگ مؤقف ناقابل اعتبار ہیں۔ ادھر لیڈر آف دی اپوزیشن شہباز شریف نے شوگر انکوائری کمیشن رپورٹ کو محض ایک دھوکا قرار دے کر اپنی سیاسی بصیرت کا پول کھول دیا ہے۔ چینی کے حالیہ سکینڈل سے متعلق انکوائری کمیشن کی جو رپورٹ منظر عام پر لائی گئی ہے اس کی روشنی میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ملک کی 73 سالہ تاریخ میں اس سے پہلے بھی مالیاتی بے ضابطگیاں اور گھپلے ہوتے آئے ہیں، عوامی احتجاج کا شور مچا، انکوائری کمیشن تشکیل دیے گئے، تحقیقات ہوئیں، لیکن سب بے نتیجہ رہے۔ آج قومی معیشت جو 43 ہزار ارب روپے کے غیر ملکی قرضوں تلے دبی ہے، درحقیقت ایسے ہی ملے جلے معاملات کا نتیجہ ہے، لہٰذا چینی سکینڈل مالیاتی رپورٹ عوام کے سامنے لا کر وزیر اعظم عمران خان نے بادی النظر میں قوم سے کیا گیا اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے خود کو آنے والے حکمرانوں کے لیے ایک مثال بنایا ہے۔ مالیاتی رپورٹ میں ملکی سیاست اور معیشت سے وابستہ جن چھ بڑے گروپوں کو صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے ان میں تحریک انصاف اور اس کی اتحادی مسلم لیگ ق سے وابستہ بعض راہنماؤں کے نام بھی شامل ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے‘ جو شوگر کمیشن کے سربراہ ہیں‘ نے اس ضمن میں جہانگیر ترین، شریف خاندان، خسرو بختیار کے بھائی عمر شہر یار، مونس الٰہی اور سندھ کے اومنی گروپ کو سکینڈل کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ متذکرہ راہنماؤں میں سے شہباز شریف، جہانگیر ترین، مونس الٰہی سمیت بعض نے تو تحقیقاتی کمیشن رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے؛ تاہم چینی سکینڈل ایک حقیقت ہے اور قومی سطح پر اس ضمن میں انکوائری کمیشن تشکیل دینا اپنی جگہ ناگزیر ہے۔ اب انصاف کا تقاضا ہے کہ جو حضرات اعتراضات کی زد میں ہیں اور جن کا تعلق حکومتی جماعت سے ہے‘ فوری طور پر ان کو سبکدوش کر دیا جائے۔ یہ بات واضح ہو چکی کہ چینی مافیا گروپ نے وزیر اعظم عمران خان کی سادگی‘ ان کے معیشت کے خفیہ معاملات اور انتظامی امور سے نابلد ہونے سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بیوروکریسی سے ساز باز کرکے وزیر اعظم کو دھوکا دیا۔ ابتدائی رپورٹ کی روشنی میں گزشتہ ماہ کی چھ تاریخ کو وزیراعظم نے بعض وفاقی وزرا‘ مشیروں اور سرکاری افسران کی ذمہ داریوں میں ردوبدل اور برطرفیاں کرتے ہوئے خود احتسابی کی نئی بنیاد رکھی‘ جس کے تحت انہوں نے اپنے ہی ساتھیوں کے بارے میں رازدارانہ انکوائری کا حکم دیا۔ وزیراعظم کے اس جرأت مندانہ اقدام سے کمیشن رپورٹ ملکی سیاست میں نئی کشمکش اور حکومت اپوزیشن فاصلے خطرناک حد تک بڑھانے کا باعث بن گئی ہے۔ اس رپورٹ کی روشنی سے تحریک انصاف کو سیاسی طور پر نقصان پہنچنے کا احتمال ہے کیونکہ جہانگیر ترین کا شمار یقینا تحریک انصاف کے صف اول کے رہنماؤں میں ہوتا ہے اور انہوں نے اس ساری صورت حال پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے لہٰذا اس رپورٹ سے تحریک انصاف کی صفوں میں پڑنے والے شگاف گہرے ہو گئے ہیں اور وزیر اعظم عمران خان اور جہانگیر ترین کے مابین تعلقات ایک نئے موڑ پر پہنچ گئے ہیں اور ظاہر ہے جہانگیر ترین اب اپنے مستقبل کے حوالے سے بہت اہم فیصلے کریں گے۔ خدشہ ہے کہ جہانگیر ترین چوہدری برادران‘ مخدوم خسرو بختیار، نصراللہ دریشک گروپ وزیر اعظم عمران خان سے اپنے سیاسی راستے پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی میں بجٹ کے نازک موقع پر جدا کر لیں گے اور وہ چنگاریاں جو اب تک سلگ تو رہی تھیں لیکن دبی ہوئی تھیں‘ حکومت کے ایک اندرونی گروپ کی ریشہ دوانیوں سے ایک کھلی جنگ میں تبدیل ہو جائیں گی۔ عمران خان اپنی پارٹی میں شکست و ریخت سے شروع ہی سے نالاں تھے‘ جن کو اجنبی گروپ نے اپنے گھیرے میں لیا ہوا تھا‘ لہٰذا وزیر اعظم کو اب ایک بڑا قدم اٹھانا پڑے گا۔ سوال یہ ہے کہ آیا جہانگیر ترین کوئی بڑا جوابی وار کریں گے یا خاموشی سے سیاست کریں گے۔ وزیراعظم عمران خان اس وقت انڈر 19 ٹیم کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ ان کو چند سیاسی پرندوں کی ہی حمایت حاصل ہے۔ انہیں ادراک ہی نہیں کہ ان کے خلاف پنجاب کی پُراسرار اشرافیہ نے خفیہ طور پر اپنی حکمت عملی تیار کر لی ہے اور بجٹ اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان کو اپنی سیاسی بصیرت کا اندازہ ہوجائے گا۔ پارلیمنٹ وسیع تر اور کھلا میدان ہے‘ جہاں قومی اسمبلی کے 342 ارکان اور سینیٹ میں 104 ارکان براجمان ہیں‘ یہ کرکٹ کی گراؤنڈ نہیں ہے جہاں گیارہ کھلاڑیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
    میری نظر میں شوگر رپورٹ کے آنے کے بعد چوہدری برادران اور جنوبی پنجاب کے خسرو بختیار گروپ عوام کے اعتماد سے محروم ہوگئے ہیں۔ اگلے انتخابات میں ان کو چینی مافیا کے نام سے یاد کیا جائے گا اور عوام ان کو گھروں سے نہیں نکلنے دیں گے‘ لہٰذا وہ عمران خان کو ہی نیچا دکھا کر وہ سرخرو ہونا چاہیں گے۔ ان کے رابطے‘ واسطے اور تعلق کا وسیع جال ملک کے ہر ادارے تک پھیلاہوا ہے لہٰذا انہوں نے اپنی تعلق داری اور حکومت کے معاشی‘ داخلی‘ خارجی بحرانوں کا فائدہ اٹھا کر وزیر اعظم کو اسی پارلیمنٹ میں تنہا کر دینا ہے۔ آزاد میڈیا‘ معاشی ماہرین اور آئین و قانون پر دسترس رکھنے والے دانشوروں کا کہنا ہے کہ ماضی کی حکومتوں بشمول زرداری اور نواز شریف‘ کے دور میں بھی شوگر مافیا گروپ قوم کو لوٹتے رہا لیکن جو کچھ اس مافیا نے موجودہ حکومت کے دور میں کیا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ رپورٹ کے مطابق عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد شوگر مافیا نے مختلف گھپلوں کے ذریعے کل 170 ارب روپے ناجائز طریقے سے لوٹے۔ وزیراعظم کے ناسمجھ ترجمانوں نے فائدہ اٹھانے والوں کا بار بار ذکر کرکے عوام کو دھوکا دینے کی کوشش کی اور فائدہ دینے والوں کا کوئی ذکر نہیں کیا حالانکہ رپورٹ میں فائدہ دینے والوں کا واشگاف الفاظ میں ذکر ہے اور وزیراعظم زد میں یوں آ رہے ہیں کہ کابینہ کے اجلاس کی صدارت انہوں نے کی تھی اور ان کے چالاک وزرا نے ان کی سادگی سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ملکی خزانے کو ہائی جیک کروایا۔ اب جہانگیر ترین اس کمزور پہلو کو عدالت کے سامنے پیش کر سکتے ہیں اور عدالت غالباً کیبنٹ کی مکمل روداد کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے ان کی پرنسپل سیکرٹری اور سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن کو اپنے روبرو پیش ہونے کے احکامات ہی جاری کرے گی۔ اس طرح میڈیا کے ہاتھ ایک نیا پنڈورا باکس آجائے گا جس سے حیرت انگیز سکینڈل اور راز سامنے آ سکتے ہیں۔ عدالت لوٹ مار کا موقع فراہم کرنے والے وزرا اور سرکاری اداروں کے خلاف تادیبی کارروائی کرتی ہے تو پھر اس کی زد میں حکومت کے چیف ایگزیکٹو بھی آ سکتے ہیں کہا یہ جاتا ہے کہ جہانگیر ترین اپنے معاشی ماہرین، آئین و قانون پر عبور رکھنے والے بین الاقوامی شہرت کے حامل وکلا، ریٹائرڈ ججز‘ جو ان امور کی نبض شناس ہوں‘ میڈیا کے قابل ترین تحقیقی اینکرز، انتخابی قانون کے ماہر جوآئین کے ان آرٹیکلز کا پورا علم رکھتے ہوں‘ کے ساتھ مشاورت میں مصروف ہیں؛ چنانچہ آنے والے چند ہفتوں میں کوئی بھی نئی صورتحال سامنے آ سکتی ہے۔ سیاسی معاملات اور جاری حالات پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے جولائی کے آخر تک کا وقت نہایت حساس اور بے حد اہمیت کا حامل ہے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں