1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تقویٰ ۔۔۔۔ مولانا امین احسن اصلاحی

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏10 اپریل 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    تقویٰ ۔۔۔۔ مولانا امین احسن اصلاحی

    قرآن مجید کا اصرار ہے کہ اس کا دروازہ صرف انہی لوگوں کیلئے کھلے گا جو تقویٰ اور احسان کی صفتوں سے متصف ہوں گے ’’ روشنی کے اوپر روشنی! اللہ اپنے نور کی ہدایت جس کو چاہتا ہے بخشتا ہے۔‘‘ ( سورہ النور)
    قرآن مجید کے فہم و تدبرکے لئے ایک نہایت اہم اورضروری شرط تقویٰ بھی ہے۔ سورئہ بقرہ کی پہلی ہی آیت میں فرمایا ہے: ترجمہ ’’یہ کتابِ الٰہی ہے اس کے کتابِ الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ہے خدا سے ڈرنے والوں کے لئے۔‘‘ (البقرہ2-2)سورئہ لقمان میں فرمایا ترجمہ ’’یہ پُر حکمت کتاب کی آیات ہیں، ہدایت و رحمت بن کر نازل ہوئی ہیں خوب کاروں کے لئے۔‘‘ (لقمان۔ 3-2-31)

    اس مضمون کی آیتیں قرآن مجید میں بے شمار ہیں اور ایک طالب علم کو ہر جگہ یہ بات کھٹکتی ہے کہ قرآن مجید کی ہدایت متقین و محسنین ہی کے لئے کیوں مخصوص ہوئی؟ جو شخص بھی اس کو پڑھے، چاہیے کہ قرآن اس کی ہدایت کرے، عام اس سے کہ وہ متقی ہو یا غیر متقی، شقی ہو یا سعید، محسن ہویا غیر محسن؟ لیکن قرآن مجید کو اس بات پر اصرار ہے کہ اس کا دروازہ صرف انہی لوگوں کیلئے کھلے گا جو تقویٰ اور احسان کی صفتوں سے متصف ہوں گے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ یہ بات ہمارے مفسرین کو کھٹکی ہے اور انہوں نے اس کو حل کرنے کی کوشش بھی کی ہے لیکن معاملہ کاایک خاص پہلو ہے جس کی طرف لوگوں نے توجہ نہیں کی اور اصل حقیقت اس وقت تک بے نقاب نہیں ہو سکتی جب تک اس کو اچھی طرح نہ سمجھ لیا جائے۔

    قرآن مجیدکے متعلق یہ امر مسلم ہے کہ وہ انسان کے روحانی ارتقاء کا آخری زینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی درجہ بدرجہ فرمائی ہے۔ ہدایت کا پہلا درجہ ہدایتِ جبلّت اور ہدایتِ فطرت ہے جس کا ذکر ’’الذی قدر فھدیٰ، (الاعلیٰ 3:87) (اور جس نے مقدر کیا اور ہدایت بخشی) اور ’فالھمھا فجورھا و تقوھا، (الشمس۔ 8:91) (پس اس کو سمجھ دی اس کی بدی اور نیکی کی) وغیرہ مختلف آیات میں فرمایا ہے۔ یہ آنکھ، کان، دماغ اور دل کی رہنمائی اور وجدان و ذوق اور ادراک و تعقل کی ہدایت ہے۔ یہ فطرت کی وہ عام بخشش ہے جس میں تمام بنی آدم یکساں شریک ہیں۔ بلکہ اس کے ایک حصہ کا فیضان تواس قدر عام ہے کہ حیوانات تک اس سے بہرہ مند ہیں۔ یہ اسی ہدایت کا ثمرہ ہے کہ مرغی کے بچے دانہ چگتے ہیں، بطخ کے بچے انڈے سے نکلتے ہی پانی میں تیرنے لگتے ہیں، بلّی کے بچے، ابھی آنکھیں نہیں کھلی ہیں لیکن جانتے ہیں کہ ان کی غذا کا سر چشمہ اور پرورش کا سامان کہاں ہے۔ انسان اس مرحلہ میں حیوانات کے بالکل ساتھ ساتھ ہے، لیکن اس کو شرف و امتیاز کا ایک خاص درجہ بھی حاصل ہوا ہے یعنی وہ وجدان و ذوق اور ادراک و تعقل کے شرف سے بھی ممیز ہے۔ اس کی فطری رہنمائی صرف اسی قدر نہیں ہے کہ وہ کھا لے، پی لے اور سو رہے۔ بلکہ ان کی مدد سے وہ اپنے کاموں میں ایک نظم و ترتیب پیدا کرتا ہے، جزئیات سے کلیات بناتا ہے، برے اور بھلے میں امتیاز کرتا ہے اور اختیار و ارادہ کی آزادی اور اپنی ذاتی قوتِ فیصلہ سے شر کو چھوڑتا اور خیر کو اختیار کرتا ہے۔

    اس مرحلہ کے بعد ہدایت و رہنمائی کا دوسرا درجہ ہے جو ا نبیاء و رسل کی بعثت سے ظہور میں آیا ہے۔ اس مرحلہ میں انسان کو جو کچھ ملا ہے وہ تمام تر انہی کلیات و مبادی پرمبنی ہے جن سے وہ ہدایت کے پہلے درجے میں سرفراز ہوا ہے۔ جس طرح بیج کے چند دانوں سے ہم ایک پورا لہلہاتا ہوا چمن تیار کر لیتے ہیں یا چند گٹھلیوں کو بو کر ایک پورا سر سبز و شاداب باغ اگا لیتے ہیں اسی طرح کشتِ فطرت کے چند دانوں کو بارانِ رحمت کی پرورش، باغبانِ فطرت کی رکھوالی اور انبیاء و رسل کی سعی وکاوش نے ایک چمن بنا دیا اور اس کا نام شریعت ہوا۔

    لیکن فطرت کے اس عام دستور کے مطابق، جو اس کے تمام کاروبار کی خصوصیت ہے یہ کام بتدریج عمل میں آیا، ایک ہی مرتبہ میں انجام نہیں پا گیا۔ پہلے کچھ انبیاء آئے جنہوں نے فطرت کی زمین کو ہموار کیا۔ پھر دوسرے آئے جنہوں نے اس زمین پر ایک داغ بیل ڈالی، پھر اور لوگ آئے جنہوں نے اس داغ بیل پر بنیادیں استوار کیں، پھر اور آئے جنہوں نے ان بنیادوں پر دیواریں بلند کیں، پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کو بھیجا جنہوں نے اس عمارت کو مسقف کیا یہاں تک کہ عمارت تیار ہو گئی لیکن کونے میں ایک آخری اینٹ کی جگہ خالی رہ گئی اور وقت آ گیا کہ وہ بھی اپنی جگہ پر رکھ دی جائے۔ چنانچہ وہ بھی اپنی جگہ پر رکھ دی گئی اور اعلان کردیا گیا کہ ترجمہ ’’اب میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند فرمایا۔‘‘ (المائدہ:3-5)

    اس عمارت کا نام اسلام ہوا اور اس کا جامع اور مکمل نقشہ ہمارے ہاتھوں میں قرآن مجید ہے۔ یہ قرآن مجید جب اوّل اوّل دنیا کے سامنے آیا تو مندرجہ ذیل 3 جماعتوں کو اس نے براہ راست مخاطب کیا۔

    1۔ عرب… جن میں بیشتر مشرک تھے لیکن کچھ ایسے بھی تھے جو دینِ ابراہیمی ؑ کی فطری سادگی پر قائم تھے۔

    2۔ یہود…جو اپنی مسلسل شرارتوں اور سرکشیوں کی وجہ سے بالکل مسخ ہو چکے تھے صرف ایک چھوٹی سی جماعت ان کے اندر حق پر باقی رہ گئی تھی۔

    3۔ نصاریٰ… ان کو بھی ان کے اگلوں کی کج رویوں نے گمراہ کردیا تھا۔ صرف تھوڑے سے لوگ رہ گئے تھے جو صحیح دینِ مسیحؑ پر قائم تھے۔

    ان تینوں جماعتوں میں سے قرآن مجید نے سب سے پہلے عربوں کو مخاطب کیا۔ عربوں کی عام اخلاقی زندگی بعض فطری فضائل و محاسن سے خالی نہ تھی، لیکن یہ اپنے پیچھے شرک و بت پرستی کی ایک طویل تاریخ رکھتے تھے جس میں ان کی طبیعت اور دماغ کا سانچہ اس قدر بدل چکا تھا کہ قرآن مجید کی تعلیمات، جو سرتا سر فطری سادگی کے حسن و جمال سے آراستہ تھیں، ان میں بڑی مشکل سے سما سکتی تھیں۔ چنانچہ ان کا بڑا طبقہ عرصہ تک قرآن کی تعلیمات سے نہ صرف بیگانہ رہا، بلکہ اس کے مٹانے کے لئے پوری طرح زور لگاتا رہا۔ البتہ ان لوگوں کو قرآن مجید کے قبول کر لینے میں کوئی زحمت نہیں پیش آئی۔ جو دینِ ابراہیمی ؑ کی فطری سادگی پر قائم اور شرک و بت پرستی سے پہلے ہی سے بیزار تھے انہوں نے قرآن مجید کی دعوت سنی تو ان کو ایسا محسوس ہوا کہ گویا اپنے ہی دل کی آواز سن رہے ہیں۔ پس وہ اس کی طرف لپکے اور اس کو قبول کرلیا۔ ان کو نہ تو معجزات کی ضرورت پیش آئی اور نہ اس بات کی کہ قرآن ان کے سامنے بار بار پیش کیاجائے۔ یہ پیاسے تھے، اس وجہ سے جونہی ان کے سامنے پانی پیش کیا گیا وہ اس کی طرف دوڑ پڑے۔ ان کی آنکھیں طلبِ ہدایت کیلئے کھلی ہوئی تھیں اور جن کی آنکھیں کھلی ہوں ان کو روشنی سے زیادہ عزیز کوئی شے نہیں ہوا کرتی۔ پس جس طرح آئینہ روشنی میں چمک جاتا ہے، یہ بھی روشنی پا کر چمک اٹھے۔ قرآن مجید نے سورئہ نور میں اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا ہے کہ فطرت اور وحی دونوں ایک ہی جنس کی چیزیں ہیں۔ یہ دونوں بندے کو ایک ہی سرچشمہ سے ملتی ہیں۔ صحیح فطرت کی مثال صاف و شفاف روغن کی ہے جو ہر طرح کی آمیزش اور ملاوٹ سے بالکل پاک ہے۔ اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ بغیر اس کے کہ اس کو آگ چھوئے، بھڑک اٹھنے کیلئے تیار رہتا ہے۔ پس جونہی وحی والہام کی چنگاری اس سے مس ہوتی ہے فوراً بھڑک اٹھتا ہے: ترجمہ ’’اس کا روغن اتنا شفاف ہو کہ گویا آگ کے چھوئے بغیر ہی بھڑک اٹھے گا۔ روشنی کے اوپر روشنی! اللہ اپنے نور کی ہدایت جس کو چاہتا ہے بخشتا ہے۔‘‘ (النور24-35)

    اوپر ہم نے جس آیت کا حوالہ دیا ہے اس میں محسنین اور متقین سے ایسے ہی لوگ مراد ہیں۔ احسان کے معنی ایک تو وہی ہیں جو عام طور پر سمجھے جاتے ہیں، دوسرا ایک اور مفہوم اس کا یہ ہے کہ اپنے قول و فعل کو پورے اخلاص و صداقت، پوری ہمت و عزیمت اور نہایت خوبی و کمال کے ساتھ انجام دینا۔ اہل لغت نے لفظ کی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ احادیث میں بھی احسان کی یہ حقیقت بیان ہوئی ہے اور قرآن مجید نے اسی مفہوم کے اعتبار سے اہلِ مکہ یا اہلِ کتاب کی ان جماعتوں کیلئے اس کو استعمال فرمایا ہے جنہوں نے فطرت اور وحی کی روشنی سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور بادِ مخالف کے جھونکوں سے اس کو گُل ہونے نہیں دیا۔ ایسے لوگوں کی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جگہ جگہ تعریف فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے، اللہ ان کے عمل کو ضائع نہیں کیا کرتا، قرآن مجید ان کیلئے ہدایت و رحمت ہے، یہ اس کو سمجھتے ہیں اور اس کی تعلیمات سے فیض یاب ہوتے ہیں۔

    باقی رہی دوسری جماعت جس نے اپنی فطری صلاحیتیں بالکل برباد کر ڈالی تھیں تو اس کیلئے قرآن مجید کی تعلیمات بالکل انوکھی تھیں، وہ کسی طرح بھی ان کو سمجھ نہیں سکتی تھی۔ یہ تعلیمات جن فطری اصولوں پر مبنی تھیں وہ تمام اصول ان کے اندر سے مٹ چکے تھے اور ان کی جگہ بالکل غیر فطری معتقدات و اوہام نے لے لی تھی۔ ان کی فطرت کا قالب اس درجہ ٹیڑھا ہو چکا تھا کہ کوئی سیدھی چیز اس میں سما ہی نہیں سکتی تھی۔ چنانچہ جب آنحضرتﷺ نے ان کے سامنے قرآن مجید پیش کیا تو انہوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔ اس کے سننے اور سمجھنے سے انکار کر دیا اور ان کا یہ انکار درحقیقت ان کے بہت سے سابق انکاروں کا لازمی نتیجہ تھا۔ انہوں نے ہدایت کے ابتدائی مراحل میں اس کو قبول کرنے سے اعراض کیا، اس لئے بعد کے مرحلوں میں بھی اس کا ساتھ نہ دے سکے اور ایسا ہونا قدرتی تھا۔ ایک طالب علم درجہ بدرجہ ہی علم کی راہوں میں بڑھتا ہے ایک فن کے انتہائی مسائل نہیں سمجھ سکتا۔ چنانچہ یہی حال ان لوگوں کا ہوا۔ انہوں نے رشد و ہدایت کی ابجد ہی نہیں سیکھی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب ہدایت کا آخری صحیفہ نازل ہوا تو وہ اس کے سمجھنے سے بالکل ہی قاصر رہ گئے۔ قرآن مجید نے سورئہ اعراف میں اس معاملہ کی پوری تشریح کر دی ہے:ترجمہ ’’یہ بستیاں ہیں جن کی سرگزشتوں کا کچھ حصہ ہم تمہیں سنا رہے ہیں۔ ان کے پاس ہمارے رسول کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے تو وہ ایمان لانے والے نہ بنے بوجہ اس کے کہ وہ پہلے سے جھٹلاتے رہے تھے۔ اسی طرح اللہ ٹھپہ لگا دیا کرتا ہے کافروں کے دلوں پر۔‘‘ (الاعراف 7-101)


     

اس صفحے کو مشتہر کریں