1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تنخواہیں نہیں بڑھائی گئیں‘ پنشن میں 10 فیصد اضافہ‘ جی ایس ٹی ایک فیصد بڑھ گیا‘

'خبریں' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏13 جون 2013۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    تنخواہیں نہیں بڑھائی گئیں‘ پنشن میں 10 فیصد اضافہ‘ جی ایس ٹی ایک فیصد بڑھ گیا‘ حج‘ سگریٹ‘ کولڈ ڈرنکس‘ گاڑیاں مہنگی

    اسلام آباد (نمائندہ خصوصی + ایجنسیاں) وفاقی بجٹ 2013-14ءمیں جنرل سیلز ٹیکس کا ریٹ 16فیصد سے بڑھا کر 17فیصد کردیاگیا ہے۔ ہوٹلز‘ کلبز‘ میرج ہالز‘ ریسٹورنٹس میں تقاریب کرانے پر ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کردیا گیا ہے۔ سگریٹ‘ بیوریجز پر ٹیکس میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ بیرونی ممالک تیار شدہ فلموں‘ ٹی وی سیریلز اور ڈراموں پر ودہولڈنگ ٹیکس عائد کردیا گیا جو ایک لاکھ روپے فی قسط سے لے کر 10لاکھ روپے تک ہوگا۔آکشن کے ذریعے چیزوں کی فروخت پر ودہولڈنگ ٹیکس 5فیصد سے بڑھاکر10فیصد کردیا گیا۔ تعلیم مہنگی کردی گئی ہے۔ تمام تعلیمی اداروں جن میں طالب علم کی سالانہ فیس 2 لاکھ روپے سے زائد ہوگی فیس پر 5فیصد ایڈجسٹیبل ایڈوانس ٹیکس عائد کردیا گیا ہے۔ گذشتہ روز وفاقی وزیر سینیٹر اسحاق ڈار نے 1651بلین روپے خسارہ کا حامل 3591 بلین روپے کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ بجٹ میں کرنٹ اخراجات تخمینہ 2829بلین روپے ہے جبکہ سود کی ادائیگی پر 1154 بلین روپے خرچ ہوں گے۔ پنشن کی ادائیگی پر 171 بلین روپے کے اخراجات سے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن میں 10فیصد اضافہ کردیا گیا۔ کم از کم پنشن 3 ہزار سے بڑھا کر 5 ہزار کر دی گئی جبکہ وفاقی ملازمین کی تنخواہیں نہیں بڑھائی گئیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایک سو ارب روپے سے زائد کے ریونیو اقدامات کئے گئے ہیں۔ گریڈ ایک تا 15کے سرکاری ملازمین کا میڈیکل الاﺅنس ایک ہزار روپے سے بڑھا کر 1500 روپے ماہوار کیا جائے گا، چینی پر عائد 8فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کر کے16فیصد سیلز ٹیکس عائد متعدد زیرو ریٹنگ سیلز ٹیکس مصنوعات پر چھوٹ ختم ، بجٹ2013-14 کے ذریعے 85 مصنوعات مہنگی ہوں گی، مالی سال 2013-14ءکے لئے سالانہ ٹیکس ریونیو کا ہدف 2475 ارب روپے ، نان ٹیکس ریونیو ہدف800 ارب روپے مقرر جبکہ اقتصادی شرح نمو4.4 فیصد متوقع تھری جی لائسنس کی نیلامی سے 100ارب روپے کی آمدنی ہوگی ، سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات زر 15 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع جبکہ این ایف سی کے تحت صوبوں کو 1340ارب روپے منتقل کیے جائیں گے ۔ بدھ کے روز قومی اسمبلی میں وفاقی وزیرخزانہ سینیٹر اسحق ڈار نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مالی سال 2013-14 کے سالانہ بجٹ کا حجم 35 کھرب 91ارب روپے ہو گا جبکہ حکومتی آمدنی کا تخمینہ 3275 ارب روپے لگایا گیا ہے، جس میں 2475 ارب روپے ٹیکس ریونیو اور 800 ارب روپے نان ٹیکس ریونیو شامل ہے، انہوں نے کہا کہ 2013-14 کے بجٹ کا خسارہ 16 کھرب 20 ارب روپے ہو گا جو کہ جی ڈی پی کے تقریباً 16 فیصد بنتا ہے، آئندہ مالی سال کے بجٹ میں سب سے زیادہ یعنی 1149 ارب روپے قرضوں اور ان کے اوپر سود کی ادائیگی پر خرچ کیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ بدھ کو قومی اسمبلی میں پیش کردہ مالی سال 2013-14 کے بجٹ میں تقریباً70 سے 80 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے اور ٹیکسوں پر ہر قسم کی چھوٹ ختم کر نے کا فیصلہ کیا گیا ہے، پراپرٹی ٹیکس کی کم از کم حد 5 فیصد جبکہ زیادہ سے زیادہ 15 فیصد مقرر کی گئی ہے، سگریٹ پر عائد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 60 فیصد سے بڑھا کر 65 فیصد کر دی گئی ہے جبکہ سیمنٹ پر بھی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 5 فیصد اضافہ کر دیا گیا، اس کے علاوہ زیرو ریٹنگ سیلز ٹیکس فہرست سے متعدد اشیاءنکال کر ان کے اوپر 16فیصد سیلز ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے جس میں کتابیں، کاپیاں، قلم، روشنائی، سلائی مشینیں، ٹریکٹر،ٹرالر و دیگر اشیاءشامل ہیں، یوں بجٹ کے ذریعے 85 اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ ہو گا، نان کو آپریٹیو سیکٹر پر 2 فیصد ٹیکس، آئل سیڈ ،گیس، خوردنی تیل کی در آمد پر ود ہولڈنگ ٹیکس 3 فیصد سے بڑھا کر 5 فیصد، بر آمدات پر ایک فیصد ٹیکس لاگو کر دیا گیا ہے، انعامی بانڈز پر ٹیکس 10 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد ،گاڑیوں کی ایڈوانس بکنگ پر 5 فیصد ٹیکس، شادی ہال اور ہوٹلوں میں تقریبات پر 5 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے جبکہ 4 لاکھ روپے سے لے کر 5 لاکھ روپے سالانہ آمدنی پر انکم ٹیکس 5 فیصد جبکہ 50 لاکھ روپے سے زائد سالانہ آمدنی پر انکم ٹیکس کی شرح30 فیصد ہوگی۔ ہاﺅس رینٹ الاﺅنس 2008 کی بجائے 2011 کی بنیادی تنخواہ پر ملے گا، ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پینشن اور حاضر سروس ملازمین کے کنوینس الاﺅنس میں 20 فیصد اضافہ جبکہ میڈیکل الاﺅنس 1000 روپے سے بڑھا کر 1500 روپے ماہوار کر دیا گیا ہے، ہائبرڈ گاڑیوں پر ٹیکس کی چھوٹ 25 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کر نے اور در آمدی گاڑیوں پر بھی 50 فیصد ٹیکس چھوٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو 1340 ارب روپے منتقل کیے جائیں گے جبکہ 2013-14 کے دوران وفاقی حکومت کو تھری جی لائسنس کی نیلامی سے 100 ارب روپے حاصل ہوں گے۔ نیشن کے مطابق بجٹ کا میزانیہ 35 کھرب 91 ارب روپے ہے جبکہ خسارہ 8 فیصد ہے، جی ڈی پی کی شرح اضافے کے ساتھ 4.8 فیصد ہو سکتی ہے جبکہ افراط زر میں 9.5 فیصد اضافہ ہو گا۔ اے پی پی کے مطابق اسحاق ڈار نے کہا کہ فنانس بل کے ذریعے انکم ٹیکس آرڈیننس میں متعدد رعایتی اقدامات تجویز کئے جارہے ہیں۔ مالی سال 2014-15ءسے زیادہ سے زیادہ کارپوریٹ ٹیکس کی شرح ایک فیصد سالانہ کے حساب سے کم کرتے ہوئے موجودہ شرح 35 فیصد کو30 فیصد کرنے کی تجویز ہے اس اقدام سے ملک میں کارپوریٹ کلچر کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ خصوصی اقتصادی خطوں میں انکم ٹیکس کی چھوٹ 5 سال سے بڑھا کر 10 سال کی جارہی ہے اس سے ان خصوصی خطوں میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔ صنعتکاروں کیلئے درآمدی خام مال پر چھوٹ کے سرٹیفکیٹ کی سہولت چند سال پہلے واپس لے لی گئی تھی جس سے کیش فلو پر منفی اثر پڑا اور اس کے نتیجے میں زائد ادائیگیاں اور ری فنڈ بڑھ گئے۔ صنعت کے شعبے کی سہولت کیلئے درآمدی خام مال پر چھوٹ کے سرٹیفکیٹ کی سہولت دوبارہ متعارف کرائی جارہی ہے جو کہ مشروط ہوگی پچھلے دو سالوں میں سے کسی ایک سال کی ٹیکس ادائیگی سے جو بھی زیادہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت مال بردار گاڑیوں پر سروسز اور انکم ٹیکس کی کم سے کم شرح لاگو ہے جو صوبائی موٹر وہیکل ٹیکس کی ادائیگی کے وقت ادا کیا جاتا ہے جو کہ حتمی ٹیکس ہے۔ اس سے ٹرانسپورٹ کے شعبے کو دوہرا ٹیکس دینا پڑتا ہے جو غیر منصفانہ ہے۔ ٹرانسپورٹ کے شعبے کی سہولت کیلئے صوبائی موٹر وہیکل ٹیکس کی ادائیگی کے وقت جمع کرایا جانے والا انکم ٹیکس ایڈجسٹ ایبل کیا جارہا ہے۔ کم سے کم غیر ایڈجسٹ شدہ ٹیکس کو آگے لے جانے کی سہولت صرف کارپوریٹ شعبے تک محدود تھی جو غیر کارپوریٹ شعبے کے ساتھ تفریق تھی۔ تمام ٹیکس گزاروں کو یکساں مواقع فراہم کرنے کیلئے اس سہولت کو افراد اور جماعت اشخاص تک بڑھایا جارہا ہے۔اس طرح کم سے کم ٹیکس میں کمی کارپوریٹ شعبے میں صرف سگریٹ کے تقسیم کنندگان تک محدود تھی۔ اس شعبے میں جماعت اشخاص اور انفرادی حیثیت میں کام کرنے والے چھوٹے ٹیکس گزاروں سے امتیازی سلوک کی وجہ سے تخفیف شدہ کم سے کم ٹیکس کی سہولت افراد اور جماعت اشخاص تک بھی بڑھائی جارہی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیکس اصلاحات میں سب سے اہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹیکسوں کا دائرہ کار ممکن حد تک وسیع کیا جائے اور ایسے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے جو ٹیکس ادا کرنے کے قابل ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ایسے لوگ جو رضاکارانہ ٹیکس ادا کرتے ہیں انہیں ایک معقول اور سادہ ٹیکس نظام دیا جائے۔ اس سلسلے میں شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے اخراجات کی دستاویز بندی کیلئے ایک ایڈجسٹ ایبل ود ہولڈنگ ٹیکس متعارف کرایا جارہا ہے جو کہ ہوٹل/ کلب/ شادی ہال/ ریسٹورنٹ وغیرہ تقریب کا انعقاد کرنے والوں سے وصول کریں گے۔ ایڈجسٹ ایبل ٹیکس ہونے کی وجہ سے لوگوں کو انکم ٹیکس گوشوارے داخل کرنے کی ترغیب ملے گی جس سے ٹیکسوں کے دائرہ کار کو وسعت دینے کا مقصد حاصل ہوسکے گا۔ انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کو ہم آہنگ کرنے اور فیک انوائیس کی حوصلہ شکنی کے لئے سیلز ٹیکس قانون کے تحت رجسٹرڈ تمام افراد کو خریداری،خدمات اور معاہدوں پر انکم ٹیکس کیلئے ود ہولڈنگ ایجنٹ بنایا جارہا ہے۔ ٹیکس دہندگان کی طرف سے ٹیکس سے بچنے کیلئے انکم ٹیکس قوانین میں سہولیات اور چھوٹ کے استحصال کیلئے متواتر طور پر نقصان کے اعلان اور خزانے میں مساوی حصہ ڈالنے کیلئے کم از کم ٹیکس کی شرح 0.5 فیصد سے بڑھا کر 1 فیصد کرنے کی تجویز دی جاتی ہے۔ تعمیراتی شعبے پر ٹیکس کو آسان بنانے کیلئے عمارتی بلڈرز اور ڈویلپرز پر کم از کم ٹیکس تجویز کیا جاتا ہے۔ یہ ٹیکس تعمیر شدہ رقبے پر 50 روپے فی مربع فٹ اور تیار شدہ رقبے پر 100 روپے فی مربع گز لاگو ہوگا۔ تنخواہوں پر ٹیکس کی پچھلے سال متعارف ہونے والی شرح نے متوسط تنخواہ دار طبقے کو زیربار کر دیا ہے۔ اس بے ضابطگی کو اس فنانس بل کے ذریعے درست کیا جا رہا ہے جس میں تنخواہوں پر ٹیکس کو ہر تنخواہ دار طبقہ کی استعداد کے حساب سے متناسب بنایا جا رہا ہے۔ کاروباری اشخاص اور ایسوسی ایشن آف پرسنز پر ٹیکس کی شرح کو متناسب بنانے کیلئے دو نئے ٹیکس درجات اضافہ کرنے کی تجویز دی جاتی ہے۔ اس سے بتدریج اس شرح کو 25 لاکھ پر 25 فیصد سے بڑھا کر 60 لاکھ پر 35 فیصد تک لایا جا سکے گا۔ کارپوریٹائزیشن کے فروغ کیلئے غیر کارپوریٹ ٹیکس دہندگان مثلاً کاروباری درآمد، معاہدے، سپلائز اور سروسز کیلئے ودہولڈنگ ٹیکس کی علیحدہ شرح متعارف کرائی جا رہی ہے۔ غیر ملکی فلموں اور ڈراموں کو ملکی سطح پر تقابلی بنانے کیلئے نیا ایڈجسٹ ایبل ود ہولڈنگ ٹیکس تجویز کیا جا رہاہے۔ تاجروں اور آڑھتیوں کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کیلئے رجسٹریشن کی قسم کی بنیاد پر ود ہولڈنگ ٹیکس متعارف کروایا جا رہا ہے۔ ایڈجسٹ ایبل ہونے کی وجہ سے اس کو مارکیٹ کمیٹیاں ان تاجروں سے جمع کریںگی۔ اہل ثروت طبقے کو اخراجات کی بنیاد پر ٹیکس لگانے کیلئے کسی تعلیمی ادارے کو ادا کی جانے والی 200000 روپے تک سالانہ فیس 5 فیصد تک ایڈجسٹ ایبل ود ہولڈنگ ٹیکس کی تجویز دی جا رہی ہے۔ پرچون فروشوں اور تھوک فروشوں سے مخصوص شعبوں میں ایڈجسٹ ایبل ود ہولڈنگ ٹیکس 0.5 فیصد اور 0.1 فیصد کی شرح سے وصول کرنے کی تجویز دی جا رہی ہے۔ تھوک کاروباری حضرات اور تاجروں کیلئے ٹیکس کی شرح 0.5 فیصد سے کم کر کے 0.1 فیصد کی جا رہی ہے یہ ٹیکس صنعت کار، تقسیم کنندگان اور کاروباری درآمدکنندگان وصول کریںگے۔ زرعی شعبہ ٹیکس کی ادائیگی سے مستثنیٰ ہے لیکن اس سہولت کو ناجائز طور پرغیر زرعی آمدن کو زرعی آمدن کی آڑ میں چھپانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ قانون کے اس غلط استعمال کو روکنے کیلئے تجویز دی جاتی ہے کہ زرعی آمدن کا کریڈٹ صرف اس صورت میں دیا جائے اگر اس آمدن میں صوبائی انکم ٹیکس ادا کیا گیا ہو۔ بینکوں سے صارفین کے متعلق معلومات کے حصول کیلئے قانون کو بین الاقوامی طور پر رائج طریقہ کار سے ہم آہنگ کیا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد ایف بی آر موجود قومی ڈیٹا ویئر ہاﺅس کو ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانے کیلئے مستحکم کرنا ہے۔ ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کیلئے ایف بی آر اور نادرا کی جمع کی ہوئی معلومات کو منظم طریقے سے استعمال کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں مالی لین دین کی بنیاد پر نشاندہی کئے گئے 500,000 افراد کی تفصیلی خاکے بنائے جائیںگے۔ اس کے علاوہ ٹیکس کی بنیاد وسیع کرنے کیلئے کاروباری جگہوں پر این ٹی این کی نمائش لازمی کی جا رہی ہے۔ ان اقدامات سے ادارے کی پہنچ میں اضافہ ہوگا اور رضاکارانہ عملدرآمد کے کلچر کو فروغ مل گا۔ وزیر خزانہ نے انکم ٹیکس سپورٹ لیوی ایکٹ کے نفاذ کے حوالے سے کہا کہ صاحب جائیداد لوگوں پر معمولی لیوی لگانے کی تجویز ہے یہ لیوی کسی شخص کی ایک خاص دن پر قابل انتقال اراضی 0.5 فیصد کی شرح سے لاگو ہو جائے۔ اس مد میں حاصل ہونے والی رقم حکومت کے انکم سپورٹ پروگرام میں شامل کی جائے گی۔​
    ( جاری ہے )​
     
  2. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    ( بقیہ )​
    اس کے علاوہ رضاکارانہ چندے کے ذریعے بھی اضافی سرمایہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ مجھے کہنے دیں کہ اس لیوی کا آغاز مجھ سے ہوگا اور میرے اندازے کے مطابق مجھے اس نیک کام میں اس مد میں آنے والے سال میں تقریباً 25 لاکھ روپے زائد جمع کروانا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ سیلز ٹیکس کے دائرہ کار میں وسعت کیلئے متعدد اقدامات تجویز کئے جا رہے ہیں اور ایسے افراد کو ٹیکس نیٹ میں لایا جا رہا ہے جو اب تک اس سے باہر تھے۔ ہماری پالیسی یہ ہے کہ جو افراد غیر رجسٹرڈ رہیںگے ان پر ٹیکس کا بوجھ رجسٹرڈ افراد سے زیادہ ہو۔ اس حوالے سے تجویز یہ ہے کہ صنعتی اور کاروباری بجلی کے کنکشن رکھنے و الے غیر رجسٹرڈ افراد پانچ فیصد کی شرح سے اضافی سیلز ٹیکس عائد کیا جائے، رجسٹریشن کروا لینے کے بعد یہ اضافی ٹیکس ایسے افراد پر لاگو نہیں رہے گا۔ غیر رجسٹرڈ افراد کو کی گئی تمام قابل ٹیکس سپلائی پر مزید 2 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے تاکہ رجسٹریشن کی حوصلہ افزائی ہو اور رجسٹرڈ ہونے کی صورت میں انہیں یہ بوجھ برداشت نہ کرنا پڑے۔ اب سے سیلز ٹیکس ود ہولڈنگ ایجنٹ ایسے غیر رجسٹرڈ افراد سے خریداری پر مکمل رقم ود ہولڈنگ کریںگے۔ متعدددرآمدتی اقدامات تجویز کئے جا رہے ہیں جن سے ٹیکس مشینری کی صلاحیت اور عملدرآمد کی استعداد کار میں اضافہ ہوگا۔ یہ اقدامات کچھ اس طرح سے ہیں۔ ایسے شعبے جن میں ٹیکس چوری کے امکانات زیادہ ہیں وہاں پر تمام پیداواری مراحل کی ویڈیو لنکس، الیکٹرانک مانیٹرنگ /نگرانی کی جائے بشمول ٹیکس سٹیمپ، لیبل، الیکٹرانک سراغ رسائی وغیرہ، ایسے شعبوں سے انسانی مداخلت کے بغیر موثر نگرانی کے ذریعے شفاف، خود کار اور غلطیوں سے مبرا طریقہ کار کے تحت ٹیکس وصولی ممکن ہوسکے گی۔ ایف بی آر نے پہلے ہی کریسٹ کے نام سے ایک جدید کمپیوٹرائزڈ نظام تیار کیا ہوا ہے جس سے پچھلے دنوں ٹیکس سیکٹر سے اربوں روپے کی نشاندہی اور وصولی میں مدد ملی ہے۔ اس نظام کی استعداد کار کو مزید بڑھایا جائے گا اور اسے وسعت دی جائے گی تاکہ دیگر شعبہ جات سے محصولات کے ضیاع کی نشاندہی اور وصولی ہوسکے۔ یہ بھی تجویز دی جاتی ہے کہ غیر قانونی ریفنڈر اور ایڈجسٹمنٹ ان پٹ ٹیکس کے ذریعے جعلی اور فلائنگ انوائسز کی روک تھام کیلئے ایک سہل اور مرکزی نظام متعارف کیا جائے تاکہ جعلی رجسٹرڈ افراد کو ٹیکس فراڈ کرنے سے روکا جاسکے۔ قابل ٹیکس سرگرمیوں کی مناسب نگرانی کیلئے رجسٹرڈ افراد کی رجسٹریشن عملداریوں میں رکھی جائے گی جہاں ان کی کاروباری جائیداد واقع ہو۔ معاشی ذرائع کی سنگین کمی کے پیش نظر ضروری ہے کہ اضافی ذرائع کا بندوبست کیا جائے۔ لہذا تجویز ہے کہ سیلز ٹیکس کی معیاری شرح 16فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کر دی جائے۔ بین الاقوامی ٹینڈرز کے تحت سپلائیز پہلے زیرو ریٹڈ ہوا کرتی تھِیں لیکن انہیں 2012ءمیں میں استثنیٰ دیا گیا تھا تاکہ ریفنڈز کی تخلیق اور اس سے منسلک بدعنوانیوں کی روک تھام ہوسکے لیکن اس اقدام سے مقامی کاروباری حریفوں کےلئے مشکلات پیدا ہوگئیںکیونکہ اب مزید ایڈجسٹمنٹ ان پٹ ٹیکس کا دعویٰ نہیں کر سکتے تھے چنانچہ غیر ملکی ٹینڈرز کیلئے مقامی اور غیر ملکی کاروباری حریفوں کو مساوی مواقع کی فراہمی کیلئے یکساں ٹیکس نظام کے تحت اس عدم مساوات کو ملکی وغیر ملکی دونوں کاروباری حریفوں کیلئے دور کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مقامی سپلائز پر زیرو ریٹڈ سیلز ٹیکس سے عدم مساوات پیدا ہوتی ہے جن سے بے قاعدگیاں ممکن ہوتی ہیں لیکن چونکہ ان میں سب سے زیادہ تر اشیاءعام آدمی کے زیر استعمال رہتی ہیں اس لئے ان اشیاءپر سیلز ٹیکس نافذ نہیں کیا جا رہا اور ان کو سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ کیا جا رہا ہے۔ تھرڈ شیڈول کی اشیاءی فہرست کو سیلز ٹیکس ایکٹ تک وسعت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اس سے نہ صرف صنعتکاروں اور درآمدکنندگان کو استعمال کی اشیاءپر خوردہ قیمت لکھنا پڑے گی بلکہ غیر رجسٹرڈ آڑھتیوں اور پرچوں فروشوں کے فائدے کی بجائے حکومت کو پرچون کی سطح پر ٹیکس حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ جن پانچ برآمدی شعبوں کیلئے مقامی سپلائیز کی صفر شرح کو پچھلے دنوں ختم کرنے کے تخفیف شدہ شرح کے تحت لایاگیا ہے وہ پچھلے سال سے یہ سہولت حاصل کر رہے تھے لیکن دو فیصد کی یہ تخفیف شدہ شرح قیمتی سال سے یہ سہولت برانڈز ملبوسات، چمڑے کے بیگ اور کھیلوں کے سامان پر بھی لاگو کی جا رہی تھی۔ چند تخفیف شدہ شرح والی اشیاءکو دیگر صنعتوں میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جس سے بے قاعدگیاں جنم لے رہے ہی تھیں۔ ان مسائل کے تدارک کیلئے تیار مال اور متنوع استعمال کی اشیاءکو اس تحفیف شدہ شرح کے نظام سے نکالاجا رہا ہے۔ اس وقت کے حالات کے تناظر میں 2010ءمیں قبائلی علاقہ جات اور خیبر پختونخوا کے چند اضلاع میں ڈیوٹیوں اور ٹیکسز میں ایک عمومی استثنیٰ دیا گیا تھا۔ یہ استثنیٰ وقتی تھا اور اب انکم ٹیکس کے اس استثنیٰ کی میعاد ختم ہو چکی ہے لیکن سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز کے استثنیٰ کے نوٹیفکیشن میں میعاد کے خاتمے کی کوئی شق نہیں تھی۔ اس جاری استثنیٰ سے بے قاعدگیاں پیدا ہو رہی تھیں اور دیگر علاقوں میں کاروبار کیلئے دشواریاں پیدا ہو رہی تھیں۔ اس لئے ان کو واپس لینے کی تجویز دی جا رہی ہے۔ فیڈرل ایکسائز کے ضمن میں خوردنی تیل اور گھی کے تیار کنندگان بے ضابطگی کی شکایت کرتے رہے ہیں جہاں مقامی طور پر پیدا شدہ تیل اور درآمدی تیل کے بیج کے استعمال کنندہ کوئی ٹیکس نہیں دے رہے تھے۔ اس بے ضابطگی کو دور کرنے کیلئے مقامی طور پر پیدا ہونے والے خوردنی تیل اور درآمدی تیل کے بیجوں پر درآمد شدہ خوردنی تیل کے مساوی ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔ بینکوں اور غیر بینکنگ شعبہ کی مالی خدمات پر اس وقت فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لاگو ہے لیکن دیگر افراد کی طرف سے ان خدمات کی فراہمی پر کوئی ڈیوٹی لاگو نہیں ہے اس بے قاعدگی کو دور کرنے کیلئے بینکنگ اور نان بینکنگ شعبہ جات کے علاوہ دیگر افراد کی طرف سے ان مالی خدمات کی فراہمی پر بھی مساوی شرح سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لاگو کی جا رہی ہے۔ اس وقت درآمد شدہ خوردنی تیل پر ٹیکس لاگو ہے لیکن کینولا کا بیج بغیر ٹیکس درآمد کیا جا رہا ہے۔ یہ صرف ایک بے قاعدگی ہی نہیں بلکہ اس سے مقامی خوردنی تیل کے بیج کی پیداوار بھی متاثر ہو رہی ہے۔ اس فرق کو دور کرنے کیلئے درآمدی کینولا بیج پر 400 روپے فی میٹرک ٹن ڈیوٹی لگائی جا رہی ہے۔ حکومت کا یہ بھی عزم ہے کہ صنعت کی مشاورت سے طریقہ کار کو آسان بنایا جائے تاکہ سب کیلئے آسانیاں پیدا ہوں۔ سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو آسان بنانے اور تشکیل نو کرنے کیلئے ایک مرکب فارمولے پر مبنی 3 درجہ بندیوں کی بجائے مخصوص شرح پر مبنی 2 درجات کی تجویز ہے۔ مشروبات کی صنعت کو ان کی استعداد کی بنا پر یا فکسڈ ٹیکس ادا کرنے کی اجازت دینے کی تجویز دی جاتی ہے۔ اس سے نہ صرف انہیں سہولت ملے گی بلکہ انہیں قومی خزانے میں ایک کثیر رقم جمع کرانے میں مدد ملے گی۔ اس سے بدعنوانی کا خاتمہ ہوگا اور نظام کو مزید شفاف اور واضح بنایا جا سکے گا۔ اس سے صنعت کو وسعت دینے کی بھی ترغیب ملے گی۔ اس نئے نظام کے نفاد کیلئے نوٹیفیکیشن جلد جاری کیا جائے گا۔ وزیر خزانہ سینیٹر اسحق ڈار نے کہا کہ پاکستان میں درآمدات کا نظام پچھلی کئی دہائیوں سے تخصیصی چھوٹ اور رعایتوں کے ایک پیچیدہ سلسلہ سے دوچار ہے۔ ہر سال اس چھوٹ کی وجہ سے قومی خزانے کو 100 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ آج کی آزاد تجارت اور یکساں مواقع کی دنیا میں یہ سلسلہ زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ ہمیں ایس آر او کلچر کا خاتمہ کر کے ایک سادہ ٹیکس اور محصولات کے نظام کو اپنانا ہوگا۔ اس دیرینہ مسئلہ کے حل کیلئے چیئرمین ایف بی آر کی صدارت میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے۔ یہ کمیٹی محصولات کو معقول بنانے اور رعایتی نظام کو کم سے کم کرنے کیلئے تمام شراکت داروں سے مشاورت کے بعد اپنی رپورٹ مکمل کر کے سفارشات ای سی سی کو پیش کرے گی۔ بجلی کی پیداوار اور سپلائی بڑھانے کیلئے جہاں دیگر متعدد اقدامات کئے جا رہے ہیں وہیں دوبارہ قابل استعمال توانائی کے استعمال پر منتقلی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس ضمن میں موجودہ بجٹ میں متعدد ایسے اقدامات تجویز کئے جا رہے ہیں جن سے متبادل توانائی کے ذرائع استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ ان میں شمسی اور پون توانائی کی مشینری کی ڈیوٹی فری درآمد کے طریقہ کار کو آسان بنانا شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ توانائی کی بچت کے آلات جیسے انرجی سیونگ ٹیوبز، شمسی توانائی سے چلنے والے پانی کے پمپس وغیرہ کو بھی مستثنیٰ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ متبادل توانائی کا بہتر استعمال کرنے والی ہائبرڈ برقی گاڑیوں کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے تجویز دی جاتی ہے کہ 1200 سی سی تک ہائبرڈ برقی گاڑیوں کو ڈیوٹی اور ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ 1200 سی سی سے 1800 سی سی تک ڈیوٹی اور ٹیکس میں 50 فیصد تک رعایت جبکہ 1800 سی سی سے 2500 سی سی تک کیلئے 25 فیصد رعایت تجویز کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانی کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں کے صاف پانی کے ذریعے تدارک کیلئے پانی کی فلٹریشن کے سامان پر کسٹم ڈیوٹی کی شرح کم کی جا رہی ہے۔ سینیٹر اسحق ڈار نے کہا کہ چھالیہ اور پان کے پتے صحت کیلئے مضر ہیں۔ ان کے استعمال کی حوصلہ شکنی کیلئے ان دونوں اشیاءپر کسٹم ڈیوٹی میں اضافہ تجویز کیا جاتا ہے۔ دل کے مریضوں کے علاج معالجے کے اخراجات کو کم کرنے کے لئے ”ہارٹ سٹنٹس“ کی درآمد پر عائد ڈیوٹی ختم کر دی ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جائےداد پر 0.5 فیصد لیوی لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، یہ آمدن انکم سپورٹ پروگرام پر خرچ کی جائے گی۔ وفاقی بجٹ 2013-14 کے مطابق سالانہ چار لاکھ روپے تک تنخواہ دار شخص پر کوئی ٹیکس نہیں لگے گا۔ چار لاکھ سے پانچ لاکھ روپے سالانہ تنخواہ پر 5 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ سالانہ 5 لاکھ روپے تنخواہ حاصل کرنے والے پر 5 ہزار روپے ٹیکس عائد کیا گیا ہے جبکہ سالانہ 5 لاکھ سے زائد تنخواہ پر 7.5 فیصد ٹیکس عائد ہو گا۔ سالانہ آٹھ لاکھ روپے تنخواہ پر 27 ہزار 500 روپے ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ سالانہ آٹھ لاکھ روپے کے علاوہ تنخواہ پر دس فیصد ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔ سالانہ 13 لاکھ تنخواہ پر دس فیصد ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔ سالانہ 13 لاکھ تنخواہ پر 77 ہزار 500 روپے ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ 13 لاکھ کے علاوہ تنخواہ پر 12.5 فیصد ٹیکس عائد ہو گا۔ سالانہ 40 لاکھ روپے تنخواہ دار افراد ساتھ لاکھ 22 ہزار 500 روپے ٹیکس دیں گے۔ سالانہ 40 لاکھ کے علاوہ آمدنی پر 30 فیصد مزید ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ سالانہ 60 لاکھ روپے تنخواہ دار افراد 13 لاکھ 22 ہزار 500 روپے ٹیکس ادا کرینگے۔ سالانہ 60 لاکھ روپے کے علاوہ آمدنی پر 35 فیصد ٹیکس بھی ادا کرنا پڑے گا۔ بجٹ میں خصوصی اقتصادی زونز کے لئے انکم ٹیکس کی چھوٹ کی مدت 5 سال سے بڑھا کر دس سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ زرعی قرضہ صوبائی انکم ٹیکس کی ادائیگی سے مشروط کر دیا گیا۔ زرعی آمدنی پر صوبائی انکم ٹیکس کی ادائیگی پر وفاق کی طرف سے چھوٹ دی جائے گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمیں ملکی وسائل کے اندر رہنا ہو گا۔ اسحق ڈار نے نجی ٹی وی کو بتایا کہ مالی خسارے کی وجہ سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔​
     
  3. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    ( مزید بقیہ )​
    نوائے وقت رپورٹ کے مطابق کولڈ ڈرنکس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 6 سے بڑھا کر 9 فیصد کرنے کی سفارش ہے۔ چائے، جمک اور ڈبے کا دودھ بھی مہنگا ہو گا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ کسی بھی وی وی آئی پی کو ڈیوٹی ادا کئے بغیر گاڑی امپورٹ کرنے کی اجازت نہیں ہو گی سرکاری گاڑیاں خریدنے پر پابندی لگائی جا رہی ہے، گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس پر ٹیکس بڑھانے کی تجویز ہے۔ نئی گاڑی خریدنے پر ٹیکس میں اضافہ تجویز کیا گیا ہے، 1300 سے 1600 سی سی گاڑی خریدنے پر 30 ہزار کی بجائے 50 ہزار ٹیکس تجویز کیا گیا ہے، 100 سے 1300 سی سی تک گاڑی کی خریداری پر 12 ہزار کی بجائے 30 ہزار ٹیکس کی تجویز ہے، 1000 سی سی تک گاڑیوں کی خریداری پر 20 ہزار روپے ٹیکس تجویز کیا گیا ہے۔ کاروباری اشخاص کیلئے ٹیکس کی شرح 25 لاکھ پر 25 فیصد بڑھانے کی تجویز ہے۔ تاجروں اور آڑھھیوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے ودہولڈنگ ٹیکس متعارف کرایا جا رہا ہے۔ پرچون اور تھوک فروشوں پر اعشاریہ 5 فیصد سے ایک فیصد تک ٹیکس عائد ہو گا۔ تھوک کے کاروباری حضرات اور ڈیلرز کیلئے ٹیکس شرح اعشاریہ ایک فیصد تجویز کیا گیا ہے۔ 5 لاکھ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔ صاحب جائیداد افراد پر لیوی ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ قابل انتقال اراضی پر اعشاریہ 5 فیصد شرح سے لیوی عائد کرنے کی تجویز ہے۔ قابل انتقال اراضی پر حاصل لیوی انکم سپورٹ پروگرام میں شامل کرنے کی تجویز ہے۔ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات پر ایڈجسٹ ایبل وڈہولڈنگ ٹیکس متعارف کرانے کی تجویز ہے۔ یہ ٹیکس ہوٹل، کلب، شادی ہال اور ریسٹورنٹ میں تقریب منعقد کرنے والوں سے ملے گا۔ ٹیکس دہندگان کی طرف سے آمدنی ظاہر کرنے پر ٹیکس کی شرح ایک فیصد کی تجویز ہے۔ فی حاجی ٹیکس ساڑھے 3 ہزار کی بجائے 5 ہزار کرنے کی تجویز ہے۔ حج آپریٹرز حاجیوں سے 5 ہزار ٹیکس وصول کرینگے۔ بنکوں میں 50 ہزار روپے تک کیش نکلوانے پر ٹیکس کی شرح بڑھا کر 0.3 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ کیبل ٹیلی ویژن آپریٹرز کی 15 کٹیگریز کیلئے لائسنس فیس میں اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بتایا کہ کیبل ٹی وی آپریٹرز لائسنس فیس میں 2500 سے 24 ہزار 500 روپے تک اضافے کی تجویز ہے۔ بی بی سی کے مطابق بجٹ میں خیبر پی کے اور قبائلی علاقوں کے تیرہ اضلاع کو ملنے والی ٹیکس چھوٹ ختم کر دی گئی ہیں۔ دہشت گردی یا سیلاب سے متاثر اضلاع کو ٹیکس میں چھوٹ دی گئی تھی۔ کاروبار کے فروغ کیلئے سپیشل اکنامک زونز میں لگنے والی صنعتوں کو پانچ سال کیلئے انکم ٹیکس کیچھوٹ دیگئی تھی۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ٹیکسوں کی چھوٹ کا دورانیہ پانچ سال سے بڑھا کر دس سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ غیر رجسٹرڈ گھریلو اور صنعتی صارفین جو گیس اور بجلی کا ماہانہ 15 ہزار بل ادا کرتے ہوں انہیں 5 فیصد اضافی ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ مالیاتی خدمات پر بھی 16 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کی گئی ہے۔ بجلی بچانے والے بلب اور ٹیوب لائٹس پر 20 فیصد ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے جبکہ شمتی توانائی اور پون توانائی میں استعمال ہونے والی آلات کو ڈیوٹی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ متبادل توانائی پیدا کرنے والے آلات کی درآمد کا طریقہ کار بھی آسان بنایا جائے گا۔ این این آئی کے مطابق وفاقی بجٹ میں جنرل سیلز ٹیکس میں اضافہ کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد رات بارہ بجے نے نافذ ہو گیا۔ اسی طرح سگریٹ کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ بھی فوری نافذ العمل ہو گا۔ کولڈ ڈرنکس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی جو چھ سے بڑھا کر نو فیصد کر دی گئی اسکا اطلاق یکم جولائی سے ہو گا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس ہفتہ کی صبح 11 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔ بدھ کو قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ کی جانب سے بجٹ پیش کئے جانے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اجلاس ہفتہ کی صبح 11 بجے تک ملتوی کر دیا۔ اجلاس میں نئے مالی سال کے بجٹ پر بحث کا آغاز کیا جائے گا۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں