یہ ٹھیک ہے کہ تم ایک گلاب نہیں بن سکتے ، مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ تم ایک کانٹا بن جاؤ ۔۔۔۔ یہاں ایک راز کی بات ہے ، اور وہ میں تمہیں بتا ہی دیتا ہوں ۔۔۔۔ کہ جو شخص کانٹا نہیں بنتا وہ بالآخر گلاب بن جاتا ہے ۔۔۔۔ (اشفاق احمد)
گلاب محبتوں کی علامت ہے۔ اسی گلاب سے رشتے جڑتے ہیں اور اسی گلاب کے حسن سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ یہی گلاب ایک استعارہ وہیں ایک حقیقت بھی ہے جیسے کچھ لوگ اپنی شیریں کلامی سے محفل کو گل و گلزار بنادیتے ہیں۔ جبکہ گلاب کے پھولوں کی حفاظت کے لئے خار یعنی کانٹے کرتے ہیں تاکہ ان حسین پتیوں کی حفاظت کرسکیں۔ یہ کانٹے ہمہ وقت پھول کے ارد گرد رہتے ہیں اور ہر دخل اندازی کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اور کبھی کبھی حملہ آور کو لہو لہان بھی کردیتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حسن اتنی آسانی سے دستیاب نہیں ہوتا۔ نجانے کیوں گلاب کے اس چاک و چوبند دستے (کانٹوں) کو اچھی نگاہ سے کیوں نہیں دیکھا جاتا؟؟؟ بنا گلاب تو کانٹے چُبھا گیا اِک شخص ہُوا چراغ تو گھر ہی جلا گیا اِک شخص (عبیداللہ علیم ) پھولوں سے کانٹے اچھے جو دامن تھام لیتے ہیں، اپنوں سے غیر اچھے جو پیارسے نام لیتے ہیں، زہر بھی دیتے ہیں کہتے ہیں پینابھی ہوگا، جب پی لیتے تو کہتے ہیں جینا بھی ہوگا، اپنے لیئے جیتے ہو دوسرں کےلیئے جیناسیکھو، پھولوں کی طلب کرنے والو کانٹوں پہ چلنا سیکھو،