1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تقویٰ ۔۔۔۔۔ مولانا امیر محمد اکرام اعوان

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏26 فروری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    تقویٰ ۔۔۔۔۔ مولانا امیر محمد اکرام اعوان

    اتقی یا تقویٰ یا اس طرح کے جتنے الفاظ ہیں،ان کا مفہوم ایک ہی ہے کہ اللہ کریم سے ایسا تعلق قائم ہوجائے کہ بندے کو اس کی اطاعت میں لطف آئے اور نافرمانی کرتے ہوئے ڈر لگے۔ ہمارا آپس میں ایک تعلق ہوتا ہے۔ایک بھائی کہیں دنیا کے دوسرے ملک میں بیٹھا مزدوری کر رہا ہے اور یہاں کسی بات کا فیصلہ کرناہے،کوئی رشتے لینے دینے ہیں،ووٹ دینے میں بھی لحاظ کرتے ہیں کہ اس سے پوچھ لیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی رائے مختلف ہو اور اگر ہم نے اس کی مخالفت کی تو تعلقات بگڑ جائیں گے۔
    اب اگر اللہ سے اس طرح کا رشتہ بن جائے اور جب کوئی کام سامنے آئے تو فوراً دل میں یہ احساس پیدا ہوکہ یہ کام اللہ کی پسند کیخلاف تو نہیں ہے! اگر اللہ کی پسند کیخلاف ہے تو میں نہیں کرونگا۔ اسے تقویٰ کہتے ہیں،ہر وہ کام نیکی ہے جس سے یہ نسبت حاصل ہوتی ہے۔ہر عبادت کا حاصل یہ ہے کہ اللہ سے یہ تعلق بنتا چلا جائے۔فرمایا: اللہ کا یہ حکم نہیں ہے کہ دروازہ باہر سے بند کردو اور پیچھے سے گھر پھاڑ کے آتے جاتے رہو۔بات تو وہ رہی اور دکھا وا ہوگیا۔اس میں تو کوئی حکمت ،کوئی دانائی نہیں ہے۔نیکی اُس کام میں ہے جو اللہ کا حکم ہے، اللہ کے نبی ﷺ کا بتایا ہوا طریقہ ہے اور اس پر عمل کرنے سے تقویٰ بڑھتا ہے اللہ کریم سے تعلق پیدا ہوتا ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ میرا بھی اللہ سے ایک تعلق ہے، میں اُس کیخلاف نہیں کروں گا ۔میں نبی کریم ﷺ کی مرضی کیخلاف نہیں کرونگا۔جب یہ نسبت پیدا ہو جاتی ہے تو کیفیات عجیب ہوتی ہیں۔

    ایک صحابی مسجد نبوی میں حاضر ہوئے تو ان کے اوپر ایک سرخ رنگ کی پھول دارسی چادر تھی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ یہ چادر جچی نہیں،اچھی نہیں لگی‘‘ اور بات آئی گئی ہوگئی۔کچھ دنوں کے بعد آپ ﷺ کو خیال گزرا تو آپ ﷺ نے فرمایا ’’میں نے وہ چادر آپ کے پاس نہیں دیکھی ۔ ‘‘ تو صحابی نے جواب دیا،یارسول اللہ ﷺ !میں نے تندور میں جھونک دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ تم نے ایسا کیوں کیا، میں نے تو اس لیے کہا تھا کہ اس رنگ کا کوئی مردانہ نہیں تھا،تم گھر میں کسی خاتون کو دیدیتے۔‘‘ انہوں نے عرض کی، یا رسول اللہ ﷺ ! جس چیز کو ایک دفعہ آپﷺ ناپسند فرمادیں اور ہمارے بس میں ہو تو وہ چیز دنیا میں باقی بھی رہے،یہ ممکن نہیں۔ بظاہریہ ایک چادر کا واقعہ ہے معمولی سی بات ہے لیکن اس کے پیچھے کیفیات کتنی ہیںاور اس کے پیچھے خلوص ِ نیت کس قدر ہے!اسے کہتے ہیں تقویٰ کہ محبوب کریم ﷺ نے ناپسند فرمائی تو یہ دنیا میں ہی کیوں رہے!بظاہر واقعہ چھوٹا ہے لیکن اس کے پیچھے جذبات کا ایک سمندر موجزن ہے جس نے مجبور کردیا کہ چادر کو تندور میں جھونک دو۔نیکی وہ عمل ہے جو اللہ اور اللہ کے حبیب ﷺ کا قرب عطا کردے۔

    واتوا لبیوت من ابوابھا اور حج میں گھر جانا کوئی منع بھی نہیں ہے۔تم مقامی لوگ ہو،تم طواف کرتے ہو،فارغ وقت میں گھر جائو اور دروازے سے جائو۔اصل بات یہ ہے ا للہ سے تعلق قائم کر لو۔گھر ہو،بیت اللہ ہو،بازار ہو،صحرا ہو یا جنگل ہو ، تم کہیں بھی اکیلے ہو، تمہارا اللہ تمہارے ساتھ ہو۔ کرنے کا کام یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت اس طرح سے کرو،اللہ کا ذکر اتنا کرو کہ اس کی یاد روئیں روئیں میں رچ بس جائے اور کسی بھی لمحے وہ تم سے جدا نہ ہو۔اللہ تو ہر وقت ہر جگہ موجود ہے ،ہماری شہ رگ سے قریب تر ہے،ہمارے اپنے ہوش و حواس سے بھی زیادہ قریب ہے۔اس میں فاصلہ اوردوری کیاہے؟ ہمارا اپنا وجود ،ہماری ذاتی رائے جو ہم رکھتے ہیں۔دن بھر میںنے یہ کیا، میں نے وہ کیا،میں نے یہ کردیا۔یہ ’’میں‘‘ اگر یہاں سے نکال دو تو فاصلے مٹ جاتے ہیں۔بات صرف یہ ہے کہ اپنے اوراپنے اللہ کے درمیان ہم خود حائل ہیں۔ ہمیں جمال الٰہی نظر نہیں آتا، کیوں؟ ہمیں اللہ سے بات کرنے میں لذت کیوں نہیں آتی ؟ وہ سامنے کیوں نہیںآتا؟ وہ تو سامنے ہے ، دیوار ہم بنے ہوئے ہیں۔ فرمایا :لعلکم تفلحون ۔ اس دیوار کو گرائو،تقویٰ اختیار کرو کہ تم کامیاب ہو جائو۔ انسان کی تخلیق تو اس لیے ہوئی ہے کہ وہ اللہ کا قرب تلاش کرے، اللہ کو پہچانے اور اپنے دل سے مجبور ہو کر سجدہ کرے، بوجھ نہ سمجھے۔بھاگتے دوڑتے آئے، پانی کے چھینٹے مارے، اُٹھے بیٹھے اور بھاگ جائے۔یہ سجدہ نہیں !اللہ کو اس طرح پہچانتا ہو کہ اب اس کا جی چاہے کہ اس کے سامنے سجدہ ریز ہو۔حضور اکرمؐ نے سجدے کے 2 درجے بیان فرمائے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ان تعبداللہ کانک تراہ عبادت کا مزہ تو جب ہے کہ تو سجدے میں جائے تو تیرا دل اللہ کو دیکھ رہا ہو۔ تو ایسے سجدے کرے جیسے اللہ کے رو برو کررہا ہے۔ یہ اصل ہے لیکن اگر اتنی ہمت نہ ہو فان لم تکن تراہ اگر تجھ میں اتنی جرأت نہیں ہے کہ تواللہ کو دیکھ سکے فانہ یراک تو پھر یقین کامل ہو کہ وہ تو دیکھ رہا ہے اگرچہ میں نہیں دیکھ سکتا۔اگر یہ نہیں تو پھرایک ایکسر سائز ہے ، ورزش ہے ، آپ صرف اُٹھ بیٹھ رہے ہیں۔

    ان تعبداللہ کانک تراہ۔اللہ کی اطاعت ایسے کر جیسے تو اسے سامنے دیکھ رہا ہے۔وہ تیرے روبرو ہے،تجھے وہی کرنا ہے جو وہ چاہتا ہے۔وہ سامنے جو ہے، کانک تراہ۔جیسے تو اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا ہے۔ دنیا میں آنکھ اسے دیکھ نہیں سکتی لیکن دیکھتی بھی ہے۔انسان کے پاس صرف یہ آنکھ نہیں جو پیشانی میں ہے۔ یہ تو کافر کے پاس بھی ہے اور اللہ کریم فرماتے ہیں ینظرون الیک اے میرے حبیب ﷺ ، آپ ؐ کی طرف نظریں تو گھماتے ہیں وھم لا یبصرون لیکن تجھے دیکھ نہیں پاتے۔ انہیں قریش کا ایک نوجوان نظر آتا ہے ، محمد بن عبداللہ ﷺ نظر آتا ہے ، محمد رسول اللہﷺ کو دیکھا جائے۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ اس طرح سے اللہ کی عبادت کر جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے،اس کا مطلب ہے کہ دل میں بھی آنکھ ہے، کان بھی ہیں ،زبان بھی ہے،اور دل کی آنکھ دیکھ سکتی ہے۔جو کام بندے کیلئے ناممکن ہوتا ہے، وہ کام بندے پر فرض نہیں ہوسکتاجیسے مشین کا سبب اختیار کئے بغیر ہم اُڑ نہیں سکتے۔کسی بندے سے کہیں کہ آپ بیٹھ کر سوچیں کہ میں اُڑرہا ہوں تو نہیں اُڑ سکتا۔ ایک چڑیا، ایک مکھی اُڑتی پھرتی ہے۔ ہم کبھی بیٹھ کر سوچیں کہ میں اُڑ کر اس دیوار پہ بیٹھ جائوں جیسے مکھی بیٹھ جاتی ہے۔ ہم نہیں سوچ سکتے چونکہ ہم کر نہیں سکتے۔جو کام ناممکن ہوتا ہے، انسان کے اختیار میں نہ ہو تو اس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا۔ تصور بھی انہی کاموں کا کرتا ہے جو وہ کر سکتا ہے۔تو جو کام بندے کیلئے کرنا ممکن نہیں ہوتا اس کے بارے اسے کہنا کہ اس طرح سوچ لو اور پھر حضور اکرم ﷺ فرمائیں! آپ ﷺ نے جو فرمایا، حق فرمایا۔بندہ اللہ کو دیکھ سکتا ہے۔اگر دل کی آنکھ بھی جمال باری نہ دیکھ سکتی تو حضور ﷺ یہ ارشاد ہی نہ فرماتے کہ ان تعبداللہ کانک تراہ۔

    اس آنکھ سے سہی، اس سے دیکھے جس سے دیکھ سکتا ہے۔ اسے دیکھے، جمالِ باری کو دیکھے تو سجدے کا مزہ آجائے۔جمال ِ باری کو دیکھے تو شریعت پر عمل کرنے کا مزہ آجائے،لطف آجائے۔ پھر اگر ہمت ہو تو ہر سو دیکھے، وہ میری رگ و پے میں موجود ہے،میرے باہر موجود ہے، میرے آگے موجود ہے، میرے پیچھے موجود ہے ھوالاول والا خر والظاھر والباطن۔

    تجلی تیری ذات کی سو بسو ہے جدھر دیکھتا ہوں تو ہی تو ہے

    عبادت کرنے کا پھر مزہ آئے گا۔ہیرا پھیریوں سے نہیں کہ دروازہ سامنے سے بند کردو،گھر میں پیچھے سے چلے جائو۔ معمول وہی رہے اور گھر اسی طرح استعمال ہوتا رہے، صرف ایک ظاہری صورت بنالو۔ یہ نیکی نہیں بلکہ نیکی وہ ہے جو تمہیں اللہ سے نسبت عطا کردے، تقویٰ عطا کردے۔ تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم کامیاب ہوجائو۔ تقویٰ کے بغیر کامیابی ممکن نہیں بلکہ کامیابی کیلئے تقویٰ ضروری ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں